05/03/2025
دورہ معانی القران 2025
*پارہ 2*
اہم نکات
*رکو ع1* (142-147)
اللہ کے احکامات پر اعتراضات کرنا بے وقوفی ہے ہماری عقل ناقص ہے اللہ کا علم تو کامل ہے اگر کبھی سمجھ نہ ائے تو کسی اہل علم سے رابطہ کریں مگر اعتراضات مت کریں ۔
امت مسلمہ فضیلت والی امت ہے اس لیے کہ انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا کہا گیا ہے
قران پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں ۔۔تبدیلی بھاری ہوتی ہے مگر اللہ والوں کے لیے بھاری نہیں ہوتی
اپنے رب کی مانیں لوگوں کی اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی مت کریں حق کو پہچان کر نہ ماننا بہت بڑا جرم ہے
*رکو ع2*(148-152)
نیکیوں میں دوڑ لگا دینی چاہیے ہر ایک کا اپنا goal ہے ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے زیادہ سے زیادہ کام کرنے چاہیے دنیاوی کام ہی کیوں نہ ہوں اللہ کے احکامات کے مطابق کریں تو وہ بھی نیکی شمار ہوں گے ایسے لوگ اخرت میں بھی السابقون ہوں گے دنیا میں کچھ بھی کریں ہمارا قبلہ اللہ کے دین کی طرف درست ہو ،اللہ کی طرف ہو
ہمیں لیڈر بننا ہے فالور نہیں تاکہ ہمیں دیکھ کر دوسرے بھی نیک کام کریں اور ہمیں بھی اجر ملے
چار چیزیں اپنانی بہت ضروری ہیں تلاوت، کتاب و حکمت کی تعلیم و تزکیہ نفس
*اللہ کی اطاعت کے ذریعے ہر وقت اللہ کو یاد رکھیں اللہ ہمیں اپنی مغفرت سے یاد کرے گا*
*رکوع 3 (153-163)
صبر ایک عبادت ہے اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بے صبر پن سے اپ کو کچھ بھی نہیں ملتا سوائے اپنے آپ کو اذیت دینے کے ہر شخص کے مختلف امتحان ہوتے ہیں ان سب پر صبر کریں گے تو اللہ کی رحمت اور نوازش ملے گی دنیا میں بھی آسانی ہو جائے گی اور آخرت میں بھی ایسے لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے ساتھ ہی صبر کرنے والی ایک عورت حضرت ہاجرہ کی عظیم قربانی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ہم بھی ان کی طرح صبر کرنا سیکھ سکیں
*رکوع 4*(164-167)
ہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کر کے غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے تاکہ اللہ کی پہچان ہو اللہ کی اطاعت کرنا آسان ہو جائے اللہ سے محبت ہر محبت پر حاوی ہونی چاہیے ہمارا ہر عمل ایسا ہو کہ اللہ کی محبت جھلک رہی ہو ایسے کام کیے جائیں جس سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے
*روز قیامت کی حسرت سے بچنے کے لیے آج بھی وقت ہے برے اعمال کو چھوڑ دیں اور اچھے اعمال کریں*
*رکوع 5*(168-176)
اللہ تعالی نے ہمیں حلال اور طیب کھانا کھانے کا کہا ہے ۔
حلال سے مراد کھانے میں حلال ہو اور کمائی کا ذریعہ بھی حلال ہو ۔ طیب کا مطلب ہے کہ وہ چیز اپنی ذات میں بھی پاک ہو -حلال کمائی اعمال کی قبولیت کی بنیاد ہے۔
جو حرام کھاتا ہے ،حرام پہنتا ہے، اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔نہ ہی اس کے اعمال قبول ہوتے ہیں نہ رحمت نہ برکت نہ تقوی نہ ہدایت پا سکتے ہیں اس لیے اپنا لقمہ حلال کا بنا لیں ۔کسی کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی کر کے کمائی نہ کریں دوسروں کے پیسے ہڑپ نہ کریں، ایسا نہ ہو کہ شیطان کی پیروی ہو جائے، شیطان تو برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔
قرآن اور سنت کے معاملے میں کسی بھی انسان کا قول اہمیت کے قابل نہیں ہوتا ہے چاہے وہ اپنے باپ دادا ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہ قرآن و سنت کے خلاف ہیں تو وہ حکم نہیں ماننا چاہیے۔
