الخدمت نیوز

انتہائی افسوس ناک خبرپاکستان بھر کے بیشتر علاقوں میں قادیانی یہ تفسیر تقسیمِ کر رہے ہیں.. خدارا سادہ لوح مسلمانوں تک زیا...
24/02/2025

انتہائی افسوس ناک خبر

پاکستان بھر کے بیشتر علاقوں میں قادیانی یہ تفسیر تقسیمِ کر رہے ہیں.. خدارا سادہ لوح مسلمانوں تک زیادہ سے زیادہ یہ پیغام پہنچائے، قادیانیت کی سرکوبی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں، سوشل میڈیا کی طاقت کا تحفظ ختم نبوت کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کریں

جزاکم اللّٰه الخیر

*اس پیغام کو بھی ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں

30/08/2024

حضرت علی کرم اللہ کا فرمان
تم زندگی میں جنت مت مانگو بلکہ دنیا مین کام ایسے کرکے جاو کہ جنت تمہیں خود مانگے

14/08/2024

حافظ نعیم الرحمن جب یہ کہتے ہیں کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی، اور پی ٹی آئی تینوں نے مل کر آئی پی پیز کے ساتھ مکروہ معاہدے کیے،
تو پی ٹی آئی کے حامیوں کے سینے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غصے سے چَلا اٹھتے ہیں، جیسے ان کے دلوں میں انگارے دہکنے لگے ہوں۔ وہ چیخ و پکار کرتے ہیں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ کیسے انہیں ان چور پارٹیوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بڑے مزے سے خود کو مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں، معصوم سا چہرہ بنا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ لو انہوں نے ہی تو عوام کی بھلائی کے لیے قدم اٹھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے جن میں ریٹ 148 روپے فی یونٹ فکس کروا دیا۔

مگر جس طرح اس قوم کو دھوکے کی تاریکی میں دھکیلنے والوں کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔بلکل اسی طرح اس ریٹ فکس کرانے کی حقیقی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ جب انہی کے دورِ حکومت میں آئی پی پیز کے حوالے سے تحقیقات ہوئیں، تو ایک کے بعد ایک فراڈ کے انکشافات سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اکثر کمپنیاں بجلی کم پیدا کر رہی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے معاہدوں میں بجلی کی پیداوار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک کمپنی اگر اپنی فل کپیسٹی پر چلے تو وہ صرف پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہے، تو اسے معاہدے میں پانچ ہزار میگاواٹ دکھایا گیا۔ اس کے نتیجے میں، جتنی بجلی یہ فراہم کرتے تھے یا پیدا کر سکتے تھے، اس کی بجائے پانچ ہزار میگاواٹ کے حساب سے کپیسٹی پے منٹ چارج کرتے تھے۔ اس فراڈ کے ذریعے قوم کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے۔ اسی طرح کچھ نے گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کی، مگر معاہدے میں جھوٹ بول کر دعویٰ کیا کہ یہ بجلی تو تیل سے بنا رہے ہیں، اور پھر تیل کے حساب سے کپیسٹی پے منٹ سمیت ریٹ چارج کیا۔ یہ تمام فراڈ معاہدے پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون پرویز مشرف اور پھر دوبارہ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں کیے گئے تھے، کہا جاتا ہے ان معاہدوں کے ان پارٹیوں نے اچھے خاصے کک بیکس لیے تھے
لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد پی ٹی آئی نے یہ رپورٹ پبلک ہونے سے روک دی اور اس فراڈ کو نیا طریقہ کار فراہم کر دیا
اگر پی ٹی آئی واقعی عوام کی خیرخواہ ہوتی، تو ان فراڈ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرتی، ان کے معاہدے ختم کرتی، اور انہیں عدالت میں لاتی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ بجائے ان کمپنیوں کے جھوٹے معاہدوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی پی ٹی آئی حکومت نے انہی چوروں، فراڈیوں، اور قوم کا خون چوسنے والے درندوں کے ساتھ دوبارہ نیا معاہدہ کر لیا، جس میں جو پہلے لوٹ مار جاری تھی اس لوٹ مار کو تو جاری رکھا مگر اس کا ریٹ فکس کر دیا یہ ہے وہ "کارنامہ" جس کا یہ کریڈٹ آج تک لیتے پھرتے ہیں اگر یہ واقعی قوم کے ہمدردہوتے ان فراڈہوں کا احتساب کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا الٹا انہی چوروں کی سہولت کاری میں حصہ لیا کیونکہ اس فراڈ میں ملوث پی ٹی آئی کی اپنی اے ٹی ایم مشینیں بھی تھیں
وہ ان کے دور حکومت میں باقاعدہ وزراء کی پوسٹ پر براجمان تھے
ندیم بابر اور رزاق داود یہ دونوں ان کے دور حکومت میں وزیر تھے اور یہی تو سب سے بڑے فراڈیے ہیں . ان کا فراڈ کیا تھا آئیے آپکو وہ بتاتے ہیں

