الخدمت نیوز

https://youtu.be/HliwWFaALqU
15/09/2025

https://youtu.be/HliwWFaALqU

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کے سیلاب سے متاثرہ چوہنگ لاہور میں الخدمت خیمہ بستی کے دورہ کی جھلکیاں .org ...

11/09/2025

چندرائے روڈ لاہور،گندا نالا لوگوں کے لیے موت کا پیغام بن گیا۔ ایک اور حادثہ لیکن یہ حکمران صرف اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں ۔ عوام کو اب نکلنا ہوگا ۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کا پیغام: گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی ڈرون حملہ، مگر ہمارا حوصلہ بلند ہےگلوبل صمود فلوٹیلا کے ل...
11/09/2025

سینیٹر مشتاق احمد خان کا پیغام: گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی ڈرون حملہ، مگر ہمارا حوصلہ بلند ہے

گلوبل صمود فلوٹیلا کے لیڈنگ شپ "فیملی" پر تیونس سمندری سرحد میں ازرائیلی ڈرون حملہ،یہ بزدلانہ اقدام ہے۔الحمدللہ سب خیریت سے ہیں۔حملہ ہمیں ڈرا نہیں سکتا،ہمارا راستہ روک نہیں سکتا، ہماری منزل غ زہ ہے اور ہم غ زہ پہنچ کر رہینگے، محاصرہ توڑینگے، انسانی امدادی راہداری قائم کریں گے، جینوسائیڈ بند کرینگے۔ دنیا گلوبل صمود فلوٹیلا/عالمی قافلہ استقامت کی سیکیورٹی کی ضمانت دے، تمام لوگ گلوبل صمود فلوٹیلا کے حق میں آواز اٹھائیں۔

03/09/2025
03/09/2025

جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ڈیم سیلاب کو کنٹرول نہیں کرسکتے وہ صرف کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ انڈیا کے ڈیم موجودہ سیلاب کو کنٹرول نہیں کرسکے اس لیے پنجاب میں سیلاب آیا۔

میرا موقف ہے کہ اگر انڈیا میں دریاوں پر اضافی ڈیم ہوتے تو موجودہ سیلاب کو کنٹرول کرکے اس کا زور توڑا جاسکتا تھا۔

اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر سالانہ اوسطاً 70 ملیئن ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے 50 ملیئن ایکڑ فٹ سے زیادہ صرف مون سون کے موسم میں آتا ہے۔ جس میں سے 20 ملیئن ایکڑ فٹ سمندر میں چلا جاتا ہے( سالانہ اوسط کی بات ہورہی ہے)۔

جب تربیلا ڈیم کی سٹوریج کیپیسٹی ہی صرف 6.5 ملیئن ایکڑ فٹ ہے تو پھر تو 43.5 ملیئن ایکڑ فٹ سمندر میں جانا چاہئے لیکن جاتا صرف 20 ملیئن ایکڑ فٹ ہے۔

تربیلا ڈیم اور سمندر کے درمیان میں یہ 23.5 ملیئن ایکڑ فٹ پانی کہاں غائب ہوجاتا ہے۔

تو جناب یہ اضافی 23.5 ملیئن ایکڑ فٹ پانی تربیلا ڈیم اور دریاوں پر بنے بیراجوں سے پانی کی ریگولیشن کرکے نہروں میں ڈالا جاتا ہے ۔

یوں صرف 6.5 ملیئن ایکڑ فٹ کیپیسٹی والا ڈیم 23.5 ملیئن ایکڑ فٹ پانی کو ریگولیٹ کر لیتا ہے۔

دریائے سندھ پر ایک اور ڈیم بن جائے تو اس کی ریگولیشن اور فلڈ مینیجمنٹ مکمل ہوجائے گی اور دریائے سندھ میں 10 لاکھ کیوسک تک چلنے والے ریلے کی شدت توڑ کر پانچ لاکھ کیوسک سے نیچے لایا جاسکتا ہے۔

