ز خمۂ دل Zakham-a-Dil

ز خمۂ دل Zakham-a-Dil Syed Shakeel Ahmad is a Senior Journalist based in Peshawar, Pakistan.

13/08/2023

اس تحریر کو ایک سال بیت گیا ٹھیک ایک سال بعد بھی یہ ہی سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ
"ہم کیوں کر کھڑ ے ہیں"

سید شکیل احمد ہم کیو ں کرکھڑے ہیں 13 /اگست 2022ء؁
محارتاًبولا جا تا ہے کہ ہم کہا ں کھڑے ہیں کہنے کو یہ ایک استفہا میہ جملہ ہے مگر یہ خود احستابی کی دعوت دیتے ہیں اس جملہ کی بجائے یہ بول دیاجائے تو ہم کیو ں کھڑے ہیں تو اس میں حصر کا مفہوم زرو دار پیدا ہو جا تا ہے، جس سے خود احتسابی کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری کی کو تاہی کی بھی نشاند ہی ہو جا تی ہے۔ قارئین آج جب گفتگو میں محو ہو ں گے اس وقت پوری قوم ملک کی پچھترویں سالگر ہ منارہی ہوگی یہ پچھتر سال پوری قوم سے استفسار کررہے ہیں کہ ہم کیو ں کرکھڑے ہیں یا کہا ں کھڑے ہیں کیا ان ڈھیر سارے بیتے روز وشب میں خود کا احتساب کیا ہے یا پھر خود پر ستی کی ہے، اس سوال کا جواب رہنمائے عوام بھی نہ دیں پائیں مختصر اًکہا جاسکتا ہے کہ اللہ بزرگ برتر پاکستان کا حامی ونا صر ہے ورنہ اقتدار پرستو ں نے خود پر ستو ں کے ساتھ ملک بیچ ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھو ڑی، جہا ں تک یہ سوال ہے کہ کہا ں کھڑے ہیں اس کا جو اب یہ بنتا ہے کہ جس وقت حکو مت وقت روپے کی گرتی قدر کی وجہ گہنا رہی تھی اب ڈالر میں مسلسل گراوٹ پر بغلیں بجا کر دھوم مچارہی ہے اس سب کے باوجو د سوال اپنی جگہ ہے کہ ہم کہا ں کھڑ ے ہیں اس کا اندازہ اپنے پڑوسیوں کی معاشرت سے لگایا جا سکتا ہے کیو ں کہ ہمسائے وہ واحد سنگی ہیں جن معاشرت ایک دوسرے جڑی ہوتی ہے، بنگلہ دیش پاکستان سے جب الگ ہو ا تو وہ کس مقام پر کھڑا تھا آج اس کا ایک ’’ٹکہ“ (روپیہ) پاکستان کے دو روپے چھبیس پیسے کے برابر ہے، بھارت کا ایک روپیہ دو روپے ستر پیسے پاکستانی کے برابر ہے گویا بنگلہ دیش سے صرف تین پیسے آگے ہے،
افغانستان کا ایک روپیہ (وہاں کا روپیہ افغانی کہلاتا ہے) پاکستان کے دو روپے چالیس پیسے کے لگ بھگ ہے الغرض آس پڑوس کی کرنسی پاکستان کی کرنسی سے مضبوط ہے جس سے اندازہوجا تا ہے کہ ہم کہا ں کھڑے ہیں اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے یا د رہے کہ ما ضی میں ان ممالک کی کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں پسماندہ ترین قرار پاتی تھی، اور تو اور دنیا کے پسماند ہ ملکو ں میں بحرہند کے ایک چھو ٹے سے ملک مالدیب کی کرنسی ایک روپیہ کے مقابلے میں پاکستان کی کرنسی چود ہ روپئے ہے، پڑوس میں پاکستان کی کرنسی صرف سری لنکا سے مضبوط ہے جو پاکستانی چالیس پیسے کم ہے، چلیں مالدیپ کے احوال سے اندازہ لگالیتے ہیں پسماندہ ملک قرار پانے کے باوجو د اس کی معشیت اتنی مضبو ط کیو ں ہے، حقیقت یہ ہے کہ مالدیپ میں مطلق العنان حکومت یعنی بادشاہت قائم