Fun & Entertainment With Mik

Fun & Entertainment With Mik For Best Material Of Fun & Entertainment Please Subscribe My Page. Thanks In Advance 🙏🙏🙏

11/03/2025

ناول چاند میرے آنگن کا
رائیٹر میم عین
قسط نمبر 01

وہ کافی دیر سے آسمان پر نظریں ٹکا کر بیٹھی تھی۔ انتظار لمبا ہی ہوتا جا رہا تھا جیسے اس کے لئے۔ ساتھ کھڑی لائبہ سے اس کی حالت دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا جو بچوں کی طرح نچلا ہونٹ باہر نکالے آنکھوں میں بے چینی لئے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتی چاند نظر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
" یار لائبہ کب نظر آے گا چاند؟"
وہ منہ بسور کر لائبہ سے پوچھنے لگی۔
"ہاں چندا ماما تو میرے سگے والے ماموں ہیں نا جو مجھے اطلاع دے کر نکلیں گے۔"
اس کے طنزیہ جواب پر مسکان اسے گھور کر دوبارہ آسمان کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یکایک وہ اتنی زور سے چیخی کہ لائبہ کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پر پڑا تھا۔
"چڑیل مجھے تم ضرور کبھی نا کبھی ہارٹ اٹیک کروا کر چھوڑو گی۔"
پر وہ متوجه ہوتی تو سنتی نا۔
وہ چاند کے نظر آتے ہی جلدی سے کندھے پر پڑا دوپٹہ سر پر اوڑھتی ہاتھ اٹھا کر ددعا مانگنے میں مشغول ہو گئی۔
"رمضان کا چاند مبارک!"
وہ دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پهيرتی اس کی طرف مڑی اور اس کے گلے لگ کر چاند نظر آنے کی مبارک باد دینے لگی۔
"خیر مبارک! تمہیں بھی مبارک ہو! ویسے یہ بتاؤ تم اتنے جذبے سے کون سی دعا مانگ رہی تھی کیوں کہ میرا بھائی تو پہلے سے ہی تمہارا ہے۔"
لائبہ آنکھوں میں شرارت لئے اس سے یہ سوال کرتی گویا اسے ایک تپتے ہوئے توے پر بٹھا گئی۔
"ارے بہن رہنے ہی دو تم تو۔ مجھے اچار نہیں ڈالنا تمھارے اس کھڑوس بھائی کا۔ اللّه نے اس قدر حسین و جمیل لڑکی ان کے نصیب میں کیا لکھ دی ان جناب کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ کبھی جو نظر بھر کر دیکھا ہو۔ ہاں بس حکم چلانے اور رعب جمانے کا پتا ہے بس!"
وہ اپنا دل جو ہلکا کرنا شروع ہوئی تو اس کی فراٹے بھرتی زبان دیکھ کر لائبہ پچھتائ کہ کیوں اس بلا کو چھیڑ بیٹھی وہ بھی اسے جانتے بوجھتے۔
" معاف کر دو مجھے میری بہن! فلحال تو نیچے چلو جا کر سب کو چاند نظر آنے کی خبر دیں۔"
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی آخر میں اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی طرف بڑھ گئی۔

******

یہ منظتھا نور منزل کے لاؤنج کا جہاں اس وقت تمام اہل خانہ جمع تھے۔
اکبر صاحب اور اصغر صاحب ایل- سی- ڈی کے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ سامنے ایل- سی- ڈی پر نشر ایک نیوز چینل میں موجود صحافی رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان کر رہا تھا۔ ساتھ پڑے صوفہ پر نور بانو بیگم بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے کھڑا زمان ان کے کندھے دبا رہا تھا جب کے ان کے بلکل سامنے نیچے زمین پر نینا اور شارق بیٹھے لڈو کھیلنے میں مصروف تھے۔ آمنہ بیگم اور شازیہ بیگم دونوں اس وقت کچن میں موجود کل کے روزے کی تیاری میں مشغول تھیں۔
"شارق بھائی آپ پھر سے چیٹنگ کر رہے ہیں۔"
نینا کے روہانسے لہجے پر شارق ہونٹوں کے گوشوں سے پھوٹتی ہنسی بہت مشکل سے ہی سہی پر ضبط کر گیا۔
"مینا تم مجھ پر شک کر رہی ہو۔ آئ کانٹ بلیو!"
وہ چہرے پر مصنوعی بے یقینی کے تاثرات سجا کر چشمے کے پیچھے چھپی اس کی کالی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
"اوفو! شارق بھائی مینا نہیں نینا۔ نینا نام ہے میرا! آپ بار بار کیوں بھول جاتے ہیں؟"
وہ اسے دیکھتی بے چارگی سے بولی تو شارق سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔
"ارے میری پیاری مینا! چاہے تمہارا نام نینا ہو یا ٹینا پر میں تو تمہیں مینا ہی بلاؤں گا۔ سمجھی؟"
وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا تو وہ نا سمجھی سے سر ہلا گئی۔
اتنے میں مسکان اور لائبہ سیڑھیاں پهلانگتی ہوئی نیچے آ گئیں اور چاند نظر آنے کی خوشخبری سنانے لگیں تو وہ سب ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے مبارک باد دینے لگے۔
"عمیر کہاں ہے ؟ نظر نہیں آ رہا۔"
اکبر صاحب عمیر کی غیر موجوگی محسوس کرتے پوچھ گئے۔
"بابا جان عمیر بھائی اپنے دوست کے ساتھ باہر گئے ہیں کہہ رہے تھے کہ تراویح پڑھ کر واپس آئیں گے۔"
جواب نینا کی طرف سے آیا تھا کیوں کہ عمیر اسے بتا کر گیا تھا۔
"چلو بچو عیشا کی اذان ہو گئی اٹھ کر نماز اور تراویح پڑھو اور وقت پر سو تا کہ سحری کے لئے اٹھنے میں مشکل پیش نہ آے۔"
دادی جان کے کہنے پر ایک ایک کر کے سب وہاں سے اٹھ گئے اور نماز پڑھنے کے لئے اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

*******

نور منزل میں اس وقت رونق عروج پر تھی۔ سب افراد خانہ پہلے روزے کی سحری کے لئے ڈائننگ حال میں ڈائننگ ٹیبل کے گرد موجود کرسیوں پر براجمان تھے۔ سربراہی کرسی پر دادی جان براجمان تھیں جب کہ دائیں طرف مرد حضرات تشریف فرماں تھے۔ دونوں خواتین کچن میں سحری بنانے میں مصروف تھیں۔ لائبہ اور مسکان کچن سے گرما گرم تازہ پراٹھے اور بھنے ہوئے قیمے کی پيالیاں دسترخوان تک پہنچا رہی تھیں جب کہ نینا دادی جان کی کی کرسی کے بلکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ان سے چھوٹے چھوٹے سوال کر رہی تھی۔
" دادی جان رمضان کا کیا مطلب ہے؟"
وہ گال پر ہاتھ ٹکا کر بیٹھی چہرے پر معصومیت لئے نور بانو بیگم سے محو سوال تھی۔ وہ اس کا سوال سن کر مسکرائیں۔
"میری بچی رمضان کا لفظی مطلب ہے ' جلانے والا' ۔ رمضان کا نام اس لئے رکھا گیا کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللّه پاک سچے اور پکے مسلمانوں کی عبادات اور روزوں کے بدلے میں ان کے گناہ جلا دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس پاک مہینے میں جتنی زیادہ عبادت ہو سکے اتنی زیادہ کریں۔ اللّه پاک نہایت مہربان ہے۔ وہ اپنے بندوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کر سکيں۔"
ان لا لہجہ حلاوت سے پر تھا۔ نینا اور پاس کھڑی مسکان اور لائبہ دم سادھے ان کی باتیں سن رہی تھیں کہ اتنے میں قریبی مسجد سے اعلان ہوا کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں بیس منٹ باقی ہیں۔
"چلو بچیو! اپنی ماؤں کو آواز دو کہ آ کر سحری کر لیں اب۔"
وہ ان تینوں سے کہنے لگیں تو مسکان نینا اور لائبہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتی خود اپنی امی اور تائی امی کو بلانے کی غرض سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
وہ کچن سے باہر آئ تو سامنے ہی شارق کے ساتھ وہ دشمن جاں بھی بیٹھا ہوا تھا اور اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی مسکان کی نظر اس پر پڑی تو تو وہ آنکھیں جھکا کر سامنے پڑے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس کی حرکت دیکھتی مسکان لب بھینچ گئی۔
"کیا ہوا بیٹھ بھی جاؤ اب سحری کا وقت نکل رہا ہے۔"
لائبہ کی آواز سن کر وہ اس کے کھڑوس بھائی سے اپنی نظریں ہٹاتی اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔
خاموشی سے سحری کر لی گئی تو تینوں لڑکیاں برتن اٹھانے لگیں۔ مؤذن کی صلاح کی پکار پر مرد حضرات باجماعت نماز فجر ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف رخ کر گئے اور دادی جان اور دونوں خواتین بھی اپنے اپنے کمرے کا رخ کر گئیں تا کہ وضو کر کے اپنے رب کے حضور حاضری دے سکیں۔ نینا کپڑا لے کر میز صاف کرنے لگی جب کہ لائبہ اور مسکان برتن دھونے لگیں کیوں کہ سحری اور افطاری کے برتن دھونے کی ذمہ داری ان دونوں کی تھی۔ کچن سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں بھی اپنے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
*******
نماز ادا کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد وہ دونوں سو گئی تھیں۔ مسکان کی آنکھ کھلی تو دن کے نو بج رہے تھے۔ اس نے اپنے ساتھ بیڈ پر نظر ڈالی تو لائبہ منہ کھول کر ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرا ہاتھ سر کے پاس رکھے سو رہی تھی۔ مسکان نے نفی میں سر ہلایا اور کندھے پر بکھرے سیاہ کالے بالوں کو جوڑے میں باندھ کر سائیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالتی فریش ہونے کی لئے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔فریش ہو کر وہ نیچے کی طرف بڑھ گئی۔ نور منزل میں اس وقت مکمل خاموشی تھی جو اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ مرد حضرات آفس جا چکے ہیں اور انھیں بھیج کر خواتین بھی سو چکی ہیں۔نینا کالج جا چکی تھی اور شارق یونیورسٹی۔ جب کہ لائبہ اور مسکان کو یونی سے چھٹیاں تھیں۔ زمان بھی اپنی ورکشاپ پر جا چکا تھا۔
وہ نیچے آ کر بغیر دائیں بائیں دیکھے سیدھا سامنے موجود صوفے پر گر گئی۔ وہ کچھ دیر یوں ہی آنکھیں بند کیے پڑی رہی جب اسے اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں ذرا سی کھول کر اپنی بايین جانب نظر ڈالی تو سامنے دیکھتے ہی اس کی موٹی موٹی نیم وا آنکھیں پهيل کر اپنے اصلی حجم سے بھی بڑی ہو گئی تھیں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور خفت زدہ سی چور نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی جو پولیس کی وردی پہنے، تازہ تازہ شیو بناے، ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے نکھرا نکھرا سا بیٹھا اس کی جانب گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اس کی گہری نظروں سے مسکان کا چہرہ اپنے لباس کی طرح سرخ ہو گیا۔وہ اس کی نظروں سے خایف ہوتی اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب وہ اسے پکار گا۔
"رکو! کہاں جا رہی ہو؟" اس کے سوال کرنے پر وہ اپنی جون میں واپس لوٹی۔
"کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میری مرضی میں جہاں مرضی جاؤں آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔"
اس کے تڑکھ کر بولنے پر وہ اس کی جرآت پر داد میں ابرو اچکا گیا۔
"مجھے نہیں لگتا مسز عمیر کہ آپ کی یہ بات درست ہے کیوں کہ ایک میں ہی تو ہوں جو آپ سے ہر سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ ہمارے درمیان موجود رشتہ یاد ہے آپ کو یا پھر میں یاد کرواؤں۔"
وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کر گیا تو مسکان کی سٹی گم ہوئی۔
"اس جلاد میں کس کی روح گھس گئی؟"
وہ بس سوچ کر ہی رہ گئی۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی مسکان کو آواز دیتی ہوئی لائبہ وہاں آ گئی تو عمیر اس کا ہاتھ دبا کر چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جانے پر مسکان نے سکون کی سانس خارج کی اور پلٹ کر لائبہ کی طرف آئ جو اس وقت اس کے لئے فرشتہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ وہ لائبہ کر پاس آ کر زور سے اس کے گلے لگٹی اس کو حواس باختہ کر گئی۔
"معاف کرنا بہن شاید تم مجھے غلطی سے عمیر بھائی سمجھ بیٹھی ہو پر میں لائبہ ہوں لائبہ! تمہاری اکلوتی نند۔"
اس کی گوہر افشانی پر وہ مسکان اس کی کمر پر دهپ سے چپت رسید کرتی اس سے الگ ہو گئی تو اس کے نازک سے ہاتھ کے بھاری تھپڑ پر لائبہ آہ کر کے رہ گئی۔
"اللّه میرے بیچارے بھائی پر رحم کرے بہت ہی کوئی مرد مار قسم کے ہاتھ ہیں تمھارے تو۔ کمر توڑ کر رکھ دی میری۔"
وہ اپنی پیٹھ سہلاتی بولی تو مسکان اسے گھورنے لگی۔
"ہاں اتنی ہی کوئی نازک پری ہو نا تم۔ اچھا چھوڑو اس بات کو اب یہ بتاؤ کیوں ڈھونڈ رہی تھی مجھے تم؟"
اس کے استفسار کرنے پر لائبہ کو یاد آیا کہ وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی نیچے آئ تھی۔
"ارے ہہاں یاد آیا تمہارا فون بج رہا تھا کب سے تمہاری خالہ کی کال آ رہی تھی اسی لئے تمہیں بلانے آئ میں۔"
اس کے بتانے پر وہ سر ہلاتی اوپر کی طرف بڑھ گئی پر جاتے جاتے اسے سر پہ تھپڑ مارنا نہ بھولی۔
"اف بدتمیز لڑکی تم کبھی نہ سدھرنا!"
وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

