24/04/2024
معزز انتظامی افسران پنجاب یونیورسٹی.
اس تحریر کا مقصد کسی فرد واحد کو تنقید کا نشانہ بنانا اور دشنام طرازی کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقائق کو واضح کرنا ہے اور انتظامیہ کی ترجیحات پہ روشنی ڈالنا ہے کہ مادرعلمی مالی مسائل کا شکار کیوں ہے. ماضی میں ایسے کونسے اقدامات کئے گئے یا مستقبل قریب میں ایسے کونسے اقدامات ہونے جا رہے ہیں کہ جس میں ہم اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے مادر علمی کی موجودہ مالی بدحالی کو مزید بدحال کرنے جا رہے ہیں.
آپ بھی اپنی مثبت تجاویز دیں.
یہ انداز بیان اگرچہ شوخ نہیں ہے,
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات.
لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک طرف انتظامیہ فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا شدت سے روتی ہے اور دوسری طرف انتظامیہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے اساتذہ بھرتی کرنے کا اشتہار بڑے زور و شور سے دیتی ہے.
ایک طرف یونیورسٹی ملازمین کو ہاؤس رینٹ/ریکوزیشن دینے کے پیسے نہیں ہیں, اور دوسری طرف ہم نئی بھرتی کے لئے اتاولے ہوئے پھرتے ہیں.
ایک طرف عید بونس/آنریریم دینے کے پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف نئی ریکروٹمنٹ کر کے ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہ کی مد میں دینے کا ساماں کرنے کو بے چین ہیں.
ایک طرف لیو ان کیشمنٹ کے پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف نئی بھرتی کے عمل کو عملی جامہ پہنا کر ماہانہ تنخواہ, ہاؤس رینٹ, فیول, ٹیلی فون اور کئی دوسرے ماہانہ اعزازات کو حتمی شکل دینے کے لئے ہماری روح بے چین ہے.
یہ دستورِ زباں بندی کیسا ہے تیری محفل میں,
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری.
جنابِ والہ.
آپ جس مسند پہ تشریف فرماں ہیں وہاں سے آپ حالات کی سنگینی کا باریک بینی سے بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں.
اگر فنڈز دستیاب نہیں ہیں تو آپ اُس پالیسی کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم ہی کیوں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انتظامیہ کے حصےّ میں سوائے رسوائی کے کچھ نہیں آتا.
کسی بھی مسند پہ بیٹھ کے آپ ارباب اختیار سے اختلاف کر کے اس عمل کو کیوں نہیں روکتے یا اپنے آپ کو اس عمل سے علیحدہ کیوں نہیں کرتے کہ جس سے مادرعلمی مزید مالی مسائل کا شکار ہونے جا رہی ہو.
اگر وسائل موجود ہیں تو ملازمین سے بے اعتنائی کی وجہ ببانگ دہل بتائیے؟ اور مالی مسائل کا رونا بند کیجئے. اگر وسائل موجود نہیں ہیں تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی وجہ بتلائیے اور اس عمل کا حصّہ بننے کی مجبوری بتائیے کہ جس سے مادررعلمی مستقبل قریب میں مزید مالی گرداب میں پھنسنے جا رہی ہو.
جو آج صاحبِ مسند ہیں کَل نہیں ہوں گے,
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے.
جنابِ والہ.
انتظامی افسر کی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حال میں رہتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے ایسی پالیسی اپنائے کہ جو ادارے کی خوشحالی کی ضامن ہو اور جس سے ادارے کی تعمیرو ترقی پر مثبت اور دوررَس نتائج مرتب ہوں.
حضور والہ.
اگر یہ بھرتی کا سارا عمل نہایت ضروری ہے تو ضرور اس عمل کو عملی جامہ پہنائیں, لیکن حضور آمدن کے وہ خفیہ ذرائع بھی ساتھ بتائیں کہ جس سے آپ مادرعلمی کو موجودہ اور آنے والے مالی گرہن سے جَلا بخشیں گے.
ملازمین خاص طور پر چھوٹے ملازمین حالات کی گرداب پہ پھنسے ہوئے ہیں اور دن رات آپکو, ہم سب کو, انتظامیہ کو جھولیاں بھر بھر دعائیں دیتے ہیں.
خدارا اپنے مسند کے ساتھ انصاف کیجئے اور اپنے عہدے کی بقاء کی بجائے مادرعلمی کی بقاء کے ضامن بنیں.
