Daily Tanawal ڈیلی تناول

Daily Tanawal ڈیلی تناول اس پیج کا مقصد ہزارہ کے پسماندہ ترین علاقوں کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے

🆘 تلاش گمشدگی / Lost Child Alert 🆘نام: امامہ عمر  عمر:11 سال. والدکا نام:عبدالوارثعلاقہ: شاملیٔ، چکدرہ تحصیل ادینزئی ضلع...
06/05/2025

🆘 تلاش گمشدگی / Lost Child Alert 🆘

نام: امامہ عمر
عمر:11 سال.
والدکا نام:عبدالوارث
علاقہ: شاملیٔ، چکدرہ تحصیل ادینزئی ضلع لوئر دیر خیبر پختون خواہ

ہفتہ 3 مئی 2025 کو صبح 7:00 بجے امامہ اسکول کے لیے گھر سے نکلی تھی، لیکن تاحال واپس نہیں آئی۔ گھر والے شدید پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ہیں۔ امامہ کی غیر موجودگی نے اہل خانہ کو بےحد پریشان کر رکھا ہے۔
اگر کسی نے امامہ عمر کو دیکھا ہو یا اس کے بارے میں کوئی معلومات ہوں، تو براہ کرم انسانیت کے ناتے فوری رابطہ کریں
📞0345-6182142
📣 براہ کرم یہ پوسٹ شیئر کریں تاکہ امامہ تک جلد پہنچا جاسکےـ

05/05/2025

سڑک پر بکھرا لہو چیخ چیخ کر انصاف مانگ رہا تھا۔ ایک باپ کی امید، شکیل تنولی، اپنے دوست حسنین کے ساتھ زندگی کی راہوں پر چلا جا رہا تھا، جب اچانک ایک تیز رفتار گاڑی ان کے خواب روندتی ہوئی گزر گئی۔ یہ حادثہ نہیں تھا — یہ ایک طاقتور نظام کا مکروہ چہرہ تھا، جو صرف کمزوروں کو کچلتا ہے۔

اس گاڑی کی ڈرائیور کوئی عام لڑکی نہیں تھی — شنزے ملک، لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی۔
حادثے کے بعد وہ موقع سے فرار ہو گئی۔ گاڑی وہیں چھوڑ دی گئی۔ پولیس نے نہ ایف آئی آر درج کی، نہ گرفتاری کی زحمت کی۔ رفاقت علی، ایک ٹوٹا ہوا باپ، انصاف کی بھیک مانگتا رہا۔

کیا صرف اس لیے کہ وہ ایک عام شہری تھا؟
کیا باپ ہونا جرم ہے، جب بیٹا غریب ہو؟
کیا ہمارے ملک میں طاقتور کی بیٹی کسی کا خون بہا کر بھی "معصوم" کہلاتی ہے؟

عدالت میں دلیل دی گئی: "ثبوت ناکافی ہیں۔"
لیکن سوال یہ ہے، کیا زمین پر پڑی لاش ناکافی تھی؟ کیا ٹوٹا ہوا دل، سسکتی ماں، اور بکھرے خواب ویڈیو فوٹیج سے کمزور ثبوت ہوتے ہیں؟

نہیں صاحب! یہ انصاف نہیں، یہ ظلم ہے — جو ایک سفید پوش وردی میں لپٹا ہوتا ہے۔

شنزے ملک آج آزاد گھوم رہی ہے، اور شکیل قبر میں قید ہے۔
یہ صرف ایک خاندان کی شکست نہیں، یہ ریاست کے منہ پر طمانچہ ہے۔
یہ تحریر ایک سوال ہے، ایک پکار ہے —

27/04/2025

بارڈر سے اک فوجی جوان کا پیغام پاکستانیوں کیلئے اور انڈیا کو کرارا جواب پاک فوج ہما وقت تیار ہے دشمن کو دبوچنے کیلئے
#

شروع کرنے سے پہلے انجام کا سوچنا چاہیے
20/04/2025

شروع کرنے سے پہلے انجام کا سوچنا چاہیے

تھریشر فی گھنٹہ 5000 روپے ۔ڈیزل فی لیٹر 260روپے۔ تھریشر ایک گھنٹے میں, 5لیٹر ڈیزل خرچ کرتاہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں 1300روپ...
19/04/2025

تھریشر فی گھنٹہ 5000 روپے ۔
ڈیزل فی لیٹر 260روپے۔ تھریشر ایک گھنٹے میں, 5لیٹر ڈیزل خرچ کرتاہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں 1300روپے ڈیزل کا خرچہ۔ باقی تھریشر کے مالک کو 3700 روپے اگر یہ زیادتی نہیں تو کیا۔

