Sana kashmeri

Sana kashmeri page ko follow karay

Kesi lag rahi ho
10/10/2025

Kesi lag rahi ho

Kon meray sath chay pia ga
29/09/2025

Kon meray sath chay pia ga

Foryou
20/09/2025

Foryou

26/07/2025
16/03/2025

Bloch

رنگین مزاج شوہرمیرے دونوں بیٹے سعودی عرب میں ملازم تھے، جب دونوں کی واپسی کی خبر ملی تو ان کے بیوی بچے خوشی سے جھوم اٹھے...
22/02/2025

رنگین مزاج شوہر
میرے دونوں بیٹے سعودی عرب میں ملازم تھے، جب دونوں کی واپسی کی خبر ملی تو ان کے بیوی بچے خوشی سے جھوم اٹھے۔ گھر کو خوب سجایا۔ بچوں نے اپنے باپ اور چچا کو خوش آمدید کہنے کے لئے غبارے خریدے۔ لیکن ان کی خوشیوں کو نجانے کس کی نظر لگ گئی، جو میرے بچوں کی آمد سے چار دن قبل یہ خبر آگئی کہ جدہ جاتے ہوئے۔
😭😭
امی جان کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی لہذا انہوں نے دور اندیشی سے کام نہ لیا، صرف اپنی بہن کی خوشی کی خاطر مجھے خالہ کی پھیلی ہوئی جھولی میں ڈال دیا۔ بچپن میں طے شدہ رشتے بہت کم راس آتے ہیں کیونکہ بچوں کے مزاجوں کا پتا نہیں ہوتا۔ شادی کے بعد پتا چلا شوہر اچھے کردار کا نہ ہو تو شادی عذاب ہو جاتی ہے۔ وہ رنگین مزاج شخص تھا۔ مجھے اپنے شوہر کی محبت نہ ملی بلکہ اس نے اپنی رنگ رلیوں کی وجہ سے میری زندگی اجیرن کر دی۔

میں قسمت پر شاکر رہنے والی عورت تھی، کسی سے شکوہ نہ کیا۔ وقت پلک جھپکتے گزرنے لگا۔ دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ سوچا کہ ان کی اچھی پرورش کرنے میں اپنے دُکھوں کو بھلا دینا چاہئے۔ اب منور تو ٹھیک ہونے سے رہے کہ وہ ان میں سے تھے جنہیں پوتڑوں کے بگڑے کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ بچیاں بڑی ہو رہی تھیں مگر وہ اپنی اولاد سے بھی لاپروا ر ہے اور میں اولاد کی نعمت سے مزید سر فراز ہوتی گئی، یہاں تک کہ میرے آنگن میں چار بچے کھیلنے لگے۔ اب مجھے شوہر کے بارے میں سوچنے اور کڑھنے کی کب فرصت تھی، یہ بچے ہی میری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھے۔

میں نے ساری توجہ ان کی پرورش پر لگادی۔ یہ فکر چھوڑ دی کہ کب میرے گھر کا سر براہ گھر سے جاتا ہے اور کب واپس آتا ہے۔ بچے زیادہ ہو گئے مگر منورنے خرچے میں اضافہ نہ کیا۔ خرچہ کم پڑنے لگا۔ جوں توں گزارہ کرتی تھی مگر ان سے لڑتی جھگڑتی اس وجہ سے نہ تھی کہ اس لڑائی جھگڑے کا میرے بچوں پر برا اثر پڑے گا۔ جو مرد گھر میں دلچسپی نہیں رکھتے اور باہر اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں، آخر ان پر بُرے دن آجاتے ہیں۔

مجھ پر بھی وہ برا دن آ گیا۔ جب مجھے خبر ملی، منورنے دوسری شادی ایک رقاصہ سے کرلی ہے۔ یہ اطلاع میرے لئے موت کی خبر جیسی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب مجھے اکیلے ہی اپنے بچوں کو پالنا پو سنا ہو گا۔ میرا اندیشہ درست نکلا۔ دوسری شادی کرنے کے بعد منورگھر کا رستہ بھول گیا۔ اس نے ایک نیا گھر جو بسالیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے خرچہ دینا بھی بند کر دیا۔ میں نے لوگوں کے گھروں سے کپڑے لا کر سینے شروع کر دیئے۔ مزدوری تلاش کرتی ، سردیوں میں رضائیاں سلائی کرتی ، گرمیوں میں کچھ اور چھوٹے موٹے کام ڈھونڈتی۔ کھانا ایک وقت پکاتی۔ ایک وقت ہم چنے کھا کر سو جاتے۔ ایسے کانٹوں بھرے دن بسر کر کے میں نے بچوں کو پالا ۔

کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی تھی۔ کھانا کم کھاتی، بچوں سے کہتی بھوک نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تا کہ وہ پیٹ بھر کر کھا لیں۔ غربت میں پلنے والے بچے بہت حساس ہو جاتے ہیں لہذا جب حامد اور علی بڑے ہوئے تو انہوں نے اسکول جانا بند کر دیا۔ انہی دنوں منورگھر آئے مگر وہ بہت بیمار تھے۔ ان کی صحت اتنی گر چکی تھی کہ سہارے سے چل سکتے تھے، دوسری بیوی بنگلا اور گاڑی سب مال و دولت لپیٹ کر انہیں اس عالم کسمپرسی میں پہنچا کر ناتا توڑ چکی تھی جب کوئی دیکھنے والا نہ رہا، آخر کار میں یاد آئی، اور گھر آئے تو بستر پر پڑ گئے، ان کو جگر کا کینسر ہو گیا تھا اور اب بیماری آخری اسٹیج پر تھی۔ میرے پاس پیسے کہاں تھے کہ ان کا علاج کراتی لیکن ان کی بیماری نے بھی مجھ کو زحمت نہ دی اور وہ چند روزہ باقی ماندہ زندگی کے دن ہمارے پاس گزار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔

میرے بچوں نے شاید باپ کا آخری دیدار کرنا تھا، سو کر لیا۔ میرے چچازاد بھائی کی شہر میں ورکشاپ تھی۔ میرے بچوں نے وہاں جانا شروع کر دیا تا کہ کام سیکھ لیں اور چار پیسے بھی کما کر گھر لا سکیں۔ جب انہوں نے پوری طرح کام سیکھ لیا تو ان کو روز کی اجرت بھی ملنے لگی اور گھر کا گزارہ چلنے لگا۔۔ ان دنوں میں بیمار رہنے لگی تھی۔ زیادہ محنت نہیں کر سکتی تھی۔ بہت غم ہوتا تھا کہ میں نے کیا سوچا تھا اور میرے بچے کیا بن رہے ہیں۔ میں نے تو ان کو پڑھانے لکھانے اور اعلیٰ تعلیم دلانے کا خواب دیکھا تھا۔ ان کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا چاہتی تھی اور یہ ورکشاپ میں مستری بن رہے تھے۔

اللہ کا شکر ہے چلو پھر بھی میرے بچے ہنر مند تو ہو گئے ہیں۔ بچے مجھے تسلی دیتے۔ غربت تو انسان کو سڑکوں پر بھٹکاتی ہے ، بھکاری تک بنادیتی ہے۔ ہم پھر بھی کوئی کام تو سیکھ گئے ہیں۔ وہ اپنی ننھی سی عقل سے میرا حوصلہ بڑھاتے تھے اور میں آنسو پوچھ لیا کرتی تھی۔ لیکن مجھے ان کو کام کرتے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا کہ یہ تو ان کے پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کو دنے کے دن تھے۔ بڑے بیٹے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، جب وقت ملتا وہ کتا بیں لے کر بیٹھ جاتا۔ یوں اپنی ہمت سے اس نے پرائیوٹ میٹرک کر لیا۔

انہی دنوں میرے سسر کے ماموں زاد بچوں کا احوال پوچھنے آئے۔ وہ اثر و رسوخ والے آدمی تھے ۔ ہمارا حال دیکھا تو رنجیدہ ہو گئے بولے۔ بیٹی تم چاہو تو میں تمہارے بڑے لڑکے کو سعودی عربیہ بھجوا دوں۔ وہاں میرے بیٹے کی ورکشاپ ہے۔ یہ ادھر کام پر لگ جائے گا۔ میں نے ہامی بھر لی۔ انہوں نے کمال شفقت سے علی کو اپنے بیٹے کے پاس بھجوادیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ مجھے کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع نہ ملا۔ بیٹے کے جانے سے میں اداس تھی۔ لیکن پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے، سو میں نے بھی قربانی دی۔ (آگے پڑھنے کے لیے لنک اوپن کریں شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/02/rangeen-mizaj.html

゚ ゚viralシ ゚ ゚viralシfypシ゚ ゚viralシfypシ゚viralシalシ ゚viralシ2024fyp

10/02/2025

Namaz kime karo our dua karay

Kesi lag rahi ho  kon shadi karay ga
29/01/2025

Kesi lag rahi ho kon shadi karay ga

Love you
15/08/2024

Love you

Address

Mirpur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sana kashmeri posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share