روش نامی ایک پاور پلانٹ، جو کہ ڈسکان کا حصہ ہے ڈسکان کا مالک وہی رزاق داود ہے، یہ کمپنی بجلی کے ہر یونٹ کا 745 روپے چارج کر رہا ہے۔
چلیں یہاں تک بات رہتی تب بھی کچھ حد تک قابل برداشت تھی لیکن آگے اگلی بات سنیں یہ پلانٹ اپنی پوری کپیسٹی کا صرف چار فیصد بجلی پیدا کرتا ہے، مگر پیسے سو فیصد کے حساب سے لیتا ہے! اور ریٹ وہی745 روپے یونٹ.
اسی طرح ندیم بابر یہ بھی ان کے دور حکومت میں ایک وزیر رہ چکا ہے اس کا صبا پاور پلانٹ اور اوریئنٹ پاور پلانٹ نے اسی قسم کے گھپلے کے ذریعے دس ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا، اور قوم کی محنت کی کمائی کو نگل گیا۔

اس سب کے باوجود، بجائے ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے، بجائے انکی اصل کپیسٹی کے مطابق یعنی جتنی بجلی یہ بناتے ہیں اتنے ہی ریٹ طے کرنے کے پی ٹی آئی حکومت نے ان کے ساتھ نیا معاہدہ کرلیا اور وہی فراڈ کپیسٹی پے منٹ برقرار رکھی جو وہ اصل میں پیدا ہی نہیں کر رہے پی ٹی آئی نے انہیں بلکل اسی طرح تحفظ فراہم کیا، بس فرق یہ ہوا کہ اس چوری کا ایک ریٹ فکس کر دیا جو پہلے ڈالر کے حساب سے کم یا زیادہ ہوجایا کرتا تھا.
جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے کیا تھا انہوں نے بھی قوم کو ایک نئے دھوکے میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے ان چوروں کو دوبارہ قوم پر مسلط کردیا، ان کی کرپشن کو مزید مضبوط کیا، اور قوم کے ساتھ ایک بار پھر غداری کی۔
یہ وہ وقت تھا جب ان سے جان چھڑانے کا بہترین موقع تھا، مگر پی ٹی آئی نے اپنے مفادات کو ملک و قوم کے مفادات پر ترجیح دی اور اس قوم کو ایک بار پھر دھوکا دیا۔

یہ ملک ان چالیس طاقتور خاندانوں کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ یہی در اصل حکمران ہیں جو اس قوم کے خون کو چوس کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہی چالیس خاندان آئی پی پیز کے مالک ہیں، یہی نون لیگ، پیپلز پارٹی، اور پی ٹی آئی کی اے ٹی ایم مشینیں ہیں۔ جب تک یہ قوم ان چوروں، ان غاصبوں، اوران کرپٹ سیاسی پارٹیوں کی گرفت سے نجات نہ پائے گیں، یہ اسی طرح پستی رہے گی یہ یوں ہی مہنگے مہنگے بل بھرتی رہے گی، یہ یوں ہی خودکشیاں کرتی رہے گی، اور یہ جونکیں عوام کا خون یوں ہی نچوڑتی رہیں گی۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس قوم کو جاگنا ہوگا، ان سب پارٹیوں سے حساب مانگنا ہوگا، ان سے سوال کرنا ہوگا۔ یہ سب اس قوم کے اصل مجرم ہیں، اور جب تک ان سے نجات نہیں ملے گی، ظلم اور استحصال کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

30/07/2024

جماعت اسلامی کے دھرنے نے شخصیت پرستی کی سیاست کو گہن لگادیا
بجلی کے بلوں کے خالص عوامی ایشو پر قوم حافظ نعیم کی ہمنوا ہوگئی , دیگر جماعتوں نے یہ موقع گنوادیا , عوامی ترجیحات تبدیل ہونے لگیں , زمینی حقائق سے منہ موڑنے والوں کا بیانیہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا

کراچی ( محمد منیرالدین ) اسلام آباد میں جاری جماعت اسلامی کا دھرنا قومی سیاست کا اہم سنگ میل بنتا جارہا ہے اور لگتا ہے حافظ نعیم الرحمن کے احتجاجی دھرنے نے پاکستان میں شخصیت پرستی کی سیاست کو گہن لگادیا ہے , یہ دھرنا ان سیاسی جماعتوں کے لئے بڑا سبق آموز ہے جو مسلسل اس خوش فہمی میں مبتلا رہنا چاہتی ہیں کہ شخصیت پرستی کے ذریعے لوگوں کی ایک غالب تعداد کو بہت دن تک کسی ایک ایشو پر متحد رکھا جاسکتا ہے - سیاست ایک تغیر اور تبدیلی کا نام ہے , ہر آنے والے دن کا سورج نئے امکانات لیکر طلوع ہوتا اور بہت سی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ پھر غروب ہوجاتا ہے حافظ نعیم الرحمنٰ صاحب کا موجودہ دھرنا تبدیلی پسندوں کے لئے ایک نئی تبدیلی کی راہیں اور امکانات پیدا کررہا ہے- اصل سیاست اور سیاستداں وہی ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ حالات کی نبض پر رہے , جماعت اسلامی کو یہ وصف ضرور حاصل ہے کہ اس کے ہاں نہ کوئی شخصیت پرستی ہے نہ ہی کسی امیر کا کوئی فین کلب … یہ جماعت ایک متعین کردہ نظم کے تحت کام کرتی ہے امیر منتخب ہوتے ہیں اپنی مقررہ مدت پوری کرکے باقار طریقے سے چلے جاتے ہیں - یہ وہ واحد جماعت ہے جو ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی , مذہبی , عوامی ,معاشی اور عالمی ایشو پر عام لوگوں کے ساتھ مسلسل جڑی رہتی ہے , ملک میں الیکشن ہورہے ہوں یا الیکشن ہوچکے ہوں جماعت اسلامی کا عام پاکستانیوں سے ناطہ کبھی نہیں ٹوٹتا - بجلی کے بلوں کے ذریعے آئی ایم ایف کے نام پر گزشتہ کئی سالوں سے حکومت اور بجلی کے تقسیم کار ادارے عوام پر جو ظلم ڈھاتے رہے ہیں وہ جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پیش نظر رہا ہے مگر ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی نے بھی ہمت نہیں دکھائی اور کوئی میدان میں نہیں نکلا - جماعت اسلامی کچھ عرصے پہلے بھی کراچی میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف بڑے تواتر کے ساتھ احتجاجی دھرنوں کا انعقاد کرتی رہی ہے اس وقت ملک میں کہیں بھی کسی کی سیاست کو پلس یا مائنس کرنے کا مسئلہ کسی بھی سطح پر درپیش نہیں تھا - آج بھی یہ خالص عوامی مسئلہ ہے - اس لئے اس دھرنے کے پس پردہ مختلف سازشی تھیوریز کو تلاش کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جماعت اسلامی نے ایک حقیقی عوامی ایشو پر پیش قدمی شروع کی ہے اور اب قوم اس لئے جماعت اسلامی کی ہمنوا ہونے کو آمادہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ ان کے سب بڑے مسئلہ پر آواز اٹھارہی ہے اور میدان عمل میں موجود ہے - اگر بالفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ جس عوامی ایشو کو جماعت اسلامی نے اٹھایا ہے یا وہ جس معاملے کے ذریعے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے تو یہ موقع دوسری بہت سی مقبول سیاسی جماعتوں کو بھی ایک عرصے سے دستیاب تھا , انہوں نے اپنے سیاسی بیانئے کو بڑھاوا دینے کے لئے اس نادر موقع سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا ؟ اس میں قصور جماعت کا نہیں ان کا اپنا ہے - اب تو معاملہ " جب چڑیاں چگ گئیں کھیت پھر پچھتاوے کیا ہووت کے مصداق ہوتا آگے بڑھتا جارہا ہے - اندھی نفرت اور اندھی عقیدت کے دو پاٹوں میں تقسیم ہوئے کچھ لوگوں کے لئے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں ہوسکتا لیکن بدلتے حالات اور بدلتی ضرورتیں بہت کچھ تبدیل کردیتی ہیں - اگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی سیاسی مصلحتوں اور مفاد کی خاطر اپنی ترجیحات بدلتی رہی ہیں تو عام پاکستانیوں کو کس طرح اس بات سے روکا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو تبدیل نہ کریں یہ بہت غور طلب پہلو ہے تمام سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے

03/06/2024

گو اس جنگل میں جو ہوجائے وہ کم ہے لیکن پھر بھی یہ سوچ کر لکھہ رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے کل ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا آپکو کرنا پڑ جائے تو آپ بچ سکیں۔
ایک دوست کی والدہ عباسی شہید اسپتال میں داخل ہیں انکے سر کا آپریشن ہونا ہے ڈاکٹرز نے خاتون کا بلڈ ٹیسٹ کروایا رپورٹ آئی تو معلوم ہوا محترمہ کا بلڈ گروپ او نیگیٹو ہے۔ ڈاکٹرز نے کہا چار بوتلیں خون کا انتظام کر کے رکھئیے فوراً کل آپریشن ہے، دوست نے کراچی پھر کے بلڈ بینک کھنگال ڈالے مگر کہیں او نیگیٹو دستیاب نہ تھا پھر سرکل میں ڈھونڈا گیا ایک ایک کر کے لوگ ملنا شروع ہوئے یوں چار او نیگیٹو پرسنز کا انتظام کر لیا گیا، اس ہی دوران دوست کے والد کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ وہ بلڈ کا سیمپل لے کر چغتائی لیبارٹری چلے گئے اور ان سے کہا مجھے اس سیمپل کا بلڈ گروپ بتائیے کچھہ ہی دیر میں چغتائی لیبارٹری کی رپورٹ آگئی اس رپورٹ کے مطابق دوست کی والدہ کا بلڈ گروپ بی پازیٹیو تھا۔
دوست کے والد نے بیٹے کو بلایا اور اسکے سامنے رپورٹ رکھی، مزید اطمنعان کے لئیے دوست ڈاو لیبارٹری چلا گیا نیا بلڈ کا سیمپل لے کر ڈاو والوں نے بھی فوراً ہی کنفرم کر دیا کے اس سیمپل کا گروپ بی پازیٹیو ہے، دوست ابھی بھی الجھن کا شکار تھا مزید کنفرمیشن کے لئیے وہ حسینی بلڈ بینک چلا گیا وہاں سے بھی رپورٹ میں بی پازیٹیو ہی آیا۔
دوست نے حسینی والوں کے سامنے سارا معاملہ رکھا تو انہوں نے بتایا کہ گورنمنٹ اسپتال کے ڈاکٹرز اور انتظامیہ یہ گھناونا کاروبار کر رہے ہیں کیونکہ او نیگیٹیو نایاب خون ہے بڑے بڑے پرائیوٹ اسپتالوں میں بسا اوقات ایک بوتل تیس سے چالیس ہزار کی بھی بک جاتی ہے اسلئیے یہ انہوں نے دھندہ بنایا ہوا ہے انہیں معلوم تھا کہ آپکے پیشنٹ کا بلڈ گروپ بی پازیٹیو ہے لیکن انہوں نے جان بوجھہ کر او نیگیٹیو کا سیمپل لبارٹری بھیجا تاکے رپورٹ میں او نیگیٹیو آئے اور پھر یہ آپ سے چار بوتلیں منگوائینگے جب آپ چار او نیگیٹو کی بوتلیں انہیں دے دینگے تو یہ خون کی ان بوتلوں کو اپنے پاس محفوظ کر لینگے اور بی پازیٹیو اپنے پاس سے لگا دینگے، بی پازیٹیو کی قیمت چار سے چھے ہزار ہے جبکہ او نیگیٹیو کی قیمت چالیس ہزار تک چلی جاتی ہے۔
کیونکہ ابھی سرجری ہونا باقی ہے اسلئیے وقتی طور پر دوست نے خاموشی اختیار کر لی ہے طے پایا ہے کہ سرجری کے بعد جب والدہ صحتیاب ہو کر گھر شفٹ ہو جائینگی تب اس معاملے پر کاروائی کی جائیگی۔
تھوڑی سی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کاروبار میں عباسی شہید کے ڈائریکٹر سمیت پورا عملہ ملا ہوا ہے، اندازہ کر لیں اگر ایک دن میں دس مریضوں کے ساتھہ بھی یہ کاروائی کی گئی تو چالیس بوتلیں او نیگیٹو کی بنتی ہیں یعنی یومیہ سولہہ لاکھہ روپے اور ماہانہ چار کروڑ اسی لاکھہ روپے بنتے ہیں جو اوپر سے نیچے تک سب لوگوں میں بٹتے ہیں۔
خیر سے عباسی شہید کی پوری انتظامیہ اس وقت پیپلز پارٹی کی ہے ڈائریکٹر سے لے کر نیچے تک سب ملکر یہ دہشتگردی کر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس گھناونے کاروبار کی حقیقت پہنچے اور جس سے بھی اسپتال والے خون کی بوتلوں کا مطالبہ کریں تو وہ پہلے مرحلے میں ہی زاتی حیثیت میں الگ سے ایک سیمپل لے کر گروپ ٹیسٹ کروا لے اور اس گھناونی دہشتگردی سے بچ سکے۔

میں نے اسلامک شھد سنٹر مری روڑ راولپنڈی سے اپنی کینسر میں مبتلا بیوی کے لیے شھد خریدی کیونکہ بطور مسلمان بھی ہم سمجھتے ہ...
25/04/2024

میں نے اسلامک شھد سنٹر مری روڑ راولپنڈی سے اپنی کینسر میں مبتلا بیوی کے لیے شھد خریدی کیونکہ بطور مسلمان بھی ہم سمجھتے ہیں کہ حدیث نبویﷺ ہے کہ, "شھد میں شفا ہے"۔ میں نے شھد خریدتے وقت انکے سیل مین سے خصوصی طور پر پوچھا کہ یہ جم تو نہیں جاۓ گی؟ کیونکہ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خالص شھد جمتی نہیں ہے۔ جس پر اسلامک شھد سنٹر کے " سیل مین " نے کہا کہ ہم
life time money back gurrantee
دیتے ہیں اور ہماری رسید پر بھی یہ ہی تحریر پرنٹ کر رکھی ہے کہ۔۔۔۔"اسلامک شھد سنٹر اپنے صارفین کو شھد کی منی بیک اور لائف ٹائم گارنٹی فراہم کرتا ہے"۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔لیکن یقین کریں کہ خریدنے کے دو ماہ بعد ہی شھد جَم گئی اور جم کر ایسے لگ رہی ہے جیسے ڈالڈا گھی ہو جیسا کہ پیکچر میں بھی نظر آ رہا ہے۔اور شھد چھکنے پر اسکا ذائقہ بھی پہلے جیسا نہ رہا تھا اور عجیب سی smell آ رہی تھی جو کسی صورت اصل اور خالص شھد کی نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا نام ہے اس برانڈ کا اور عام مارکیٹ ریٹ سے یہ انتہائی مہنگے ریٹ پر شھد فروخت کرتے ہیں اور رسید پر بھی
money back gurrantee
لکھ کر دیتے ہیں یقیناً کوئی غلط چیز ہی مجھے دے دی ہو گی جو یہ جَم گی ہے۔
۔۔۔میں نے یہ بوتل آٹھائی اور گاڑی کا پٹرول خرچ کر کے ان کی دوکان پر چلا گیا اور کہا کہ آپ نے گارنٹی دی تھی کے جَم گی تو واپس لے آنا اب یہ جَم گی یے مطلب کے یہ خراب چیز تھی اور میں اپنے گھر میں موجود کینسر کی مریضہ کو غلط شھد کھلاتا رہا ہوں۔ تو اس پر جو عام توجہیات ہو سکتی تھی ان کے "سیل مین" کے ساتھ بیٹھے ایک شخص جس نے اپنا نام " اصبر " بتایا نے دی۔ لیکن نہ ہی وہ پیسے واپس کرنے کو تیار تھا اور نہ ہی نئی آچھی یا اصل بوتل شھد دینے کو تیار تھا۔ جب میں نے کہا کہ آپ توجہیات نہ دیں بلکہ آپ نے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق مجھے یا پیسے واپس کریں یا مجھے نئی بوتل اصل شھد دیں جو جَمے ناں۔ جس پر اس نے کہا کہ ہمیں ہمارے مالکوں نے منع کر رکھا ہے پیسے واپس نہیں کرنے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ نے رسید پر "منی بیک گارمٹی" کیوں پرنٹ کروا رکھا ہوا ہے۔۔۔جس پر اس نے قہقہ لگاتے ہوۓ کہا کہ, گارنٹی تو انسان کی بھی نہیں ہے شھد کی بوتل کی کیا گارنٹی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ پھر میں مجبور ہوں گا کہ آپ کے خلاف کنزیومر کورٹ میں جاؤں۔ جس پر اس نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں کمپنی کے اپنے وکیل ہیں وہ جانیں اور کیس جانیں ہم تو یہاں کمپنی کی چیزیں بھیچنے کے لیے بیھٹے ہیں۔۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کمپنی کے مینجر کے طور پر بیٹھے ہیں تو کہنے لگا " نہیں جی میں تے ایتھے کمپنی دا چپڑاسی واں"۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔یہ ساری گفتگو آج مورخہ 19اپریل 2024 بروز جمعہ کو 7:30 سے لیکر 8:00 بجے کے دوران ہوئی جسکی CCTV فوٹیج اور ویڈیو ریکاڈنگ بھی موجود ہے جو انکی دوکان میں لگے کیمروں میں موجود ہے۔جس کے زریعے یہ ساری چیزیں کنفرم کی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔انداذہ کریں, نام رکھا ہوا ہے, اسلامک شھد۔۔۔رسید پر بھی لکھا ہوا ہے منی بیک گارنٹی, لیکن جب مسئلہ آۓ گا اور آپ وہاں جائیں گے تو, آئیں بائیں شائیں۔۔۔اور کی گی ساری کمٹمنٹ سے U turn لے لیں گے۔۔۔اور بطور کسٹمر آپ اپنا مزید وقت اور پیسہ خرچ کر کے آپ ہی ثابت کریں کہ یہ پراڈکٹ غلط تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیریسلی مجھے بہت افسوس ہوا انکے اس رویے پر۔۔۔میں تو سمجھ رہا تھا یہ مجھے تسلی دیں گے اور کہیں گے کہ سر ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپکو ہماری بوتل واپس کرنے کے لیے ذخمت آٹھانا پڑی۔ آپ جس طرع مطمئن ہوتے ہیں ہم کرنے کو تیار ہیں لیکن انکے مینجر کی فضول قسم کی گفتگو نے تو بہت مایوس کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔اب میں نے انکو پہلے لیگل نوٹس سینڈ کرنا ہے پھر میں عدالتوں کے چکر لگاتا رہوں گا۔ پھر انکے وکلاء کی فوج کے آگے ایسے کھڑا رہوں گا جیسے میں کوئی ملزم ہوں۔اور ہمارے عدالتی سسٹم کی تمام تر خرابیاں مجھے بطور ایک litigant برداشت کرنا پڑیں گی لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے اپنے تمام تر خدشات کے باوجود انکے خلاف قانونی کاروائی کا اپنا حق ضرور استعمال کروں گا۔۔۔۔
۔۔۔۔کیونکہ معاشرے کے ناسوروں کے خلاف معاشرے کی خاموشی ہی انکو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ معاشرے کو اپنا غلام بنا کر رکھیں اور اپنی من مرضیاں کرتے رہیں۔۔۔ لیکن میں خاموش نہیں رہوں گا۔۔۔

