Hazara Express News

To be the leading, most trusted, and impartial source of news and information in the Hazara region, empowering our community with knowledge and fostering a well-informed society. ہزارہ ایکسپریس نیوز پر اپنی تحریر شاٸع کروانے کے لٸیے درجہ زیل ای میل یا وٹس ایپ نمبر پر بھیجیں
[email protected]
03449900552

ماں باپ نے نہ جانے کیاسوچ کراس کانام ولی اللہ رکھالیکن اللہ کی شان اورقدرت کی مہربانی دیکھیں کہ وہ بچہ بڑاہوکرسچ مچ میں ...
21/07/2025

ماں باپ نے نہ جانے کیاسوچ کراس کانام ولی اللہ رکھالیکن اللہ کی شان اورقدرت کی مہربانی دیکھیں کہ وہ بچہ بڑاہوکرسچ مچ میں اللہ کا ایساولی بن گیاکہ اس کے کام اورکردارپراپنوں کے ساتھ بیگانے بھی اب رشک کررہے ہیں۔ولی اللہ کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ بتاناضروری ہے کہ پاکستان سمیت دنیابھرمیں ہرسال ہزاروں کی تعدادمیں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
تحریر: https://hazaraexpressnews.org/5958/

20/07/2025
شیتل کا مقدمہ ، یہ درندگی محض چند افراد یا قبیلوں کی نہیں، بلکہ ایک سوچ، نظام اور بیانیے کی پیداوار ہے۔تحریر: شیر افضل گ...
20/07/2025

شیتل کا مقدمہ ، یہ درندگی محض چند افراد یا قبیلوں کی نہیں، بلکہ ایک سوچ، نظام اور بیانیے کی پیداوار ہے۔
تحریر: شیر افضل گوجر
انسان اپنی فطرت میں معصوم پیدا ہوتا ہے یا درندہ؟
کیا اخلاقیات انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں یا یہ سیکھنے کا نتیجہ ہیں؟ کیا ماحول انسان کو بناتا ہے یا انسان ماحول کو؟
یہ سوالات فلسفے، عمرانیات، نفسیات اور دینیات کے بڑے بڑے مفکرین کو صدیوں سے پریشان کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن جدید دنیا کے تلخ اور انسانیت سوز واقعات نے ہمیں اس سوال کی نئی شدت کے ساتھ یاد دہانی کروائی ہے۔
ہم آخر کس طرف جا رہے ہیں؟

ایک معصوم بچہ، چاہے وہ فن لینڈ کی کسی خوشحال گلی میں پیدا ہو یا بلوچستان کے کسی پس ماندہ قبیلے میں، محض "انسان" ہوتا ہے۔ اس کے اندر نہ درندگی ہوتی ہے نہ رحمدلی، نہ عقیدہ ہوتا ہے نہ نفرت، نہ جنس پرستی ہوتی ہے نہ شدت پسندی۔ لیکن جیسے جیسے وہ پروان چڑھتا ہے، اسے عقائد، رسمیں، روایات، تعصبات اور خوف کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ "ہم" کون ہیں اور "وہ" کون؟ اسے سکھایا جاتا ہے کہ کس پر اعتبار کرنا ہے، کس سے نفرت کرنی ہے، کس سے محبت کرنی ہے اور کس کو "کافر" یا "گناہ گار" کہنا ہے۔ یہی ماحول، یہی آئیڈیالوجی، یہی بیانیہ بالآخر انسان کو یا تو شرافت کی راہ پر ڈالتا ہے یا پھر وہ درندگی کا نشان بن جاتا ہے۔
ماحول، ایک غیر مرئی مجسمہ

معروف فلسفی جان لاک (John Locke) کے مطابق انسانی ذہن "خالی تختی" ہوتا ہے، جس پر تجربات اور مشاہدات زندگی کے خطوط کھینچتے ہیں۔

یہاں "غیرت" دراصل اس کی شناخت، اس کی معاشرت، اس کی آئیڈیالوجی اور ماحول کی نمائندگی کرتی ہے۔