تھی اس کے باوجود پوری قوم میں یکجہتی پائی جاتی تھی اور یہ آج بھی بدرجہ اتم موجو د ہے، مالدیپ ایک ہزار ایک سو بانوے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ایک ایسا ملک ہے جس کے صرف دوسو جزیر وں پر انسانی آبادی پائی جا تی ہے، اس وقت مالدیپ کی سو فی صد آبادی مسلما ن ہے اس ملک کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ جو اس ملک میں آباد رہنا چاہتا ہے اس کے لیے مسلما ن ہو نا ضروری ہے، اب خود موازنہ کرلیں کے اسلا م کے نا م پر معرض وجو د میں آنے والے ملک کا اپناکیا حال ہے، اس کو معجزہ ہی کہاجا سکتا ہے کہ مالدیپ بدھ مت کا پیر و کاروں کا ملک تھا،صرف دوماہ کے اندر اندر بادشاہ، عوام و خواص سب دائرہ اسلا م میں داخل ہوگئے، یہ معجزہ کیسے ہوا مشہو ر سیا ح ابن بطوطہ نے جو مالدیپ ایک عرصہ تک قاضی کے عہد ے پر فائز رہے اپنی کتاب سیاحت میں درج کیا ہے کہ مالدیپ کے عوام بدھ مت ہونے کے نا تے حد درجہ توہم پر ست بھی تھے ان کے مطا بق ایک خوفنا ک بلاہر ما ہ کی آخریتاریخ کو روشنیوں کہ طرف سے نمو دار ہو تی ہے مالدیپ کے عوام اس عفریت کے خوف سے کہ تباہی نہ مچا دے ایک نو جوان حسینہ کا بناؤ سنگھا ر کرکے سمندر کے کنا ر ے واقع بت خانے میں رات گئے چھو ڑ دیتے، صبح وہ لڑکی مر دہ پائی جا تی پھر لوگ اس کی لاش جلا دیتے، باکرہ حسینہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ کیاجا تا ایک مرتبہ ایک ضعیف العمر بیو ہ کی اکلوتی نو جو ان بیٹی کے نام قرعہ نکل آیا اس نے زرو زور سے آہ زاری شروع کر دی ان دنو ں مالدیپ میں ایک مسلمان بزرگ ابوالبرکات ٹھہر ے ہوئے تھے جب ان کو پتہ چلا تو انھو ں نے پیش کش کی کہ وہ رات لڑکی کی جگہ بت خانے میں گزاریں گے چنا نچہ انھو ں نے رات بدھ خانے میں گزاری، صبح لو گ بزرگ کو دیکھ کر حیران ہوگئے جس کے بعد کبھی وہ بلا نہیں آئی اور مالدیپ کے لوگ داعی اسلا م ابو برکا ت بربری کے ہاتھوں مسلم ں ہوگئے بادشاہ نے بھی اسلا م قبول کرلیا اور صرف دوما ہ میں سارا مالدیپ مسلما ن ہو گیا، مسلما ں ملک بن جانے کے بعد ملک یکجہتی کو فروغ ملا، اب وہاں عدالتوں میں قاضی شریعت اسلا می کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، مالدیپ کی صنعتی پیداور کچھ نہیں لوگو ں کا ذریعہ آمدنی نا ریل جمع کرنا یا پھر سمندر سے مچھلیا ں پکڑ کر گذر بسر کرنا ہے مالدیپ نے آزادی کے بعد سے تما م غیر ملکی زبانو ں کو دیس نکلا کردیا وہا ں تعلیم اپنی قومی زبان میں دی جا تی ہے زندگی کے ہر شعبے میں صرف مالدیپ کی قومی زبان رائج ہے تعلیمی اداروں میں اسلا می تعلیم ہی بنیا دی تعلیم ہے وہا ں کے عوام سو فی صد تعلیم یا فتہ ہیں لوگ انگریزی یا کسی دوسری بدیسی زبان سے قطعی نا واقف ہیں،مختلف چھو ٹے بڑے جائزائر میں آباد مختلف نسل ہیں مگر ان میں کوئی نسلی تعصب کا شائبہ نہیں پایا جا تا جیسا کہ محولہ بالا بتایا جا چکا ہے کہ مالدیپ کی شہریت کی شرط اولین مسلمان ہو نا ہے وہا ں کوئی مسلکی تقسیم بھی نہیں ہے وہ ایک قوم ہیں پاکستان کو سیا ستدانو ں سمیت کچھ دوسری طا قتوں نے قومی یکجہتی کو پا رہ پارہ کر ڈالا ہے، لسانی فساد، مسلکی نفرت وعناد، شخصیت پر ستی کی آڑ میں خود پرستی کے فروغ نے پاکستان کو کہا ں لا کھڑا کیا ہے کیا پاکستان کا کوئی ادارہ چاہیے وہ سیاسی ہو یا غیر سیا سی وہ خود پر ستی کا شکا ر نہیں ہے نام انا پرستی اور خواہش پر ستی، اور شخصیت پرستی کا دے رکھا، اسی خود پر ستی نے جیا لے، یو تھیئے، شیر یے اور نہ جا نے کن کن کوپید اکررکھا ہے بھارت کے وزیر مواصلا ت وتعمیر ات نے اپنے ایوان میں بتایا کہ آئندہ سال بھارت میں چھبیس ایکسپر یس وے تعمیر کی جائیں گی ایک درجن کے قریپ ایکسپریس وے پہلے ہی کام کررہی ہیں ان کا دعوی ٰ ہے کہ پیسے کی کمی نہیں جو ان سے اپنے علا قے کے لیے سڑک کا مطالبات کرتا ہے وہ اسے انکا ر نہیں کرتے فوری طورپر سٹرک کی تعمیر کا حکم نا مہ جاری کر دیتے ہیں، یہا ں کشکول لیے پھرتے ہیں پھر بھی نہیں بھر پاتا، پہلے کشکولی سے عوام کی چمڑی کھینچواتے ہیں پھر چند ٹھیکریا ں ڈال دیتے ہیں تاکہ کشکول کبھی بھر نہ پائے اور محتاجی ختم نہ ہوپائے اور محتاجی صرف یک جہتی سے ہی ختم ہوگی۔

23/07/2023

سید شکیل ا حمد
ر جل عظیم داغ الفت دے گیا
21/جولائی 2022ء؁

شخصیت میں کھرا پن، مزاج کی دل نوازی،مرنجاں مرنج طبیعت، گفتار میں نرمی، بے عیب کر دار، زاہد مرتاض، اکل کھرا، نہ جھکنے والا نہ بکنے والا،نہ لالچ وطمع سے مغلوب،نہ زیست میں کوئی داغ حرماں البتہ چہر ہ نور پر داغ جبہہ سائی کی دمک وتمتما ہٹ،سعیدالفطرت اور سلیم الطبع عبداللہ بھی آخر کو داغ الفت دے ہی گئے،کہنے کو وہ ایک بیورو کریٹ تھے مگر عملا ً وہ صرف ” عبداللہ“ ہی تھے اس میں کسی کو کبھی شک نہیں رہااورنہ اب بھی ہے۔ ان کے دنیا فانی سے اٹھ جا نے کے بعدسول سروس میں اصول پسند ی اکل کھر ے کردار کا روشن باب بھی بند ہو گیا، مرحوم چیف سیکرٹری کے عہدے کے علا وہ دیگر اہم ترین عہدوں پر فائز رہے اور اپنے بعد آنے والو ں کے لیے صراط المستقیم بناگئے۔عبداللہ کا ہری پو ر کے ایک دینی گھر انے سے تعلق تھا، عبداللہ کے کرادر کو دیکھ کر ان کے والد کی عظمت کا احسا س ہوتا ہے کہ انھو ں نے اولا د کی تربیت ایسے خطو ط پر کی کہ اللہ میا ں کے سامنے سرخ رو ہوگئے،مرحوم عربی،اردو، فارسی زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے،کیا زبان او ر بیان کی شستگی پائی جا تی تھی،ایک مرتبہ مسلم اسکا لر اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے استاد محترم احمد دیدات پاکستان تشریف لائے، یہا ں انھو ں نے مختلف تقریبات میں تقاریر کیں، خیر سے احمد دید ات کی فکر ونظر اپنی جگہ لیکن پشاور میں احمد دیدات کی تقریب میں عبداللہ بھی مقررین میں شامل تھے پوری مجلس تو کیا احمد دیدات بھی بہت متاثر ہوئے، اپنی تقریر میں عب اللہ صاحب نے پرمغز خطاب کیا اورنو جوان نسل کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نیا نظریہ بھی دیا کہ تاریکی کوئی اکا ئی نہیں ہے کوئی قوت نہیں ہے، اصل طاقت روشنی ہے جب روشنی نہ ہو تو تاریکی عود کر جا تی ہے اور روشنی ہمیشہ تاریکی ملیامیٹ کر تی ہے، اسی خطاب میں انھو ں نے نئی نسل کو پیغام دیا کہ صرف نصف شب کا ہو تا ہے پھر اس کے بعد اجالا ہی اجا لا ہوتا ہے اس لیے انسان کو تیر گی سے خائف نہیں رہنا چاہیے،مرحوم بے باکی میں بھی اپنی مثال آپ تھے، ان کی اصول پسند ی کی بناء پر ہر اچھا برا انسان ان عزت واحترام کر تا تھا، بھٹو مر حوم ایک منتقم مزاج انسان تھے چنانچہ سیا ستدان ہو ں یا بیوروکر یٹ سبھی بھٹو مر حوم کی منتقم مزاجی سے بے حد خائف رہتے تھے خاص کر بیو رو کریٹ کو ئی کا م بھٹو مر حوم کی خواہش کے بر عکس کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے عبداللہ مرحوم جب ڈیر اوسماعیل خان ڈویژن میں کمشنر تعینا ت تھے تو وہا ں ضمنی انتخابات منعقد ہو ا، مر حوم نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو واضح ہدایت دیں کے کوئی دھاندلی نہیں ہو نا چاہیے انتخابات ہر صورت شفا ف ہونا چاہیے اگر تم کو کوئی خوب ہے تو اپنے بیو ی بچے میر ے گھر بھیج دو ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، اس دور میں ہر الیکشن میں خوب دھا ندلی مچائی جا تی تھی دیکھنے والو ں دیکھا کہ ڈیر ہ کے اس انتخاب میں کوئی دھا ندلی نہیں ہو سکی،بھٹو مرحو م کے دور میں شما لی وزیر ستان میں شر پسندو ں کے خلا ف آپر یشن ہوا، عبداللہ مر حوم وہاں پولیٹکل ایجنٹ کے عہد ے فائز تھے، مرحوم نے اس آپریشن کی خود نگرانی کی اورکسی ادارے اور ایجنسی کو بے جاء مداخلت نہیں کرنے دی آپریشن کا میا ب ہوا اور کسی فریق کی طرف سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی، عبداللہ مر حوم نے اپنی ملا زمت کے آخری ایّا م میں کے پی کے کے چیف سیکرٹری کا عہد ہ قبول کیا بعض حلقے حیر ان ہوئے کہ مشرف جیسے حکمر ان کے دور میں ایسا عہد ہ کیوں قبول کرلیا، کیو ں کہ حکمر ان، خاص کرآمر اپنی من ما نی حکمر انی چیف سیکر ٹریز کے کندھو ں کا سہا ر ا لے کر تے ہیں جب عبداللہ مرحوم سے ان کے چند دوستوں نے استفسار کیا تو عبداللہ مرحوم نے کہا کہ کیا ان کے سرکا ری کر دار پر کوئی داغ ہے،انشاء اللہ اب بھی نہ ہو گا، اور پھر دیکھا گیا کہ مرحوم نے قانون کی سربلندی قائم رکھی، نئی نسل کے لیے سنہر ا دور عبداللہ مرحوم کا وہ تھا جب آپ نے ایک طویل عرصہ تک بیو روکریٹ کی تربیت کے لیے اکیڈمی میں گزارہ، آپ کے تربیت کر دہ بیو رو کریٹ آج بھی مرحوم کی اتباع کر رہے ہیں اور ایک عمد ہ افسر قرار پا رہے ہیں، مرحوم نے ان افسروں کی تربیت میں نظریاتی فکر ونظر کو فروغ دیا اور فرائض منصبی کے اعلیٰ گر سیکھا ئے ان کی وہ افسر آج بھی مرحوم کے اقدا رکے قائل ہیں، اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ مشر ف کے دور میں شرپسند و ں