22/10/2024
پاکستان میں سود کے خلاف آئینی ترمیمی بل کا فوری نافذ نہ ہونا اور 2028 میں نفاذ کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1. منتقلی کا وقت: بینکوں اور مالیاتی اداروں کو سود پر مبنی نظام سے اسلامی مالیاتی نظام میں منتقل ہونے کے لیے وقت درکار ہے تاکہ وہ اپنے موجودہ معاہدے اور طریقہ کار تبدیل کر سکیں۔
2. تکنیکی تیاری: سود سے پاک بینکاری کے لیے ضروری تکنیکی ڈھانچہ اور انفراسٹرکچر تیار کرنے میں وقت لگتا ہے، جیسے نئے قوانین، ضوابط، اور تربیت۔
3. معاشی استحکام: اچانک تبدیلیاں مالیاتی بحران پیدا کر سکتی ہیں، اس لیے تدریجی نفاذ سے معیشت کو دھچکا لگنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
4. قانونی پیچیدگیاں: نئے قانون کے نفاذ کے لیے قانونی ضوابط اور ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں وقت لگتا ہے تاکہ ہر چیز قانونی طور پر درست ہو۔
5. عالمی مالیاتی معاہدے: پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے IMF اور ورلڈ بینک کے ساتھ سود پر مبنی معاہدے ہیں، جنہیں ختم کرنے یا دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
6. کاروباری مطابقت: کاروباری اداروں کو بھی سود پر مبنی معاہدے ختم کرکے نئے اسلامی مالیاتی نظام کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے وقت ملنا ضروری ہے۔
7. عوامی آگاہی: عوام اور کاروباری اداروں کو اسلامی مالیاتی نظام کی تربیت اور آگاہی دینے کے لیے وقت چاہیے تاکہ وہ اس کے فوائد اور نقصانات کو سمجھ سکیں۔
8. عملی مشکلات: سود کے بغیر مالیاتی نظام کا عملی نفاذ مشکل اور پیچیدہ ہے، جس کے لیے حکومت کو ایک مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
9. ریگولیٹری اداروں کی تیاری: مالیاتی ریگولیٹری اداروں کو بھی اس نظام کے مطابق اپنی پالیسیوں اور ضوابط کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
10. معاشرتی و اقتصادی اثرات: سود کے خاتمے کے معاشی اور معاشرتی اثرات کا جائزہ لے کر حکومتی اقدامات اور منصوبہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے وقت دیا جاتا ہے۔
یہ تمام نکات بل کے فوری نفاذ میں تاخیر کی جامع وضاحت پیش کرتے ہیں۔