جب ایک بچہ کسی ایسے قبیلے یا خاندان میں پیدا ہوتا ہے جہاں قتل کو شجاعت، ظلم کو غیرت، اور عورت کو ملکیت سمجھا جاتا ہے تو وہ کیسے سیکھے گا کہ انسانیت، محبت اور ہمدردی کیا ہوتے ہیں؟
جب کسی کو بچپن سے ہی بتایا جائے کہ فلاں عقیدہ رکھنے والا واجب القتل ہے، یا کسی مخصوص رسم کی خلاف ورزی کرنے والے کو جلا دیا جانا چاہئے، تو وہ بڑا ہو کر انسان بنے گا یا وحشی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب اپنے آس پاس کے ماحول میں ہر روز تلاش کر سکتے ہیں۔

آئیڈیالوجی ،قیدِ شعور

کسی بھی آئیڈیالوجی کا سب سے خطرناک پہلو اس کا ناقابلِ سوال ہونا ہوتا ہے ،جب ایک عقیدہ، روایت یا بیانیہ اس درجہ طاقتور بن جائے کہ اسے چیلنج کرنا گناہ یا جرم قرار دیا جائے تو وہاں عقل، منطق اور اخلاق کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ یہاں مخصوص مذہبی اور ثقافتی بیانیوں کو اس درجہ تقدس حاصل ہو چکا ہے کہ ان پر سوال اٹھانا کفر کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عورت اپنے پسند سے شادی کرے، جب کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنا چاہے، جب کوئی نوجوان کسی خاص مسلک سے اختلاف کرے، تو اسے یا تو مار دیا جاتا ہے، یا جلا دیا جاتا ہے، یا غیرت کے نام پر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ پھر قاتل فخر سے کہتا ہے کہ "ہم نے غیرت بچا لی"، اور مجمع اس کے قدموں میں پھول نچھاور کرتا ہے۔

یہ دوہری درندگی ہے۔
ایک طرف مظلوم کو بے دردی سے مارا جاتا ہے، اور دوسری طرف اس قتل کو "کارِ خیر" سمجھ کر جشن منایا جاتا ہے۔
شیتل جیسے مظلوموں کے لیے اس دنیا میں انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، یہ کائنات طاقتور کو سلام کرتی ہے، کمزور کو دفن کر دیتی ہے۔ آپ عدالتوں میں جائیں، مذہبی اداروں میں جائیں، یا سوشل میڈیا پر انصاف مانگیں — ہر جگہ آپ کو یا تو خاموشی ملے گی یا منافقت۔ کیونکہ سچ بولنے، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے، اور طاقتور بیانیے کو چیلنج کرنے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ سچ مر جاتا ہے، لیکن سچ اتنا زخمی ہو جاتا ہے کہ سسکیاں لیتے لیتے تھک جاتا ہے۔ اور تب انسان دوست صرف ماتم کر سکتے ہیں، کرب میں ڈوبے الفاظ لکھ سکتے ہیں، اور اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے اذیت برداشت کر سکتے ہیں۔
پاکستانی معاشرت میں جو مذہبی شدت پسندی نظر آتی ہے، وہ مذہب کا چہرہ نہیں بلکہ اس کا استحصال ہے۔ بلاسفیمی جیسے قوانین اور عقائد کا استعمال اکثر ذاتی انتقام، سیاسی طاقت یا سماجی برتری کے لیے کیا جاتا ہے۔ مولویانہ درندگی، اصل میں ایک نظامی، معاشرتی اور نفسیاتی جبر ہے، جس کا شکار صرف اقلیتیں نہیں بلکہ خود مسلمان، عورتیں، بچے اور ہر وہ انسان ہے جو مختلف سوچ رکھتا ہے۔

یہ وہ درندگی ہے جس میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ بطور اخلاقی و روحانی رہنما۔ اور پھر جب کوئی شیتل کسی مولوی کی منفی فتوے بازی کا نشانہ بنتی ہے، تو ہم سب صرف بے بسی سے تماشہ دیکھتے ہیں۔

روایتی درندگی ،معاشرتی جبر کا لبادہ

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو "روایت" کے نام پر درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کے لیے خاندان کی عزت عورت کی مرضی سے کم اہم ہے۔ جن کے لیے مردانگی کا مطلب قابو، تشدد اور بالادستی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانی رشتوں کو طاقت کے کھیل میں تبدیل کر دیا ہے ،بیٹی، بہن، بیوی سب کے ساتھ ان کا رویہ ایک مالک کا ہوتا ہے، نہ کہ ایک برابر انسان کا۔

یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شیتل اپنے شوہر کے ساتھ محبت سے زندگی گزارنا چاہے، تو اسے روایات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اور قاتل فخر سے کہتا ہے: "ہم نے اپنی عزت بچا لی۔"

