25/08/2023
آیت اللہ محمد حسین النجفی کو مخالف ملے تو انتہائی کم ظرف ملے۔
علامہ صاحب جب نجف اشرف سے فارغ التحصیل ہوکر وطن واپس لوٹے تو انہوں نے شیعہ قوم میں بدعات اور شرک پر مبنی روایات کے خلاف زبان و قلم سے احتجاج اور جہاد کا آغاز کردیا۔ اسی دوران اہلسنت کے ایک چوٹی کے عالم دین علامہ کرم الدین نے کتاب آفتابِ ہدایت لکھ کر ملتِ تشیع کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بڑے بڑے شیعہ صاحبِ جبہ و دستار، کرم الدین صاحب کی قلم کے زور کے آگے بے بس ہوچکے تھے۔ ایسے میں شیعان علیؑ کو اس وقت تک پاکستان کی تاریخ کا پہلا مجتہد میسر آگیا اور انہوں نے اپنے قلم سے تجلیاتِ صداقت بجواب آفتابِ ہدایت لکھ کر کرم الدین صاحب کے قلم کو ہمیشہ کے لئے اس موضوع پر خاموش کردیا۔ بعد ازاں ایک سنی عالم دین پیر قمر الدین سیالوی صاحب نے مذہبِ شیعہ لکھ کر مناظرے کا چیلنج کر دیا، جس کے جواب میں علامہ صاحب نے تنزیہ الامامیہ لکھ کر ان کی قلم کو خاموش کروایا لیکن بعد ازاں پیر حمید الدین سیالوی صاحب نے ان کے جواب پر جواب الجواب پیش کیا لیکن یہ جواب بھی علامہ کے جوابی قلمی وار کے بعد خاموش ہوگیا۔
برادرانِ اہلسنت کے ساتھ ساتھ قبلہ نے ایک محاذ اپنے مورچے پر بھی کھول دیا اور شیعوں میں رائج بدعات کے خاتمے کے لئے انہوں اصلاح الرسوم کے نام سے کتاب لکھ دی۔ اس کتاب کے مارکیٹ میں آتے ہی ملتِ تشیع کی بہت بڑی تعداد ان کے خلاف ہوگئی۔ کل تک دوسروں کی غلطیاں دیکھانے والے نے جب اپنوں کو اصلاح کا مشورہ دیا تو اپنے جان کے دشمن بن گئے۔
قبلہ کی کتاب سعادت الدارین فی مقتل الحسین کربلا کی تاریخ پر لکھی جانے والی اردو کتب میں سب سے مستند کتاب جانی اور مانی جاتی ہے۔
علامہ صاحب کے مجتہد ہونے پر اُن کے مخالفین نے اعتراض اٹھائے تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ منصب اجتہاد نہ تو منصبِ نبوت ہے اور نہ ہی منصبِ امامت بلکہ یہ عام ڈگریوں مثلاً ڈاکٹری یا انجئنیرنگ کی ڈگری کی طرح ایک ڈگری ہے جو محنت کرتا ہے وہ اسے حاصل کرلیتا ہے۔
فقہ پر قبلہ نے اصول الشریعہ اور قوانین الشریعہ فی فقہ الجعفریہ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل ایک ضیغیم کتاب لکھ کر عالم اسلام کے اپنے ہم عصر مجتہدین میں ممتاز مقام حاصل کرلیا کیونکہ فقہ پر اس قدر مدلل انداز میں دیگر مجتہدان نے ایسی توضیح المسائل نہ لکھی تھی۔
تفیسر پر قبلہ نے دس جلدوں پر مشتمل کتاب فیضان الرحمٰن فی تفسیر القرآن لکھی۔ حبکہ حدیث کی مشہور کتاب مسائل الشیعہ کا ٢٠ جلدوں پر مشتمل اردو ترجمہ وسائل الشیعہ بھی انہی کے قلم کے مرہونِ منت ہے۔
فلسفے کے موضوع پر قبلہ کی کتاب احسن الفوائد فی شرح العقائد پڑھنے لائق ہے، اس قدر زورِ قلم ان کے ہم عصر علماء میں نہیں تھا جو انہوں نے اپنی تصانیف میں واضح کیا۔
قبلہ کے مخالفین کا عالم یہ تھا کہ ان کی کسی کتاب کا بھی جواب اُن سے نہ بن پایا، اہلسنت حضرات نے قبلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ماسوائے چند تکفیروں کے، کہ جن کا مقصد نفرت کی ترویج کے سوا کچھ نہ ہے۔
جبکہ شیعان کا عالم یہ تھا کہ خود کو شیعہ کہنے والوں میں اتنی سکت تو نہ تھی کہ ان کی کتابوں کا رد کرسکتے یا جواب دے پاتے، البتہ گالیاں دینے میں کمال مہارت رکھتے تھے سو مسلسل عریاں اور فحش گالیاں دی جانے لگیں۔
منبروں سے مسلسل قبلہ کو ماں کی گالیاں دی گئیں۔ مجھے بچپن کا واقعہ یاد ہے کہ میں غالباً ششم جماعت کاطالبِ علم تھا کہ گھر کے ساتھ والے امام بار گاہ میں ایک معروف ذاکر نے مجلس کا اہتمام کیا ہوا تھا، حاضرین کی تعداد ہزاروں میں تھی کہ ایک شخص مجمع سے بار بار کھڑا ہوتا اور نام لے کر قبلہ پر شاعران انداز میں گالیاں بکتا اور ہر بار ماں کی گالی دیتا۔ مجھے تکیلف ہوئی تو اٹھ کر گھر چلا گیا اور اماں جی(زوجہ قبلہ صاحب) کو ساری روداد سنا دی، کہ اتنے میں علامہ صاحب بھی سیڑھیوں سے نیچے اترے اور اترتے ہی پوچھا کہ "ہاں وائی! تُہن کے ہوگیا اے"