24/04/2024

معزز انتظامی افسران پنجاب یونیورسٹی.
اس تحریر کا مقصد کسی فرد واحد کو تنقید کا نشانہ بنانا اور دشنام طرازی کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقائق کو واضح کرنا ہے اور انتظامیہ کی ترجیحات پہ روشنی ڈالنا ہے کہ مادرعلمی مالی مسائل کا شکار کیوں ہے. ماضی میں ایسے کونسے اقدامات کئے گئے یا مستقبل قریب میں ایسے کونسے اقدامات ہونے جا رہے ہیں کہ جس میں ہم اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے مادر علمی کی موجودہ مالی بدحالی کو مزید بدحال کرنے جا رہے ہیں.
آپ بھی اپنی مثبت تجاویز دیں.

یہ انداز بیان اگرچہ شوخ نہیں ہے,
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات.

لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک طرف انتظامیہ فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا شدت سے روتی ہے اور دوسری طرف انتظامیہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے اساتذہ بھرتی کرنے کا اشتہار بڑے زور و شور سے دیتی ہے.

ایک طرف یونیورسٹی ملازمین کو ہاؤس رینٹ/ریکوزیشن دینے کے پیسے نہیں ہیں, اور دوسری طرف ہم نئی بھرتی کے لئے اتاولے ہوئے پھرتے ہیں.
ایک طرف عید بونس/آنریریم دینے کے پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف نئی ریکروٹمنٹ کر کے ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہ کی مد میں دینے کا ساماں کرنے کو بے چین ہیں.
ایک طرف لیو ان کیشمنٹ کے پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف نئی بھرتی کے عمل کو عملی جامہ پہنا کر ماہانہ تنخواہ, ہاؤس رینٹ, فیول, ٹیلی فون اور کئی دوسرے ماہانہ اعزازات کو حتمی شکل دینے کے لئے ہماری روح بے چین ہے.

یہ دستورِ زباں بندی کیسا ہے تیری محفل میں,
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری.

جنابِ والہ.
آپ جس مسند پہ تشریف فرماں ہیں وہاں سے آپ حالات کی سنگینی کا باریک بینی سے بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں.
اگر فنڈز دستیاب نہیں ہیں تو آپ اُس پالیسی کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم ہی کیوں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انتظامیہ کے حصےّ میں سوائے رسوائی کے کچھ نہیں آتا.
کسی بھی مسند پہ بیٹھ کے آپ ارباب اختیار سے اختلاف کر کے اس عمل کو کیوں نہیں روکتے یا اپنے آپ کو اس عمل سے علیحدہ کیوں نہیں کرتے کہ جس سے مادرعلمی مزید مالی مسائل کا شکار ہونے جا رہی ہو.
اگر وسائل موجود ہیں تو ملازمین سے بے اعتنائی کی وجہ ببانگ دہل بتائیے؟ اور مالی مسائل کا رونا بند کیجئے. اگر وسائل موجود نہیں ہیں تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی وجہ بتلائیے اور اس عمل کا حصّہ بننے کی مجبوری بتائیے کہ جس سے مادررعلمی مستقبل قریب میں مزید مالی گرداب میں پھنسنے جا رہی ہو.

جو آج صاحبِ مسند ہیں کَل نہیں ہوں گے,
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے.

