20/07/2025
شیتل کا مقدمہ ، یہ درندگی محض چند افراد یا قبیلوں کی نہیں، بلکہ ایک سوچ، نظام اور بیانیے کی پیداوار ہے۔
تحریر: شیر افضل گوجر
انسان اپنی فطرت میں معصوم پیدا ہوتا ہے یا درندہ؟
کیا اخلاقیات انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں یا یہ سیکھنے کا نتیجہ ہیں؟ کیا ماحول انسان کو بناتا ہے یا انسان ماحول کو؟
یہ سوالات فلسفے، عمرانیات، نفسیات اور دینیات کے بڑے بڑے مفکرین کو صدیوں سے پریشان کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن جدید دنیا کے تلخ اور انسانیت سوز واقعات نے ہمیں اس سوال کی نئی شدت کے ساتھ یاد دہانی کروائی ہے۔
ہم آخر کس طرف جا رہے ہیں؟
ایک معصوم بچہ، چاہے وہ فن لینڈ کی کسی خوشحال گلی میں پیدا ہو یا بلوچستان کے کسی پس ماندہ قبیلے میں، محض "انسان" ہوتا ہے۔ اس کے اندر نہ درندگی ہوتی ہے نہ رحمدلی، نہ عقیدہ ہوتا ہے نہ نفرت، نہ جنس پرستی ہوتی ہے نہ شدت پسندی۔ لیکن جیسے جیسے وہ پروان چڑھتا ہے، اسے عقائد، رسمیں، روایات، تعصبات اور خوف کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ "ہم" کون ہیں اور "وہ" کون؟ اسے سکھایا جاتا ہے کہ کس پر اعتبار کرنا ہے، کس سے نفرت کرنی ہے، کس سے محبت کرنی ہے اور کس کو "کافر" یا "گناہ گار" کہنا ہے۔ یہی ماحول، یہی آئیڈیالوجی، یہی بیانیہ بالآخر انسان کو یا تو شرافت کی راہ پر ڈالتا ہے یا پھر وہ درندگی کا نشان بن جاتا ہے۔
ماحول، ایک غیر مرئی مجسمہ
معروف فلسفی جان لاک (John Locke) کے مطابق انسانی ذہن "خالی تختی" ہوتا ہے، جس پر تجربات اور مشاہدات زندگی کے خطوط کھینچتے ہیں۔
یہاں "غیرت" دراصل اس کی شناخت، اس کی معاشرت، اس کی آئیڈیالوجی اور ماحول کی نمائندگی کرتی ہے۔
جب ایک بچہ کسی ایسے قبیلے یا خاندان میں پیدا ہوتا ہے جہاں قتل کو شجاعت، ظلم کو غیرت، اور عورت کو ملکیت سمجھا جاتا ہے تو وہ کیسے سیکھے گا کہ انسانیت، محبت اور ہمدردی کیا ہوتے ہیں؟
جب کسی کو بچپن سے ہی بتایا جائے کہ فلاں عقیدہ رکھنے والا واجب القتل ہے، یا کسی مخصوص رسم کی خلاف ورزی کرنے والے کو جلا دیا جانا چاہئے، تو وہ بڑا ہو کر انسان بنے گا یا وحشی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب اپنے آس پاس کے ماحول میں ہر روز تلاش کر سکتے ہیں۔
آئیڈیالوجی ،قیدِ شعور
کسی بھی آئیڈیالوجی کا سب سے خطرناک پہلو اس کا ناقابلِ سوال ہونا ہوتا ہے ،جب ایک عقیدہ، روایت یا بیانیہ اس درجہ طاقتور بن جائے کہ اسے چیلنج کرنا گناہ یا جرم قرار دیا جائے تو وہاں عقل، منطق اور اخلاق کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ یہاں مخصوص مذہبی اور ثقافتی بیانیوں کو اس درجہ تقدس حاصل ہو چکا ہے کہ ان پر سوال اٹھانا کفر کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عورت اپنے پسند سے شادی کرے، جب کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنا چاہے، جب کوئی نوجوان کسی خاص مسلک سے اختلاف کرے، تو اسے یا تو مار دیا جاتا ہے، یا جلا دیا جاتا ہے، یا غیرت کے نام پر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ پھر قاتل فخر سے کہتا ہے کہ "ہم نے غیرت بچا لی"، اور مجمع اس کے قدموں میں پھول نچھاور کرتا ہے۔
یہ دوہری درندگی ہے۔
ایک طرف مظلوم کو بے دردی سے مارا جاتا ہے، اور دوسری طرف اس قتل کو "کارِ خیر" سمجھ کر جشن منایا جاتا ہے۔