شکر نعمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اور شکر یہ ہے کہ حلال کھاؤ اور آگے تقسیم بھی کرو۔ دل سے شکر،زبان سے شکر اور عمل سے بھی شکر ہو تو شکر عبادت بن جاتا ہے۔
*علم کا سیکھنا اور سکھانا اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے۔ اگر اس کا حق ادا نہ کیا جائے تو اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح حق بات دوسروں تک پہنچانی ہے چھپانی نہیں ہے*
*رکوع 6*(177-182
یہ آیت بر کہلاتی ہے۔نیکی میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر ہے ہمیں دیکھنا ہے ہمارا دل کیسا ہے۔ اخلاص ہے یا نہیں ایمان ہے یا نہیں۔ اگر اللہ پر ایمان ہے تو سب سے پہلے اپنے اہم ترین پسندیدہ مال کو اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں میں بانٹنا چاہیے اپنے ہوں یا غیر۔۔۔۔۔بس بانٹتے چلے جائیں
صابرین کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ جو مشکلات، تکالیف، تنگدستی پر صبر کرتے ہیں ۔وہی سچے اور متقین ہیں اور تقوی کامیابی کی علامت ہے۔
یہاں قصاص کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں فساد نہ پھیلے
*لوگوں کے درمیان اصلاح کروانا صلح کروانا بہت بڑی نیکی ہے۔ جیسے مالی معاملات کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہو یا میاں بیوی میں جھگڑا ہو تو ان کی اصلاح کی کوشش کرنا*
*رکو ع7*(183-188)
روزہ ہماری تربیت کرتا ہے۔ اس سے تقوی حاصل ہوتا ہے اگر یہ حاصل ہو گیا تو دنیا اور آخرت دونوں کی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ اس کی جزا بہت بڑی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے
*روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا*۔ یعنی اس کا اجر بے حساب ہے اس لیے اس کو شمار کر کے بتایا ہی نہیں گیا ،روزے دار کوایک خوشی روزہ کھولتے ہوئے ہوتی ہے اور دوسری اللہ سے ملاقات کے وقت بھی خوشی ہوگی ۔اس لیے روزہ افطار کرتے وقت اللہ سے ملاقات کا شوق رکھیں اور اللہ سے بہترین ملاقات کی دعا بھی کرنی ہے۔اس لیے افطاری کے وقت اللہ سے ملاقات کی دعا ضرور مانگنی ہے
جیسے حلال اور پاکیزہ چیزوں سے سحری کر کے روزہ رکھنا ہے اسی طرح گناہ اور خبیث کاموں سے ہمیشہ کے لیے روزہ رکھنا ہے۔ *تمام برے کام چھوڑنے ہیں اس مہینے کا یہی ٹارگٹ سیٹ کریں*
اللہ ہمیں کچھ سکھانا چاہتا ہے چند گھنٹوں کی بھوک کے عوض ہمیں بے حساب اجر اللہ کی طرف سے ملے گا تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ اللہ کی خاطر جب ہم حلال چیزوں کو کچھ وقت کے لیے چھوڑ سکتے ہیں تو پھر حرام چیزوں کو ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں چھوڑ سکتے۔
قران اللہ کی طرف سے بندے پر انعام ہے اور روزہ اس نعمت کی شکر گزاری کا نام ہے ۔روزہ شہوت کو توڑنے کا ذریعہ ہے اور قران شبہات دور کرنے کا ذریعہ ہے۔
رمضان دعا کا بھی مہینہ ہے خوب خوب دعائیں کرنی چاہیے۔ اللہ ہمارے بہت قریب ہے ۔روزے میں دل نرم ہو جاتا ہے ۔اور انسان میں عاجزی آتی ہے اور عاجزی سے اللہ سے دعا کریں ۔ تو ضرور قبول ہوگی
میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے زینت، سکون اور راحت کا باعث ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے عیوب ڈھانپنے والے ہوتے ہیں۔ روزے کی حالت میں میاں بیوی کی مباشرت ممنوع ہے ( مگر رات میں جائز ہے ) اللہ آسانی کرنے والا ہے وہ ہم پر بوجھ نہیں ڈالتا جو ہم اٹھا نہ سکیں ۔
*رکو ع8*(189-196)
پرانے غلط رسم و رواج کی پیروی کرنا نیکی نہیں ہے ۔ *اصل نیکی تو تقوی حاصل کرنا ہے*
