01/09/2025
قسمت کی لہر اور علی حیدر نور خان
تحریر ۔ قیصر عباس
شیکسپیئر کے ڈرامہ Julius Caesar کا ایک جملہ آج بھی وقت کی صداقت لگتا ہے:
“There is a tide in the affairs of men, which, taken at the flood, leads on to fortune.”
یعنی انسان کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب حالات کی لہر اسے کامیابی کی طرف دھکیل دیتی ہے، اور جو شخص اس لہر کو پہچان لے، وہ اپنی تقدیر بدل لیتا ہے۔
یہی کیفیت سیاست کے میدان میں بھی نظر آتی ہے۔ علی حیدر نور خان کی سیاسی جدوجہد اس حقیقت کی بہترین مثال ہے۔ 2008 کے عام انتخابات میں وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے انتخابات لڑے مگر شکست سے دوچار ہوئے۔ یوں مسلسل بارہ سال تک اقتدار سے باہر رہے، لیکن اس عرصے میں نہ وہ مایوس ہوئے اور نہ ہی سیاسی میدان سے پیچھے ہٹے۔ ان کی استقامت اور ثابت قدمی نے بالآخر حالات کا رخ ان کے حق میں موڑ دیا، کیونکہ فتح انہی کو ملتی ہے جو سب سے زیادہ ڈٹے رہتے ہیں۔
سیاست میں صرف محنت اور منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ عوامی اعتماد اور وقت کا رخ بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ علی حیدر نور خان نے اپنی سیاست کو محض نعروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی خدمت کو ترجیح دی۔ ووٹرز اور سپورٹرز کے مسائل کو ضلعی و انتظامی سطح پر حل کروانا، چھوٹے مسائل پر بھی سنجیدگی دکھانا اور عوامی رابطے کو زندہ رکھنا ان کی پہچان رہی ہے۔ یہی مستقل مزاجی آج ان کے لیے نئی پذیرائی کا ذریعہ بنی ہے۔
آج سیاسی منظرنامہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ عوام خدمت اور اخلاص کو ماضی کی وابستگیوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ علی حیدر نور خان کی مقبولیت میں اضافہ دراصل اسی سوچ کی عکاسی ہے۔ لوگ اب ایسی قیادت چاہتے ہیں جو عملی طور پر ان کے ساتھ کھڑی ہو اور مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے۔ یہی رجحان ان کے مستقبل کے سیاسی سفر کو مزید مستحکم بنانے کا عندیہ دیتا ہے۔
علی حیدر نور خان آج جیت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اگر یہ عوامی لہر اسی رفتار سے جاری رہی تو وہ نہ صرف اپنے حلقے میں کامیاب ہو سکتے ہیں بلکہ ضلعی سیاست میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ ان کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاست میں قسمت کی لہر ہمیشہ انہی کے بیڑے کو ساحل تک پہنچاتی ہے جو صبر، خدمت اور استقامت کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں