
25/01/2025
آپریشن کلین اپ یا آپریشن کلین اپاہج؟
پنجاب بھر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کلین اپ زور و شور سے جاری ہے۔ شہر کے بازاروں میں بلڈوزر گرجتے ہیں، دکانوں کے شٹر ٹوٹتے ہیں، اور دیواروں سے لگی امیدیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ آپریشن ہے جو ظالموں کے خلاف نہیں، بلکہ ان مظلوموں کے خلاف ہے جنہوں نے فاقہ کشی سے بچنے کے لیے گلی کی نکڑ پر چند فٹ کی جگہ پر روزی کا انتظام کیا تھا۔
انتظامیہ کے بلند و بانگ دعوے ہیں کہ یہ تجاوزات عوامی جگہوں پر قبضہ ہیں، لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ عوام کون ہیں؟ کیا وہ ریڑھی والا جو اپنی بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دن بھر دھوپ میں کھڑا رہتا ہے، عوام نہیں؟ کیا وہ چھوٹا دکاندار جو صبح سے شام تک چند روپے کمانے کے لیے محنت کرتا ہے، ناجائز ہے، یا ناجائز وہ نظام ہے جو غریب کے لیے دو وقت کی روٹی بھی حرام بنا دیتا ہے؟
یہ آپریشن اس معاشرے کا وہ مکروہ چہرہ دکھاتا ہے جہاں غریب کا چھپر تو ناجائز کہلاتا ہے، لیکن امیروں کے فارم ہاؤسز، سرکاری افسران کے محل نما گھر، اور لینڈ مافیا کے اربوں کے پلازے سب جائز ہیں۔ ان پر بلڈوزر کیوں نہیں چلتا؟ کیا انصاف کا یہ ترازو صرف کمزوروں کے لیے بنایا گیا ہے؟ کیا طاقتوروں کی طاقت ہی ان کے گناہوں کی معافی کا سرٹیفکیٹ ہے؟
یہ سوچنے کی بات ہے کہ غریب کے ان چند فٹوں کی زمین کو "ریاستی حق" کے نام پر چھین لینے سے کیا ریاست کی عظمت بڑھتی ہے یا مزید گرتی ہے؟ کیا عوامی جگہوں پر قبضہ ختم کرنے کے نام پر غریبوں کو بے روزگار کرنا اس ملک کے مستقبل کو روشن کرے گا یا اندھیروں میں دھکیل دے گا؟
یہ نظام اسی دن تباہ ہوا تھا جب طاقتوروں کے محل، بینک بیلنس، اور زمینیں سب جائز قرار دی گئیں، اور غریب کے خواب بھی ناجائز۔ اس آپریشن کو کلین اپ نہیں، بلکہ کلین اپاہج کہا جائے، جو ریاست کی بنیادوں سے انسانیت، انصاف اور برابری کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔
فیضی ڈار