05/08/2025
پردیس جانا مالی نہیں، بلکہ زیادہ تر نفسیاتی مسئلہ ہے۔
کیونکہ جب کسی علاقے کے تمام لوگ پردیس میں ہوں، تو وہاں کے لوگوں کا یہی خیال بن جاتا ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا — یہاں نہ کاروبار ہے، نہ ملازمت کے مواقع۔
یہ سوچ دراصل خود پردیسی ہی اپنے علاقوں میں پیدا کرتے ہیں۔
انسان ماحول کا بچہ ہوتا ہے۔
جب کوئی تعلیم یافتہ انسان بھی ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں ماموں، والد، دادا، چچا اور پڑوسی سب پردیسی ہوں،
تو اس کا ذہن بھی خودبخود پردیس کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
لیکن سب سے بری بات یہ ہے کہ پردیسی سچ نہیں بتاتے۔
وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ پردیس اکثر اوقات جہنم کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔
وہ ہمیشہ پردیس کی اچھائیاں بیان کرتے ہیں۔
جب کوئی نیا فرد پردیس پہنچتا ہے،
تو اُسے سمجھ آتا ہے کہ پردیس وہ نہیں جو ہمیں پاکستان میں بتایا گیا تھا —
یہاں کی حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔
یہاں مشکلات زیادہ ہیں، تنہائی ہے، دباؤ ہے اور اکثر خوشی بہت کم۔
پاکستان کے تقریباً 95 فیصد لوگ اپنے ملک میں ہی ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں۔
یہ لوگ پردیس کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا گزارا پاکستان میں ہی ہوتا ہے — اور ان میں سے بہت سے لوگ خوشحال بھی ہوتے ہیں۔
لیکن کچھ مخصوص علاقوں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پردیس کے سوا پاکستان میں کچھ نہیں،
کیونکہ ان کا ماحول مکمل طور پر پردیسیوں کا ہوتا ہے۔
جب تک آپ پردیسی ماحول کو تبدیل نہیں کریں گے،
تب تک آپ اپنے بچوں کو پردیس جانے سے نہیں روک سکتے۔
ڈاکٹر کا بچہ عموماً ڈاکٹر بنتا ہے،
آرمی آفیسر کا بچہ فوج میں جاتا ہے،
اور کاروباری شخص کا بچہ کاروبار کرتا ہے —
کیونکہ ان کا ماحول پردیسیوں جیسا نہیں ہوتا۔
جب آپ کا پڑوسی ڈاکٹر، انجینئر یا آرمی آفیسر ہوگا،
تو آپ کا بچہ بھی اُسی سمت میں بڑھے گا،
کیونکہ اُس کے دوست اور سوشل سرکل انہی لوگوں کے بچے ہوں گے،
اور ذہن بھی اُسی انداز کا بنے گا۔
ماحول کو بدلیں —خواہ اسلام آباد یا ایبٹ آباد آپ کو کیوں جانا نہ پڑے ۔۔ !
اور اپنی نسلوں کو پردیس کے فریب سے بچائیں۔ جب تک آپکے گھر میں سارے لوگ پردیسی ہو ، پڑوسی پردیسی اور آپکے بچوں کے دوست پردیسی کے بچے ہو ، تو آپ کا بچہ بھی پردیسی بنے گا ۔۔ اور یہ سلسلہ اسطرح جاری رہے گا ۔۔