27/02/2025

©©© آب حیات قسط 06 ©©©

میں تمہیں آج فون کرتا رہا لیکن تم نے فون ہی نہیں اٹھایا ۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
امامہ کو سوچتے ہوئے عجیب سی تسلی ہوئی۔
اچھا ہوا نہیں اٹھایا یعنی اس نے محسوس تو کیا کہ میں جان بوجھ کر اس کی کال نہیں لیتی رہی ۔
پھر میں نے گھر کے نمبر پر فون کیا۔ وہ بھی انگیج تھا، تم یقیناً اس وقت مصروف تھیں اس لیے کال نہیں لے سکی ۔ وہ بے حد عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہاں بے نیازی کی انتہا تھی۔
امامہ کے رنج میں اضافہ ہوا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے فون کا بیلنس ختم ہو چکا تھا۔
مجھے اپنے فون کے لیے کارڈ خریدنا ہے۔“
سالار نے اسے یک دم کہتے سنا، وہ اپنا ہینڈ بیگ کھولے اس میں سے کچھ نکال رہی تھی اور جو چیز اس نے نکال کر سالار کو پیش کی تھی ، اس نے چند لمحوں کے لیے سالار کو ساکت کر دیا تھا۔ وہ ہزار روپے کا ایک
نوٹ تھا۔ وہ اس کے تاثرات سے بے خبر اب ونڈ اسکرین سے باہر کسی ایسی شاپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں پر وہ کارڈز دستیاب ہوتے۔ سالار نے اپنی طرف بڑھے ہوئے اس کے ہاتھ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
واپسی پر لیتے ہیں۔ اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔
امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
تمہیں آنکھیں بند کر کے اپنا سیل فون تھما دیا تھا جب تم میری کچھ نہیں تھیں تو اب کیا پیسے لوں گا
گاڑی میں کچھ عجیب سی خاموشی در آئی تھی۔ دونوں کو بہ یک وقت کچھ یاد آیا تھا اور جو یاد آیا تھا اس نے یک دم وقت کو وہیں روک دیا تھا۔
بہت غیر محسوس انداز میں امامہ نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے اس ٹکڑے کو بہت سی تہوں میں لپیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کی ساری رقم لوٹا دی تھی، بلکہ اس سے زیادہ ہی جتنی اس نے فون ، فون کے بل کی رقم اور اس کے لیے خرچ کی ہوگی۔ مگر احسان... یقینا اس کے احسانوں کا وزن بہت زیادہ تھا۔ اس نے کاغذ کی لپٹی تہوں کو دوبارہ بیگ میں ڈال لیا۔ صبح سے اکٹھی کی ہوئی بدگمانیوں کی دھند یک دم چھٹ گئی تھی یا کچھ دیر کے لیے امامہ کو ایسا ہی محسوس ہوا۔
باہر سٹرک پر دھند تھی اور وہ بڑی احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ امامہ کا دل چاہا، وہ اس سے کچھ بات کرے لیکن وہ خاموش تھا۔ شاید کچھ سوچ رہا تھا یا لفظ ڈھونڈ رہا تھا۔
آج سارا دن کیا کرتی رہیں تم ؟
اس نے بالآخر گفت گو کا دوبارہ آغاز کرنے کی کوشش کی تھی۔ پورا دن فلیش کی طرح امامہ کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ امامہ کو ندامت ہوئی، وہ جو کچھ کرتی رہی تھی، اسے بتا نہیں سکتی تھی۔
میں سوتی رہی ۔“ اس نے پورے دن کو تین لفظوں میں سمیٹ دیا۔
ہاں ، مجھے اندازہ تھا، جاگ رہی ہوتیں تو میری کال ضرور ریسیو کرتیں۔ ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ پاپا ممی اور انیتا آ رہے ہیں کل شام ۔ سالار نے کچھ دیر کے بعد کہا۔ امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
تم سے ملنے کے لیے ۔ اس نے مزید اضافہ کیا اور بالآخر سرال کے ساتھ اس کا پہلا رابطہ ہونے والا تھا۔ امامہ کو اپنے پیٹ میں گرہیں لگتی محسوس ہوئیں۔
تم نے انہیں میرے بارے میں بتایا ہے؟“ اس نے بے حد نپے تلے الفاظ میں پوچھا۔
نہیں، فی الحال نہیں، لیکن آج بتاؤں گا پاپا کو فون پر ۔ وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کوئی پریشانی، تشویش، اندیشه، خدشہ، خوف، پچھتاوا وہ کچھ بھی پڑھنے میں ناکام رہی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا اور اگر اس کے دل میں کچھ تھا بھی تو وہ اسے بڑی مہارت سے چھپائے ہوئے تھا۔
سالار نے اس کی کھوجتی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے امامہ کو دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے بے اختیار نظریں ہٹائیں۔
انیتا کی فلائٹ ساڑھے پانچ بجے اور پاپا کی سات بجے ہے۔ میں کل بینک سے جلدی ائیر پورٹ چلا جاؤں گا ، پھر مممی اور پاپا کو ساتھ لے کر میرا خیال ہے نو یا ساڑھے نو بجے تک گھر پہنچوں گا۔“
یہ تم نے کیا پہنا ہوا ہے؟ سالار نے ایک دم اس کے لباس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ تین گھنٹے پینتالیس منٹ کے بعد بالآخر تمہیں یاد آگیا کہ میں نے کچھ پہنا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر امامہ کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔
کپڑے۔ امامہ نے جواب دیا۔
سالار اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ " جانتا ہوں کپڑے پہنے ہیں، اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔“
امامہ گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کہ اب وہ تعریف کرے گا۔ اس نے سوچا، دیر سے سہی، لیکن اسے میرے کپڑے نظر تو آئے۔ اس کی خفگی میں کچھ اور کمی ہوئی۔
کون سا کلر ہے یہ؟ سالار نے اپنے پیروں پر پہلی کلہاڑی ماری۔
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ کا دل چاہا، وہ چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر کو د جائے۔ پونے چار گھنٹے میں وہ اس کے کپڑوں کا رنگ بھی نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس نے اسے غور سے دیکھا نہیں تھا۔
پتا نہیں ۔ اس نے اسی طرح کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بے حد سرد مہری سے کہا۔
ہاں، میں بھی اندازہ نہیں کر سکا ۔ آج کل خواتین پہنتی بھی تو بڑے عجیب عجیب کلر ہیں ۔ سالار نے اس کے لیجے پر غور کیے بغیر عام سے انداز میں کہا۔
وہ زنک اور کاپر کے سب سے زیادہ ان شیڈ کو عجیب“ کہہ رہا تھا۔ امامہ کو رنج سارنج ہوا۔ سالار شوہروں کی تاریخی غلطیاں دہرا رہا تھا۔ اس بار امامہ کا دل تک نہیں چاہا کہ وہ اس کی بات کا جواب دے، وہ اس قابل نہیں تھا۔ اسے یاد آیا، اس نے کل بھی اس کے کپڑوں کی تعریف نہیں کی تھی۔ کپڑے ؟ اس نے تو اس کی بھی تعریف نہیں کی تھی۔ اظہار محبت کیا تھا اس نے لیکن تعریف ہاں ، تعریف تو نہیں کی تھی اس نے وہ جیسے پچھلی رات کو یاد کرتے ہوئے تصدیق کر رہی تھی، اسے دکھ ہوا۔ کیا وہ اسے اتنی بھی خوبصورت نہیں لگی تھی کہ وہ ایک بار ہی کہہ دیتا۔ کوئی ایک جملہ، ایک لفظ ، کچھ بھی نہیں، وہ ایک بار پھر خود ترسی کا شکار ہونے گئی۔ عورت اظہار محبت اور ستائش کو بھی ہم معنی نہیں سمجھتی ۔ یہ کام مرد کرتا ہے اور غلط کرتا ہے۔
ڈرائیونگ کرتے ہوئے سالار کو اندازہ نہیں ہوا کہ گفت گو کے لیے موضوعات کی تلاش میں ادھر اُدھر کی باتیں کرتے اس نے کس قدر سنگین موضوع کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے جیسے ایک بارودی سرنگ کے اوپر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا جو اس کے پاؤں اٹھاتے ہی پھٹ جاتی۔
سعیدہ اماں کی گلی میں گاڑی پارک کرنے کے بعد سالار نے ایک بار پھر امامہ کے موڈ میں تبدیلی محسوس کی ۔ اس نے ایک بار پھر اسے اپنا وہم گردانا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہ بھی غلط فہمی کا شکار رہا۔ آخر ہو کیا گیا ہے مجھے؟ وہ بھلا کیوں صرف چوبیس گھنٹے میں مجھ سے ناراض ہوتی پھرے گی ۔ اس نے اطمینان سے سوچا۔
سعیدہ اماں دروازہ کھولتے ہی امامہ سے لپٹ گئی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ آنسو بہا رہی تھیں۔ سالار جزبز ہوا۔ آخر اتنے عرصے سے وہ اکٹھے رہ رہی تھیں۔ یقیناً دونوں ایک دوسرے کو مس کر رہی ہوں گی۔ اس نے بالآخر خود کو سمجھایا۔
سعیدہ اماں نے سالار کے سلام کا جواب دیا ، نہ ہی ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ انہوں نے امامہ کو گلے لگایا ، اس سے لپٹ کر آنسو بہائے اور پھر اسے لے کر اندر چلی گئیں۔ وہ ہکا بکا دروازے میں ہی کھڑا رہ گیا تھا۔ انہیں کیا ہوا؟ وہ پہلی بار بری طرح کھٹکا تھا۔ اپنے احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکنے کی کوشش اس بار کامیاب نہیں ہوئی ۔ کچھ غلط تھا مگر کیا ؟ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، پھر اس نے پلٹ کر بیرونی دروازہ بند کیا اور اندر چلا گیا۔
وہ دونوں کچھ باتیں کر رہی تھیں، اسے دیکھ کر یک دم چپ ہو گئیں۔ سالار نے امامہ کو اپنے آنسو پونچھتے دیکھا۔ وہ ایک بار پھر ڈسٹرب ہوا۔

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

25/02/2025

©©© آب حیات قسط 05 ©©©

امامہ کی آنکھ گیارہ بجے سیل فون پر آنے والی ایک کال سے کھلی تھی ، وہ ڈاکٹر سبط علی تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی اس کا دل بھر آیا تھا۔
میں نے آپ کو نیند سے جگا دیا؟“
وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولے۔ انہوں نے اس کی رندھی ہوئی آواز پر غور نہیں کیا تھا۔
نہیں، میں اٹھ گئی تھی ۔“ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
وہ اس کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے بو جھل دل کے ساتھ تقریباً خالی الذہنی کے عالم میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔
چند منٹ اور بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ کال ختم کرتے ہوئے اس کی نظر اپنے سیل فون میں چمکتے اس کے نام پر پڑی تھی۔ وہ چونک اٹھی ، اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ اس نے سالار کا نام اور فون نمبر کب محفوظ کیا تھا۔ یقینا یہ بھی اس کا کارنامہ ہوگا۔ اس نے اس کا ایس ایم ایس پڑھنا شروع کیا۔
پلیز جاگنے کے بعد مجھے میسیج کرنا۔ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔ اسے نجانے کیوں اس کا مسیج پڑھ کر غصہ آیاـ
بڑی جلدی یاد آ گئی میں ۔ وہ میسج کا ٹائم چیک کرتے ہوئے بڑبڑائی ۔ وہ شاید 10:50 پر آیا تھا۔ اگر آفس جاتے ہوئے اسے میں یاد نہیں آئی تو آفس میں بیٹھ کر کیسے آسکتی ہوں ۔ وہ اس وقت اس سے جی بھر کر بدگمان ہو رہی تھی اور شاید ٹھیک ہی ہو رہی تھی ۔ وہ پچھلی رات اس کے لیے چیف گیسٹ“تھی اور اگلی صبح وہ اس کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک کر رہا تھا۔ کم از کم امامہ اس وقت یہی محسوس کر رہی تھی ۔ وہ اس وقت وہ باتیں سوچ رہی تھی جو سالار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔
وہ کچھ عجیب انداز میں خود ترسی کا شکار ہو رہی تھی۔ اس نے کمبل تہہ کرتے ہوئے بستر ٹھیک کیا اور بیڈ روم سے باہر نکل آئی۔ اپارٹمنٹ کی خاموشی نے اس کی اداسی میں اضافہ کیا تھا۔ کھڑکیوں سے سورج کی
روشنی اندر آ رہی تھی۔ کچن کے سنک میں وہ برتن ویسے ہی موجود تھے جس طرح وہ چھوڑ کرگئی تھی۔ وہ بے حد بے دلی سے اپنے کپڑے نکال کر نہانے کے لیے چلی گئی۔ واش روم سے باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے سیل چیک کیا تھا وہاں کوئی مسیج تھا اور نہ کوئی مسڈ کال ۔
چند لمحے سیل فون پکڑے بیٹھی رہی، پھر اس نے اپنی ساری انا اور سارے غصے کو بالائے طاق رکھ کر اسے میسیج کر دیا۔
اس کا خیال تھا، وہ اسے فوراً کال کرے گا لیکن اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ پانچ منٹ .... دس منٹ پندرہ منٹ اس نے اپنی انا کو کچھ اور مٹی کرتے ہوئے اسے میسج کیا۔ بعض دفعہ میسج پہنچتے بھی تو نہیں ہیں، اس نے اپنی عزت نفس کی ملامت سے بچنے کے لیے بے حد کمز ور تاویل تلاش کی۔
آج کل ویسے بھی نیٹ ورک اور سگنلز کا اتنا زیادہ مسئلہ ہے۔“
عزت نفس نے اسے جواباً ڈوب مرنے کے لیے کہا تھا۔
ارے بیٹا! میں تو کب سے تمہارے فون کے انتظار میں بیٹھی ہوں ۔ تمہیں اب یاد آئی سعیدہ اماں کی ۔ سعیدہ اماں نے اس کی آواز سنتے ہی گلہ کیا۔
اس نے جوابا بے حد کمزور بہانے پیش کیے۔ سعیدہ اماں نے اس کی وضاحتوں پر غور نہیں کیا۔
سالار ٹھیک تو ہے نا تمہارے ساتھ ؟
انہوں نے اس سوال کے مضمرات کا اس صورت حال میں سوچے بغیر پوچھا اور امامہ کے صبر کا جیسے پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ سعیدہ اماں بُری طرح گھبرا گئی تھیں۔
کیا ہوا بیٹا ؟ ۔ اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟ میرا تو دل گھبرانے لگا ہے۔ کیا ہو گیا آمنہ؟ سعیدہ اماں کو جیسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔
سالار نے کچھ کہہ دیا ہے کیا ؟ سعیدہ اماں کو سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا۔ مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ امامہ نے ان کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
سعیدہ اماں کی حواس باختگی میں اضافہ ہوا۔
میں نے کہا بھی تھا آپ سے ۔ وہ روتی جا رہی تھی۔
کیا وہ اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے تم سے؟“
سعیدہ اماں نے سالار کے حوالے سے لاحق واحد خدشے کا بے اختیار ذکر کیا۔
پہلی بیوی ؟ امامہ نے روتے روتے کچھ حیرانی سے سوچا۔
لیکن سالار کے لیے اس وقت اس کے دل میں اتنا غصہ بھرا ہوا تھا کہ اس نے بلا سوچے سمجھے سعیدہ اماں کے خدشے کی تصدیق کر دی۔
ہاں اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
سعیدہ اماں کے سینے پر جیسے گھونسا لگا۔ یہ خدشہ تو انہیں تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ اپنے گھر لے جاتے ہی پہلے دن تو وہ کم از کم اپنی اس کئی سال پرانی منکوحہ کا ذکر نہیں کرے گا۔ امامہ کو سالار پر کیا غصہ آتا تھا جو سعیدہ اماں کو آیا تھا، انہیں یک دم پچھتاوا ہو تھا۔ واقعی کیا ضرورت تھی یوں راہ چلتے کسی بھی دو ٹکے کے
آدمی کو پکڑ کر یوں اس کی شادی کر دینے کی۔ انہوں نے پچھتاتے ہوئے سوچا۔
تم فکر نہ کرو میں خود سبط علی بھائی سے بات کروں گی ۔ سعیدہ اماں نے بے حد غصے میں کہا۔ سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے وہ اتنی دیر میں پہلی بار بہت اچھا محسوس کر رہی تھی ، یوں جیسے کسی نے اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہو۔ اسے اس وقت جس متعصب جانب داری کی ضرورت تھی ، انہوں نے اسے وہی دی تھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے روانی اور فراوانی سے بہنے والے آنسو اب یک دم خشک ہو گئے تھے۔