ہمارے دین میں جنگ میں بھی اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہاں یہ کہ ہم عام حالات میں لوگوں سے بد سلوکی کریں۔ اگر کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو برابر کا بدلہ لینے کی اجازت ہے زیادتی نہ کی جائے۔ مگر اگر کوئی معاف کر دے تو بہتر ہے۔ تقوی والوں کو اللہ کا ساتھ مل جاتا ہے۔ اللہ ان کا ولی بن جاتا ہے ۔اس لیے اپنے اور اپنے بچوں کے اندر تقوی پیدا کریں کسی بے بس محتاج انسان کے ساتھ احسان کا معاملہ ضرور کریں۔ صرف اللہ کی خاطر ایسے لوگوں کو دنیا میں معاوضہ تو نہیں ملتا مگر اللہ کی محبت ملتی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ۔
حج اور عمرے کے تمام ارکان ادا کرو مگر تقوی کے ساتھ ۔ہمیں نیک کام کرتے ہوئے بھی اللہ سے ڈرنا چاہیے
*رکو ع9*(197-210)
حج کے لیے زاد راہ ساتھ رکھیں ۔مادی اسباب ساتھ بھی لے کر جائیں اور پیچھے رہنے والوں کے لیے بھی چھوڑ کر جائیں ۔۔ جن جن مادی ضروریات کی ضرورت ہے ان کو مہیا کر کے جانا ہے۔ اور صرف مادی ضروریات ہی نہیں بلکہ تقوی ہونا انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ ہمارا یہ نیک عمل اللہ قبول کر لے اور جہنم کی اگ سے ہمیں پناہ دے دے ۔
*حج پر جانے سے پہلے ساری عبادات، دعائیں مسائل کے بارے میں پڑھ کر جائیں*
مال بھی ساتھ لے جائیں اور اگر زادرا کم ہے تو وہاں جا کر تجارت بھی کر سکتے ہیں تاکہ ہم اللہ کا فضل تلاش کر سکیں
*ہرنیک کام کرنے کے بعد استغفار کی عادت اپنا لیں*
*ہر نیکی کے بعد بہت زیادہ دعائیں بھی مانگیں دنیا اور اخرت کی کیونکہ نیک کام کے بعد دعائیں قبول ہوتی ہیں*
یہاں منافق شخص کی چند خصلتیں بیان کی گئی ہیں ہر منافق شخص دنیا کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے ۔خوبصورت باتیں کرتا ہے۔ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلاتا ہے۔ مگر سخت جھگڑالو ہوتا ہے۔ وعدوں کے بعد فساد کرتا ہے۔ جب اللہ سے ڈرنے کا کہا جائے تو اپنی جھوٹی عزت کی خاطر گناہ پر تلا رہتا ہے ۔
*یہ تکبر کے علامت ہے*
اصل میں ہمارا عمل بتاتا ہے کہ ہم کتنے اچھے ہیں ہماری باتیں نہیں۔
* *آرام طلبی آخرت کا خسارہ ہو سکتی ہے*
* جب آپ کا نفس کسی اچھے کام پر آمادہ نہ ہو تو اس کے خلاف چلیں اور نیکی کر ڈالیں ۔ گناہ ہو جائے تو بعد میں غور و فکر ضرور کریں کہ اخر مجھ سے غلط کام کیوں ہوا یا کوئی نیکی کا کام اپ کیوں نہیں کر پائے تو ضرور غور و فکر کریں تاکہ اپ دوبارہ وہ غلطی نہ کریں
رکوع 10 (211-216)
*ناشکری سے نعمتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ناشکری نافرمانیوں میں تبدیل ہو جاتی اس لیے شکر گزاری کبھی نہ چھوڑیں*.
زیادہ مال پا کر تکبر نہ کریں اور نہ لوگوں کو حقیر جانیں
اگر دین کے راستے پر مشکلات آرہی ہیں تو ان لوگوں کو یاد کریں جن پر آپ سے زیادہ مشکلات آئیں مگر وہ ثابت قدم رہے اس سے آپ کو تسلی ملے گی
صرف اللہ کی خاطر خرچ کرنا ہے دکھاوے کے لیے نہیں
اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جو بھی کرنا پڑے کریں ہو سکتا ہے ہمیں وقتی طور پر بہت بھاری لگے مگر اصل میں وہی اچھا اور صحیح ہوتا ہے ۔
ہر ایک سے اچھا گمان رکھیں ۔
جتنا اجر مشکلات پر صبر کرنے سے جتنا اجر ملتا ہے وہ شاید کسی بڑے سے بڑے نیک کام سے نہ ملے ۔
اللہ سے دعا کریں جب بھی مشکلات پیش آئیں اللہ اس مشکل کو آسانی میں بدل دے۔
*رکوع 11*(217-221)
اسلام کے بغیر تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں دین پر ثابت قدم رہیں ورنہ کہیں ہمارے اعمال خاک بنا کر اڑا نہ دیے جائیں (پر ثابت قدمی کی دعا کر لیں)
خمر نشہ آور چیز کو کہتے ہیں
نشہ آور چیز حرام ہے چاہے وقتی طور پر فائدہ مند ہی لگ رہی ہو اسے اللہ کی خاطر چھوڑ دیں کیونکہ اس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہے۔
اور اسی اصول کو زندگی کے ہر کام میں اپنائیں جس میں نقصان زیادہ ہو اور فائدہ کم اسے چھوڑ دیں ۔
جو ہماری ضرورت سے زائد ہے اسے اللہ کی خاطر خرچ کریں۔
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کریں اور تقوی اختیار کریں۔
کسی بھی مشرک عورت یا مرد سے نکاح نہ کریں کیونکہ اس طرح اپنا گھر بسانے کے لیے لوگ ان کے جیسے ہو جاتے ہیں اور پھر جہنم میں ان کے ساتھ خود بھی گر جاتے ہیں۔
*رکوع 12*(222-228)
حیض کی حالت میں عور توں سے مباشرت نہ کی جائے جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ۔ ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک رہیں۔ اللہ پاک صاف رہنے والے لوگوں سے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
*جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے*
*اللہ نے مردوں اور عورتوں کو مختلف حقوق دیے ہیں جو اسے قبول کرے گا وہی خوشحال رہے گا ۔مردوں اور عورتوں کا توازن کرنا چھوڑ دے اسی میں ہم سب کا بھلا ہے *
*رکوع 13*(229_231)
▪️طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کوئی مرد عورت کو حالت طہر میں ایک طلاق دے پھر جب وہ اس کے بعد ایک حیض سے پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے تو یہ دو طلاقیں ہو جائیں گی اور تین ماہ کے اندر وہ رجوع بھی کر سکتے ہیں. اگر نہیں کرتے ,اور تیسرے طہر کے بعد پھر سے طلاق دے دیتا ہے تو پھر طلاق بائن ہو جاتی ہے. اب وہ رجوع نہیں کر سکتا اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے. الا یہ کہ وہ عورت کسی اور سے شادی کرے اور اگر اسے وہاں سے طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتی ہے .
*مگر یاد رکھیں اللہ کے احکامات، نشانیوں، آیات کا مذاق نہ بنایا جائے اس میں حیلہ سازی نہ کی جائے اللہ کے احکامات کو ہلکا نہ لیں۔ اور نہ ہی اس میں سستی کرے۔ اپنی مرضی سے مطلب نہ نکالیں۔*
*رکوع14 (232-235)
عورت کو اگر ایک طلاق ہو جائے اور عدت کا وقت بھی گزر جائے وہ آپس میں عدت کے دوران رجوع نہ کر سکیں تو مرد اسی عورت سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالی یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ معاشرے اور گھر والوں کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔اسے دوبارہ اسی کی زوجیت میں جانے کی اجازت دینی چاہیے۔
یہ بھی پتہ چلا کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے عورت کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
*مائیں دو سال تک اپنے بچے کو دودھ پلائیں*
* *بیوہ کی مدت چار ماہ دس دن ہے*جوان ہو یا بوڑھی ہو۔ عورت پر کچھ پابندیاں ہیں جنہیں پورا کرنا دین کا حصہ ہے ۔عدت کے دوران کسی عورت کو واضح طور پر نکاح کا پیغام نہیں بھیجا جا سکتا مگر اشارتا کہہ سکتے ہیں ۔چھپ کر شادی کے وعدے نہ کیے جائیں ۔
*اللہ سے ڈریں اپنے نفس کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں۔ لوگوں کو متقی نہ بن کر دکھائیں بلکہ اللہ سے سچے دل سے ڈریں*
*رکوع15*(l236-242)
ہر مرد کےلئے عورت سے شادی کے وقت حق مہر مقرر کرنا لازم ہے۔
*لوگوں کو دے کر خوشی محسوس کریں لے کر نہیں*
اگر مرد کسی عورت کو چھوئے بغیر ہی طلاق دے دو تو پھر مقررہ مہر کا آدھا حصہ ادا کرنا ہوتا ہے مگر ہمیشہ دوسروں کو اس کے حق سے زیادہ دینے کی کوشش کیا کریں ۔
دینے کے معاملے میں بہت حساب کتاب نہ لگایا کریں۔ ہمیشہ زیادہ دیں کم نہ دیں۔احسان کرنے والے بنیں ۔اپنے مال، رزق ،علم اپنی صلاحیتوں کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں۔ وہ پھلے پھولیں گی نہیں۔ دینے والے کو ملتا ہے ان میں اضافہ ہوگا۔