17/04/2025

روشنی کی قیمت – تربیلا ڈیم اور دربند کی قربانی

1976 کا سال پاکستان کی ترقی کا ایک نیا موڑ تھا۔ دریائے سندھ پر بننے والا تربیلا ڈیم دنیا کے سب سے بڑے مٹی سے بننے والے ڈیموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مقصد تھا بجلی، آبپاشی اور صنعتی ترقی، لیکن اس ترقی کے پیچھے ہزاروں آنکھوں کے خواب، دلوں کے ارمان، اور نسلوں کی قبریں دفن ہو گئیں۔
تاریخِ تربیلا ڈیم
تربیلا ڈیم کی تعمیر 1968 میں شروع ہوئی اور 1976 میں مکمل ہوئی۔ یہ ہری پور، صوابی اور ہزارہ ڈویژن کے قریب واقع ہے۔ مگر اس عظیم منصوبے کے لیے قربانیاں ان علاقوں کے عام لوگوں نے دیں جن کے گھر، کھیت، قبرستان، حتیٰ کہ آبائی زمینیں پانی کی نذر ہو گئیں۔
84 بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں...
جی ہاں، 84 دیہات مکمل طور پر ڈیم کے پانی میں ڈوب گئے۔ ان میں وہ بستیاں شامل تھیں جہاں نسلوں سے لوگ آباد تھے۔ جہاں بزرگوں کی قبریں تھیں، مسجدیں، درخت، مویشی خانے، سب کچھ ختم ہو گیا۔
انسان صرف بے گھر نہیں ہوا، وہ اپنی پہچان، اپنی مٹی اور اپنی تاریخ سے بھی محروم ہو گیا۔
دربند – قربانی کی بے آواز صدا
دربند، ضلع مانسہرہ کا ایک پرانا، تاریخ سے جڑا ہوا علاقہ۔ اس بستی نے بھی ڈیم کی تعمیر کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔
دربند کا قدیمی قبرستان تک ڈیم کے پانی میں ڈوب گیا۔ وہ مٹی جہاں نسلوں کے نشان تھے، وہ قبریں جن پر دعائیں کی جاتیں، سب پانی میں دفن ہو گئیں۔
لوگوں نے اپنے گھر، کھیت، باپ دادا کی زمینیں، اور بچپن کی یادیں کھو دیں۔ اور بدلے میں ملا صرف وعدے...
نہ مکمل معاوضہ، نہ نئی زمین، نہ نئی زندگی۔
کیا ملا دربند کو؟
نہ بجلی کی سہولت، نہ ترقی کا کوئی حصہ۔ آج بھی دربند میں اندھیرے ہیں، لوڈشیڈنگ ہے، پانی کی کمی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں ڈیم بنا، وہاں کے لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
تاریخ کا ستم
جنہوں نے ملک کی خاطر سب کچھ قربان کیا، ان کا نام کسی کتاب میں نہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی یادگار، نہ کوئی دن مختص کیا گیا۔
یہ لوگ آج بھی صرف انصاف اور پہچان کے طلبگار ہیں۔
سوچنے کی بات...
کیا صرف شہر والوں کو ترقی کا حق ہے؟
کیا دربند کے لوگ پاکستانی نہیں تھے؟
کیا 84 گاؤں صرف زمین کا ٹکڑا تھے؟ یا ان میں بھی زندگیاں، خواب، دعائیں، اور قربانیاں تھیں؟
سلام ان لوگوں کو...
جو چپ چاپ ڈوب گئے، مگر قوم کے لیے روشنی کا راستہ بنا گئے

15/04/2025

آپنے کاروبار اور نوکری کا تعارف کروائیں ہوسکتا ہے اک دوسرے کے کام آسکیں

14/04/2025

چن بابو…
ایک نہایت شریف النفس، سادہ دل، دنیا کی نفرتوں سے دور رہنے والا انسان…
جو دن رات صرف اپنے بچوں کے لیے رزقِ حلال کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔

پھر اچانک، 8 جولائی 2024 کو
ایک خبر آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گئی…
کہ چن بابو کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔

جن لوگوں نے چن بابو کے ساتھ وقت گزارا تھا،
جنہوں نے اس کی آنکھوں میں خلوص اور دل میں پاکیزگی دیکھی تھی…
ان کے لیے اس خبر پر یقین کرنا بھی محال تھا،
مگر… یہ کڑوا سچ تھا۔

پولیس نے اس کے معصوم بچوں کو تسلی دی،
کہ "آپ کو انصاف ضرور ملے گا" —
مگر اصل دکھ تب ہوا،
جب ایک طویل خاموشی کے بعد
چن بابو کے بچے خود سوشل میڈیا پر پکارنے لگے:
"انصاف… انصاف… انصاف!"