فلسفہ، انسان اور امید

فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سوال کرنا، سمجھنا، اور بیدار ضمیر رکھنا انسانیت کی بنیاد ہے۔ سقراط سے لے کر ہابرماس تک، ہر مفکر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب معاشرہ سوال کرنا چھوڑ دے، جب ہر آئیڈیالوجی کو مقدس مان لیا جائے، اور جب ظلم کو "مقدس مشن" کہا جانے لگے، تو وہ معاشرہ اخلاقی طور پر مر چکا ہوتا ہے۔

لیکن پھر بھی، امید زندہ ہے۔ کیونکہ ہر شیتل کے بعد ایک سوال ضرور جنم لیتا ہے۔ ہر بے آواز کی چیخ کسی نہ کسی دل میں گونج پیدا کرتی ہے۔ ہر درندگی کا ایک تاثر ضرور باقی رہتا ہے، جو کسی اور کو بیدار کر سکتا ہے۔

ہمیں اب صرف ماتم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ درندگی محض چند افراد یا قبیلوں کی نہیں، بلکہ پوری سوچ، نظام اور بیانیے کی پیداوار ہے۔ اور اگر ہم نے اس بیانیے کو چیلنج نہ کیا، اگر ہم نے معصومیت اور انسانیت کی حفاظت کے لیے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل شیتل کی جگہ کوئی اور ہو گا، اور ہم پھر سے ایک مضمون لکھنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔

شیتل، تمہیں انصاف شاید اس دنیا میں نہ ملے، لیکن ہم تمہاری یاد کو انصاف کا استعارہ ضرور بنا سکتے ہیں۔ تمہاری سسکیوں کو ہم اپنے ضمیر کی للکار بنا سکتے ہیں۔ تمہاری قربانی کو ہم سوال، مزاحمت اور بیداری کی روشنی میں بدل سکتے ہیں۔

-

ہم نے دین کو رسموں میں دفن کر دیا ہے، اور کلچر کو قرآن کے لباس میں لپیٹ کر نسلوں پر تھوپ دیا ہےنوجوانوں کی ایک بڑی تعداد...
20/07/2025

ہم نے دین کو رسموں میں دفن کر دیا ہے، اور کلچر کو قرآن کے لباس میں لپیٹ کر نسلوں پر تھوپ دیا ہے
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی نہیں جانتی کہ نماز کا اصل مطلب کیا ہے۔ قرآن کو حفظ تو کیا، مگر کبھی دل سے پڑھا نہیں۔ مسجد میں جانا صرف رمضان یا جنازے تک محدود رہ گیا، اور دلوں میں دین کا نور بجھتا چلا گیا۔ کیونکہ ہم نے دین کو محبت سے نہیں، جبر سے سکھایا۔ ہم نے کہا، "یہ کرو، ورنہ جہنم!" مگر کبھی یہ نہ کہا، "یہ کرو، کیونکہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے۔"

اسلام کو اپنی اصل صورت میں سمجھنا ہوگا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ دین صرف داڑھی، دوپٹہ، یا ہاتھ باندھنے کا نام نہیں۔ دین ہے دلوں کی صفائی، حقوق العباد، نرمی، اور وہ رشتہ جو بندے اور رب کے بیچ خاموشی سے پروان چڑھتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم اسلام چاہتے ہیں یا صرف وہ کلچر جس میں رسمیں ہوں
مکمل تحریر : https://hazaraexpressnews.org/5952/

20/07/2025

ناران میں آپریشن کی آڑ میں روزگار ختم کیا جا رہا ہے۔
ہمارے ہوٹل 1965میں بنا ہے جبکہ این ایچ اے کی جانب سے ہمیں اب نوٹس دیا گیا ہے جبکہ 2014میں ہم نے کیس کیا اور 2020کو ہمارے حق میں فیصلہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی ہمیں نوٹس کیا گیا اور ہوٹل کو گرانے کی بات کرتے ہیں سڑک بعد میں بنی ہے سیف الملوک ہوٹل کے مالک انور لالامیڈیا کو تفصیلات بتا رہے ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ اعلی حکام نوٹس لیں۔

اگر بچہ کتابی تعلیم میں اچھا نہ ہو تو کیا اسے اسکول بھیجنا بے کار ہے؟ہمارے معاشرے میں جب کوئی بچہ تعلیمی لحاظ سے نمایاں ...
20/07/2025

