
13/06/2025
یہ جلا ہوا لاش ایک گریڈ 22 کے افسر کی ہے۔
یہ واقعہ ہر انسان کو لازمی پڑھنا چاہیے۔
وہ خود ایک اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری افسر تھا۔
اس کے تین بیٹے تھے، جو سونے کے چمچ سے پالے گئے اور بادشاہوں جیسی زندگی گزارتے رہے۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا اور اُس افسر کے نام کے ساتھ “ریٹائرڈ” لکھا جانے لگا۔
عہدہ ختم ہوا، بادشاہی کم ہو گئی، اور زندگی کے آخری تنہائی کے دور میں داخل ہو گیا۔
جب اس کے پاس نوکری تھی تو بیٹے اُس کے عہدے سے خوب فائدہ اٹھاتے تھے۔
کہتے تھے: ’’ہمیں کسی چیز کی فکر نہیں، ہمارا والد گریڈ 22 کا افسر ہے، ہمارے کام خودبخود ہو جاتے ہیں۔‘‘
اور حقیقتاً اُن کے سارے کام ایک فون کال پر مکمل ہو جایا کرتے تھے۔
لیکن پھر وہ دن بھی آ گیا۔۔۔
جب بیٹے یہ بھول گئے کہ یہی وہی باپ ہے
جس کے نام اور عہدے کی وجہ سے لوگ انہیں "سر" کہہ کر پکارتے تھے۔
باپ کسی بیماری کے باعث چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا، بولنے کی طاقت بھی ختم ہو گئی۔
بیٹے کہنے لگے کہ اب تو والد کی کمزوری ہمارے لیے عذاب بن گئی ہے۔
ایک بیٹے نے کہا، ’’آؤ والد کی جائیداد تقسیم کر لیتے ہیں، پتا نہیں کب مر جائے۔‘‘
اب تو شرم آتی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ یہ معذور ہمارا باپ ہے۔
جب دوست آتے ہیں تو یہ مریض سامنے پڑا ہوتا ہے۔
بیس ہزار روپے ماہانہ پر ایک نوکر رکھا گیا جو ان کے بوڑھے والد کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
گھر کے ایک کمرے میں فرش پر ایک گدا ڈال کر اس پر باپ کو لٹا دیا گیا۔
اسی کمرے میں اُس کے کپڑے اور دوائیاں بھی رکھ دی گئیں۔
نوکر سے کہا گیا کہ اچھی طرح خیال رکھنا، ہمیں کوئی شکایت نہیں ملنی چاہیے۔
بیٹوں کی شادیاں ہو گئیں۔
باپ پوری دنیا سے کٹ کر ایک کمرے میں قید ہو چکا تھا۔
کبھی اس کے پیچھے نوکروں اور ملازموں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں،
لوگوں کو اُس سے ملنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
اور آج وہی 22 گریڈ کا افسر تنہا کمرے میں موت کا انتظار کر رہا تھا۔
تینوں بیٹے بیرونِ ملک چلے گئے۔
ایک فرانس میں چھٹیاں منانے گیا،
دوسرا لندن،
اور تیسرا پیرس۔
اور ہر جگہ انہوں نے اپنا تعارف 22 گریڈ کے افسر کے بیٹے کے طور پر کروایا،
کیونکہ ان کی ساری پہچان ان کے افسر والد سے جڑی ہوئی تھی۔
نوکر سے کہا: ’’ہم تین مہینے بعد واپس آئیں گے، والد کا خیال رکھنا، وقت پر کھانا دینا۔‘‘
’’جی، سائیں!‘‘ نوکر نے کہا۔
سب چلے گئے، اور وہ بوڑھا باپ کمرے میں اکیلا پڑا رہا،
نہ چل س