آج ان کی آواز ایک سوال ہے،
ایک فریاد ہے اُن اداروں سے جو انصاف کے دعویدار ہیں:
خدارا، ان بچوں کی امید نہ توڑیں…
یہ معصوم چہرے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں،
ان کے دل میں بس ایک اُمید باقی ہے —
اور وہ آپ ہیں۔

14/04/2025

بائی بریال کرکٹ اسٹیڈیم – نوجوانوں کا خواب، حقیقت کا روپ

بائی بریال کا کرکٹ اسٹیڈیم کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسٹیڈیم نہ صرف خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، بلکہ یہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ جب نیت صاف ہو اور ارادے مضبوط ہوں تو کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔

اس اسٹیڈیم کی بنیاد کسی سرکاری مدد سے نہیں، بلکہ بائی بریال کے جذبے سے بھرپور نوجوانوں نے خود رکھی۔ ان نوجوانوں نے مل کر ایک کمیٹی بنائی، اور اپنی حیثیت کے مطابق چندہ جمع کیا۔ یہ رقم تقریباً دس لاکھ روپے تک جا پہنچی۔ اس سے بڑھ کر، بائی بریال کے ایک مخلص ساتھی نے اسٹیڈیم کے لیے جگہ بھی وقف کر دی۔

یوں اسٹیڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ یقیناً اس راہ میں کئی مشکلات آئیں، مگر نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے علاقے کے ناظم عبد الزمان سے رابطہ کیا، جنہوں نے نوجوانوں کا پیغام حاجی ابرار صاحب تک پہنچایا۔ حاجی صاحب نے تعاون کی بھرپور یقین دہانی کروائی اور یوں یہ خواب حقیقت بن گیا۔

آج اس اسٹیڈیم میں پاکستان بھر سے ٹیپ بال کے کھلاڑی آتے ہیں۔ ایک شاندار ایونٹ کا انعقاد ہوا، اور بائی بریال جیسے چھوٹے سے گاؤں نے بڑے دل سے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ علاقے کے لوگوں اور کھلاڑیوں نے بھرپور تعاون کیا اور یوں یہ ٹورنامنٹ ایک کامیاب ترین ایونٹ بن گیا۔

اس اسٹیڈیم نے نہ صرف کھیل کو فروغ دیا بلکہ علاقے کے لیے ترقی اور پہچان کا نیا دروازہ بھی کھول دیا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ اسٹیڈیم سیاحت کو فروغ دے گا اور بائی بریال کو نئی شناخت عطا کرے گا۔

یہ صرف ایک آغاز ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی یہاں ایسے ایونٹس ہوتے رہیں گے، جو نہ صرف کھیل کو بلکہ ہمارے نوجوانوں کے جذبے کو جلا بخشتے رہیں گے۔

سلام ہے بائی بریال کے اُن تمام نوجوانوں کو، جنہوں نے اس خواب کو حقیقت میں بدلا۔

14/04/2025

مولانا طاہر تنولی: علم، قربانی اور کامیابی کی روشن مثال

یہ ہیں جناب مولانا طاہر تنولی صاحب، جن کا تعلق ہزارہ کے پسماندہ علاقے بینس بیڑیا سے ہے۔ دینِ مبین کے لیے آپ کی خدمات اور قربانیاں بے مثال ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں کبھی دینی درسگاہوں کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا، مگر مولانا صاحب نے اپنے علم کو بانٹنے کا فیصلہ کیا۔

مولانا صاحب نے اس علاقے میں دینی تعلیم کا چراغ جلایا، اور آج الحمدللہ، دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے جب اُن کے مدرسے کے سامنے سے گزر ہوتا ہے۔ کوئی طالب علم قاعدہ پڑھ رہا ہوتا ہے، کوئی پارہ، تو کوئی ناظرہ، اور کچھ بچے حفظ کی کلاسوں میں مصروفِ تعلیم نظر آتے ہیں۔ یہ مناظر نہ صرف علم کی روشنی کی علامت ہیں بلکہ مولانا صاحب کی انتھک محنت کا ثبوت بھی ہیں۔

مولانا طاہر تنولی نہ صرف ایک کامیاب مدرس ہیں بلکہ ایک بہترین قلمکار بھی ہیں۔ ان کی علمی، ادبی اور دینی خدمات نے آج اُنہیں ایک اور بڑے اعزاز سے نوازا ہے۔ اپنی مسلسل محنت اور لگن کے نتیجے میں مولانا صاحب نے 2025 کا گولڈ میڈل اور "عربی تاج" اپنے نام کیا ہے۔