دریا میں ایک دن ایک لاکھ کیوسک پانی چلتا رہے تو اس روکنے کے لئے 0.2 ملیئن ایکڑ فٹ سٹوریج چاہئے ہوتی ہے۔

پانچ لاکھ کیوسک کا ریلہ اگر ایک دن جمع ہوتا ہے تو صرف ایک ملیئن ایکڑ فٹ سٹوریج کافی ہو گی اور ریلہ ایک دن لیٹ بھی ہو جائے گا۔

یوں ڈیم کی سٹوریج کیپیسٹی بڑھاتے جائیں اور سیلابی ریلے کو مزید لیٹ کرتے جائیں۔

ریلے کے لیٹ ہونے سے یہ کسی اور ریلے سے مل کر سیلاب کی شدت نہیں بڑھائے گا بلکہ چھوٹے موٹے ریلے دریا کی نارمل حدود کے اندر ہی آگے پیچھے چلتے رہیں گے یوں سیلاب کی شدت ٹوٹ جائے گی۔

یہی کام دریائے جہلم پر منگلا ڈیم کرتا ہے۔ یہی کام دریائے چناب پر مجوزہ چنیوٹ ڈیم کر سکتا ہے۔

پنجاب میں بھی میدانی دریاؤں میں سیلاب کے زور کو بھی توڑا جاسکتا تھا اگر انڈیا میں دریاؤں پر ایک ایک ڈیم اور ہوتا۔

یہ واٹر ریگولیشن اور فلڈ مینیجمنٹ ہوتی کیا ہے؟

جب دریا میں زیادہ پانی ہوتو اسے ڈیم کی سٹوریج میں ذخیرہ کرلیں اور جب دریا میں کم پانی ہو تو ڈیم سے آہستہ آہستہ نکال لیں۔ ہر بڑے پانی کی پانی کی آمد سے پہلے ڈیم کو خالی کرلیں۔

سندھ اور پنجاب میں بیراجوں سے نکلنے والی نہریں اسی واٹر ریگولیشن سے ہی ہر سال 100 ایکڑ فٹ تک پانی دریاوں سے نکال لیتی ہیں یوں تربیلا ڈیم کی 6.5 ملیئن ایکڑ فٹ اور منگلا کی 8 ملیئن ایکڑ فٹ کی کیپیسٹی سے واٹر ریگولیشن 100 ملیئن ایکڑ فٹ ہوجاتی ہے۔

پنجاب اور سندھ کے تمام کھیت ہماری 100 ملیئن ایکڑ فٹ کی سٹوریج کیپیسٹی کی آف لائن سٹوریج ہیں۔

کچھ لوگ اس پوسٹ پر انڈس ڈیلٹا میں پانی کی کمی یا انڈیا کی طرف سے مشرقی دریاوں کی بات کرنا شروع کردیں گےلیکن آپ نے ان کی باتوں سے کنفیوز نہیں ہونا۔ میری اس پوسٹ کا واحد مقصد آپ کو فلڈ ریگولیشن کے بارے میں آگاہ کرنا ہے کہ ڈیم کیسے فلڈ کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔

انڈس ڈیلٹا اور مشرقی دریاؤں پر بعد میں بات ہوتی رہے گی کیونکہ اس وقت سیلاب کو لے کر ڈیمز کے خلاف بات ہورہی ہے تو اس پوسٹ کو اسی تناظر میں سمجھیں۔

ویسے دریائے سندھ ڈیم سمندر میں مون سون کے چند دنوں میں جانے والے اوسطاً سالانہ 20 ملیئن ایکڑ فٹ پانی کو بھی ریگولیٹ کرکے ڈیلٹا میں روزانہ کی بنیاد پر 10 ہزار کیوسک سے زیادہ پانی چلتا رکھ سکتا ہے جوکہ سندھ حکومت کی ڈیلٹا کے لیے پانی کی ڈیمانڈ ہے۔

انجینیئر ظفر اقبال وٹو
03ستمبر 2025

03/09/2025

دریائے چناب پاکستان کے اُن بڑے دریاؤں میں شمار ہوتا ہے جن پر آبپاشی کے وسیع نظام کو قائم رکھنے کے لیے متعدد بیراج تعمیر کیے گئے۔ یہ بیراج نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین کو زرخیز بناتے ہیں بلکہ سیلابی ریلوں پر قابو پانے اور پانی کی منصفانہ تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دریائے چناب پر (پاکستانی حدود میں ) شمال میں واقع پہلا بیراج مرالہ ہیڈورکس ہے جو سیالکوٹ کے قریب تعمیر کیا گیا۔ اس کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں ایک weir کے طور پر ہوا اور بعد ازاں 1968 میں جدید طرز کا بیراج بنایا گیا۔ اس کی گنجائش تقریباً گیارہ لاکھ دس ہزار کیوسک ہے اور یہی بیراج اپر چناب کینال اور مرالہ راوی لنک کینال کو پانی فراہم کرتا ہے۔ یہ منصوبہ دراصل برصغیر کے مشہور Triple Canals Project کا حصہ تھا اور آج بھی پنجاب کی زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی کے دباؤ کو سنبھالنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

چناب کے بہاؤ کے ساتھ اگلا بڑا ڈھانچہ خانکی ہیڈورکس ہے جو گوجرانوالہ کے نزدیک واقع ہے۔ برطانوی دور میں 1889 سے 1892 کے درمیان تعمیر ہوا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ پرانا ڈھانچہ فرسودہ ہوتا گیا۔ اس لیے 2017 میں ایک نیا اور جدید بیراج تعمیر کیا گیا جسے 2019 میں محکمہ آبپاشی کے حوالے کیا گیا۔ اس کی ڈسچارج کی گنجائش گیارہ سے بارہ لاکھ کیوسک تک ہے اور اس کے ذریعے لوئر چناب کینال کو پانی فراہم ہوتا ہے۔ نئے خانکی بیراج میں سیلابی ریلوں سے نمٹنے اور پانی کی تقسیم پر جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس میں SCADA نظام بھی شامل ہے۔ یوں یہ بیراج صرف ایک آبپاشی ڈھانچہ نہیں رہا بلکہ ایک ماڈرن واٹر مینجمنٹ سسٹم میں ڈھل چکا ہے۔

اس کے بعد قادرآباد بیراج آتا ہے جو منڈی بہاؤالدین ضلع میں پھالیہ کے نزدیک واقع ہے۔ یہ 1967 میں مکمل ہوا اور اس کی گنجائش لگ بھگ نو لاکھ کیوسک ہے۔ اس بیراج کی خاص اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ دریائے جہلم اور چناب کے درمیان ایک بڑے لنک کا حصہ ہے۔ یہاں سے نکلنے والے نہری نظام کے ذریعے جہلم کا پانی چناب میں لایا جاتا ہے تاکہ دریائے راوی اور ستلج کے حصوں کو بھی سیراب کیا جا سکے۔ اس بیراج کے ساتھ ایک ہائیڈرو پلانٹ بھی قائم ہے اور قریبی علاقہ قدرتی حیات کے لیے گیم ریزرو کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سے اگلا بیراج جھنگ کے قریب تریموں بیراج 1938 اور 1939 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے جہلم آ کر چناب میں شامل ہوتا ہے اس لیے پانی کا بہاؤ یہاں زیادہ دباؤ رکھتا ہے۔ اس بیراج کی گنجائش تقریباً چھ لاکھ پینتالیس ہزار کیوسک تھی جو کہ 2019 میں بیراج کی ری ماڈلنگ کر کے بارہ لاکھ پینسٹھ ہزار کیوسک کر دی گئی۔ اس کے ساتھ لنک کینالز بھی قائم کی گئیں جو انڈس واٹر پلان کے تحت دوسرے دریاؤں کو پانی فراہم کرتی ہیں۔ یہ بیراج سیلابی ریلوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ وسیع زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور جھنگ، خانیوال اور ملحقہ اضلاع کے کاشتکار اس کے پانی سے براہِ راست مستفید ہوتے ہیں۔