نے بڑا زور اٹھا رکھا تھا وہ صاحب ثروت افرا دکو خط لکھ کر بہت بڑی رقم کا مطالبہ کرتے مطالبہ پورا نہ ہو نے پر قتل اور گھر کو بم سے اڑانے کی واردات بھی کرتے، چنا نچہ سابق صوبائی وزیر حاجی جا وید کے گھر کسی ایسے ہی شرپسند نے ہینڈ گرنیڈ ما را، اللہ کا کر م رہا کہ کوئی جا نی نقصان نہیں ہوا، عبداللہ مرحوم ریٹائر ہو چکے تھے وہ اظہا ر افسو س کے لیے حاجی جا وید کے گھر تشریف لائے اس وقت راقم بھی وہاں موجو د تھا،سبھی حاضر افراد اس دھماکے کے بارے میں تبادلہ خیال کرہے تھے کہ اتنے میں علا قہ کے تھا نیدارتفتیش کی غرض سے پہنچے، تھا نید ار سے موجو د افراد کا تعارف کر ایا گیا، جب سابق چیف سیکر ٹر ی عبداللہ مر حوم سے معتارف کرایا گیا تو تھا نید ار نے کہا کہ میں تو عبداللہ صاحب کا بہت احسان مند ہو ں، سب نے استفسار بھری نظروں سے دیکھا تو انھوں بتایا کہ پولیس سروس کا جب انٹرویو تھا تو عبداللہ صاحب پبلک سروس کمیشن کے سربراہ تھے اگر آپ نہ ہو تے تو مجھے بھرتی نصیب نہ ہو تی کیوں موصوف کے زما نے میں تما م فیصلے کامل اہلیت کی بنیا د پر ہو تے تھے، میرے پا س کوئی سفارش نہ تھی لیکن عبداللہ صاحب کی موجو دگی سے یقین تھا کہ فیصلہ اہلیت کا ملہ کی بنیا د پر ہوگا، اس مجلس میں ایک سابق افسر بھی مو جو د تھے انھوں نے لقمہ دیا کہ عبداللہ صاحب نے نہ صرف اہلیت کو بنیا د بنا یا بلکہ یہ بھی ان کے فیصلہ تھا کہ اگر کوئی اہل ترین امید وار سفارش بھی کرائے تو اس نااہل قرار دے کر فارغ کردیا جائے۔عبداللہ مرحوم جس محکمے کے سربراہ رہے وہا ں کرپشن کا خاتمہ ہی رہا انھو ں نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں بھی فرائض انجام دئیے ان کی کارکر دگی کی بناء پر سعودی حکومت کی یہ خواہش رہی کہ وہ یہا ں ہی ملا زمت کرتے رہیں یا پھر سعودی حکومت میں کوئی اعلیٰ سرکا ری عہدہ قبول کرلیں مگر عبداللہ مرحوم نے اپنے ملک کی خدمت کو ترجیح دی، کیا ایسے ان مو ل ہیر ے اب ڈھونڈے سے مل پائیں گے۔

18/07/2023

سید شکیل احمد سیاسی جماعتوں کی کھمبیا ں 18جولائی 2023
نومئی کا ہولناک سانحہ بھی کیا سانحہ تھا کہ کبھی یہ نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ سیاسی شخصیات کی پرستش میں اس قد راندھا ہو جا سکتا ہے کہ ملک سالمتی سے کھیل دیا جائے یہ حقیقت ہے کہ نومئی کا سانحہ قوم کو ہلا دینے والا سانحہ تھا اور یہ سانحہ ایسا سانحہ تھا جس نے پاکستان کے دشمنو ں کو شاداں کیا وہا ں خود سانحہ کے اہم کر دار کے لیے بھی منحوس ثابت ہوا یہ کہاوت کتنی سچ ہے کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھوتا ہے اس میں خود ہی گرتا ہے چنانچہ یہ حقیت ہے کہ پی ٹی آئی اس ہو لناک گڑھے میں گری۔ جماعت کسی بھی قسم سے متعلق ہو وہ کسی فرد واحد سے مستحکم نہیں ہوا کرتی ہے گو اس میں قیا دت واحد شخصیت کی عیا ں ہو تی ہے لیکن اس کی کا میا بی میں قیا دت سے ہٹ کر مرکزی کر داروں کی لگن اور محنت کا اثر زیا دہ ہو تا ہے اور اس سے وابستہ کا رکنوں کی لگن بھی اہمیت کی حامل ہو تی ہے گو برصغیر میں سیا سی جماعتیں فرد واحد کے وجود کے پتہ دیتی ہیں مگر قیا د ت سے زیا د عملی طور پر اس سے وابستہ مرکزی کل پرزوں کی ہو تی ہے، پی ٹی آئی میں شخصی قیا دت عمر ان خان کی تھی اور وہی پارٹی ہی آمر تھے لیکن اس کو عروج دینے میں اسد عمر ِ، علیم خان، اکبر ایس احمد، نعیم الحق، فواد چودھری، اسد عمر، پرویز خٹک، شاہ محمو د قریشی، درجنو ں نا م ہیں لیکن یہ نا م عکس آئینہ کی طر ح دھند لا گئے ہیں چہر ے نہیں دھند لائے گئے ہیں کیو ں کہ چہر ے تو حقیقت ہو تے ہیں آئینہ تحریک انصاف نو مئی کے سانحہ کے گرہن کی وجہ سے دھندلا گیا ہے چنا نچہ کئی چہر وں نے اپنے چہر وں کی دھندلا ہٹ ہٹانے کی غرض سے نئے آئینے ڈھال لیے ہیں چنا نچہ پاکستان کی سیا سی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو ا ہے کہ ایک قابل ذکر پی ٹی آئی کی قیا دت نے اپنا رخ مرکز ی قیا دت سے مو ڑ لیا ہے یہ وہ قیا دت تھی جس طر ح مشین کے کلید ی پر زے ہو تے ہیں اب پی ٹی آئی کی مشینری کا صر ف ڈھانچہ رہ گیا ہے عمر ان خان اور ان کے مو جو د چہیتوں کا ابھی گما ن ہے کہ ہے کہ ووٹ بینک صرف اور صرف عمر ان خان نیا زی کا ہے تو یہ گما ن ہی ہے، خفیہ ہاتھ نے ووٹ بینک بنا نے میں کر دار ادا کیا تھا، اب یہ خفیہ ہا تھ اٹھ چکا ہے، دوم عمر ان خان نے جن اصولو ں پر جماعت کھڑی کی تھی اس سے خود ان کو بینک ووٹ کے انحراف کر نا پڑ ا تھا کیو ں کہ وہ فرمایا کر تے تھے کہ وہ پاکستان کو نو جوان قیا دت دیں گے نوجو ان کو آگے لائیں گے، اسمبلیون کو روایتی سیا ست دانو ں سے خالی کر یں گے وہ ایسا کیوں جھرلو دیا کرتے تھے وہ اس لیے کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہا ں بچوں اور بوڑھوں کے مقابلے میں نو جو انو ں کی تعداد سب سے زیا دہ ہے چنا نچہ پی ٹی آئی کی کشش پیدا کر نے کے لیے وہ نوجو انو ں کو فریب دیتے رہے اورجب وقت آیا تو ان کو ایک نوجو ان یا د نہ رہا کیو ں کے روایتی سیا ست دانو ں کے بنا وہ اقتدار کی کر سی تک نہیں پہنچ سکتے تھے چنانچہ ایک نئی سیا سی اصطلاح نکالی کہ الیکٹ ایبل افر اد تاکہ نوجو ان صبر کر لے کیو ں کہ نوجو ان نسل خواہش رکھتی تھی کہ پی ٹی آئی کو حکومت مل جائے تاکہ عمر ان خان کیے گئے وعدو ں پر عمل درآمد کر دسکیں آج وہ الیکٹ ایبل کی راہ تکنے سے بھی محروم نظر آرہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عمر ان خان نے الیکٹ ایبل کا دامن اسی لیے پکڑا تھا کہ وی جانتے تھے کہ مصنوعی مقبولیت کے بل بوتے پر وہ الیکشن نہیں کما سکتے، اور ہو ا بھی ایسا کہ اقتدار کر سی کے لیے انھیں جہا نگیر ترین کا جہا ز اور علیم خان کی دولت کی بیساکھیا ں استعمال کر نا پڑیں،یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا موڑ ہے کہ گردش میں آنے والی پارٹیو ں میں تو ڑ پھوڑ کا عمل ہو ا یا کر ایا گیا لیکن ایسا