ہاں بھئی! تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟
اماں جی نے جواب دیا
"اُتھے تہانوں گالاں کڈھ رہے نیں"
ادھر آپ کو گالیاں دی جارہی ہیں۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہیں، میں نے اپنی کم سنی کی وجہ سے وہ الفاظ بھی بتا دئیے جو بولے جارہے تھے۔ جس پر قبلہ نے فرمایا کہ "جب کتا کاٹے یا بھونکے تو اُسے جواباً کاٹا یا بھونکا نہیں جاتا۔"
قبلہ کے خلاف بہت سی کتابیں لکھی گئیں منبروں پر دشنام طرازی کی گئی لیکن یہ مردِ قلندر چٹان کی طرح اپنے نظریات پر قائم رہا، یہاں تک کہ ایک کتاب میں قبلہ کی بیٹیوں کا نام لکھ کر انہیں گالی دی گئی۔ یہ وہ مخالفت تھی کہ مخالف سے جواب نہ بن پایا تو ماں اور بیٹیوں کی گالیاں دینے پر اتر آئے۔
جب تجلیاتِ صداقت چھپی تو حق نواز جھنگوی نے سرگودھا میں خطاب کیا اور اس دوران لوگوں کو اشتعال دلایا کہ "یا تو اس بندے کو قتل کردو یا پھر اس کے کتب خانے کو آگ لگا دو،" کہا جاتا ہے کہ ہجوم مشتعل ہوگیا اور ہمارے گھر کو آگ لگائی گئی جس سے کتب خانہ جل گیا۔ حق نواز جتنا بھی مخالف تھا، غیر تھا، قاتل تھا لیکن اس نے مخالف کی بیٹیوں کا نام لکھ کر مخالف کی بیٹیوں کو گالی دینی والی حرکت نہ کی تھی، یہ حرکت جو قبلہ کے مخالف مذہب کے لوگوں نے نہ کی، قبلہ کے ہم مذہب ہونے کے دعویدار تعصب، جہالت اور نفرت کی آگ میں بھسم ہو کر کرگئے۔
میرے علم کے مطابق قبلہ کے قتل کے منصوبے دو دفع بنائے گئے ایک تو مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن کا واقع ہے جب قبلہ پنجاب کے کسی ضلع میں مجلس پڑھنے گئے ہوئے تھے تو وہاں اُن پر فائرنگ کردی گئی، جوابی فائرنگ بھی ہوئی اور ایک جوان گولی لگنے سے زخمی بھی ہوا، جس کا الزام قبلہ پر عائد کیا گیا، لیکن خوش بختی تھی کہ وہ بچ گیا اور اس نے حقیقت بتا دی کہ اس پر گولی خود اس کے لوگوں نے چلائی تاکہ قبلہ پر الزام دیا جاسکے۔
اسی طرح ایک واقعہ 1979 کے اسلام آباد کے عظیم لونگ مارچ کا ہے کہ جہاں ضیاء الحق سے مطالبات منوانے کے احتجاج کے بہانے اندر خانے کچھ لوگوں نے سازش تیار کی کہ قبلہ کو کسی طرح اس اجتماع میں شہید کردیا جائے، تاکہ اُن کی اسی بہانے قبلہ سے جان چھوٹ جائے، لیکن اس سازش کا علم اس وقت کے قائدِ ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین رح کو ہوگیا انہوں نے فی الفور قبلہ کو اپنی بصیرت کی بدولت اجتماع سے باہر نکلوا لیا۔ نفرت پر مبنی یہ دونوں اقدام بھی قبلہ کے اپنے ہی ہم مذہب ہونے کے دعویداروں نے کئے۔
اس نفرت کی سب سے بڑی وجہ وہ دکان داری تھی جو قبلہ کے جہاد بالقلم کی بدولت ماندہ پڑ گئی، تاجرانِ خون حسینؑ کا کاروبار بند کرنے والا میدان میں آگیا اور جہلاء سے منبر چھین کر واپس لیا، اب ان کے پاس قبلہ کا حوصلہ پست کرنے کا آخری حربہ گالم گلوچ تھا لیکن وہ اپنے اس فعلِ قبیح کے ذریعے بھی اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
تجلیاتِ صداقت ہو یا تنزیہ الامامیہ قبلہ نے مخالف مذہب سے نفرت کا درس نہ دیا یہ فقط مناظرے کی کتب کے جوابات تھے۔ قبلہ نے ہمیشہ اتحاد بین المسلیمن کا نعرہ بلند کیا، یہی وجہ تھی کہ قبلہ کی مجالس میں تشیع کے ساتھ ساتھ اہلسنت مسلک کے لوگ بھی برابر شریک ہوتے تھے اور ہمیشہ انہیں عزت و احترام دیا کرتے تھے، لیکن افسوس جن کی اصلاح کے لئے قبلہ نے جہدِ مسلسل کی اُن میں سے بہت سوں کی جانب سے اس مزدوری کی اجرت میں گالیاں فراہم کی گئی۔
اب صدیاں گزر جائیں گی لیکن کوئی اور آیت اللہ محمد حسین النجفی نہیں آئے گا۔
نذرانہِ عقیدت: محمد علی نقی ایڈووکیٹ