11/03/2025
ناول چاند میرے آنگن کا
رائیٹر میم عین
قسط نمبر 01
وہ کافی دیر سے آسمان پر نظریں ٹکا کر بیٹھی تھی۔ انتظار لمبا ہی ہوتا جا رہا تھا جیسے اس کے لئے۔ ساتھ کھڑی لائبہ سے اس کی حالت دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا جو بچوں کی طرح نچلا ہونٹ باہر نکالے آنکھوں میں بے چینی لئے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتی چاند نظر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
" یار لائبہ کب نظر آے گا چاند؟"
وہ منہ بسور کر لائبہ سے پوچھنے لگی۔
"ہاں چندا ماما تو میرے سگے والے ماموں ہیں نا جو مجھے اطلاع دے کر نکلیں گے۔"
اس کے طنزیہ جواب پر مسکان اسے گھور کر دوبارہ آسمان کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یکایک وہ اتنی زور سے چیخی کہ لائبہ کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پر پڑا تھا۔
"چڑیل مجھے تم ضرور کبھی نا کبھی ہارٹ اٹیک کروا کر چھوڑو گی۔"
پر وہ متوجه ہوتی تو سنتی نا۔
وہ چاند کے نظر آتے ہی جلدی سے کندھے پر پڑا دوپٹہ سر پر اوڑھتی ہاتھ اٹھا کر ددعا مانگنے میں مشغول ہو گئی۔
"رمضان کا چاند مبارک!"
وہ دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پهيرتی اس کی طرف مڑی اور اس کے گلے لگ کر چاند نظر آنے کی مبارک باد دینے لگی۔
"خیر مبارک! تمہیں بھی مبارک ہو! ویسے یہ بتاؤ تم اتنے جذبے سے کون سی دعا مانگ رہی تھی کیوں کہ میرا بھائی تو پہلے سے ہی تمہارا ہے۔"
لائبہ آنکھوں میں شرارت لئے اس سے یہ سوال کرتی گویا اسے ایک تپتے ہوئے توے پر بٹھا گئی۔
"ارے بہن رہنے ہی دو تم تو۔ مجھے اچار نہیں ڈالنا تمھارے اس کھڑوس بھائی کا۔ اللّه نے اس قدر حسین و جمیل لڑکی ان کے نصیب میں کیا لکھ دی ان جناب کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ کبھی جو نظر بھر کر دیکھا ہو۔ ہاں بس حکم چلانے اور رعب جمانے کا پتا ہے بس!"
وہ اپنا دل جو ہلکا کرنا شروع ہوئی تو اس کی فراٹے بھرتی زبان دیکھ کر لائبہ پچھتائ کہ کیوں اس بلا کو چھیڑ بیٹھی وہ بھی اسے جانتے بوجھتے۔
" معاف کر دو مجھے میری بہن! فلحال تو نیچے چلو جا کر سب کو چاند نظر آنے کی خبر دیں۔"
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی آخر میں اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
******
یہ منظتھا نور منزل کے لاؤنج کا جہاں اس وقت تمام اہل خانہ جمع تھے۔
اکبر صاحب اور اصغر صاحب ایل- سی- ڈی کے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ سامنے ایل- سی- ڈی پر نشر ایک نیوز چینل میں موجود صحافی رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان کر رہا تھا۔ ساتھ پڑے صوفہ پر نور بانو بیگم بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے کھڑا زمان ان کے کندھے دبا رہا تھا جب کے ان کے بلکل سامنے نیچے زمین پر نینا اور شارق بیٹھے لڈو کھیلنے میں مصروف تھے۔ آمنہ بیگم اور شازیہ بیگم دونوں اس وقت کچن میں موجود کل کے روزے کی تیاری میں مشغول تھیں۔
"شارق بھائی آپ پھر سے چیٹنگ کر رہے ہیں۔"
نینا کے روہانسے لہجے پر شارق ہونٹوں کے گوشوں سے پھوٹتی ہنسی بہت مشکل سے ہی سہی پر ضبط کر گیا۔
"مینا تم مجھ پر شک کر رہی ہو۔ آئ کانٹ بلیو!"