جنابِ والہ.
انتظامی افسر کی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حال میں رہتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے ایسی پالیسی اپنائے کہ جو ادارے کی خوشحالی کی ضامن ہو اور جس سے ادارے کی تعمیرو ترقی پر مثبت اور دوررَس نتائج مرتب ہوں.
حضور والہ.
اگر یہ بھرتی کا سارا عمل نہایت ضروری ہے تو ضرور اس عمل کو عملی جامہ پہنائیں, لیکن حضور آمدن کے وہ خفیہ ذرائع بھی ساتھ بتائیں کہ جس سے آپ مادرعلمی کو موجودہ اور آنے والے مالی گرہن سے جَلا بخشیں گے.
ملازمین خاص طور پر چھوٹے ملازمین حالات کی گرداب پہ پھنسے ہوئے ہیں اور دن رات آپکو, ہم سب کو, انتظامیہ کو جھولیاں بھر بھر دعائیں دیتے ہیں.
خدارا اپنے مسند کے ساتھ انصاف کیجئے اور اپنے عہدے کی بقاء کی بجائے مادرعلمی کی بقاء کے ضامن بنیں.
آپ کا سارا زور یونیورسٹی ملازمین پر ہی کیوں چلتا ہے؟ اگر مالی حالات اتنے ہی خراب ہیں تو فیول کی مد میں جو ماہانہ سینکڑوں لیٹر انتظامیہ اور اساتذہ کو عطا کیا جا رہا ہے اس پر فی الوقت نظر ثانی کر لیجیے اور اس پر پچاس فیصد کٹوتی کر کے ضروریات کو پورا کر لیں اور لگژری کو روک لیں.
یہ تو نہیں ہو سکتا کہ چھوٹا طبقہ پستا جائے اور اشرافیہ کے الّلے تلّلے جاری رہیں.

قومیں تو پھر ایسے ہی بنتی ہیں.

یہی انصاف کا قتل عام کرونا کے دوران ہوا.
جو اپنے آپ کو مقیدّ کر کے درس و تدریس کرتے رہے اُن کو تو بیالیس ملین عطا کر دیے گئے. ضرور عطا کریں لیکن انصاف کدھر گیا ؟
اور جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کے انتظامی اُمور چلاتے رہے ان کی باری چودہ ملین بھی پہاڑ لگنے لگا. اور لا تعداد تاویلیں پیش کی گئیں, کہ کون حاضر رہا اور کون غیر حاضر, مختلف شعبہ جات کے سربراہان افسران کی تحریری یقین دہانی کو بھی درخوراعتناء نہ سمجھا گیا حالانکہ کرونا کے دوران انتظامی امور چلاتے ہوئے لوگوں کو جینے کے لئے مرنا پڑا. مزیدبرآں لوگ انتظامی امُور کے دوران کرونا کا شکار ہوئے اور اس دارفانی سے کُوچ کر گئے.

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں,
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے,
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن,
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے .

اگر نان ٹیچنگ سیٹیں دیدہ دلیری سے ختم کی جا سکتی ہیں اور نئی سیٹیں جنم نہیں لے سکتی تو انقلاب فرانس یا خمینی انقلاب کی طرح کونسا تعلیمی انقلاب ہمارے دروازے پہ دستک دے رہا ہے کہ جس کے لئے انتظامی افسران پوری شدومد سے سر بکفن ہیں.
کہنے کو بہت کچھ ہے کہ کلیجہ منہ کو آئے لیکن اسی پہ اکتفا کرتا ہوں اور تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ نہ کیجئے.
پہلے مسائل کا ادراک کیجئے, پھر وسائل کا بندوبست کیجئیے پھر چاہے دس طلباء پر ایک استاد تعینات کیجئے کوئی مضائقہ نہیں ہے. کیوں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی. لیکن آگاہ دوڑ اور پچھاّ چوڑ والامعاملہ نہ کیجئے. حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے صحیح اور غلط کی تمیز کیجئے اور مادرعلمی کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لیے اپنے اندر جرأت پیدا کیجئے اور وہ غلط فیصلے نہ کریں کہ جن کا معاشی بوجھ اٹھاتے ہوئے درسگاہ کی کمر ٹوٹ جائے.

آپ اپنے آپ کو اس شعر سے ماوراء نہ سمجھیں. کہ

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی,
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے.

وہ بانو قدسیہ نے کہا تھا نا کہ درسگاہ اور درگاہ میں سے س کا فرق مٹ جائے تو درسگاہ بھی درگاہ ہی بن جاتی ہے. اس لئیے درگاہ پہ ماتھا ٹیکا جاتا ہے لاتیں نہیں ماری جاتیں.
مجھے کافی سالوں پہلے ریلیز ہوئی اک پاکستانی فلم بول کا ڈائیلاگ یاد آ گیا جس میں ہیروئن کہتی ہے کہ.
جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو,
اسی طرح جب تنخواہیں دے نہیں سکتے تو نئی بھرتی کیوں کرتے ہو.
انتظامی افسران ہونے کے ناطےآئیں اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور متبادل ذرائع تلاش کریں جس سے مادر علمی کی معاشی بدحالی ختم ہو اور ماضی کی طرح وہ خاردار رستہ نہ چنیں کہ جس سے آنگن لہولہان ہو. اس لئے ملازمین کا معاشی قتل عام بند کیا جائے تا کہ کل کو کوئی آپ کو یہ نہ کہے کہ,

شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا,
اپنے حصےّ کی کوئی شمع جلاتے جاتے.