*کسی کی کوئی بات بری لگ جائے یا اختلاف ہو جائے تو اس کی اچھائیوں کو مت بھول جائیں ایک دوسرے کے احسانوں کو یاد رکھیں چاہے کوئی بھی رشتہ ہو ۔۔۔۔۔
دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر نمازوں کو نہ بھولیں۔ سب نمازی ہوں تو گھروں میں برکت نازل ہوتی ہے گھر میں ایک بھی بے نمازی ہو تو اللہ کی رحمت نہیں ملتی کہیں نہ کہیں نحوست رہ جاتی ہے۔ حدیث کے مطابق جس شخص کی ایک عصر کی نماز ہی چھوٹ جائے تو ایسا ہے جیسے اس کا مال، اہل و عیال سب تباہ و برباد ہو گیا۔۔ نماز کسی حال میں نہیں چھوڑنی سفر ہو یا گھر میں ہوں، خوش ہوں یا تکلیف میں ہوں سب چھوٹ جائے ہمیں بس نماز نہیں چھوڑنی
جب بھی کسی رشتے کا اختتام کریں اچھے سے کریں. *یہ متقیوں پر حق ہے*
*چاہے جتنی بھی مخالفت ہو الگ ہونا ہے تو ہو جائیں مگر دوبارہ ملنے کے قابل رہیں بد اخلاق نہ ہو ں کہ دوبارہ آپ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کریں*
*رکوع 16*(243-248)
موت سے کسی کو پناہ نہیں ہر انسان کو موت آنی ہے۔ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو، بیمار ہو، صحت مند ہو ہم اسباب اختیار کر سکتے ہیں مگر موت کو ٹال نہیں سکتے ۔کچھ لوگ اپنے کسی عزیز کی موت کو قبول نہیں کر پاتے اور خود بھی پریشان رہتے ہیں۔ اور اپنے آس پاس والوں کو بھی پریشان کرتے ہیں
*قرض حسنہ صرف خالص اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا ہے*۔جس میں کسی پر کوئی احسان نہ ہو اس لئے خوشی سے دیں
دینے سے کمی نہیں ہوگی اللہ کئی گنا بڑھا دے گا اور اللہ اسے قرض حسنہ فرما رہا ہے سبحان اللہ قرض واپس ملتا ہے تو اللہ انسان کو بہترین طریقے سے واپس دے گا۔
لوگ بڑی خوشی سے پہلے کسی کام میں حصہ لیتے ہیں۔ مگر فورا پیچھے ہٹ جاتے ہیں ثابت قدمی سے اس سے جڑے رہنا چاہیے۔ *واپس لوٹنے والے خسارے میں رہیں گے*
جب کوئی لیڈر ہمارے لیے مختص ہو جائے تو اس کی پیروی کرنا لازم ہے علم کو مالی قوت پر اہمیت حاصل ہے چاہے وہ لیڈر ہمیں مالی طور پر یا نسبی طور پر بہترین نہ لگے مگر اس کے پاس بہترین علم ہو تو پھر اپ علم کو ہی فضیلت دیں اور اس کی بات مانیں۔ اس کے نام پر مت جائیں اس کے مقام پر جائیں اس کی قابلیت پر جائیں ۔۔۔۔
*سکینت اور اطمینان اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے اس سے رب پر توکل بڑھ جاتا ہے اور بندہ اپنے اپ کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے وہ مصائب اور تکالیف میں مطمئن رہتا ہے*
صبر کرتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے، سکینت ہوتی ہے آیات سکینہ پڑھا کریں اپ پر سکینت ہوگی
*آخری آیات*(249-252)
جب اللہ کسی کو لیڈر مقرر کرے تو لوگوں کو چاہیے کہ اس کی بات مانیں۔ چاہے وہ ناگوار لگ رہی ہو۔
جب بھی کوئی اہم کام کرنا ہو تو کھانا پینا کم رکھیں مگر لوگ زیادہ کھاتے پیتے ہیں تاکہ توانائی زیادہ ملے حالانکہ معدے کو اس کھانے کو ہضم کرنے میں بہت توانائی لگانی پڑتی ہے اس لیے سحری اور افطاری میں زیادہ نہ کھایا کریں تاکہ عبادت کرنے میں آسانی رہے
*سارے اسباب اختیار کریں مگر ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں کرتے رہیں۔*
*صبر سے ثابت قدمی ملتی ہے*اور ثابت قدمی سے فتح ملتی ہے جیسے اللہ تعالی نے داؤد علیہ السلام کے ذریعے جالوت کو قتل کروایا اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا
اللہ تعالی ہم سب کو قران پر بہترین عمل کرنے والا بنائیں
سعدیہ ارشد اور حمیرہ حمید