Azad News Network Pakistan

Azad News Network Pakistan بول۔بول کے لب آزاد ہیں تیرے
(1)

27/09/2025
26/09/2025

بابر سلیم خان سواتی کو ہندکو زبان کو اسمبلی کی آفیشل زبان بنانے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں
گوجری کو بھی اسمبلی کا حصہ بنایا جائے عوامی مطالبہ زور پکڑنے لگا

23/09/2025

گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج بالاکوٹ
بی ایس پروگرام دوبارہ بحال نہ ہو سکا

(علاقائی مسائل اجاگر کروانے کیلئے رابطہ کریں)
Whatsapp:0303-8104674

22/09/2025

ڈی پی او مانسہرہ کیساتھ مکمل انٹرویو

19/09/2025

پروگرام :مُلخا دی گل
ہندکو دا علاقائی خبرنامہ

13/09/2025

مشہور سوشل ایکٹویسٹ عمارہ کا وی لاگ کنگ عبد اللہ ہسپتال میں موت کا رقص

"ٹھیکیدار"کچھ عرصہ پہلے  ایک پرانا دوست دوسرے شہر سے  ملنے آیا۔ چہرے پر تھکن تھی، مگر مسکراہٹ میں چھپی تلخی کچھ اور کہہ ...
13/09/2025

"ٹھیکیدار"

کچھ عرصہ پہلے ایک پرانا دوست دوسرے شہر سے ملنے آیا۔
چہرے پر تھکن تھی، مگر مسکراہٹ میں چھپی تلخی کچھ اور کہہ رہی تھی۔ وہ ایک بڑی دوا ساز کمپنی میں کام کرتا تھا۔
چائے پینے کے دوران باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس نے آنے کی وجہ بتائی: "ڈاکٹر صاحب سے ملنے آیا تھا، سوچا تم سے بھی ملاقات ہو جائے"
لیکن "ڈاکٹر صاحب" کا لفظ ادا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت ناچ گئی۔ جیسے وہ کوئی راز چھپائے بیٹھا ہو۔
کچھ دیر بعد جب بات کاروبار پر آئی تو وہ خاموش ہوا، پھر گہری سانس لے کر بولا: "یار، تمہیں پتہ ہے آج کل سب سے زیادہ پیسہ کہاں ہے؟ ٹھیکیداری میں! اور سب سے بڑا ٹھیکیدار کون ہے؟ ڈاکٹر!"
میں نے حیرت سے اس کا چہرہ دیکھا۔ "وہ کیسے؟"
اس نے جیسے برسوں کا بوجھ اتارنے کے لیے زبان کھولی: "جب بھی کوئی کمپنی نئی دوا مارکیٹ میں لاتی ہے
چاہے وہ اینٹی بایوٹک ہو، اینٹی ڈپریسنٹ ہو یا شوگر کنٹرول کرنے والی گولی الغرض کوئی بھی ہو
وہ اپنے نمائندے کو ڈاکٹر کے پاس بھیجتی ہے۔ ڈاکٹر وہی دوا لکھتا ہے جو کمپنی اسکی 'ڈیمانڈ' پوری کرے۔
اور یہ ڈیمانڈ کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی یہ کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے
نقدی، مہنگے موبائل فون،پرسنٹیح ، لیپ ٹاپ، کلینک کا فرنیچر، بیرونِ ملک کے سفر اور بعض اوقات گاڑی تک۔
اور ہاں ایک چیز تو میں بھول ہی گیا ،وہ وحشت سے کھلکھلا کے ہنس پڑا
وہ چیز ہے عمرے کے ٹکٹ۔اس بات پر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا
اور جب یہ مانگ پوری ہو جاتی ہے تو پھر ڈاکٹر کمپنی کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ہر نسخے میں ضرورت سے زیادہ دوائیں لکھتا ہے۔ غریب مریض کی پرچی آٹھ دس ہزار نیچے ہی نہیں رہتی۔ کئی گولیاں تو محض "طاقت" کے نام پر لکھی جاتی ہیں جن کا بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا"

