
03/10/2024
شادی ہال میں کھانے کی ٹیبل پر سب مل کر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں
گپیں لگاتے ہیں
اسی طرح
سینما میں سب مل کر سینما دیکھتے ہیں
مگر
جب مسجد کی بات ہو تو
سب اپنے اپنے عقائد کے مطابق علیحدہ ہو بیٹھتے ہیں
اب اس کا کسی نے نوٹس لینا گوارا نہیں کیا
کہ اتنے علماء کرام ہونے کے باوجود
ہم ایک قران
ایک رسول
ایک کعبہ اور
ایک مدینہ رکھنے کے باوجود
کن وجوہات پر اپنے مسلمان بھائیوں سے نفرت کرتے ہیں
کبھی ہم علاقائی تعصب کرتے ہیں
کبھی ہم زبان کا تعصب کرتے ہیں
کبھی ہم عقائد کا تعصب کرتے ہیں
کبھی ہم اپنے خاندان کی روایات میں کسی کو شامل کرنے پہ لڑنے مارنے پہ آ جاتے ہیں۔
یہ سب ہو کیا رہا ہے
اخر
ان تعصبات کا موجد کون ہے۔
اور یہ اختلافات کیسے ختم ہو سکتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق 90 فیصد اختلافات ان مسائل میں ہے
جن کا اسلام کی بنیادی عملی تعلیمات میں کوئی خاص حصہ ہی نہیں۔
اور وہ اختلافات گھڑے گئے ہیں۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ
مسلمان میں کچھ برائیاں موجود ہی نہیں ہو سکتیں۔
مسلمان مر سکتا ہے مگر وہ ایسے گناہ کر پی نہیں سکتا۔
جیسے
شرک۔
بدیانتی۔
ناانصافی
خیانت۔
جھوٹ۔
سستی
بے عملی۔
علم سے دوری۔
یتیم کا مال کھانا ۔
کم تولنا۔
ملاوٹ کرنا
بے نمازی۔
روزے نہ رکھنا۔
بد عہدی۔
زکات نہ دینا۔
دھوکہ کرنا۔
راستوں پہ قبضہ کر کے تنگ کر لینا۔
جھوٹی گواہی۔
بے ادبی۔
گالی۔
بے حیائی۔
فحاشی۔
زنا۔
ناچ گانا۔
شادیوں پہ دولت کی نمائش
اور
دولت کا بے دریغ استعمال ۔
بدکلامی۔
یتیم کا مال کھانا۔
سود کا کاروبار کرنا۔شراب پینا
رشوت لینا۔بہننوں کی وراثت ہڑپ کر لینا۔
باہمی نفرت کرنا
مگر کیا وجہ ہے کہ
ہم اسلام کی ان ممنوعہ تعلیمات پہ چلنے سے عملی طور پر متنفر ہی نہیں ہو سکے اور
زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ممنوعہ احکامات پر عمل کر لیتے ہیں۔
عملی طور پر
ہم اسلام کی عملی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔
اس میں ہم سب کا انفرادی قصور ہے
اور
یہی انفرادی قصور اجتماعی قصور میں بدل کر
موجودہ ابتر حالات کا سبب ھیں۔۔۔۔
اور
یہ پستی آج پوری مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے ۔
اگر
آپ آج عہد کر لیں کہ میں اوپر درج کئیے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں
اور
سب ساتھیوں دوستوں کو بھی ان سے بچانے کی کوشش کروں گا۔۔۔
تب
آپ نے اپنا حق ادا کر دیا۔
حدیث شریف ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں
اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو پورے جسم کو تازہ محسوس ہوتا ہے ۔
اسی طرح دنیا میں کسی بھی جگہ کسی بھی مسلمان کو تکلیف پہنچ رہی ہے
تو وہ بھی مسلمان کو اسی طرح محسوس ہوگی۔ جیسے اسے پہنچ رہی ہے۔
ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے
کہ ہم معاشرے کی تنزلی میں اپنا کردار کس طرح نبھا رہے ہیں آج اچھے برے کی پہچان تو سب کو ہے۔
مگر جانتے بوجھتے ہوئے ہم گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہم بذات خود اپنا کردار اسلامی تعلیمات کے مطابق ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہ