Zee Kay Studio

Zee Kay Studio اللہ اکبر

*Broadcast Message*میرے ایک نہایت ہی ہردلعزیز دوست نے اپنے محلے میں مسجد کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت شروع کی تھی مگر مہن...
22/01/2025

*Broadcast Message*

میرے ایک نہایت ہی ہردلعزیز دوست نے اپنے محلے میں مسجد کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت شروع کی تھی مگر مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ھوئے دوست احباب سے زیر تعمیر مسجد کے لئے تعاون کی اپیل ھے۔

جو دوست احباب اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہئیں براہ کرم مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

جزاک اللہ خیرا کثیرا

19/05/2024

ایک شخص نے کسی بزرگ کے سامنے کسی کی چغلی کی تو انھوں نے فرمایا: تو نے تین زیادتیاں کی ہیں:
1- میرے اور میرے بھائی کے درمیان دوری پیدا کر دی ہے۔
2- میرے خالی دل کو (اس کے متعلق سوچنے میں) مشغول کر دیا ہے۔
3- میری نگاہ میں اپنے مقام و مرتبے کو مجروح کر دیا ہے۔
امام یحیٰ بن کثیرؒ فرماتے تھے کہ چغل خور ایک گھڑی میں اتنا فساد پھیلا دیتا ہے کہ جادوگر ایک مہینے میں اتنا فساد بپا نہیں کرتا!
(حلية الأولياء لأبي نُعيم، ٧٠/٣)
[ترجمانی: طاہر اسلام عسکری]

12/05/2024

یہ احساس کہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے، ایمان کی پہلی سٹیج ہے۔ اپنے اردگرد موجود زندگی سنوارنے کی تڑپ شکر کہلاتی ہے، عملی شکر ایمان کی اگلی منزل ہے۔ ایمان کی یہی سٹیج مومن کی زندگی مشکل بنا دیتی ہے کیونکہ اس سٹیج پر لینے کی بجائے دینے، بانٹنے، قربانی اور احسان جیسی صفات پریکٹس ہونگی۔ شاکر کا رتبہ عظیم اس لیے ہے کہ ایمان کی اس سٹیج پر مومن اپنے خالق کی صفات کی پیروی شروع کرتا ہے۔۔۔
Copied

09/05/2024

*کسی کیلئے ڈسٹ بن نہ بنیں*

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا، ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے، ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا، ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا
مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو سکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟
ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، وہ گندگی اور کچرا لاد کر گھوم رہے ہوتے ہیں، وہ غصہ، مایوسی، ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے، وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈسٹ بِن اور کچرا دان کیوں بنیں؟
اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔“

05/05/2024

جیسے پانی کے جمنے, ابلنے اور بھاپ بن کے ہوامیں شامل ہونے کے لیے مخصوص دورانیے تک الگ الگ درجہ حرارت کی فراہمی شرط ہے, ایسے ہی اللہ کا انکار, اقرار اسکی شناخت, قربت, دوستی, محبت اور نوکری ایسی الگ الگ سٹیجز ہیں جن میں سے ہر منزل تک پہنچنے کی شرط کسی مخصوص ذہنی کیفیت کا ایک مخصوص عرصے تک تسلسل سے قائم رہنا ہے۔
اقرار کی سٹیج تک پہنچانے کے لیے تو عبادات کا تسلسل ہی کافی ہے لیکن اس سے اگلی ہر سٹیج تک جانے کے لیے بڑی قربانیوں کا تسلسل درکار ہوگا۔
دوستی کے لیے اپنی مرضی کھونی ہوگی اور محبت کے لیے انا، جبکہ اللہ کی نوکری کی سٹیج سے پہلے وہ شخصیت ہی قربان کرنی ہوگی جسے ساری زندگی پال پوس کر جوان کیا۔۔۔
Copied

05/05/2024

توبہ اور اللہ سے بندے کے تعلُق پر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمُودات سُنتے ہُوئے ایک جلیلُ القدر صحابیؓ نے تعجب کا اظہار کیا کہ چور اور زانی کو کیونکر بخش دیا جائے گا،
ہمیشہ نرمی سے بات کرنے والے رحمتُ اللعالمینؐ نسبتاً اونچی آواز اور پُرجوش انداز اختیار کرتے ہوئے گویا ہوئے،
"تُو نہ بھی چاہے تب بھی وہ بخشا جائے گا"
ایسے ہی ایک بار ایک صحابیؓ کو کسی سنگین کبیرہ گُناہ کا مرتکب ہونے پر سزا ملی تو ایک دوسرے صحابیؓ نے اُنکے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جنسے تضحیک کا احساس ہوتا تھا،
رحمه للعالمین صلی الله علیه وسلم نے صحابیؓ کے وہ الفاظ سُنے تو چہرہ غم سے سُرخ ہو گیا، بولے، اُس نے جو گُناہ کیا ہے اُسکی سزا پا رہا ہے، تُم جو اسکی تضحیک کرتے ہو تمہیں کیا معلُوم یہ شخص اللہ اور اُسکے رسُول صلی الله علیه وسلم کِس قدر محبوب ہے۔
یہ تو تھا نبی صل اللہ علیہ وسلم کا نظریہ، ہماری حالت یہ ہے کہ اپنے سے مُختلف سیاسی نظریات والے کلمہ گو بھی یا تو ہمیں جہنمی معلوم پڑتے ہیں یا منافق۔۔۔
Copied

30/04/2024

یہ بات کہ آپ اور میں خود قرآن نہیں سمجھ سکتے
یہاں کے کچھ لوگوں نے جو دین کا بزنس کرنے میں یقین رکھتے تھے
برہمنوں سے لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا۔

قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب ایک اضافی فائدہ ہے. قرآن نے نزول کا مقصد لوگوں کو دنیا میں زندگی جینے کے طریقے بتانا ہے
کہ آپ کا اللہ، رسول، فرشتوں، آسمانی کتابوں، قیامت کے بارے میں عقیدہ کیا ہو.
قیامت کے دن امتحان کن باتوں کا ہوگا. کون سی باتیں کیسے معاف ہو سکتی ہیں
کون سی معاف نہیں ہو نگی
ان کا تدارک کر کے دنیا سے جانا ہوگا
ایک ایک لمحے کے بارے میں ہدایات قرآن میں لکھی ہوئی ہیں
قیامت کے روز یہ عذر نہیں مانا جائے گا کہ فلاں عالم یا مولوی صاحب نے یہ بتایا تھا
آپ کو خود قرآن سمجھنا ہے
یہ بات کہ آپ اور میں خود قرآن نہیں سمجھ سکتے
یہاں کے کچھ لوگوں نے جو دین کا بزنس کرنے میں یقین رکھتے تھے
برہمنوں سے لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا
اسی کا مداوا کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ اور ان کا پورا خانوادہ لوگوں کو ترجمہ قرآن پڑھاتا رہا.
اللہ خود کہتا ہے کہ جو کوئی قرآن سے زندگی گزارنے کے طریقے سیکھنا چاہتا ہے تو ہم نے قرآن اس کے لیے آسان کر دیا ہے.
روزانہ توجہ سے ترجمہ کے ساتھ تین آیات پڑھ کر ان پر دن بھر غور کرتے رہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ان کے مطابق کیسے کرنا ہے.
زندگی کی کامیابی کی یہی ضمانت ہے مثلاً زمین جو ہمیں غلہ دینے کے لیے اللہ نے بچھائی ہے
غلہ ہر کسی کی ضرورت ہے
اس لئے زمین سے غلہ اور خوراک حاصل کرنا آسان ہے
تیل بھی اسی زمین سے نکلتا ہے
اس کی ضرورت خوراک کی طرح نہیں ہے اس لیے اس پر مشقت اٹھتی ہے
قرآن کی جس ہدایت کی ضرورت ہر کسی کو ہے اس کا حصول آسان ہے
مشقت اجتہاد سے متعلق ہے
جیسے ڈاکٹر کا نسخہ زبانی یاد کرنے سے صحت نہیں ہوتی
اور ڈرائیونگ گائیڈ پڑھنے سے کوئی ڈرائیور نہیں ہو جاتا
اسی طرح صرف قرآن کی تلاوت سے زندگی نہیں بدلتی
اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے
اور عمل کرنے کے لیے اسے سمجھنا ضروری ہے اور
سمجھنے کے لیے اسے پڑھنے کا حکم ہے.
اس پر ثواب
یہ اللہ کا دائرہ کار ہے
جہاں حدیث میں ثواب کی بات ہے وہاں یہ بھی ہے کہ
ایک بندہ تلاوت کرتا ہے اور
قرآن اس پر لعنت بھیجتا ہے.
قرآن کی لعنت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ
اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں.۔۔
Copied