میرا دماغ سن ہوگیا۔ میرے سامنے اپنے ضلع کے کئی ڈاکٹر صاحب آگئے جن کے نسخے سات ،آٹھ ہزار سے کم نہیں ہوتے تھے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ بعض دوائیاں کئی کئی پیک اکٹھے لکھے جاتے شاید وہ کمپنی کا ہدف پورا کرنے کے لیے لکھی جاتیں تھی
اور پھر میرے ذہن میں ماضی کے وہ ہیرو گھومنے لگے جنہوں نے انسانیت کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔ مجھے یاد آیا

الگزینڈر فلیمنگ نے پینسلن دریافت کی، وہ اینٹی بایوٹک جس نے لاکھوں جانیں بچائیں۔ اس نے کبھی اس دریافت پر پیسہ نہیں کمایا، بلکہ کہا کہ یہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔

ایڈورڈ جینر نے چیچک کی ویکسین بنائی اور اپنی زندگی اس بیماری کے خاتمے کے لیے وقف کر دی۔

لُوئی پاسچر نے ریبیز ویکسین بنانے کے لیے اپنی پوری زندگی تحقیق میں گزار دی اور کہا کہ سائنس کا مقصد منافع نہیں، انسانیت کی خدمت ہے۔

اسی طرح فریڈرک بینٹنگ نے انسولین دریافت کی اور اس پر پیٹنٹ ایک ڈالر میں بیچ دیا تاکہ ذیابطیس کے مریض علاج سے محروم نہ رہیں۔

یہ سوچ کر میرا دل کٹ گیا کہ وہ سائنسدان نسلوں کی محنت سے فارمولے ایجاد کرتے رہے تاکہ علاج ہر انسان تک پہنچے، اور آج ہمارے ڈاکٹر ان ہی فارمولوں کو کاروبار بنا کر بیچ رہے ہیں۔

اور اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر برانڈ نیم لکھتے ہیں تاکہ مخصوص کمپنی کا مال چلے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹر فارمولہ لکھتے ہیں
جیسے Paracetamol، Amoxicillin یا Metformin
تاکہ مریض اپنی استطاعت اور بجٹ کے مطابق کسی بھی کمپنی کی دوا خرید سکے۔ یہ نظام مریض کو اختیار دیتا ہے اور دوا کی قیمتوں میں صحت مند مقابلہ پیدا کرتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ صرف فارمولہ لکھنے سے علاج کی اوسط لاگت 30-40٪ کم ہو جاتی ہے اور مارکیٹ میں جعلی دوائیوں کی گنجائش بھی کم رہتی ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں بیٹھنے والے ڈاکٹر شام کو اپنے ذاتی کلینک کھولتے ہیں، وہاں مریض کی حالت سے زیادہ اس کی جیب کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ چھوٹی سی بیماری کو بڑا بنا کر خوف دلایا جاتا ہے، غیر ضروری ٹیسٹ اپنی لیب میں کروا کے کہا جاتا ہے: "اللہ کا شکر ہے آپ کو کچھ نہیں ہوا۔"

اور بیچارہ مریض بل دیکھ کر سوچتا رہ جاتا ہے کہ خوش ہو یا ماتم کرے۔
صرف پانچ سے دس فیصد ڈاکٹرز اس گورکھ دھندے سے بچے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رب العزت کی عنایت ہے
یقین نہیں آتا اپنے قریبی سے قریبی ڈاکٹرز سے آپ حلف لیں کہ کیا وہ اس "کنٹریکٹ بیس بزنس" کا حصہ نہیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی

یا آپ اس ڈاکٹر کی بیس پرچیاں مختلف مریضوں کی جمع کریں جنکی بیماریاں مختلف ہوں ان میں آپکو ایک خاص برینڈ اور خاص دوائی پر جگہ فٹ ہوتی نظر آئے گی

خاص طور پر آپ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی یا او پی ڈی والے حضرات کی پرچیوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جس پر ایک ہی برینڈ بار بار نظر آئے گا آپکو