دریائے چناب پر مرالہ، خانکی، قادرآباد اور تریموں بیراج کے بعد نیچے کی سمت اگر دیکھا جائے تو اگلا بڑا بیراج پنجند بیراج ہے۔ یہ دراصل چناب کے آخری حصے پر واقع ہے جہاں دریائے جہلم، راوی، ستلج اور بیاس کے پانی بالآخر آ کر دریائے چناب کے ساتھ ملتے ہیں۔ پنجند کے مقام پر یہ سب دریا یکجا ہو کر ایک بڑے دھارے کی صورت اختیار کرتے ہیں اور پھر آگے دریائے سندھ میں جا گرتے ہیں۔ اس لیے پنجند بیراج نہ صرف چناب بلکہ پورے مشرقی دریائی نظام کا آخری کنٹرول پوائنٹ سمجھا جاتا ہے۔

پنجند بیراج 1929 میں تعمیر کیا گیا۔ یہ پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور اور بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کی ڈسچارج گنجائش تقریباً سات لاکھ کیوسک کے لگ بھگ تھی جو کہ 2017 کے توسیعی منصوبے کے بعد لگ بھگ آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے ساڑھے نو لاکھ کیوسک ہو گئی ہے۔ یہ بیراج کئی نہروں کو پانی فراہم کرتا ہے جن میں سب سے بڑی پنجند کینال ہے۔ اس کے علاوہ بہاول پور اور ملتان ڈویژن کی زمینوں کو سیراب کرنے والی مختلف نہریں بھی اسی بیراج سے نکلتی ہیں۔ یوں یہ بیراج جنوبی پنجاب کے لاکھوں ایکڑ زرعی رقبے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

پنجند بیراج کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم کا ایک کلیدی حصہ ہے۔ بھارت کے ساتھ ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے بعد ستلج اور راوی کا زیادہ تر پانی پاکستان کو میسر نہیں رہا لیکن جو بہاؤ پاکستان میں آتا ہے وہ یہاں جمع ہو کر دریائے سندھ میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس سے دریائے سندھ کے نچلے حصوں میں پانی کی کمی پوری کی جاتی ہے اور ساتھ ہی چولستان کے قریبی علاقوں کی نہروں کو بھی سیراب کیا جاتا ہے۔

یہ بیراج بہاولپور کی معیشت کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا مرالہ اور خانکی پنجاب کے شمالی حصے کے لیے ہیں۔ یہاں کا زرعی نظام کپاس، گندم، کماد اور آم جیسی اہم فصلوں کو سہارا دیتا ہے اسی لیے 2017 میں اس بیراج کی توسیع اور بحالی کا منصوبہ شروع کیا گیا تاکہ پرانے ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے، پانی کے بہاؤ کو بہتر طور پر قابو میں رکھا جا سکے اور آنے والے برسوں میں بڑھتے ہوئے زرعی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

یوں دریائے چناب کے بیراجوں کا سلسلہ پنجند پر آ کر مکمل ہوتا ہے اور یہ مقام پنجاب کے دریائی پانیوں کا آخری سنگم ہے۔ یہاں سے دریائے سندھ کی طرف بڑھنے والا پانی نہ صرف پاکستان کے آبی توازن کو برقرار رکھتا ہے بلکہ جنوبی پنجاب اور سندھ کی زرخیزی میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

03/09/2025
03/09/2025
03/09/2025
انتہائی افسوس ناک خبرپاکستان بھر کے بیشتر علاقوں میں قادیانی یہ تفسیر تقسیمِ کر رہے ہیں.. خدارا سادہ لوح مسلمانوں تک زیا...
24/02/2025

انتہائی افسوس ناک خبر

پاکستان بھر کے بیشتر علاقوں میں قادیانی یہ تفسیر تقسیمِ کر رہے ہیں.. خدارا سادہ لوح مسلمانوں تک زیادہ سے زیادہ یہ پیغام پہنچائے، قادیانیت کی سرکوبی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں، سوشل میڈیا کی طاقت کا تحفظ ختم نبوت کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کریں