وہ چہرے پر مصنوعی بے یقینی کے تاثرات سجا کر چشمے کے پیچھے چھپی اس کی کالی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
"اوفو! شارق بھائی مینا نہیں نینا۔ نینا نام ہے میرا! آپ بار بار کیوں بھول جاتے ہیں؟"
وہ اسے دیکھتی بے چارگی سے بولی تو شارق سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔
"ارے میری پیاری مینا! چاہے تمہارا نام نینا ہو یا ٹینا پر میں تو تمہیں مینا ہی بلاؤں گا۔ سمجھی؟"
وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا تو وہ نا سمجھی سے سر ہلا گئی۔
اتنے میں مسکان اور لائبہ سیڑھیاں پهلانگتی ہوئی نیچے آ گئیں اور چاند نظر آنے کی خوشخبری سنانے لگیں تو وہ سب ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے مبارک باد دینے لگے۔
"عمیر کہاں ہے ؟ نظر نہیں آ رہا۔"
اکبر صاحب عمیر کی غیر موجوگی محسوس کرتے پوچھ گئے۔
"بابا جان عمیر بھائی اپنے دوست کے ساتھ باہر گئے ہیں کہہ رہے تھے کہ تراویح پڑھ کر واپس آئیں گے۔"
جواب نینا کی طرف سے آیا تھا کیوں کہ عمیر اسے بتا کر گیا تھا۔
"چلو بچو عیشا کی اذان ہو گئی اٹھ کر نماز اور تراویح پڑھو اور وقت پر سو تا کہ سحری کے لئے اٹھنے میں مشکل پیش نہ آے۔"
دادی جان کے کہنے پر ایک ایک کر کے سب وہاں سے اٹھ گئے اور نماز پڑھنے کے لئے اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
*******
نور منزل میں اس وقت رونق عروج پر تھی۔ سب افراد خانہ پہلے روزے کی سحری کے لئے ڈائننگ حال میں ڈائننگ ٹیبل کے گرد موجود کرسیوں پر براجمان تھے۔ سربراہی کرسی پر دادی جان براجمان تھیں جب کہ دائیں طرف مرد حضرات تشریف فرماں تھے۔ دونوں خواتین کچن میں سحری بنانے میں مصروف تھیں۔ لائبہ اور مسکان کچن سے گرما گرم تازہ پراٹھے اور بھنے ہوئے قیمے کی پيالیاں دسترخوان تک پہنچا رہی تھیں جب کہ نینا دادی جان کی کی کرسی کے بلکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ان سے چھوٹے چھوٹے سوال کر رہی تھی۔
" دادی جان رمضان کا کیا مطلب ہے؟"
وہ گال پر ہاتھ ٹکا کر بیٹھی چہرے پر معصومیت لئے نور بانو بیگم سے محو سوال تھی۔ وہ اس کا سوال سن کر مسکرائیں۔
"میری بچی رمضان کا لفظی مطلب ہے ' جلانے والا' ۔ رمضان کا نام اس لئے رکھا گیا کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللّه پاک سچے اور پکے مسلمانوں کی عبادات اور روزوں کے بدلے میں ان کے گناہ جلا دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس پاک مہینے میں جتنی زیادہ عبادت ہو سکے اتنی زیادہ کریں۔ اللّه پاک نہایت مہربان ہے۔ وہ اپنے بندوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کر سکيں۔"
ان لا لہجہ حلاوت سے پر تھا۔ نینا اور پاس کھڑی مسکان اور لائبہ دم سادھے ان کی باتیں سن رہی تھیں کہ اتنے میں قریبی مسجد سے اعلان ہوا کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں بیس منٹ باقی ہیں۔
"چلو بچیو! اپنی ماؤں کو آواز دو کہ آ کر سحری کر لیں اب۔"
وہ ان تینوں سے کہنے لگیں تو مسکان نینا اور لائبہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتی خود اپنی امی اور تائی امی کو بلانے کی غرض سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
وہ کچن سے باہر آئ تو سامنے ہی شارق کے ساتھ وہ دشمن جاں بھی بیٹھا ہوا تھا اور اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی مسکان کی نظر اس پر پڑی تو تو وہ آنکھیں جھکا کر سامنے پڑے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس کی حرکت دیکھتی مسکان لب بھینچ گئی۔
"کیا ہوا بیٹھ بھی جاؤ اب سحری کا وقت نکل رہا ہے۔"
لائبہ کی آواز سن کر وہ اس کے کھڑوس بھائی سے اپنی نظریں ہٹاتی اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔
خاموشی سے سحری کر لی گئی تو تینوں لڑکیاں برتن اٹھانے لگیں۔ مؤذن کی صلاح کی پکار پر مرد حضرات باجماعت نماز فجر ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف رخ کر گئے اور دادی جان اور دونوں خواتین بھی اپنے اپنے کمرے کا رخ کر گئیں تا کہ وضو کر کے اپنے رب کے حضور حاضری دے سکیں۔ نینا کپڑا لے کر میز صاف کرنے لگی جب کہ لائبہ اور مسکان برتن دھونے لگیں کیوں کہ سحری اور افطاری کے برتن دھونے کی ذمہ داری ان دونوں کی تھی۔ کچن سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں بھی اپنے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
*******
نماز ادا کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد وہ دونوں سو گئی تھیں۔ مسکان کی آنکھ کھلی تو دن کے نو بج رہے تھے۔ اس نے اپنے ساتھ بیڈ پر نظر ڈالی تو لائبہ منہ کھول کر ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرا ہاتھ سر کے پاس رکھے سو رہی تھی۔ مسکان نے نفی میں سر ہلایا اور کندھے پر بکھرے سیاہ کالے بالوں کو جوڑے میں باندھ کر سائیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالتی فریش ہونے کی لئے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔فریش ہو کر وہ نیچے کی طرف بڑھ گئی۔ نور منزل میں اس وقت مکمل خاموشی تھی جو اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ مرد حضرات آفس جا چکے ہیں اور انھیں بھیج کر خواتین بھی سو چکی ہیں۔نینا کالج جا چکی تھی اور شارق یونیورسٹی۔ جب کہ لائبہ اور مسکان کو یونی سے چھٹیاں تھیں۔ زمان بھی اپنی ورکشاپ پر جا چکا تھا۔
وہ نیچے آ کر بغیر دائیں بائیں دیکھے سیدھا سامنے موجود صوفے پر گر گئی۔ وہ کچھ دیر یوں ہی آنکھیں بند کیے پڑی رہی جب اسے اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں ذرا سی کھول کر اپنی بايین جانب نظر ڈالی تو سامنے دیکھتے ہی اس کی موٹی موٹی نیم وا آنکھیں پهيل کر اپنے اصلی حجم سے بھی بڑی ہو گئی تھیں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور خفت زدہ سی چور نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی جو پولیس کی وردی پہنے، تازہ تازہ شیو بناے، ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے نکھرا نکھرا سا بیٹھا اس کی جانب گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اس کی گہری نظروں سے مسکان کا چہرہ اپنے لباس کی طرح سرخ ہو گیا۔وہ اس کی نظروں سے خایف ہوتی اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب وہ اسے پکار گا۔
"رکو! کہاں جا رہی ہو؟" اس کے سوال کرنے پر وہ اپنی جون میں واپس لوٹی۔
"کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میری مرضی میں جہاں مرضی جاؤں آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔"
اس کے تڑکھ کر بولنے پر وہ اس کی جرآت پر داد میں ابرو اچکا گیا۔
"مجھے نہیں لگتا مسز عمیر کہ آپ کی یہ بات درست ہے کیوں کہ ایک میں ہی تو ہوں جو آپ سے ہر سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ ہمارے درمیان موجود رشتہ یاد ہے آپ کو یا پھر میں یاد کرواؤں۔"
وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کر گیا تو مسکان کی سٹی گم ہوئی۔
"اس جلاد میں کس کی روح گھس گئی؟"
وہ بس سوچ کر ہی رہ گئی۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی مسکان کو آواز دیتی ہوئی لائبہ وہاں آ گئی تو عمیر اس کا ہاتھ دبا کر چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جانے پر مسکان نے سکون کی سانس خارج کی اور پلٹ کر لائبہ کی طرف آئ جو اس وقت اس کے لئے فرشتہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ وہ لائبہ کر پاس آ کر زور سے اس کے گلے لگٹی اس کو حواس باختہ کر گئی۔
"معاف کرنا بہن شاید تم مجھے غلطی سے عمیر بھائی سمجھ بیٹھی ہو پر میں لائبہ ہوں لائبہ! تمہاری اکلوتی نند۔"
اس کی گوہر افشانی پر وہ مسکان اس کی کمر پر دهپ سے چپت رسید کرتی اس سے الگ ہو گئی تو اس کے نازک سے ہاتھ کے بھاری تھپڑ پر لائبہ آہ کر کے رہ گئی۔
"اللّه میرے بیچارے بھائی پر رحم کرے بہت ہی کوئی مرد مار قسم کے ہاتھ ہیں تمھارے تو۔ کمر توڑ کر رکھ دی میری۔"
وہ اپنی پیٹھ سہلاتی بولی تو مسکان اسے گھورنے لگی۔
"ہاں اتنی ہی کوئی نازک پری ہو نا تم۔ اچھا چھوڑو اس بات کو اب یہ بتاؤ کیوں ڈھونڈ رہی تھی مجھے تم؟"
اس کے استفسار کرنے پر لائبہ کو یاد آیا کہ وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی نیچے آئ تھی۔
"ارے ہہاں یاد آیا تمہارا فون بج رہا تھا کب سے تمہاری خالہ کی کال آ رہی تھی اسی لئے تمہیں بلانے آئ میں۔"
اس کے بتانے پر وہ سر ہلاتی اوپر کی طرف بڑھ گئی پر جاتے جاتے اسے سر پہ تھپڑ مارنا نہ بھولی۔
"اف بدتمیز لڑکی تم کبھی نہ سدھرنا!"
وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔
اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے