16/05/2025
یعنی جب ہر طرف سے دروازے بند ہو جائیں،
جب سسٹم دھوکہ دے، لوگ بدل جائیں، خواب ٹوٹ جائیں…
تب بھی ایک چیز باقی رہتی ہے — اُمید۔
یہ وہ روشنی ہے جو آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔
جب دنیا کہتی ہے: “تو کچھ نہیں کر سکتا”،
اُمید کہتی ہے: “ابھی وقت باقی ہے… ابھی کچھ ممکن ہے۔”
یہی اُمید ہے جو تھکے ہوئے شخص کو پھر سے کھڑا کرتی ہے،
جو آنسو پونچھتی ہے،
جو رات کی تاریکی میں صبح کی آہٹ سناتی ہے۔
یہ جملہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ:
اندھیرے ہمارے راستے روک سکتے ہیں، منزل نہیں۔
کیونکہ جس کے دل میں اُمید زندہ ہو، اُس سے کوئی بھی دنیا جیت نہیں سکتی۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
“اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو، یقیناً اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی ناامید ہوتے ہیں۔”
(سورہ یوسف: 87)
یعنی اسلام میں نااُمیدی سب سے بڑا گناہ ہے، اور اُمید رکھنا ایمان کی علامت ہے۔
“جس کے دل میں اُمید زندہ ہو، وہ کبھی ہارا ہوا نہیں ہوتا — بس آزمائش میں ہوتا ہے!”
اگر یہ جملہ کسی کے دل میں روشنی بن سکتا ہو، تو اسے ضرور بانٹیں۔