عمل دیکھنے کو کبھی نہیں ملا کہ جس طرح پی ٹی آئی میں سے کھمبیوں کی طر ح پارٹیا ں اُگ رہی ہیں، ماضی میں برسراقتدار جماعتوں کوبرا وقت آنے پر سکٹرتے تو دیکھا مگر کھمبیاں پیدا ہو تے نہیں دیکھیں، ایوب خان کی پارٹی اقتدار ختم ہو نے کے بعد پہلے سکٹری پھر خود ہی مٹ گئی پی پی ٹی کا جب اقتدار ڈھالا تو اس کے بعد دو تین جماعتین وجو د میں لائی گئی وہ بھی قصہ ء پارینہ ثابت ہوئیں، یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے حوالے سے عمر ان خان کا ووٹ ہے خاص طور پر ان خواتین کا ووٹ بینک کھرا ہے جن کا نظریہ ہے”میر ا جسم میر ی مر ضی“یا پھر کسی قدر نوجو ان نسل میں ایک حد تک ووٹ بینک ہے لیکن اس نو جو ان نسل میں اکثریت ان کی ہے جوابھی ووٹ اورسیا سی شعور کی حد ود کا نہیں چھو پائیں ہیں، چنا نچہ حواریا ں عمر ان خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ووٹ بینک بھی اتنا بنیلنس نہیں رکھتا جو 2018کی طرح جلو ہ دیکھا سکے اب تو ان کی عدالتی سہو لت کا ری بھی کھسک رہی ہے لاہو ر ہائی کو رٹ میں اب ان کی درخواستیں ان بینچو ں میں جارہی ہیں جہا ں کے عادل آئین اور قانو ن کی پاسداری میں مقام رکھتے ہیں تاہم اس کے علا وہ پرویز خٹک ایک منجھے ہوئے سیا ست دان ہیں اور سیا ست اور حالا ت پر گہر ی نظر رکھتے ہیں ان میں ایک خوبی یہ بھی پائی جا تی ہے کہ وہ محسنوں کو نظر انداز نہیں کیا کرتے اور دوستی نبھا تے ہیں ان کا اور عمر ان کا ساتھ تعلیم زما نے کی دوستی کا تھا چنا نچہ پارٹی کے لیے انھوں اپنی سابقہ سیا سی جما عتوں کے مقابلے پی ٹی آئی کا بھر پور ساتھ دیا ان کے جانے کے بعد پی ٹی آئی خالی خالی سی ہو کر رہ گئی ہے لیکن جا تے جاتے انھو ں نے ایک ایسا انکشاف کر دیا ہے جس سے عمرانی سیا ست کی قلعی کھل کررہ گئی ہے اقتدار سے محرومی کے بعد انھو ں نے جتنی بھی مہما ت چلائیں وی سب انتخابات کے لیے نہیں تھیں گو کہ انھو ں ان مہما ت کو حقیقی آزاد ی کا نا م دیا تھا مگر حقیقی آزادی کی تشریح نہیں کی ایک امریکی سائفر کو اور ایک انتخابات کو ڈھال بنایا جب عدلیہ کے حکم پر حکومت نے انتخابات کی بات کی اور بات چیت میں انتخابات کی تاریخ طے بھی کرلی گئی مگر عمر ان خان نے منہ مو ڑ لیا جس سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کو بھی دھچکا پہنچا تھا وہ کیو ں فرار ہوگئے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جب انھو ں نے حقیقی آزادی کے نا م پر اسلا م آبا داور جی ایچ کیو جا نے کی ٹھانی تھی تب انھو ں نے اس لا نگ ما رچ کے شرکا ء کی تعدا د سے یہ سبق لیا تھا کہ اب بیل منڈھے نہیں چڑھ پائی گئی جس کے لیے وہ نکلے ہیں ویسے بھی ان کا متمع نظر حقیقی آزادی کا حصول نہ تھا بلکہ وہ اپنے خاص مقاصد کے لیے ملک کو دیو الیہ کی طر ف لے جا نا چاہتے تھے اور اہم قومی اداروں کو کمزور کرنا چاہتے تھے چنا نچہ دھر نے کے دوران انھو ں نے سی پیک کے معاہد ے کو آگے بڑ ھنے سے