شیتل جیسے مظلوموں کے لیے اس دنیا میں انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، یہ کائنات طاقتور کو سلام کرتی ہے، کمزور کو دفن کر دیتی ہے۔ آپ عدالتوں میں جائیں، مذہبی اداروں میں جائیں، یا سوشل میڈیا پر انصاف مانگیں — ہر جگہ آپ کو یا تو خاموشی ملے گی یا منافقت۔ کیونکہ سچ بولنے، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے، اور طاقتور بیانیے کو چیلنج کرنے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ سچ مر جاتا ہے، لیکن سچ اتنا زخمی ہو جاتا ہے کہ سسکیاں لیتے لیتے تھک جاتا ہے۔ اور تب انسان دوست صرف ماتم کر سکتے ہیں، کرب میں ڈوبے الفاظ لکھ سکتے ہیں، اور اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے اذیت برداشت کر سکتے ہیں۔
پاکستانی معاشرت میں جو مذہبی شدت پسندی نظر آتی ہے، وہ مذہب کا چہرہ نہیں بلکہ اس کا استحصال ہے۔ بلاسفیمی جیسے قوانین اور عقائد کا استعمال اکثر ذاتی انتقام، سیاسی طاقت یا سماجی برتری کے لیے کیا جاتا ہے۔ مولویانہ درندگی، اصل میں ایک نظامی، معاشرتی اور نفسیاتی جبر ہے، جس کا شکار صرف اقلیتیں نہیں بلکہ خود مسلمان، عورتیں، بچے اور ہر وہ انسان ہے جو مختلف سوچ رکھتا ہے۔
یہ وہ درندگی ہے جس میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ بطور اخلاقی و روحانی رہنما۔ اور پھر جب کوئی شیتل کسی مولوی کی منفی فتوے بازی کا نشانہ بنتی ہے، تو ہم سب صرف بے بسی سے تماشہ دیکھتے ہیں۔
روایتی درندگی ،معاشرتی جبر کا لبادہ
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو "روایت" کے نام پر درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کے لیے خاندان کی عزت عورت کی مرضی سے کم اہم ہے۔ جن کے لیے مردانگی کا مطلب قابو، تشدد اور بالادستی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانی رشتوں کو طاقت کے کھیل میں تبدیل کر دیا ہے ،بیٹی، بہن، بیوی سب کے ساتھ ان کا رویہ ایک مالک کا ہوتا ہے، نہ کہ ایک برابر انسان کا۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شیتل اپنے شوہر کے ساتھ محبت سے زندگی گزارنا چاہے، تو اسے روایات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اور قاتل فخر سے کہتا ہے: "ہم نے اپنی عزت بچا لی۔"
فلسفہ، انسان اور امید
فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سوال کرنا، سمجھنا، اور بیدار ضمیر رکھنا انسانیت کی بنیاد ہے۔ سقراط سے لے کر ہابرماس تک، ہر مفکر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب معاشرہ سوال کرنا چھوڑ دے، جب ہر آئیڈیالوجی کو مقدس مان لیا جائے، اور جب ظلم کو "مقدس مشن" کہا جانے لگے، تو وہ معاشرہ اخلاقی طور پر مر چکا ہوتا ہے۔
لیکن پھر بھی، امید زندہ ہے۔ کیونکہ ہر شیتل کے بعد ایک سوال ضرور جنم لیتا ہے۔ ہر بے آواز کی چیخ کسی نہ کسی دل میں گونج پیدا کرتی ہے۔ ہر درندگی کا ایک تاثر ضرور باقی رہتا ہے، جو کسی اور کو بیدار کر سکتا ہے۔
ہمیں اب صرف ماتم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ درندگی محض چند افراد یا قبیلوں کی نہیں، بلکہ پوری سوچ، نظام اور بیانیے کی پیداوار ہے۔ اور اگر ہم نے اس بیانیے کو چیلنج نہ کیا، اگر ہم نے معصومیت اور انسانیت کی حفاظت کے لیے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل شیتل کی جگہ کوئی اور ہو گا، اور ہم پھر سے ایک مضمون لکھنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔
شیتل، تمہیں انصاف شاید اس دنیا میں نہ ملے، لیکن ہم تمہاری یاد کو انصاف کا استعارہ ضرور بنا سکتے ہیں۔ تمہاری سسکیوں کو ہم اپنے ضمیر کی للکار بنا سکتے ہیں۔ تمہاری قربانی کو ہم سوال، مزاحمت اور بیداری کی روشنی میں بدل سکتے ہیں۔
-