24/04/2024

اللہ کی صحبت۔۔
بندگی اللہ کے سامنے ٹوٹل سرینڈر اور سبمیشن کو کہتے ہیں۔ نماز اِس سرینڈر کی تربیت ہے اور نماز کی رُوح کو اپنے ذاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی معاملات سمیت زندگی کے ہر گوشے میں قائم کرنا ٹوٹل سرینڈر ہے۔
دوسرے الفاظ میں ایک نماز سے دوسری نماز کے وقفے کے درمیان بھی حالتِ نماز کا قیام بندگی ہے۔
یعنی اپنے سماجی، معاشی، انفرادی، سیاسی اور ذاتی معاملات میں اللہ کے سامنے نماز جیسی حاضری کا احساس وہ ٹوٹل سرینڈر ہے جِس کا مجھ سے مطالبہ ہے۔
اللہ کے مقصد کو جاننے کی تڑپ کو نیک جُستجو تو کہا جا سکتا ہے یہ جُستجُو انفرادی طور پر میرے لیے فائدہ مند بھی ہوگی لیکن اللہ کی جتنی معرفت میرے دور کی تقدیر نے طے کر دی ہے وہ مجھ سے کیے گئے مُطالبے کو پُورا کرنے سے ہی حاصل ہوگی۔
یعنی میرا حقیقی مقصد اللہ کا مجھ سے کیا گیا سادہ سا مُطالبہ پُورا کرنا ہونا چاہیے جو نماز پڑھنے سے شُروع ہوگا اور نماز کے قیام پر ختم ہوگا۔
یہ طے ہے کہ نماز پڑھے بغیر یہ قائم نہیں ہوتی،
جیسے فوجی جب تک فوج میں رہتا ہے اُسکی تربیتی مشقیں جاری رہتی ہیں ایسے ہی بندگی کے مستقل قیام کے لیے نماز لازمی ٹریننگ ہے جو ہر ایسے مسلمان کو بھی جاری رکھنی چاہیے جو سمجھتا ہے کہ وہ دین کی روح حاصل کر چکا، کیونکہ اللہ سے رابطے کا تسلسُل ہر امکانی غلطی سے روک دے گا۔
تبھی تو اسلام کا دعوٰی ہے کہ نماز برائی سے روک دے گی۔
اللہ کی مستقل صحبت میں رہتا کوئی بندہ جانتے بُوجھتے برائی کی طرف راغب ہو بھی کیسے سکتا یے۔
میں نماز کو اللہ کی صحبت ہی سمجھتا ہوں۔ چلتے پھرتے، سواری پر مسجد میں دفتر میں گھر پر، دوستوں اور دشمنوں کے درمیان اہتمام کے ساتھ اللہ کی صحبت اختیار کیا کیجیے، یہ کیا ہی خوب صحبت ہے۔۔۔
Copied

24/04/2024

اُصولی طور پر تو کائناتوں کے خالِق و مالک کی جانب سے قُرآن میں بار بار کروائی گئی یہ منادی ہی ہر مومن کو صابر بنانے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی کہ صبر کا اجر ضائع نہ کرنے کا اللہ کا وعدہ پُورا بھی ہو گا اور صبر اللہ کو دیا ایک ایسا اُدھار بھی ہے جو اللہ کی خوشنودی سے ملٹی پلائی ہو کر مومن کو ریٹرن دے گا، گویا صبر دنیا کی سب سے منافع بخش انویسمینٹ ہے۔ ایک ایسی انویسٹمینٹ جو اس دنیا میں بھی بے پناہ نفع دیتی ہے آخرت میں تو دے گی ہی۔ لیکن کیا کیجیے،
ہم میں سے اکثر کا دعوی ایمان بس زبانی کلامی ہی ہو گا، تبھی بیشتر لوگ سامنے کھڑے خوف اور غم پر بظاہر اندیکھے خالِق سے زیادہ بھروسہ کریں گے۔
کیا ہی خُوب ہیں وہ لوگ جو غم اور خوف کی بجائے ان کے بھی خالِق کے بھروسے صابِر ہونا چُنیں۔
صابر بننا بس اللہ پر ایمان لانے جتنا مُشکل ہے۔
اللہ مجھے معاف کرے لیکن میں تو سمجھتا ہوں کہ ایمان کا ثبوت ہی خوشحالی و تنگ دستی، صحت اور بیماری اور ہر قسمی حالات سے قطع نظر حق، بھلائی اور احسان کی تڑپ پر ڈٹے رہنا یعنی صبر ہے۔
جس میں صبر کی کمی ہو وہ اپنے ایمان پر ضرور شک کرے۔
ذرا دیکھیے تو اللہ کا وعدہ۔

وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.

''اور ثابت قدم رہو، اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔۔

Copied

24/04/2024

آپ کو عہدے اور رُتبے میں اپنے سے کچھ بڑے آدمی سے بھی بات چیت کے لیے آنا ہو تو آپ ضرور بات چیت کا فریم ورک تیار کر کے آئیں گے پھر اللہ سے بات چیت اور ملاقات کو ایسے عامیانہ انداز میں کیوں لیتے ہیں جبکہ اللہ نہ صرف آپ اور کائنات کا لاشریک مالک ہے بلکہ اُس روزِ جزا کا بھی مالک ہے جب ہماری اگلی زندگی کی نوعیت طے کی جائے گی۔
کسی کا دل و دماغ نماز کے اللہ سے ملاقات ہونے پر ایمان لے آئے اور پھر وہ اس ملاقات کے شایانِ شان اہتمام کے بعد تہجد کے دو نفل ادا کرے تو ممکن ہی نہیں کہ اسے کائنات کی توانائیاں اپنی رگوں میں دوڑتی محسوس نہ ہوں۔
کیا کیجیے ہم میں سے اکثر خُود کو یقین ہی نہیں دلا پاتے کہ نماز خالِق سے آمنے سامنے ملاقات ہے۔
تبھی ہماری نمازیں ہمیں بس اُتنا ہی فائدہ دے پاتی ہیں جتنا فائدہ باقائدگی سے کی گئی ہلکی ورزِش سے ممکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ولی اللہ بننے کے لیے بس دو نفل درکار ہیں۔۔۔