ازقلم.
آصف خان.
اسسٹنٹ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی کالج آف فارمیسی.

22/04/2024

تلخیص اختتامی خطاب امیر جماعت اجلاس مرکزی مجلس شوری

- ہم اقامت دین کی تحریک ہیں جو فرض عین ہے -
- ⁠جتنی بڑی دعوت ہے ہمارا اخلاق ، عمل اور کردار بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے -
- ⁠جماعت کی تاریخ سے جڑ جائیں اور پڑھے ہوئے لٹریچر کو بار بار دھرائیں -
- ⁠سیرت کا مطالعہ کرتے رہیں، سیرت کے مزاج کوسمجھیں اور 23 سالہ جدوجہد کو اپنے اندربسائیں -
- ⁠تنظیم اور اس کے نظام تربیت کو بہتر بنانا ہے -
- ⁠لائحہ عمل کے چاروں نکات بیک وقت توجہ طلب ہیں -
- ⁠یہ دیکھا جائے کہ تنظیم کی فعالیت کتنی ہے ؟
- ⁠تنازعات کو طے کیا جائےاور مسلؤں کو حل کیا جائے - کارکنان سے فاصلے کم کریں -
- ⁠ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں ان سے نہ ہچکچائیں -
- ⁠اخراج بڑھنے لگیں توتنظیم کا جائزہ لیں کہ ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ؟
- ⁠تربیت کے لیے آپ کو تربیت کرنے والا بننا پڑے گا جس کی پشت پر خلوص ، للہیت اور عمل ہو -
- ⁠محنت کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے -
- ⁠جماعت کی فراہم کردہ سہولتیں ہمارے پاؤں کی زنجیر نہیں بننی چاہئیں -
- ⁠بدلتے ہوئے حالات میں رائج الوقت انتخابی سیاست دم توڑ رہی ہے -
- ⁠ہماری پالیسی واضح ہے ہم کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے -
- ⁠ہم اپنے ایجنڈے پر سب سے ملیں گے جمہوری آزادیوں اور آئین کی بالا دستی پر سب سے بات کریں گے -
- ⁠انتخابی کام سیاسی کام کا چھوٹا سا جزو ہے اسے اپنے اوپر طاری نہ کریں - انتخابی نتائج سے بے پرواہ ہو کر سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے گا -
- ⁠ووٹ آخری چیز ہوتی ہے پہلے ہم نے عوام تک اپنا موقف پہنچانا ، سمجھانا اور ان کو ساتھ ملا کر ان کا اعتماد حاصل کرنا ہے -
- ⁠بلدیاتی پلیٹ فارم پر کام کو وسعت دینا ہو گی -
- ⁠رابطہ کمیٹیوں میں عوامی معاملات میں دلچسپی رکھنے والوں کو شامل کریں - بعد میں یہیں سے بلدیاتی قیادت ملے گی -
- ⁠ہم نے گراس روٹ لیول پر معاشرے کا اسٹیرنگ اپنے ہاتھ میں لینا ہے -
- ⁠اگلے ماہ مرکزی شوری کا اجلاس صرف سیاسی لائحہ عمل اور روڈ میپ مرتب کرنے کے لیے ہوگا -جس کے مطابق منصوبہ عمل میں تبدیلیاں کی جائیں گی -
- ⁠مالیاتی نظام اور وسائل کو بہتر بنانا ہے کارکن کی اعانت اور زکات وعشر ہر رکن کو جماعت کے بیت المال میں دینا ہوگا -
- ⁠ماحول ، حالات اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے سوشل میڈیا دودھاری تلوار بن چکا ہے -
- ⁠سوشل میڈیا کے لیے جاری حدودوقیود پر عمل کرایا جائے -
- ⁠خواتین اور یوتھ میں کام کے لیے شوری کی کمیٹی تجاویز مرتب کرے گی -
- ⁠اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو آمین

حکمران پارٹیوں نے نوجوانوں کو دھوکا دے ان کا مستقبل تاریک کرنے کی سازشیں کیں، پڑھے لکھے اہل افراد ملک سے بھاگ رہے ہیں، ل...
23/03/2024

حکمران پارٹیوں نے نوجوانوں کو دھوکا دے ان کا مستقبل تاریک کرنے کی سازشیں کیں، پڑھے لکھے اہل افراد ملک سے بھاگ رہے ہیں، لاکھوں مایوس ہوکر نشہ کے عادی ہوگئے۔ نوجوان جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، ملک کی تقدیر بدل دیں گے

31/01/2024

Address

Zafarwal Road
Narowal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when الخدمت نیوز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to الخدمت نیوز:

Share