28/06/2025
1. سوات سانحے کا اصل مجرم کون؟ انگلیاں ڈی جی ریسکیو کی طرف!
2. ریسکیو 1122 بےحس کیوں؟ غیرتکنیکی ڈی جی کی تعیناتی نے نظام مفلوج کر دیا!
3. نااہل قیادت کا خمیازہ: سوات میں جانیں گئیں، ریسکیو ٹیمیں غائب!
4. مون سون آیا، ریسکیو سویا رہا – عوام بے یارو مددگار
5. سابق ڈی جی کے دور میں ہر کال پر رسپانس، آج صرف خاموشی!
6. صوبائی حکومت کی خطرناک غلطی – ناتجربہ کار ڈی جی نے ریسکیو کو دفن کر دیا!
7. ریسکیو 1122 میں زوال، عوام کا واحد بھروسا بھی ٹوٹنے لگا
8. سیلاب آیا، ریسکیو نہ آیا – عوام نے خود لاشیں نکالیں!
9. ڈی جی ریسکیو کو فیلڈ کا ’ف‘ بھی نہیں آتا – ایمرجنسی میں تباہ کن خاموشی
10. ریسکیو ٹیمیں کہاں تھیں؟ سوات کا خون چیخ چیخ کر سوال اٹھا رہا ہے
11. غیرتکنیکی بیوروکریسی نے ریسکیو کو قبر میں دھکیل دیا!
12. کیا ریسکیو اب صرف کاغذی محکمہ رہ گیا ہے؟ سوات نے سب کچھ بے نقاب کر دیا
13. ڈی جی ریسکیو کا عہدہ مذاق بن گیا – عوام مر رہے ہیں، افسر تماشائی
14. جاں بحق عوام کے لواحقین کا سوال: اگر ریسکیو بروقت پہنچتی تو شاید بچ جاتے!
15. ایک تجربہ کار ڈی جی گیا، پورا ادارہ زمین بوس ہو گیا!
16.
تحریر: عظمت خان داٶدزٸی
روزنامه پیغامات پشاور
ریسکیو 1122 ایک ایسا ادارہ ہے جو قدرتی آفات، حادثات، آگ، سیلاب، زلزلہ اور دیگر ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس ادارے کی فعالیت اور کارکردگی براہِ راست اس کی قیادت سے جڑی ہوتی ہے۔ قیادت کا فیصلہ محض انتظامی یا سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ مکمل طور پر تکنیکی مہارت، فیلڈ تجربے، ایمرجنسی مینجمنٹ کی سوجھ بوجھ اور فیصلہ سازی کی اہلیت کو مدنظر رکھ کر ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں موجودہ ڈی جی ریسکیو کی تعیناتی ان تمام اصولوں سے ہٹ کر صرف بیوروکریٹک سوچ کے تحت کی گئی ہے، جس کے نتائج اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔
سوات میں حالیہ سانحہ، جس میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ریسکیو 1122 اپنی ذمہ داریوں میں بری طرح ناکام رہا۔ نہ صرف ابتدائی وارننگ سسٹم فعال رہا، نہ موقع پر رسپانس فوری طور پر دیا گیا، بلکہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو ٹیموں کی موجودگی اور تیاری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بدانتظامی کی بنیادی وجہ ڈی جی ریسکیو کا تکنیکی میدان سے نابلد ہونا ہے۔ وہ محض ایک بیوروکریٹ ہیں جنہیں ریسکیو آپریشنز، فیلڈ مینجمنٹ، خطرے کی نوعیت اور ایمرجنسی ردعمل کی پیچیدگیوں کا کوئی تجربہ نہیں۔
اس سے پہلے کے ڈی جی ایک تجربہ کار، فیلڈ سے تربیت یافتہ اور ایمرجنسی مینجمنٹ کے ماہر آفیسر تھے۔ ان کی قیادت میں ریسکیو 1122 چوبیس گھنٹے الرٹ رہتا تھا۔ ہر ضلع میں ان کی موجودگی، باقاعدہ معائنہ، اور فیلڈ ٹیموں کی خود نگرانی نے ادارے کو ایک فعال اور قابل اعتماد ادارہ بنا دیا تھا۔ شہریوں میں اعتماد کی فضا پیدا ہوئی تھی۔ ان کے دور میں درجنوں ایسے سانحات رونما ہوئے جن میں ریسکیو کا فوری اور پیشہ ورانہ ردعمل قابلِ تعریف رہا۔ چاہے انڈسٹریل اسٹیٹ میں کارخانے کی آگ ہو، بورڈ بازار میں زیر تعمیر عمارت کا گرنا ہو، یا دور دراز علاقوں میں سیلابی صورتحال—ریسکیو ٹیمیں بروقت پہنچ کر قیمتی جانوں کو بچانے میں کامیاب رہیں۔
مگر موجودہ صورتحال میں یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ آج ریسکیو نہ صرف فیلڈ میں غیر فعال ہو چکا ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو رہا ہے۔ ایمرجنسی کالز یا تو اٹینڈ نہیں ہوتیں، یا اگر ہو بھی جائیں تو ٹیمیں وقت پر نہیں پہنچتیں۔ ضلعی دفاتر میں نہ بنیادی سہولیات موجود ہیں اور نہ فیلڈ ورک کی نگرانی۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ قیادت کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جسے نہ فیلڈ کا تجربہ ہے، نہ کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کا کوئی عملی علم۔
بدقسمتی سے صوبائی حکومت نے اس اہم ترین ادارے کی قیادت کے لیے ایک ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو محض انتظامی کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے۔ وہ ریسکیو اہلکاروں کی تکنیکی ضروریات، ساز و سامان کی فراہمی، فیلڈ میں فوری فیصلہ سازی، اور ہنگامی حالات میں ریسپانس میکانزم کی بنیادی مہارتوں سے مکمل ناواقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادارہ غیر فعال، غیر منظم اور بے حس ہوتا جا رہا ہے۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ موجودہ ڈی جی کے پاس کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی، منصوبہ بندی یا ایمرجنسی ریسپانس پلان موجود نہیں۔ نہ یہ علم ہے کہ کس موسم میں کس قسم کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے، نہ یہ شعور کہ ہر ضلع کی جغرافیائی ساخت اور خطرات مختلف ہوتے ہیں اور ان کے لیے مخصوص اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔
اگر مون سون سیزن جیسے خطرناک موسم میں، جہاں پہاڑی علاقوں میں بارشیں سیلابی ریلوں میں بدل جاتی ہیں، ریسکیو ادارہ غیرفعال ہو جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیادت ناکام ہے۔ ایسے میں عوامی جان و مال محفوظ نہیں رہ سکتا۔
صوبائی حکومت کو یہ بات سنجیدگی سے سوچنی ہوگی کہ ریسکیو 1122 صرف ایک عام سرکاری محکمہ نہیں بلکہ یہ شہریوں کی زندگی کا محافظ ادارہ ہے۔ اس کے لیے قیادت کا انتخاب صرف اور صرف تکنیکی، فیلڈ تجربہ رکھنے والے، اور ایمرجنسی مینجمنٹ میں مہارت یافتہ آفیسرز میں سے کیا جانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ مزید سانحات جنم لیں، مزید سوات جیسے حادثات رونما ہوں، اور مزید قیمتی جانیں ضائع ہوں، فوری طور پر موجودہ ناتجربہ کار اور غیرتکنیکی ڈی جی کو تبدیل کیا جائے اور ان کی جگہ کسی تجربہ کار، ٹرینڈ، فیلڈ سے جڑے، ریسکیو بیک گراؤنڈ والے افسر کی تعیناتی کی جائے۔
یہ فیصلہ صرف محکمہ ریسکیو کے وقار اور فعالیت کے لیے ہی نہیں بلکہ عوام کے تحفظ، ریاست کے اعتماد، اور انسانی جانوں کے تقدس کے لیے ضروری ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ریسکیو جیسے اہم ادارے کو سیاسی بنیادوں پر چلانے کے بجائے، مکمل طور پر میرٹ، فنی قابلیت، اور عوامی خدمت کے جذبے سے آراستہ قیادت دی جائے، تاکہ آئندہ کسی قدرتی یا انسانی سانحے میں ریاست اپنی ذمے داری سے منہ نہ موڑ سکے۔