آپ کا سارا زور یونیورسٹی ملازمین پر ہی کیوں چلتا ہے؟ اگر مالی حالات اتنے ہی خراب ہیں تو فیول کی مد میں جو ماہانہ سینکڑوں لیٹر انتظامیہ اور اساتذہ کو عطا کیا جا رہا ہے اس پر فی الوقت نظر ثانی کر لیجیے اور اس پر پچاس فیصد کٹوتی کر کے ضروریات کو پورا کر لیں اور لگژری کو روک لیں.
یہ تو نہیں ہو سکتا کہ چھوٹا طبقہ پستا جائے اور اشرافیہ کے الّلے تلّلے جاری رہیں.
قومیں تو پھر ایسے ہی بنتی ہیں.
یہی انصاف کا قتل عام کرونا کے دوران ہوا.
جو اپنے آپ کو مقیدّ کر کے درس و تدریس کرتے رہے اُن کو تو بیالیس ملین عطا کر دیے گئے. ضرور عطا کریں لیکن انصاف کدھر گیا ؟
اور جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کے انتظامی اُمور چلاتے رہے ان کی باری چودہ ملین بھی پہاڑ لگنے لگا. اور لا تعداد تاویلیں پیش کی گئیں, کہ کون حاضر رہا اور کون غیر حاضر, مختلف شعبہ جات کے سربراہان افسران کی تحریری یقین دہانی کو بھی درخوراعتناء نہ سمجھا گیا حالانکہ کرونا کے دوران انتظامی امور چلاتے ہوئے لوگوں کو جینے کے لئے مرنا پڑا. مزیدبرآں لوگ انتظامی امُور کے دوران کرونا کا شکار ہوئے اور اس دارفانی سے کُوچ کر گئے.
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں,
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے,
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن,
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے .
اگر نان ٹیچنگ سیٹیں دیدہ دلیری سے ختم کی جا سکتی ہیں اور نئی سیٹیں جنم نہیں لے سکتی تو انقلاب فرانس یا خمینی انقلاب کی طرح کونسا تعلیمی انقلاب ہمارے دروازے پہ دستک دے رہا ہے کہ جس کے لئے انتظامی افسران پوری شدومد سے سر بکفن ہیں.
کہنے کو بہت کچھ ہے کہ کلیجہ منہ کو آئے لیکن اسی پہ اکتفا کرتا ہوں اور تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ نہ کیجئے.
پہلے مسائل کا ادراک کیجئے, پھر وسائل کا بندوبست کیجئیے پھر چاہے دس طلباء پر ایک استاد تعینات کیجئے کوئی مضائقہ نہیں ہے. کیوں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی. لیکن آگاہ دوڑ اور پچھاّ چوڑ والامعاملہ نہ کیجئے. حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے صحیح اور غلط کی تمیز کیجئے اور مادرعلمی کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لیے اپنے اندر جرأت پیدا کیجئے اور وہ غلط فیصلے نہ کریں کہ جن کا معاشی بوجھ اٹھاتے ہوئے درسگاہ کی کمر ٹوٹ جائے.
آپ اپنے آپ کو اس شعر سے ماوراء نہ سمجھیں. کہ
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی,
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے.
وہ بانو قدسیہ نے کہا تھا نا کہ درسگاہ اور درگاہ میں سے س کا فرق مٹ جائے تو درسگاہ بھی درگاہ ہی بن جاتی ہے. اس لئیے درگاہ پہ ماتھا ٹیکا جاتا ہے لاتیں نہیں ماری جاتیں.
مجھے کافی سالوں پہلے ریلیز ہوئی اک پاکستانی فلم بول کا ڈائیلاگ یاد آ گیا جس میں ہیروئن کہتی ہے کہ.
جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو,
اسی طرح جب تنخواہیں دے نہیں سکتے تو نئی بھرتی کیوں کرتے ہو.
انتظامی افسران ہونے کے ناطےآئیں اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور متبادل ذرائع تلاش کریں جس سے مادر علمی کی معاشی بدحالی ختم ہو اور ماضی کی طرح وہ خاردار رستہ نہ چنیں کہ جس سے آنگن لہولہان ہو. اس لئے ملازمین کا معاشی قتل عام بند کیا جائے تا کہ کل کو کوئی آپ کو یہ نہ کہے کہ,
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا,
اپنے حصےّ کی کوئی شمع جلاتے جاتے.
ازقلم.
آصف خان.
اسسٹنٹ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی کالج آف فارمیسی.