Copied

19/04/2024

ایک شخص روزانہ سائیکل پر ایک ہی راستے سے دن میں کئی بار گُزرتا ہو پھر کسی اندھیری رات میں اُسے اُسی راستے سے گُزرنا ہو تو راستے کی ہر چھوٹی بڑی رُکاوٹ کی تفصیلات اُسکے لاشعور میں نقش ہونے کے باعث وہ اندھیرے کے باوجُود آسانی سے اُس راستے پر سفر کر لے گا۔
پانچ وقت نماز کی فرضیّت بھی درحقیقت نمازی کے لاشعُور میں اسلام کا بُنیادی مُطالبہ نقش کرنے کی کوشش ہے تاکہ مومِن کے روزمرّہ کے معاملاتِ زندگی میں نماز کی تربیت ویسے ہی ظاہر ہو جیسی تربیّت نے سائکل سوار کو اندھیرے کے سفر میں مدد دی۔
یعنی نماز پڑھنا اُسے زندگی میں قائم کرنے کی تربیّت ہے، نماز زندگی میں قائم نہ کی جائے تو ایسی نماز دکھاوے کی ہے۔
جیسے عمل سے اللہ کو بڑا نہ کیا تو زبان سے پڑھا گیا کلمہ بے معنی ہے۔ جیسےاپنے دسترخوان میں ضرورت مندوں کو شریک کرنے کی ضرورت کا احساس پیدا نہ ہُوا تو روضے کی بھوک پیاس بے مقصد ہے۔
اللہ کو اپنے بندوں سے ہر اسلامی عقیدے کا عملی ثبُوت اور ہر عبادت کا عمل سے اظہار مطلُوب ہے۔
سورۂ الماعون اس تصوّر کو کھول کر بیان کرتی ہے تاکہ اسلام کو بھی کوئی دیگر مذاھب کی طرح پُوجاپاٹ چِلّوں اور جامد و ساکت مخصُوص عبادات والا غیر فطری دین نہ سمجھ لے۔
اِس سُورۃ میں اللہ ایسے لوگوں کی نماز کو دکھاوے کی, یعنی بے مقصد قرار دیتا ہے, جو ایسا نظام زندگی وضع نہیں کرتے جس میں نہ یتیم کو دھکے ملیں, نہ مسکین کھانے کو ترسے اور نہ لوگ عام استعمال کی چیزوں کو ترسیں ۔
یعنی کسی کے گردوپیش میں اگر ضرورت مند بُنیادی ضروریات کو ترستے ہیں تو درحقیقت وہاں کے نمازی عملی طور پر روزِ جزا کے انکاری ہیں۔
یعنی اللہ کو پڑھی گئی نمازوں میں سے وہی قبُول ہے جو نمازی کے اعمال میں مُنعکس ہو۔
سادہ الفاظ میں کہُوں تو اللہ کو اپنے بندوں سے ہر وقت حالتِ نماز کا تسلسُل چاہیے۔
یعنی لین دین، سیاسی ، سماجی، کاروباری ، معاشی فیصلوں اور دیگر تمام معاملات میں بندے کو اللہ کے مطالبے کا ویسے ہی خیال رہے جیسے نماز کی حالت میں بندہ اللہ کو سامنے محسُوس کر کے ایک مخصُوص رویّہ اور پوسچر اپنائے رکھتا ہے۔
اللہ قُرآن میں دعوٰی کرتا ہے کہ نماز بُرائی سے دُور کر دے گی۔
اس کا سادہ سا مطلب یہی ہے کہ نماز اگر دل سے اور متواتر پڑھی جائے تو یہ ہمارے لاشعُور میں اللہ کے بُنیادی مطالبات راسخ کر دے گی اور ہم اپنے لاشعور کے زیرِ اثر اپنے اعمال میں پاکیزگی مُنعکس ہوتے دیکھیں گے۔
یہی معاملہ روزے اور دیگر عبادات کا ہے۔
تمام عبادات کا تسلسُل لاشعُور پر اپنے اپنے مخصوص نقُوش چھوڑتی ہیں جو ہمارے اعمال کو وہ خاص سمت دیتے ہیں جو ایک پاکیزہ سماج کی ضرورت ہُوں۔
اب آپکے ذہن میں سوال اُٹھے گا کہ ہمارے گلی محلّے کی مسجدیں تو نمازیوں روضے داروں اور عبادت گزاروں سے بھری رہتی ہیں پھر اُنکی عبادات سے معاشرے میں انقلاب کیوں نہیں آتا۔
دیکھیے ایک مزدور زیادہ محنت کرتا ہے یا جِم میں روزانہ ایک گھنٹہ وقت لگانے والا ایک باڈی بِلڈر۔ یقیناََ ایک مزدور زیادہ محنت کرتا ہے لیکن باڈی بِلڈر کا جسم خوبصورت بھی ہوجاتا ہے مضبوط بھی۔
یہ مثال ایک سادہ سا اُصول سمجھاتی ہے کہ قائدے قانون سمجھداری اور ترتیب سے کی گئی محنت زیادہ اثر دکھاتی ہے۔
اسلام کا پہلا قائدہ اور قانون اخلاص ہے جو اسلام کو اسکے مقصد کے تناظُر میں سمجھے بغیر حاصل ہو ہی نہیں سکتا اور اخلاص کے بغیر نماز روضہ مزدوری ہے جسکے سماجی اثرات مُرتب نہیں ہونگے۔
اخلاص پر الگ سے تفصیلی بات کرنا ضروری ہے لیکِن یہ طے ہے کہ اخلاص اپنےاور اپنے خالِق کے مقصد میں مماثلت پیدا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔۔۔
Copied

18/04/2024

فرض کیجئے آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں اور کوئی آپ کو دھکا دے دیتا ہے، تو کیا ہوتا ہے۔ آپ کے کپ سے چائے چھلک جاتی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کپ سے چائے کیوں چھلکی تو آپ کا جواب ہوگا کیونکہ فلاں نے مجھے دھکا دیا
غلط جواب
درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لئے چھلکی۔ آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے
اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔ آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے
تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا
صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار
یا
غصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت
چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے
فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے۔۔۔!!

Address

Multan

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zee Kay Studio posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share