اگر بچہ کتابی تعلیم میں اچھا نہ ہو تو کیا اسے اسکول بھیجنا بے کار ہے؟

ہمارے معاشرے میں جب کوئی بچہ تعلیمی لحاظ سے نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو اکثر والدین یا اساتذہ مایوس ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ "یہ بچہ پڑھائی کے قابل نہیں، اسے کسی ہنر یا فیلڈ میں لگا دو"۔ اس سوچ کے پیچھے تعلیم کا ایک انتہائی محدود اور کتابی تصور کارفرما ہے جس کے مطابق تعلیم صرف نصاب پڑھنے اور امتحان پاس کرنے کا نام ہے۔ نتیجتاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جو بچہ اسکول کی درسی کتابوں کو نہیں سمجھ پا رہا اُس کا اسکول جانا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ بظاہر یہ بات معقول دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت یہ نقطۂ نظر تعلیم کی گہرائی، وسعت اور اس کی اصل روح سے ناواقفیت کا اظہار ہے

مکمل تحریر : https://hazaraexpressnews.org/5945/

پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور یہاں عوام کی مذہب سے وابستگی بھی انتہائی جذباتی حد تک ہے۔ کیوں کہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب...
20/07/2025

پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور یہاں عوام کی مذہب سے وابستگی بھی انتہائی جذباتی حد تک ہے۔ کیوں کہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب کے نعرے پر رکھی گئی تھی۔ چنانچہ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے اب تک یہ موضوع زیر بحث چلا آرہا ہے کہ "یہاں مذہب کا کردار کیا ہو گا؟" بانیان ریاست نے قیام وطن کی تحریک میں مذہب کا نعرہ خوب استعمال کیا اور عوامی سطح پر مذہبی نعروں سے سے عوامی خون کو خوب مشتعل کیا۔ تقسیم کی مخالفت کرنے والے مسلم زعماء کو اغیار کا ایجنٹ اور زرخرید کے خطاب دے کر عوام کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ گو کہ تقسیم وطن کے فورا بعد انہوں نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، مذہبی نعروں سے جان چھڑانے کی کوشش کی، اور ملک کو سیکولر ریاست کے طور پر آگے بڑھانے کی جد و جہد شروع کی
مکمل تحریر : https://hazaraexpressnews.org/5939/

تورغر نامیاں کمر تورغر میں سلائڈنگ کا افسوسناک واقعہ — ایک نوجوان جانبحق، تین زخمیتورغر (ربنواز یوسفزئی)تحصیل کنڈر کے پہ...
20/07/2025

تورغر

نامیاں کمر تورغر میں سلائڈنگ کا افسوسناک واقعہ — ایک نوجوان جانبحق، تین زخمی

تورغر (ربنواز یوسفزئی)
تحصیل کنڈر کے پہاڑی علاقہ نامیاں کمر میں آج صبح ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں لینڈ سلائڈنگ کے باعث ایک گاڑی زد میں آ گئی، جس کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق جبکہ تین افراد زخمی ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق، عبدالکریم شاہ کی ٹیوٹا گاڑی جو جدباء سے اوگی جا رہی تھی، نامیاں کمر کے مقام پر سلائڈنگ کی لپیٹ میں آ گئی۔ حادثے میں چیئر بسی خیل سے تعلق رکھنے والے امداد اللہ ولد شمس الرحیم موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔

زخمیوں میں شامل افراد درج ذیل ہیں:

اجمل (باشندہ بمبل اکازئی)

عبدالکریم شاہ (ڈرائیور)

ایک اور نامعلوم شخص

تمام زخمیوں کو فوری طبی امداد کے لیے بی ایچ یو نیو کلے حسن زئی منتقل کر دیا گیا، جبکہ امداد اللہ شہید کی میت کو آبائی گاؤں چیئر بسی خیل روانہ کر دیا گیا۔

مقامی افراد کے مطابق حادثے کے بعد ریسکیو 1122 کی غیر موجودگی کے باعث امدادی کارروائیاں عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت انجام دیں۔ تحصیل کنڈر میں ریسکیو سروسز کی عدم دستیابی پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تحصیل کنڈر میں ریسکیو 1122 کا باقاعدہ یونٹ قائم کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات میں بروقت امداد ممکن ہو سکے۔

Address

Mansehra

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hazara Express News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hazara Express News:

Share