07/09/2025
تشیعِ پاراچنار اور بیلنس پالیسی کا المیہ
ضلع کرم خصوصاً پاراچنار کی تشیع برادری کے ساتھ جو ناروا سلوک دہائیوں سے جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ خطہ مسلسل دہشت گردی، محاصرے، قتل و غارت اور معاشی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مظالم کے ذمہ دار دہشت گرد گروہ تو بارہا سامنے آتے رہے لیکن ریاستی ادارے اپنی "بیلنس پالیسی" کے تحت مظلوم اور ظالم کو ایک ہی ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے رہے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ پاراچنار کے شیعہ عوام ہمیشہ وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ مخلص اور وفادار رہے ہیں۔ انہوں نے سرحدوں کے دفاع سے لے کر اندرونی امن و امان کی بحالی تک ہر موقع پر اپنی قربانیاں پیش کی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں شک و شبہے کی نظر سے دیکھنا، ان پر غیرمنصفانہ دباؤ ڈالنا اور دہشت گردوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا انصاف کا قتل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ابھرنے والی "شیعہ مقاومت" نے مظلومین کو حوصلہ دیا ہے، لیکن افسوس کہ کچھ ریاستی عناصر اسی کو بہانہ بنا کر بیرونی ایجنڈوں کے تحت تشیعِ پاراچنار کے خلاف دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ظلم و ناانصافی ہے بلکہ پاکستان کے قومی سلامتی کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے۔ پاراچنار کے وفادار اور محبِ وطن عوام کو شک کی بجائے اعتماد دیا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھلی چھوٹ دینے کے بجائے کچلنا ہی امن اور انصاف کی ضمانت ہے۔
اگر یہ دوغلی "بیلنس پالیسی" جاری رہی تو اس کے نتائج نہ صرف پاراچنار بلکہ پورے ملک کے امن کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ تشیعِ پاراچنار کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفادار ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وفاداری کا صلہ ہمیشہ قربانی، لاشیں اور محرومیاں ہی رہیں گی؟