جزاکم اللّٰه الخیر

*اس پیغام کو بھی ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں

30/08/2024

حضرت علی کرم اللہ کا فرمان
تم زندگی میں جنت مت مانگو بلکہ دنیا مین کام ایسے کرکے جاو کہ جنت تمہیں خود مانگے

14/08/2024

حافظ نعیم الرحمن جب یہ کہتے ہیں کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی، اور پی ٹی آئی تینوں نے مل کر آئی پی پیز کے ساتھ مکروہ معاہدے کیے،
تو پی ٹی آئی کے حامیوں کے سینے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غصے سے چَلا اٹھتے ہیں، جیسے ان کے دلوں میں انگارے دہکنے لگے ہوں۔ وہ چیخ و پکار کرتے ہیں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ کیسے انہیں ان چور پارٹیوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بڑے مزے سے خود کو مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں، معصوم سا چہرہ بنا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ لو انہوں نے ہی تو عوام کی بھلائی کے لیے قدم اٹھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے جن میں ریٹ 148 روپے فی یونٹ فکس کروا دیا۔

مگر جس طرح اس قوم کو دھوکے کی تاریکی میں دھکیلنے والوں کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔بلکل اسی طرح اس ریٹ فکس کرانے کی حقیقی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ جب انہی کے دورِ حکومت میں آئی پی پیز کے حوالے سے تحقیقات ہوئیں، تو ایک کے بعد ایک فراڈ کے انکشافات سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اکثر کمپنیاں بجلی کم پیدا کر رہی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے معاہدوں میں بجلی کی پیداوار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک کمپنی اگر اپنی فل کپیسٹی پر چلے تو وہ صرف پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہے، تو اسے معاہدے میں پانچ ہزار میگاواٹ دکھایا گیا۔ اس کے نتیجے میں، جتنی بجلی یہ فراہم کرتے تھے یا پیدا کر سکتے تھے، اس کی بجائے پانچ ہزار میگاواٹ کے حساب سے کپیسٹی پے منٹ چارج کرتے تھے۔ اس فراڈ کے ذریعے قوم کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے۔ اسی طرح کچھ نے گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کی، مگر معاہدے میں جھوٹ بول کر دعویٰ کیا کہ یہ بجلی تو تیل سے بنا رہے ہیں، اور پھر تیل کے حساب سے کپیسٹی پے منٹ سمیت ریٹ چارج کیا۔ یہ تمام فراڈ معاہدے پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون پرویز مشرف اور پھر دوبارہ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں کیے گئے تھے، کہا جاتا ہے ان معاہدوں کے ان پارٹیوں نے اچھے خاصے کک بیکس لیے تھے
لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد پی ٹی آئی نے یہ رپورٹ پبلک ہونے سے روک دی اور اس فراڈ کو نیا طریقہ کار فراہم کر دیا
اگر پی ٹی آئی واقعی عوام کی خیرخواہ ہوتی، تو ان فراڈ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرتی، ان کے معاہدے ختم کرتی، اور انہیں عدالت میں لاتی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ بجائے ان کمپنیوں کے جھوٹے معاہدوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی پی ٹی آئی حکومت نے انہی چوروں، فراڈیوں، اور قوم کا خون چوسنے والے درندوں کے ساتھ دوبارہ نیا معاہدہ کر لیا، جس میں جو پہلے لوٹ مار جاری تھی اس لوٹ مار کو تو جاری رکھا مگر اس کا ریٹ فکس کر دیا یہ ہے وہ "کارنامہ" جس کا یہ کریڈٹ آج تک لیتے پھرتے ہیں اگر یہ واقعی قوم کے ہمدردہوتے ان فراڈہوں کا احتساب کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا الٹا انہی چوروں کی سہولت کاری میں حصہ لیا کیونکہ اس فراڈ میں ملوث پی ٹی آئی کی اپنی اے ٹی ایم مشینیں بھی تھیں
وہ ان کے دور حکومت میں باقاعدہ وزراء کی پوسٹ پر براجمان تھے
ندیم بابر اور رزاق داود یہ دونوں ان کے دور حکومت میں وزیر تھے اور یہی تو سب سے بڑے فراڈیے ہیں . ان کا فراڈ کیا تھا آئیے آپکو وہ بتاتے ہیں

روش نامی ایک پاور پلانٹ، جو کہ ڈسکان کا حصہ ہے ڈسکان کا مالک وہی رزاق داود ہے، یہ کمپنی بجلی کے ہر یونٹ کا 745 روپے چارج کر رہا ہے۔
چلیں یہاں تک بات رہتی تب بھی کچھ حد تک قابل برداشت تھی لیکن آگے اگلی بات سنیں یہ پلانٹ اپنی پوری کپیسٹی کا صرف چار فیصد بجلی پیدا کرتا ہے، مگر پیسے سو فیصد کے حساب سے لیتا ہے! اور ریٹ وہی745 روپے یونٹ.
اسی طرح ندیم بابر یہ بھی ان کے دور حکومت میں ایک وزیر رہ چکا ہے اس کا صبا پاور پلانٹ اور اوریئنٹ پاور پلانٹ نے اسی قسم کے گھپلے کے ذریعے دس ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا، اور قوم کی محنت کی کمائی کو نگل گیا۔

اس سب کے باوجود، بجائے ان مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے، بجائے انکی اصل کپیسٹی کے مطابق یعنی جتنی بجلی یہ بناتے ہیں اتنے ہی ریٹ طے کرنے کے پی ٹی آئی حکومت نے ان کے ساتھ نیا معاہدہ کرلیا اور وہی فراڈ کپیسٹی پے منٹ برقرار رکھی جو وہ اصل میں پیدا ہی نہیں کر رہے پی ٹی آئی نے انہیں بلکل اسی طرح تحفظ فراہم کیا، بس فرق یہ ہوا کہ اس چوری کا ایک ریٹ فکس کر دیا جو پہلے ڈالر کے حساب سے کم یا زیادہ ہوجایا کرتا تھا.
جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے کیا تھا انہوں نے بھی قوم کو ایک نئے دھوکے میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے ان چوروں کو دوبارہ قوم پر مسلط کردیا، ان کی کرپشن کو مزید مضبوط کیا، اور قوم کے ساتھ ایک بار پھر غداری کی۔
یہ وہ وقت تھا جب ان سے جان چھڑانے کا بہترین موقع تھا، مگر پی ٹی آئی نے اپنے مفادات کو ملک و قوم کے مفادات پر ترجیح دی اور اس قوم کو ایک بار پھر دھوکا دیا۔

یہ ملک ان چالیس طاقتور خاندانوں کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ یہی در اصل حکمران ہیں جو اس قوم کے خون کو چوس کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہی چالیس خاندان آئی پی پیز کے مالک ہیں، یہی نون لیگ، پیپلز پارٹی، اور پی ٹی آئی کی اے ٹی ایم مشینیں ہیں۔ جب تک یہ قوم ان چوروں، ان غاصبوں، اوران کرپٹ سیاسی پارٹیوں کی گرفت سے نجات نہ پائے گیں، یہ اسی طرح پستی رہے گی یہ یوں ہی مہنگے مہنگے بل بھرتی رہے گی، یہ یوں ہی خودکشیاں کرتی رہے گی، اور یہ جونکیں عوام کا خون یوں ہی نچوڑتی رہیں گی۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس قوم کو جاگنا ہوگا، ان سب پارٹیوں سے حساب مانگنا ہوگا، ان سے سوال کرنا ہوگا۔ یہ سب اس قوم کے اصل مجرم ہیں، اور جب تک ان سے نجات نہیں ملے گی، ظلم اور استحصال کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Address

Zafarwal Road
Narowal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when الخدمت نیوز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to الخدمت نیوز:

Share