یہ کامیابی صرف مولانا صاحب کی نہیں، بلکہ پورے علاقے کی عزت اور فخر کا باعث بنی ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ثابت کرتا ہے کہ سچی نیت، اخلاص، اور علم کا جذبہ ہو تو کوئی رکاوٹ راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔

اللہ رب العزت مولانا صاحب کے علم، عمل اور قلم میں مزید برکت عطا فرمائے
@محمد طاہر ابو ریحان

اوگی: مبینہ اغواء اور زیادتی کا سنسنی خیز کیس، سینکڑوں نازیبا ویڈیوز برآمداوگی میں ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ...
14/04/2025

اوگی: مبینہ اغواء اور زیادتی کا سنسنی خیز کیس، سینکڑوں نازیبا ویڈیوز برآمد

اوگی میں ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ سامنے آیا ہے جس میں مبینہ اغواء اور جنسی زیادتی کے ناکام ملزمان پر مدعی کی جانب سے ایک اور سنگین الزام عائد کیا گیا۔ اوگی پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو حراست میں لے کر تفتیش کا دائرہ وسیع کیا۔

ذرائع کے مطابق، تفتیش کے دوران سردار فیصل اور سردار شکور کے موبائل فونز سے سینکڑوں نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئیں جن کی تعداد تقریباً 450 بتائی جا رہی ہے۔ یہ ویڈیوز 7 سال سے لے کر 18 سال تک کی عمر کے بچوں اور بچیوں کی ہیں۔ ان ویڈیوز کی بنیاد پر پولیس کو شبہ ہے کہ ملزمان ان معصوم بچوں کو بلیک میل کرتے اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔

عوامی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، جبکہ کچھ افراد کی طرف سے یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس شرمناک فعل کے پیچھے "مرزا برانڈ" کے نام سے ایک جعلی فیس بک اکاؤنٹ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ تاہم، مرزا برانڈ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لڑکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون ان دونوں مجرموں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، اور اوگی کے علمائے کرام اور دیگر معتبر قبائلی سربراہان جِرگے میں ان کے لیے کیا سزا اور جرمانہ مقرر کرتے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف اوگی بلکہ پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عوام انصاف کی فوری اور سخت فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

السلام علیکم دوستو،جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، ہمارا خوبصورت خطہ ہزارہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہے...
13/04/2025

السلام علیکم دوستو،
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، ہمارا خوبصورت خطہ ہزارہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہے۔ ہر طرف ہریالی، ٹھنڈی ہوائیں، نیلا آسمان، بہتے چشمے، اور ان سب کا سب سے اہم سہارا — درخت۔
یہی درخت ہماری پہچان ہیں، ہماری زمین کی شان ہیں، اور ہماری نسلوں کے لیے زندگی کی ضمانت ہیں۔

لیکن افسوس!
کچھ ظالم اور خود غرض لوگ ان درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں، ایسے جیسے انہیں کسی جیتے جاگتے وجود کو مارنے میں کوئی درد محسوس نہیں ہوتا۔ ان کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھی ہے اور دل میں ضمیر کی کوئی آواز باقی نہیں رہی۔

پہلے ہم نے اپنے جنگلات کا ایک بڑا حصہ کھو دیا، اور اب جو بچا ہے وہ بھی خطرے میں ہے۔
شمدرہ اور ہوا گلی کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے بعد اب یہ ظلم یوسی کروڑی تک پہنچ چکا ہے۔

انتظامیہ خوابِ غفلت میں ہے،
کوئی روکنے والا نہیں،
کوئی پوچھنے والا نہیں،
درخت گرتے جا رہے ہیں،
فضا سونی ہوتی جا رہی ہے،
زمین بے چین ہے،
اور فطرت رو رہی ہے۔

یاد رکھو! یہ درخت صرف لکڑی نہیں، یہ سائبان ہیں، آکسیجن ہیں، بارشیں ہیں، زندگی ہیں۔
ان کی ہر چیخ، ہر گری شاخ، ہمیں پکار رہی ہے —
“مجھے بچاؤ... ورنہ تم خود بھی نہ بچ سکو گے”

آج اگر ہم خاموش رہے تو کل ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
آئیے! ہم سب مل کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، جنگلات کو بچائیں، اور قدرت سے اپنی وفا کا ثبوت دیں۔

درخت بچاؤ، زندگی بچاؤ۔
ڈیلی تناول

Address

Mansehra

Telephone

+923495603735

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Tanawal ڈیلی تناول posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Daily Tanawal ڈیلی تناول:

Share