22/04/2025
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے امتحانی مرکز میں طالبات سے مبینہ طور پر پیسے لے کر موبائل جمع کرنا — ایک سنجیدہ سوال!
امتحان کے دوران نقل کو روکنا ایک جائز اور ضروری عمل ہے، لیکن کیا اس کی آڑ میں طالبات سے “موبائل جمع کرنے” کے نام پر پیسے لینا درست ہے؟
امتحانی مرکز “گورنمنٹ گرلز پوسٹ گریجوایٹ کالج، نئیر لری ایڈہ کوٹلی، سنٹر نمبر MIR-KO:21” میں یہ افسوسناک روایت بن چکی ہے کہ لڑکیوں سے 50 روپے لے کر ان کے موبائل فون جمع کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فون پیپر کے بعد واپس کیے جائیں گے، حالانکہ ہر بچی کے پاس اپنا بیگ ہوتا ہے جس میں فون بند حالت میں رکھا جا سکتا ہے سوال یہ ہے کہ:
جب فون بند ہو اور بیگ میں رکھا جائے، تو کیا نقل کا کوئی خطرہ باقی رہتا ہے؟
شاید نہیں!
لیکن نگران حضرات کو شاید اس بات سے مسئلہ ہے، کیونکہ اگر فون بیگ میں رکھنے کی اجازت مل جائے تو پیسے بٹورنے کا بہانہ ختم ہو جائے گا
مگر سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس قانون یا اصول کے تحت لی جا رہی ہے؟ کیا یہ بتہ خوری نہیں ہے؟
یاد رکھیں، موبائل فون کسی طالبہ کے لیے صرف نقل کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ضروری رابطے کا ذریعہ بھی ہے، خاص طور پر جب وہ کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ آئی ہو۔ اگر نقل کا خدشہ ہے تو نگران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فون کا استعمال نہ ہونے دے، نہ کہ اس بہانے سے پیسے بٹورے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماسٹر لیول اور بی ایڈ لیول کی طالبات سے نگران اور ایگزامنر کی طرف سے بدتمیزی، تضحیک آمیز رویہ، اور غیر ضروری دھمکیاں دی جا رہی ہیں
اگر کوئی طالبعلم نقل کرے، تو کارروائی صرف اسی پر ہونی چاہیے
تمام طلباء کو بلاوجہ خوفزدہ کرنا، بدسلوکی کرنا اور ان کی تضحیک کرنا بھی اخلاقی اور قانونی جرم ہے
موبائل فون، اگرچہ پیپر کے دوران استعمال نہ ہو، تب بھی اسے زبردستی جمع کرنا اور اس کے بدلے پیسے لینا سراسر غلط ہے
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:
• متعلقہ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی انتظامیہ اس عمل کا نوٹس لیں
• ایسے غیر قانونی اقدامات کے خلاف کارروائی کی جائے
• طالبات کے حقوق کا تحفظ کیا جائے
تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، یہ انصاف، اعتماد اور اصولوں کا بھی نام ہے۔ آئیں! اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے آواز اٹھائیں۔
_اوپن _یونیورسٹی
#کوٹلی