08/07/2025
بابائے انسانیت: عبدالستار ایدھی کی حیات اور وراثت
8 جولائی کا دن پاکستان کے لیے ایک ناقابلِ فراموش یادگار دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 2016ء میں ایک ایسی ہستی ہم سے جدا ہو گئی جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کا استعارہ تھی — عبدالستار ایدھی۔ آج ان کے وصال کو نو سال بیت چکے ہیں، لیکن ان کی خوشبو اب بھی ہر اس مقام پر محسوس ہوتی ہے جہاں کسی مجبور، مظلوم یا بے سہارا انسان کو پناہ ملتی ہے۔
عبدالستار ایدھی کی زندگی کا ہر لمحہ قربانی، ایثار، خدمت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ وہ نہ عالم تھے، نہ حکمران، نہ تاجر، نہ سائنسدان — لیکن اس کے باوجود ان کا نام دنیا کے سب سے بڑے مخیر انسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کی حقیقی تصویر تھے — سادہ، مخلص، دیانت دار اور انسان دوست۔
ایدھی صاحب 28 فروری 1928ء کو بانٹوا (ریاست گجرات، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ نوجوانی ہی میں ان پر یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ ریاست اور سماج کے کمزور ترین طبقات کے لیے کوئی مستقل اور منظم نظام موجود نہیں، چنانچہ انہوں نے صرف 23 برس کی عمر میں اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔
1951ء میں کراچی کی میٹھادر میں ایک چھوٹے سے ڈسپنسری کے قیام سے جو سفر شروع ہوا، وہ رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان انسانی خدمت کے نیٹ ورک میں تبدیل ہوا، جسے دنیا آج "ایدھی فاؤنڈیشن" کے نام سے جانتی ہے۔
1957ء میں باقاعدہ ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ادارے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ مذہب، نسل، رنگ، زبان یا مسلک سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی خدمت کرتا تھا۔ ایدھی صاحب نے کبھی چندے کے لیے اشتہارات نہیں دیے، ان کے کردار کی سچائی ہی ان کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے اور دل کھول کر عطیات دیتے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلائی جاتی ہے۔ لاوارث لاشوں کی تدفین کی جاتی ہے۔ نومولود بچوں کو کچرا کنڈی میں مرنے سے بچانے کے لیے گود لینے کی سہولت فراہم کی گئی۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں کے لیے شیلٹر ہومز قائم کیے گئے۔ قدرتی آفات میں ان کی ریسکیو ٹیمیں سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی مراکز قائم کیے گئے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے شخص نے کیا جس کے پاس نہ حکومتی اختیارات تھے، نہ کسی کارپوریشن کی پشت پناہی۔ ان کے پاس صرف اخلاص، نیت کی پاکیزگی اور عمل کی طاقت تھی۔
ایدھی صاحب کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک دو جوڑے کپڑوں، ایک جوڑی چپل اور ایک سادہ سی چھوٹی سی قیام گاہ پر قناعت کیے رہے۔ ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹس نہ تھے اور جو بھی عطیہ آتا، وہ براہ راست فاؤنڈیشن کے کام میں لگ جاتا۔ یہاں تک کہ جب ان کے گردے فیل ہوئے تو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملنے کے باوجود انہوں نے کہا: "میں وہیں مروں گا جہاں میری قوم کے غریب مرتے ہیں۔" یہ ان کی سوچ اور فلسفہ حیات کا وہ پہلو ہے جو آج کی دنیا میں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
ایدھی صاحب کو 1989ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے "نشانِ امتیاز" جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہوا — دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے لیے۔ اس کے علاوہ رامون میگسیسے ایوارڈ (ایشیا کا نوبل پرائز)، لندن پیس ایوارڈ، حمدان ایوارڈ برائے رضاکارانہ خدمات اور دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات بھی ان کے دامن میں آئے۔ مگر ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز شاید وہ اعتماد تھا جو ہر پاکستانی کا ان پر تھا — چاہے وہ کراچی کا رکشہ ڈرائیور ہو یا خیبر کا بزنس مین۔
ایدھی صاحب 8 جولائی 2016ء کو گردوں کی بیماری کے باعث 88 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات پر پورا ملک سوگوار ہوا۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا اور ان کے جنازے میں عوام، افواج، سیاست دان، مذہبی و سماجی رہنما، سب شریک ہوئے۔ گویا پوری قوم نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
ایدھی صاحب کا مشن ان کے بعد ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے سنبھالا، جو بلاشبہ اس مشعل کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ: کیا ہم بطورِ قوم اس ورثے کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں؟
ایدھی صاحب نے صرف ادارہ نہیں بنایا، بلکہ سوچ اور شعور دیا۔ یہ شعور کہ ہر انسان کی زندگی اہم ہے، یہ پیغام کہ انسانیت سب سے بڑی عبادت ہے، یہ تعلیم کہ ہمیں دوسروں کے لیے جینا سیکھنا ہوگا۔
آج جب ہم ایدھی صاحب کو یاد کرتے ہیں تو درحقیقت ہم اس نظریے کو یاد کر رہے ہوتے ہیں جس میں کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا عبادت ہے، کسی زخمی کے زخم پر مرہم رکھنا نجات کا ذریعہ ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ جاریہ ہے۔ ایدھی صاحب نے ہمیں بتا دیا کہ خدمت کے لیے نہ حکومت کی ضرورت ہے، نہ وسائل کی، بلکہ صرف نیت کی سچائی اور عمل کی طاقت درکار ہوتی ہے۔
کاش ہم بھی ایدھی بننے کی کوشش کریں۔
کاش ہم بھی بغیر کسی شہرت، مفاد یا ریا کے کسی غریب کے لیے ایک قدم بڑھا سکیں۔
کاش ہم بھی انسانوں سے محبت کو اپنا شعار بنا لیں۔
عبدالستار ایدھی آج ہم میں نہیں ہیں، مگر ان کی روشنی، ان کی فکر، ان کا مشن، ان کی دعائیں — آج بھی ہماری قوم کے لیے چراغِ راہ ہیں۔
ایدھی صاحب! ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں۔