یہ سوچ کر میرا دل لرز گیا کہ ہر پرچی میں سے کتنے پیسے غریبوں کے خوامخواہ لے اڑتے ہیں ۔
اس کالم کو لکھنے کا مقصد ڈاکٹرز کی فیلڈ میں موجود اچھے ڈاکٹرز کو نشانہ بنانا نہیں وہ تو قوم کے مسیحا ہے ،نہ ہی اس پوسٹ کا مطلب کسی کی تضحیک کرنا ہے
اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان بری روایات کے حوالے سے آگہی دینا ہے جو کہ میڈیکل کی فیلڈ میں موجود ہیں
اللہ رب العزت ہم سب کو ہدایت دے اور مل جل کر اس ملک پاکستان اور اسکی عوام کی خدمت کرنے کی توفیق دے

آپ بھی اپنا تجربہ شئیر کرنا چاہیں تو کمنٹ میں ضرور بتائیے گا

از :رجب علی آزاد

یہ سات ستمبر کا واقعہ ہے خضر حیات چھبیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا جو کہ کلگان مانسہرہ کا رہائشی تھا خضر  کے والد  مانس...
12/09/2025

یہ سات ستمبر کا واقعہ ہے
خضر حیات چھبیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا جو کہ کلگان مانسہرہ کا رہائشی تھا
خضر کے والد مانسہرہ کے ایک نجی سکول میں ٹیچر ہیں اور سفید پوشی میں گزر بسر کر رہے ہیں
خضر مانسہرہ بازار میں ایک دوکان پہ سیلزمین تھا اسکو دن بارہ بجے کے قریب اچانک سے سینے میں شدید درد محسوس ہوا اور اسکا سانس پھولنے لگا وہ کسی نہ کسی طرح کنگ عبداللہ ہسپتال پہنچا اور 12بجے پرچی لی اور لڑکھڑاتے قدموں سے ایمرجنسی وارڈ کی طرف گیا
ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں زندگی نہیں، بے حسی ملی۔
نہ کوئی ڈاکٹر، نہ کوئی علاج… بس ایک چٹ، ایک کاغذ، اسکو ملا جس پر صرف بے رخی لکھی تھی

وہاں پہ موجود عملے نے نہ بی پی چیک کیا نہ اسکو ٹریٹمنٹ دی بس وہاں سے اسکو چٹ پر ٹیکنیشن نما شخص نے کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ جائو سامنے سے لگوا دو۔
اب خضر کا سانس پھولا ہے وہ چل نہیں سکتا وہ کسی طرح دیواروں کے سہارے لیکر سامنے گیا تو اسکو کہا گیا باہر سے لیکر آئو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔جس سے بات کرتا وہ جواب دیتا "ہم تو سٹوڈنٹس ہیں" ہم کیا کر سکتے ہیں
ڈاکٹر یہاں موجود نہیں ہیں آئے تو ان سے بات کرو
۔اس نے کہا مجھے درد ہے میں مر رہا ہوں مجھے کوئی ٹریٹمنٹ دیں لیکن اسکو برا بھلا کہہ کر وہاں سے نکال دیا گیا اور کہا "گھر جائو ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں کل آنا تمھارے ٹیسٹ کریں گے
۔خضر نے اس سارے معاملے کی ویڈیو بنائی ہے جو کہ اسکے موبائل میں محفوظ ہے
اس کی حالت جب بگڑنے لگی اس نے بھائی کو میسج کیا اور ایک گاڑی میں بیٹھ گیا کہ مجھے کسی طرح میرے گھر پہنچائو میرا دل گھبرا رہا ہے ۔خضر جب گھر پہنچا تو اسکی حالت غیر ہو چکی تھی ،چلنے کی سکت نہیں رہی تھی
مقامی ڈاکٹر کو بلایا گیا اسکا چیک اپ کیا گیا تو اس نے کہا "اس کو کسی طرح ہسپتال پہنچائیں"
کون سی ہسپتال ؟ ہسپتال والوں نے تو گھر بھیج دیا ہے
خضر کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا ہے
اس نے پانی مانگا کلمہ پڑھا اور چھبیس سال کا خوبرو نوجوان والد اور اسکے بھائیوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر گیا
اس چھبیس سال کے بے بس نوجوان کی آہوں نے اللہ کا عرش بھی ہلایا ہو گا ،
اللہ کے قہر کو بھی جوش آیا ہو گا

میں جب خضر کے والد ارشد صاحب کے پاس گیا تو میں انکی آنکھوں میں دیکھ نہیں پایا ۔
ان آنکھوں میں وحشت تھی،مایوسی تھی ،غم کا سمندر تھا

میں 1925کی بات نہیں کر رہا ہوں یہ 2025کا واقعہ ہے اور مانسہرہ شہر کا واقعہ ہے وہ مانسہرہ شہر جسکے ایم پی اے
اب سپیکر صوبائی اسمبلی ہیں،وہ مانسہرہ جسکا ایم این اے وفاقی وزیر ہے وہ مانسہرہ شہر جسکا سینیٹر صوبائی حکومت میں سب سے زیادہ اثر رسوخ رکھنے والا بندہ ہے
اس ہسپتال کا ایم ایس وہ بندہ ہے جس کو اس نعرے کیساتھ لایا گیا تھا کہ تبدیلی اور کامیابی کا نیا باب رقم کرے گا
جسکے ایم ایس بنتے ہی میڈیا والے بھائیوں اور سوشل ایکٹویسٹ نے رقص کر کر کے گھنگرو توڑ دیئے تھے

افسران بالا کی تو کیا ہی بات کریں انکو تو اپنے پروٹوکول اور "ششکے " سے ہی فرصت نہیں ملتی

اور ہمارے ضلع کے ڈاکٹرز صاحبان کو کمپنیوں کے ٹھیکوں انکے ٹارگٹس سے ہی فرصت نہیں ملتی ،وہ بے چارے بھی کیا کریں میڈیسن کمپنیز سے فرنیچر ،گاڑیاں ،اےسی بیرونی دورے ،قیمتی تحفے بھی تو لینے ہیں۔
اور ہاں عمرے کے ٹکٹس تو میں بھول ہی گیا تھا
انکو بے چاروں کو کہاں فرصت اپنے کلینک سے

بدقسمتی کی بات یہ ہے یہ ہسپتال سپیکر صاحب کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے
خضر تو چلا گیا لیکن سوالات کا انبار چھوڑ کر چلا گیا

کیا یہ لاپرواہی نہیں بلکہ ایک چھبیس سال کے نوجوان کا قتل تھا؟
کیا ذات پات اچھوت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جس میں "سفارشی "کو اسی ہسپتال میں ساری سہولتیں دی جاتی ہیں اور غریب کیلئے کچھ بھی نہیں؟

کیا مکافات کا کوڑا ہمارے سیاسی نمائندوں اور افسران پہ برسنے والا ہے؟

ہر سیاسی جماعت کا اپنا منجن بک رہا ہے لیکن حقیقی تبدیلی کب آئے گی؟

خضر کے والد کی آنکھوں میں دیکھا تو اس جملے کا مطلب سمجھ آیا کہ "چھوٹے کفن بھاری ہوتے ہیں" اتنے بھاری کہ اسکا وزن دنیا کا بڑے سے بڑا پہلوان نہیں اٹھا سکتا
الوداع خضر…
الوداع ایک عظیم استاد کے بیٹے…
تمہارے والد کے آنسو شاید کبھی نہ رکیں، لیکن تمہارا سوال ہمیشہ گونجے گا۔اور ایک دن ان بے رحم لوگوں پہ عذاب کے کوڑے ضرور برسیں گے
الوداع الوداع الوداع

نمناک آنکھوں کیساتھ
رجب علی آزاد

29/08/2025

Like & share

Address

Muslim Town
Mansehra

Telephone

+923038104674

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Azad News Network Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share