16/04/2021
تحریر۔۔صہیب سلیم رومی دیر تیمرگرہ۔۔۔۔۔
سیکھنے والا یعنی طالب علم، سکھانے والا یعنی استاد یا مدرس اور تدریسی مواد یعنی نصاب کے باہمی تعامل کو نظام تعلیم کہا جاتا ہے۔ ان تینوں میں سے ایک بھی معدوم ہو تو نظام تعلیم لایعنی ترکیب بن جاتی ہے، ان میں سے ایک بھی کمزرو اور ناقص ہو تو مطلوبہ مقاصد کا حصول مشکل ہو گا اور ثمرات غیر معیاری اور ناقص۔ خود آموزی یا Self Teaching ایک طریقہ تدریس و تعلیم ضرور ہے۔ تاہم استاد کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
شاگرد اور استاد دونوں موجود ہوں لیکن کیا سیکھا جائے اور کیا سکھایا جائے؟ اس بات کا درست تعین نہ ہو تو سکے سب کچھ بے مقصد رہ جاتا ہیں۔ نصاب کا تعین کون کرے گا؟ کس معیار پہ کرے گا؟ نصاب کے تعین میں طالب علم اور استاد کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اور نصابی تعین کے اداروں ٹیکسٹ بک بورڈ کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات کسی بھی سماج میں تعلیمی کلچر کے لئے انتہائی اہم سوالات ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستانی اکیڈیمک دنیا میں درخور اعتناء ہی نہیں سمجھے جاتے۔ طالب علم کو کبھی بھی نصاب سازی کے پراسس میں نہ شامل کیا گیا نہ اس کی ذہنی معیار کو پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ پرائمری سے یونیورسٹی تک سفر کے دوران کسی بھی موڑ پر پاکستانی طالب علم کو بمشکل ہی علم ہوتا ہو گا کہ اس کے تعلیمی انہضام کیلئے درکار غذا کب کہاں اور کون تیار کرتا ہے۔
پاکستانی نصاب سے متعلق چند بنیادی سوالات:
استاد ایک تربیتی نظام سے نکل کر استاد بنتا ہے مگر ان اساتذہ کی تربیت کونسا ادارہ کہاں کرتا ہے؟ کیا استاد متعلقہ نصاب کیلئے مطلوبہ ٹریننگ کا حامل ہے؟ کیا استاد اپنے شاگردوں کی ذہنی اپروچ، کلچرل بیک گراؤنڈ اور دماغی ساخت و کیمسٹری سے واقف ہے؟ نصاب سازی کے ادارے یا ٹیکسٹ بک بورڈ میں بیٹھی خلائی مخلوق کو کبھی طالب علم و استاد کی ذہنی استعداد اور ثقافتی پس منظر کا ادراک ہوا؟ کیا نصاب سازی کے ذمہ داروں نے کبھی میدان میں آ کر طلاب کی فکری مشکلات سمجھنے کی زحمت کی ہے؟ نفیس اور well furnished بند کمروں میں ٹیکس دہندگان کے ٹیکسز سے لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات پانے والے ٹیکسٹ بک بورڈز افسران کو کبھی یہ خیال تک آیا ہے کہ اکیڈیمک کورس طالب علم کی ثقافت، تہذیب اور مقامی ذہنی فضا کے مطابق تیار ہونا چاہئے؟ کائنات کے کسی سرے سے کوئی ایک انجانے کلچر اور روایات کی تحریر قرعہ کے طور پر اٹھائی اور یہاں اس تحریر کے کلچرل اور نفسیاتی اسرار و رموز سے ناآشنا طالب علم اور استاد پر مسلط کر دی!
کریکولم(Curriculum) یا نصاب لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے رن وے(Runway)۔یعنی فکری، پیشہ ورانہ سفر کیلئے اڑان کی راہ، کسی منزل کے لئے راستہ۔ اگر اپ کا مقصد کراچی جانا ہے تو کراچی کا راستہ آپ کے لئے نصاب کا کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کو اس راستے کے ہر موڑ، سنگ میل، رکاوٹوں، راستے میں ریفریشمنٹ کے مقامات کا پوری طرح ادراک ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح کسی بھی نظام تعلیم کو منزل کا رخ اور راستہ دینا نصاب کا کام ہے۔ جو طالب علم کمیونٹی جس منزل مقصود کی حصول چاہتے ہیں ان کیلئے اسی طرح کا نصاب انہیں کے معیار کی بنیاد پر بننا چاہیے۔
پاکستانی نظام تعلیم میں رکھے گئے اکثر نصابی مواد میں مندرجہ بالا شرائط اور سوالات سے بےنیازی جھلکتی ہے (اور یہ ایک غیر سیاسی جملہ ہے)۔ اکثر اسباق یورپ کے ان مصنفین کے ہیں جن کا ہمارے ثقافتی و نفسیاتی ماحول سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہاں کا طالب علم ان کا درست ادارک کر ہی نہیں سکتا۔
نصاب کا ایک پہلو تازگی اور جدت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ لٹریچر، فلسفہ و تاريخ میں کلاسیکس بے مثال اہمیت کے حامل ہیں مگر کیا جدید ادب و فلسفہ میں قابل تدریس و مطالعہ کچھ بھی نہیں؟ سائنسی دنیا کی تو وجود ہی جدید تحقیقات پر ہے۔ کیا مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ بطور طالب علم جو کچھ سائنس کے نام پڑھ رہا ہوں وہ کتنا جدید اور تازہ ہے؟ یہ پڑھنے کے بعد میری ذہنی ارتقاء کس حد تک ہو گی؟ مجھے ایسا مدرس میسر ہے جو اپڈیٹ ہو اور ان جدید ایجادات کی درست اور عام فہم تدریس کرسکے؟
فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی مثالیں کیوں دی جاتی ہیں؟:
فن لینڈ کی تعلیم کو دنیا کا بہترین تعلیمی نظام گردانا جاتا ہے، ان کا نصاب جدید دور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ اگر اس کا موازنہ پاکستانی نصاب کے ساتھ کیا جائے تو وہی تعلق پایا جائے گا جو زمین اور آسمان، دن اور رات اور سفیدو سیاہ کا ہے۔ وہاں نصاب عوامی رائے سے بنایا جاتا ہے جس کے لئے انہیں وزارت تعلیم، ماہرین تعلیم ،اساتذہ، والدین، پارلیمینٹ اور حتی کہ طلبہ سے بھی رائے طلب کرنی ہوتی ہے تاکہ عوامی نفسیاتی معیار کے مطابق ذہنی غذا تیار کی جا سکے۔ وہاں علم کی جستجو دی جاتی ہے۔
فن لینڈ کے نصاب میں زیادہ تر چیزیں عملی طور پر (Practically) سکھائی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نصاب میں سافٹ سکلز (Soft Skills) یعنی کمیونیکیشن (Communication) ،کیرئیر بلڈنگ (Career Building) سماجی معاملات (Social Skills), ایموشنل انٹیلیجنس (Emotional Intelligence) سوشل انٹیلیجنس (Social Intelligence) ،پرسنالیٹی ٹریٹس (Personality Traits) ،مائنڈ سٹ (Mindset) وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ (پاکستان میں طالب علم کیا نصاب ساز اور اساتذہ بھی ان کے نام تک سے نا آشنا ہیں) آنے والے زمانے میں کسی کو ڈگریوں پر نہیں بلکہ انہی سکلز کے بنیاد پر پرکھا جائے گا۔
فن لینڈ کے نصاب کا مثال دیا تو ایک اور نکتہ یاد آیا۔ وہاں پرابلم سالونگ (Problem Solving) ایک الگ کلاس ہوتی ہے جس میں ان کو زندگی میں آنے والے چیلینجز کا سامنا اور ان سے لڑنا سکھایا جاتا ہے تاکہ اکیڈیمک فضا سے نکل کر سخت زمینی حقائق کی دنیا سے تعارف طالب علم کو ذہنی دھچکا نہ دیں۔ کیا پاکستانی نظام میں ایسا کوئی بھی انتظام کیا جا رہا ہے؟
ہمارا نصاب بہت بوڑھا ہو چکا ہے:
ہمارے نصاب کا مجھے اور نہ ہی کسی اور طالب علم کو علم ہے کہ تیار کون کرتا ہے، کس کو اپنی رائے پہنچائی جائے۔ یہاں دماغوں کو رٹوایا جاتا ہے۔ نوخیز ذہنوں کو خوب تیار کرنے well prepared کے بجائے خوب بھر (Well filled) دیا جاتا ہے اور تخلیقی انسان کی بجائے یوں کہئیں کہ یہاں صرف میکانیکل روبوٹس (Mechanical Robots) بنائے جاتے ہیں جو دوحرف پڑھنے کے علاوہ کسی کام کے نہ ہو۔
یہاں عملی کام دس فیصد بھی نہیں ہوتا اور زبوں حالی یہاں تک ہے کہ سائنسی لیبارٹریوں کا سامان فرسودہ اور دقیانوسی ہونے کے ساتھ ساتھ عدم استعمال سے ایکسپائیر (Expire) ہو چکا ہے۔ اوپر فن لینڈ کی مثال دی تھی، سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ وہاں تخلیقی سوچنے کی صلاحیت کو بنایا اور بہتر کیا جاتا ہے کہ کس انداز میں نئے افکار کی تخلیق کرنی ہے جبکہ یہاں سوچی ہوئے سوچوں پر سوچنا سکھایا جاتا یے۔
ہمارے نصاب میں انگریزی لازمی مضمون ہے۔ باوجودیکہ انگریزی کو ہر کوئی چودہ سال پڑھتا ہے لیکن 99% طلباء کو بنیادی انگریزی درست نہیں آتی۔ مانتا ہوں، انگریزی جدید عالمی بول چال کی زبان ہے لیکن کیا انگریزی یا کوئی بھی زبان ایک کم عمر طالب علم کی کنٹکسٹ میں اس کی مادری زبان جیسا اثر رکھ سکتی ہے؟ انگریزی زبان، ماحول، روایات، ثقافتی تناظر، نفسیاتی بیک گراؤنڈ میں ہمارے مشرقی ذہن سے کوئی لگا نہیں کھاتی۔ بطور ایک مشرقی طالب علم انگریزی زبان کی روح میری روح سے مکمل مختلف ہے۔ کیا ایسے میں چودہ سال تک مجھ پر انگریزی بالجبر مسلط کرنا بربریت نہیں؟
انگریزی کو بطور زبان و ادب الگ مضمون پڑھنے کے باوجود ہمارا پورا نصاب انگریزی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ سال پڑھنے، کسی طرح رٹ رٹا کے فارغ ہونے اور جائز و ناجائز طریقے سے امتحان پاس کرنے کے بعد ہمارے ہاں ڈگری یافتہ جوانوں کے ریوڑ مارکیٹ میں آتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ شاید ایک فی صد بھی نہیں ہوتے! ہمارا نصاب بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو ضروریات اور تقاضے 2006 میں تھے ،پندرہ سال بعد وہ کتنے بدل گئے ہوں گے؟ یہ 2021 چل رہا ہے لہذا نصاب کی جدت ضروری ہے تاکہ اس کو جدید ضروریات اور جدید ترین تقاضوں پر استوار کیا جا سکے۔
تمام تعلیمی سفر کا ایک جبری ساتھی اسلامیات کا مضمون ہے۔ فطری طور پر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی تاہم بطور مسلمان اسلامی تعلیمات کی تدریس ہماری خانگی روایات کا لازمی حصہ ہے۔ سکول کالج میں انہیں تعلیمات کو دوبارہ پڑھانا سعی لاحاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 90% طلبہ اسلامیات کی کلاس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ مزید برآں اسلامی مطالعات کے نصاب کو اس سلیقے سے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کسی طالب علم کی بھرپور طریقے سے شخصیت سازی کرسکے۔ ظاہر ہے ایک کلاس اسلامیات کی لینے سے کوئی اسلام کو پورا نہیں سمجھ سکتا۔ اس میں جدید دور کے تقاضوں، طلبہ کی اخلاقیات اور سیرت اور کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے مفید شکل دینی چاہئے ورنہ تو یہ بس ایک گھنٹہ تقریبا ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
جدید علمی، تعلیمی اور فکری و نفسیاتی انقلابات کی دنیا میں میں پاکستانی ماہرین تعلیم، وزارت تعلیم اور دیگر سٹیک ہولڈرز کا قومی و اجتماعی فرض ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم کی مکمل تجدید و اصلاح کریں۔ ملکی سطح پر ایک کمیشن بنایا جائے جو تعلیمی دنیا کے زمینی حقائق کا براہ راست مشاہدہ و مطالعہ کرے۔ طالب علموں میں وقت گذار کر ان کا ذہنی و فکری معیار سمجھے۔ ترقی یافتہ دنیا میں نظام تعلیم پر کی گئی تحقیقات مطالعہ کر کے ان سے یہاں موجود نصابی دنیا کا موازنہ کرے اور ان سب تجربات، تجزیاتی مطالعے، اور طلباء کے ضروریات کے مطابق جامع و جدید نصاب سازی کی جائے۔