02/12/2025
آج جن بچوں کی ضمانت منظور ہوئی ہے ان کی ہتھکڑیاں کھلنے کے بعد انھیں پولیس والے CRO کے لئے لے گئے تھے جہاں ان کے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان لئے گئے اور تصویریں بنائی گئیں
وہ نرم نرم انگلیاں، جو کتابوں کے صفحے پلٹنے کے لئے بنی ہیں، آج وہی انگلیاں مجرموں کے ڈیٹا بیس پر اپنے نشان چھوڑ آئی ہیں
ان کے فنگر پرنٹس اُسی خانے میں محفوظ کر لئے گئے جہاں برسوں سے بدترین مجرموں کے نام دفن ہیں. ان کے چہرے اسی کیمرے نے قید کر لئے جس کے فریم نے بیگناہی پہچاننا سیکھا ہی نہیں.
تصویریں بنا دی گئیں، انگلیوں کے نشان محفوظ کر لئے گئے. ایک ایسا کریمنل ریکارڈ جو اب سوالیہ نشان کے طور پر ان کے نام کے آگے ہمیشہ کے لئے کُندہ ہو چکا ہے
آج وہ چھوٹے چھوٹے قدم واپسی پر جب گھر کی طرف بڑھ رہے تھے تو ان میں اعتماد نہیں تھا. وہ ہر کسی کے منہ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھتے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں "انکل آپ بھی ہمیں مجرم تو نہیں سمجھ رہے؟" انکل ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم اتنا بڑا جرم کرکے جا رہے ہیں کہ ہمیں منشیات فروشوں اور ڈاکوؤں کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں جڑی ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جائے گا"
آج یہ قدم لڑکھڑا رہے تھے. مجھ سے ان بچوں کی آنکھوں میں دیکھا نہیں جا رہا تھا. یہ ننھے دل ان چوبیس گھنٹوں کے دُکھ کو ساری زندگی نہیں بھلا پائیں گے.
یہ ایف آئی آر انصاف کے کاغذ پر لکھا وہ دکھ ہے جس پر ان بچوں کی زندگی کی سب سے پہلی سزا تحریر ہو چکی ہے.
حضور والا...!
آپ کا اقبال بلند رہے..
آپ کے مزاج میں جو آئے، کرتے رہیں
ہم اپنے دُکھوں کے ساتھ جینا سیکھتے جا رہے ہیں
عثمان کریم بھٹہ ایڈووکیٹ کی وال سے یہ تحریر کاپی کی گئی ہے