وہاں سے دس میل کے فاصلے پر اپنے بینک کے بورڈ روم میں بیٹھی ایویلیوایشن ٹیم کو دی جانے والی پریز ینٹیشن کے اختتامیہ سوال و جواب کے سیشن میں کریڈیبلٹی اینڈ ٹرسٹ فیکٹر سے متعلقہ کسی سوال کے جواب میں بولتے ہوئے سالار کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر پر موجود اس کی ایک دن کی بیوی اور نو سالہ محبوبہ گھر پر بٹھی اس کی ”ساکھ“ اور ” نام " کا تیا پانچا کرنے میں مصروف تھی۔ جس کو اس وقت اس وضاحت کی اس ایویلیویشن ٹیم سے زیادہ ضرورت تھی۔
سونا ہو گیا ۔۔۔۔رونا بھی ہو گیا۔۔۔۔ اب اور کیا رہ گیا تھا ۔ امامہ نے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور ناک رگڑتے ہوئے بالآخر ریسیور رکھتے ہوئے سوچا۔ اسے کچن کے سنگ میں پڑے برتنوں کا خیال آیا، بڑی نیم دلی سے وہ کچن میں گئی اور ان برتنوں کو دھونے لگی۔
وہ شام کے لیے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے ایک بار پھر بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اس نے اپنا سیل فون بجتے سنا۔ جب تک وہ فون کے پاس پہنچی، فون بند ہو چکا تھا۔ وہ سالار تھا اور اس کے سیل پر یہ اس کی چوتھی مسڈ کال تھی۔ وہ سیل ہاتھ میں لیے اس کی اگلی کال کا انتظار کرنے لگی۔ کال کے بجائے اس کا مسیج آیا۔ وہ اسے اپنے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا کہ ڈاکٹر سبط علی کا ڈرائیور ایک گھنٹے تک اسے وہاں سے ڈاکٹر صاحب کے گھر لے جائے گا اور وہ افطار کے بعد آفس سے سیدھا ڈاکٹر صاحب کے گھر آنے والا تھا۔
چند لمحوں کے لیے اس کا دل چاہا، وہ فون کو دیوار پر دے مارے لیکن وہ اس کا اپنا فون تھا۔ سالار کو کیا فرق پڑتا۔
وہ اس سے رات کو اتنا لمبا چوڑا اظہار محبت نہ کرتا تو وہ آج اس سے توقعات کا یہ انبار لگا کر نہ بیٹھی ہوتی لیکن سالار کے ہر جملے پر اس نے لاشعوری طور پر پچھلی رات اپنے دامن کے ساتھ ایک گرہ باندھ لی تھی اور گرہوں سے بھرا وہ دامن اب اسے بری طرح تنگ کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر سبط علی گھر پر نہیں تھے۔ آنٹی کلثوم نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور وہ بھی جس حد تک مصنوعی جوش و خروش اور اطمینان کا مظاہرہ کر سکتی تھی، کرتی رہی۔ آنٹی کے منع کرنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ مل کر افطار اور ڈنر کی تیاری کرواتی رہی۔
ڈاکٹر سبط علی افطار سے کچھ دیر پہلے آئے تھے اور انہوں نے امامہ کی سنجیدگی نوٹ کی تھی ، مگر اس کی سنجیدگی کا تعلق سالار سے نہیں جوڑا تھا۔ وہ جوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔
سالار افطار کے تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد آیا تھا اور امامہ سے پہلی نظر ملتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرائی تھی ، نہ ہی اس نے ڈاکٹرسبط علی اور ان کی بیوی کی طرح گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔ وہ بس نظریں چرا کر لاؤنج سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ آخر وہ اس سے کس بات پر ناراض ہو سکتی ہے۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے پاس بیٹھا ان سے باتیں کرتا ہوا اپنے ذہن میں پچھلے چوبیس گھنٹوں کے واقعات کو دہراتا اور کوئی ایسی چیز ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو امامہ کو خف کرسکتی تھی۔ اسے ایسی کوئی چیز یاد نہیں آئی۔ ان کے درمیان آخری گفت گو رات کو ہوئی تھی۔ وہ اس کے بازو پر سر رکھے باتیں کرتی ہوئی تھی ۔ خفا ہوتی تو۔۔۔۔۔ وہ الجھ رہا تھا
کم از کم میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو اسے برا لگا ہو، شاید یہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو ۔ سالار نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سوچا۔ لیکن یہاں کیا بات ہوئی ہوگی ؟ شاید میں کچھ ضرورت سے زیادہ حساس ہو کر سوچ رہا ہوں، غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے مجھے ۔“
وہ اب خود کو تسلی دے رہا تھا لیکن اس کی چھٹی حس اسے اب بھی اشارہ دے رہی تھی۔ بے شک وہ اس سے نو سال بعد ملا تھا مگر نو سال پہلے دیکھے جانے والا اس کا ہر موڈ اس کے ذہن پر رجسرڈ تھا اور وہ امامہ کے اس موڈ کو بھی جانتا تھا۔
ڈنر ٹیبل پر بھی زیادہ تر گفت گو ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے درمیان ہی ہوئی۔ وہ آنٹی کے ساتھ وقفے وقفے سے سب کو ڈشز سرو کرتی رہی، خاموشی اب بھی برقرار تھی۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ مسجد میں تراویح پڑھنے آیا اور حفظ قرآن کے بعد آج پہلی بار تراویح کے دوران اٹکا۔ ایک بار نہیں، دو بار اس نے خود کو سنبھال لیا تھا لیکن وہ بار بار ڈسٹرب ہو رہا تھا۔
وہ ساڑھے دس بجے کے قریب ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے سعیدہ اماں کے گھر جانے کے لیے نکلے تھے اور سالار نے بالآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔
تم کیا مجھ سے خفا ہو؟“
کھڑکی سے باہر دیکھتے وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر اس نے کہا۔
میں تم سے کیوں خفا ہوں گی ؟“ وہ بدستور کھڑکی کی طرف گردن موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔ سالار کچھ مطمئن ہوا۔
ہاں، میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی جس پر تمہارا موڈ آف ہوتا ۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ نے اس کی بات سنی اور اس کی برہمی کچھ اور بڑھی۔
یعنی میں عقل سے پیدل ہوں جو بلاوجہ اپنا موڈ آف کرتی پھر رہی ہوں ... اور اس نے میرے رویے اور حرکتوں کا نوٹس ہی نہیں لیا۔“

