12/12/2024
میں نے کاکڑائی سکول کے بارے میں تین چار سال پہلے یہ تحریر رقم کی تھی
نوجوان نسل کی اگاہی کے لئے مکرر شئیر کر رہا ہوں
**********
انا طالب فی مدرستہ الکاکرائی ۔۔۔۔۔۱
کچھ عرصہ قبل کاکڑائی سے تعلق رکھنے والی دردمند شخصیت سے ملاقات ہوئی ۰ وہ ہائی سکول کاکڑائی کی زبوں حالی، خصوصاً نظم و ضبط کے فقدان اور تعلیمی انحطاط کے بارے میں فکر مند تھے۔ مادر علمی کا زوال یقیناً ہماری سستی لاپرواہی اور بے حسی کا عکاس ہے۔پچھلے دنوں دوبارہ ان صاحب کے نیاز حاصل ہوئے تو کہنے لگے ٰاللہ تعالی کا کرم ہوا کہ مذکورہ سکول ڈی گریڈ ہوتے ہوئے بچا اور اب صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہےـ۔ اس ترقی معکوس کے ہم سب اہل علاقہ ذمہ دار ہیںـ صاحب حیثیت لوگوں نے ہجرت کرلی اور اپنے بچوں کو شہر کے بہترین سکولوں میں داخل کرا لیاـ یقیناً یہ ان کا حق ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا بندوبست کریںـ لیکن وہ معہد علمی جہاں سے ہم سب نے اکتساب علم کی ابتدا کی اس کا بھی ہم سب پر حق ہے کہ اس کی ترقی کیلے کوشاں ہوںـ اس کے نام کو روشن کریں اور اس کا وقار بلند کریںـ ماضی بعید میں کاکڑائی کے باسی زیور تعلیم سے کم ہی آراستہ ہوئےـ ابتداً موضع کاکڑائی میں کوئی سکول/مدرسہ نہیں تھاـ ابتدائی مدرسہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات بھی حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹ تھیںـ۔ 1924 ء میں جب گاؤں چار ہان کے طالب علم راجہ کرم داد نے ایل ـ ایل ـ بی کی تو مقابلتاً کاکڑائی سے دو طالب علموں نے پہلی دفعہ مڈل جماعت پاس کی (یہ تفریق اب تک قا ئم ہے)۔ یہ طالب علم مرحوم خور شید ولد صوبیدار رحیم دار اور مرحوم ولی دار ولد امیر حان تھے۔ دونوں نے مڈل سکول ڈھانڈہ سے تعلیم حاصل کی ۔ لیکن پھر لمبے عرصہ تک تعلیمی جمود طاری رہا۔ آخر کار باڈیار کے ہونہار طالب علم فیض محمد مرحوم نے 1946 ۶ میں ڈھانڈہ ہی سے مڈل پاس کیا۔ یہ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد کا دور تھا۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ برطانوی فوج سے فارغ ہو چکے تھے۔ فوج میں رہ کر اور ہندوستان کے دوسرے حصوں کے لوگوں کے میل جول سے تعلیم کی قدرومنزلت سے کما حقہ آگاہ ہو چکے تھے۔ علاقے میں سکول قائم کرنے کی تحریک شروع ہوئی اور آخر کار ڈی۔ سی ( ڈسٹرکٹ کونسل) پرائمری سکول کاکڑائی معر ض وجود میں آیا۔ اب سکول کے لیے جگہ کا مسلۂ پیدا ہوا۔یہاں پھر باڈیار کی درد دل رکھنے والی شخصیت مولوی عبدالعزیز مرحوم نے اپنا گھر پیش کیا۔ کئی سال تک کاکڑائی ، باڈیار اور سیال ہوتر کے بچے ان کے گھر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ مزید تعلیم کے لیے بچوں کو ڈھانڈہ مڈل سکول کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ اُن دنوں قوم و قبیلہ کا تعصب عروج پر تھا۔ کاکڑائی کے طلبا کو ڈھانڈہ میں تعلیم جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ شام کو جب بچے گھر واپس آتے تو سفر کی تھکان کے علاوہ لمبی دوڑ بھی انہیں نڈھال کر دیتی جو آوارہ لڑکوں کی سنگ بازی سے بچنے کے لیے لگاتے۔خیر لڑکے بالے تو شرارت یا شغل کے طور پر چاند ماری کرتے لیکن والدین کا فکرو اندیشہ تب خوف میں تبدیل ہو جاتا جب انھیں پتا چلتا کہ کچھ متعصب لوگ بھی آوارہ لڑکوں کو ہلا شیری دیتے ہیں۔تب علاقہ کے معزز لوگوں کا ایک وفد ڈھانڈہ گیا جن میں صوبیدار گلاب مرحوم، صوبیدار یعقوب مرحوم، جمعدار شاہ میر مرحوم۔ لکھ میر خان مرحوم اور عبدل خان وغیرہ شامل تھے۔ ڈھانڈہ میں نمبر دار عبدا لغفور مرحوم کی گھر بیٹھک ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
تحریر محمد ناصر عباسی کاکڑاٸی تحصیل وضلع مری
نماٸندہ وفا نیوز حیدرعلی عباسی کاکڑاٸی مری