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

24/02/2025

©©© آب حیات قسط 04 ©©©

سالار جس وقت دوبارہ اپارٹمنٹ میں آیا، وہ گہری نیند میں تھی۔ بیڈ روم کی لائٹ آف تھی اور ہیٹر آن تھا۔ وہ اور فرقان فجر کی نماز سے بہت دیر پہلے مسجد میں چلے جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ دونوں وہیں سے بلڈنگ کے جم میں چلے جاتے اور تقریبا ایک گھنٹے کے ورک آؤٹ کے بعد وہ دونوں وہاں سے آتے اور آج یہ دورانیہ آمنہ کے امامہ ہونے کی وجہ سے کچھ لمبا ہو گیا تھا۔ فرقان سحری کے وقت ان دونوں کے لیے کھانا لے کر آیا تھا اور وہ بھونچکا بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ رات کو سالار کے جس بیان کو صدے کی وجہ سے ذہنی حالت میں ہونے والی کسی خرابی کا نتیجہ سمجھ رہا تھا، وہ کوئی ذہنی خرابی نہیں تھی۔
وہ اطمینان سے اس کے سامنے بیٹھا سحری کر رہا تھا اور فرقان اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔ رشک کے علاوہ کوئی اس پر کر بھی کیا سکتا تھا۔
کیا ہوا؟ سالار نے سحری کرتے ہوئے اس کی اتنی لمبی خاموشی پر اسے کچھ حیرانی سے دیکھا۔ فرقان اس کے سامنے بیٹھا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
تم آج اپنی نظر اتروانا۔ فرقان نے بالآخر اس سے کہا۔
اچھا ؟ وہ ہنس پڑا۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کم از کم اس گفت گو کے بعد کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ میں مذاق نہیں کر رہا ۔ فرقان نے اپنے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
جو کچھ ہوا تھا، اسے سمجھنے سے زیادہ اسے ہضم کرنے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ کسی کو بھی ہو سکتی تھی، سوائے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخص کے، جو اس وقت کانٹے کے ساتھ آملیٹ کا آخری ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ رہا تھا۔
اور اگر کوئی صدقہ وغیرہ دے سکو تو اور بھی بہتر ہے۔" فرقان نے اس کے رد عمل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ سالار اب بھی خاموشی رہا۔
آمنہ سحری نہیں کرے گی ؟‘ فرقان کو یک دم خیال آیا۔
سورہی ہے وہ ابھی میں الارم لگا آیا ہوں، ابھی کافی وقت ہے سحری کا ٹائم ہونے میں ۔ سالار نے کچھ لا پروائی سے اس سے کہا۔
فرقان ! اب بس کرو اس سے بات کرتے کرتے وہ ایک بار پھر فرقان کی نظروں سے جھنجھلایا۔ وہ پھر اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔
مجھے اس طرح آنکھیں پھاڑ کے دیکھنا بند کرو۔“ اس نے اس بار کچھ خفگی سے فرقان سے کہا۔
تم تم بہت نیک آدمی ہو سالار! اللہ تم سے بڑا خوش ہے ۔ وہ آملیٹ کا ایک اور ٹکڑا لیتے لیتے فرقان کی بات پر ٹھٹک گیا۔
اس کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ مزید ایک لفظ کہے بغیر اس نے پلیٹ پیچھے ہٹا دی اور اپنے برتن اٹھا کر اندر کچن میں لے گیا۔ وہ خوشی ، سرشاری، اطمینان اور سکون جو کچھ دیر پہلے جیسے اس کے پورے وجود سے چھلک رہا تھا، فرقان نے پلک جھپکتے اسے دھواں بن کر غائب ہوتے دیکھا۔
مسجد کی طرف جاتے ہوئے فرقان نے بالآخر اس سے پوچھا تھا۔
اتنے چپ کیوں ہو گئے ہو؟“ وہ اسی طرح خاموشی سے چلتا رہا۔
میری کوئی بات بری لگی ہے؟“
وہ اب بھی خاموش رہا۔ مسجد کے دروازے پر اپنے جوگرز اتار کر اندر جانے سے پہلے اس نے فرقان سے کہا۔ ” مجھے تم سب کچھ کہہ لینا فرقان! لیکن کبھی نیک آدمی مت کہنا ۔“
فرقان کچھ بول نہیں سکا۔ سالار مسجد میں داخل ہو گیا تھا۔

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

23/02/2025

©©© آب حیات قسط 03 ©©©

امامہ کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی تھی۔ مندھی آنکھوں کے ساتھ اس نے لیٹے لیٹے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اس الارم کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن الارم کلاک بند ہونے کے بجائے نیچے کارپٹ پر گر گیا۔ امامہ کی نیند یک دم غائب ہوئی تھی۔ الارم کی آواز جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ وہ کچھ چھلا کر اٹھی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے وہ کمبل سے نکلی اور بے اختیار کپکپائی۔ سردی بہت تھی۔ اس نے کمبل ہناتے ہوئے بیڈ کی پائنتی کی طرف اپنی اونی شال ڈھونڈنے کی کوشش کی وہ وہاں نہیں تھی۔ اس نے جھک کر کارپٹ پر دیکھا۔ اسے یاد آیا کہ شال رات کو صوفے پر رکھی تھی، لیکن اس وقت وہ بیڈ روم سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پائی۔ الارم اب بھی بج رہا تھا، مگر نظر اب بھی نہیں آرہا تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ تب ہی اس نے اچانک کوئی خیال آنے پر سالار کے بستر کو دیکھا۔ وہ خالی تھا۔ اسے جیسے یک دم یاد آیا کہ وہ پر کہاں تھی۔ جھنجھلاہٹ یک دم غائب ہوئی اور ساتھ ہی الارم کی آواز بھی . یہ سحری کا وقت تھا۔ امامہ، سالار کے گھر پر تھی اور یہ اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔
وہ دوبارہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمبل کے ایک کونے سے اس نے اپنے کندھے ڈھاپنے کی کوشش کی۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوئی۔ اس نے پہلی بار اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو غور سے دیکھا۔ وہاں رات کو سالار نے گھڑی رکھی تھی۔ لیکن اب وہاں نہیں تھی۔ ایک چھوٹا رائٹنگ پیڈ اور پین بھی تھا۔ پاس ہی کارڈ لیس فون تھا۔ پانی کی ایک چھوٹی بوتل بھی وہیں تھی اور اس کے پاس اس کا سیل پڑا تھا۔ اسے ایک بار پھر الارم کلاک کا خیال آیا۔ اسے یاد تھا کہ اس نے الارم نہیں لگایا تھا۔ یہ کام سالار کا تھا۔ شاید اس نے اپنے لیے الارم لگایا تھا۔
پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھما کہ سا ہوا۔ بیڈ کی وہ سائیڈ جو رات کو اس نے سونے کے لیے منتخب کی تھی، وہ سالار کا بستر تھا۔ وہ عادتاً دائیں طرف گئی تھی اور سالا را سے روک نہیں سکا۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر اس نے بے حد ڈھیلے انداز میں اپنا سیل فون اٹھا کر ٹائم دیکھا اور جیسے کرنٹ کھا کر اس نے دیکھا اور کمبل اتار پھینکا۔ سحری ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور سالار وہ الارم یقیناً اسے بیدار کرنے کے لیے لگا کر گیا تھا۔ اسے بے ساختہ غصہ آیا ، وہ اسے خود بھی جگا سکتا تھا۔
جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے لاؤنج میں گئی، اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا۔ کم از کم آج وہ اس سے خوشگوار موڈ میں ہی سامنا چاہتی تھی۔ سٹنگ ایریا کے ڈائٹنگ ٹیبل پر سحری کے لیے کھانا رکھا تھا۔ وہ بہت تیزی سے کچن میں کھانے کے برتن لینے کے لیے گئی تھی لیکن سنک میں دو افراد کے استعمال شدہ برتن دیکھ کر اسے جیسے دھچکا لگا تھا۔ وہ کھانا یقیناً فرقان کے گھر سے آیا تھا اور وہ فرقان کے ساتھ ہی کھا چکا تھا۔ اسے خوامخواہ خوش فہی ہوئی تھی کہ آج اس کے گھر میں پہلی سحری تو وہ ضرور اس کے ساتھ کرے گا . بوجھل دل کے ساتھ ایک پلیٹ لے کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر آگئی، لیکن وہ چند لقموں سے زیادہ نہیں لے سکی۔ اسے کم از کم آج اس کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے تھا۔ امامہ کو واقعی بہت رنج ہوا تھا۔
چند لقموں کے بعد ہی وہ بڑی بے دلی سے ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی۔ برتن دھوتے دھوتے اذان ہونے لگی تھی، جب اسے پہلی بار خیال آیا کہ سالار گھر میں نظر نہیں آرہا۔ اپنے ہاتھ میں موجود پلیٹ دھوتے دھوتے وہ اسے اسی طرح سنگ میں چھوڑ کر باہر آ گئی۔ اس نے سارے گھر میں دیکھا۔ وہ گھر میں نہیں تھا۔
پھر کچھ خیال آنے پر وہ بیرونی دروازے کی طرف آئی۔ دروازہ مقفل تھا لیکن ڈور چین ہٹی ہوئی تھی۔
وہ یقینا گھر پر نہیں تھا کہاں تھا؟ اس نے نہیں سوچا تھا۔
اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوا۔ وہ اس کی شادی کے دوسرے دن اسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر کتنی بے فکری سے غائب ہو گیا تھا۔ اسے پچھلی رات کی ساری باتیں جھوٹ کا پلندہ لگی تھیں۔ واپس کچن میں آ کر وہ کچھ دیر بے حد دل شکستگی کی کیفیت میں سنگ میں پڑے برتنوں کو دیکھتی رہی ۔ وہ ”محبوبہ “ سے ” بیوی بن چکی تھی مگر اتنی جلدی تو نہیں ۔ ناز برداری نہ سہی خیال تو کرنا چاہیے۔ اس کی آزردگی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر کوئی اتنا بدل سکتا ہے، مگر رات کو تو وہ اس کی رنجید گی بڑھتی جا رہی تھی۔
یقینا سب کچھ جھوٹ ہی کہہ رہا ہوگا ورنہ میرا کچھ تو خیال کرتا ۔ وہ رنجیدگی اب صدے میں بدل رہی تھی۔
وہ نماز پڑھ چکی تھی اور سالار کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اسے تھوڑی سی تشویش ہوئی ۔ اگر وہ فجر کی نماز کے لیے بھی گیا تھا تو اب تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا۔ پھر اس نے اس تشویش کو سر سے جھٹک دیا۔

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

22/02/2025

©©© آب حیات قسط 02 ©©©

سالار نے ہڑ بڑا کر آنکھ کھولی۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ وہ فوری طور پر سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس کی سماعتوں نے دور کہیں کسی مسجد سے سحری کے آغاز کا اعلان سنا۔ اس کمرے کے گھپ اندھیرے کو کھلی آنکھوں سے کھوجتے ہوئے اسے اگلا خیال اس خواب اور امامہ کا آیا تھا وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا،جس سے وہ بیدار ہوا تھا۔
مگر خواب میں وہ امامہ کو کیا دکھانے والا تھا ، اسے کچھ یاد نہیں آیا امامہ ! اس کے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رکی . وہ کہاں تھی؟ کیا پچھلی رات ایک خواب تھی؟
وہ یک دم جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا۔ اپنی ڑکی سانس کے ساتھ اس نے دیوانہ وار اپنے بائیں جانب بیڈ ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کیا ۔ کمرے کی تاریکی جیسے یک دم چھٹ گئی۔ اس نے برق رفتاری سے پلٹ کر اپنی داہنی جانب دیکھا اور پُر سکون ہو گیا۔ اس کی رُکی سانس چلنے لگی۔ وہ وہیں تھی۔ وہ ایک خواب سے کسی دوسرے خواب میں داخل نہیں ہوا تھا۔
یک دم آن ہونے والے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی تیز روشنی چہرے پر پڑنے پر امامہ نے نیند میں بے اختیار اپنے ہاتھ اور بازو کی پشت سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو ڈھک دیا۔
سالار نے پلٹ کر لیمپ کی روشنی کو ہلکا کر دیا۔ وہ اسے جگانا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اس سے چند ، چند فٹ کے فاصلے پر تھی ، گہری پُر سکون نیند میں۔ اس کا ایک ہاتھ تکیے پر اس کے چہرے کے نیچے دبا ہوا تھا اور دوسرا اس وقت اس کی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس کی ادھ کھلی ہتھیلی اور کلائی پر مہندی کے خوبصورت نقش و نگار تھے۔ مٹتے ہوئے نقش و نگار ، لیکن اب بھی اس کے ہاتھوں اور کلائیوں کو خوبصورت بنائے ہوئے تھے۔ سالار کو یاد آیا ، وہ مہندی کسی اور کے لیے لگائی گئی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اس نے بے اختیار چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں۔
کسی اور کے لیے؟
پچھلی ایک شام ایک بار پھر کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں گزر گئی تھی۔ اس نے سعیدہ اماں کے صحن میں اس چہرے کو نو سال کے بعد دیکھا تھا اور نو سال کہیں غائب ہوگئے تھے۔
وہ ذرا سا آگے جھکا ، اس نے بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ کو اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی زرد روشنی میں اس سے چند انچ دور وہ اس پر جھکا، اسے مبہوت دیکھتا رہا۔ وہ گہرے سانس لیتی جیسے اسے زندگی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ جیسے کسی طلسم میں پہنچا ہوا تھا۔ بے حد غیر محسوس انداز میں اس نے امامہ کے چہرے پر آئے کچھ بالوں کو اپنی انگلیوں سے بڑی احتیاط سے ہٹایا۔

اگلی قسط کیلئے انتظار کیجئے

Address

Nawabshah
62473

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fun & Entertainment With Mik posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share