روکا اور برسراقتدار آکر اس کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیا تھا اپنی صوبائی حکومتوں کے وزراء خزانہ سے خطوط لکھوا کر آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے سعی کی اور اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ پورا ایک سال تک آئی ایم ایف نے اس صورت حال سے پاکستان کو دیو الیا کر نے کے کنا رے پہنچانے میں سعی کی یہ سری لنکا تھا جس نے پاکستان کو تعاون دیا اور بات بنی ورنہ کوئی کسر نہیں چھو ڑ رکھی تھی جو کہاہے کہ سردیو ں کی شاموں تنہا کیو ں پھیر ا کرتے ہو۔۔۔ایسا تو ہوتا ہے ایسے کا مو ں میں۔

05/07/2023

زخمۂ دل
سید شکیل احمد
عظیم میثاق جمہو ریت
4 /جولائی 2023
ان دنوں دوبئی میں سیا سی کرشما ت و کر اما ت کی چٹاپٹاخ جاری ہے اور چڑ پڑ بھی خوب رنگ دیکھا رہی ہے جب تک نو از شریف دوبئی اور سعودی عرب کے درمیا ن جھولے لیتے رہیں گے سیا سی تما شا جا ری رہے گا، پی ڈی ایم کے اکابر دوبئی میں بیٹھے رہے اور پاکستان کے مستقبل میں سو چ وبچارکر تے رہے چنا نچہ امیر جما عت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بیا ن کر دیا کہ دو جما عتوں کو ٍپاکستان کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ کر نے کا اختیار نہیں ہے بات تو درست ہے لیکن دوبئی میں جو ہو تا رہا اس بارے میں کوئی حقیقی گونج سنائی نہ دی قیاس آرئیا ں ہی قیا س آرئیاں ہیں تھیں، بات کھلی ہے کہ وہا ں رہ کر پاکستان پیلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ما بین پرویز مشرف کے دور میں جو میثاق جمہو ریت تشکیل پایا گیا تھا اور اس میثاق جمہوریت کی تجدید نو مزید نوک پلک بڑھا کر اور نو ک پلک جھا ڑ کر پی ڈی ایم میں شامل تما م جماعتو ں نے دستخط فرما کر اپنا لیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا اس پر اسٹبلشمنٹ نے خوفنا ک میں ناک چڑھالی تھی چنا نچہ اسی روز سے عمر ان خان پراجیکٹ پر عمل شروع کر دیا گیا تھا جس کے باعمل پیش کا ر جنرل (ر) پرویز کیا نی تھے فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اب دونو ں کو سیا ست دانو ں کو سیاست ہمیشہ کے لیے کلین بولڈ کر دینا ہے اور ان کی پارٹیو ں کا وجو د بھی قصہ پارینہ بنا دینے ہے چنا نچہ 2008سے قبل ہی عمر ان خان پر اجیکٹ پر کا م شروع کیا گیا جس کا نتیجہ 2018 کے انتخابات کی صورت میں سامنے آیا خیر اس مو ضوع پر پہلے ہی بہت کچھ کہا جاچکا ہے تاہم حقیقت یہ ہے پاکستان میں غلا م محمد اور سکندر مر زا کے دور سے ہی سیا ستدانو ں کو سیا سی کھیل اسٹبلشمنٹ نے کھیلا نا شروع کر دیاتھا جس کے نتائج 9مئی کے روز کھل گئے خیر اس مو ضوع ہے کہ دوبئی میں گورکھ دھندا چلتا رہا، چنا نچہ ذرائع سے جو معلو م ہو ا ہے اس کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور نو از شریف کے درمیان جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا پی ڈی ایم اور پی پی اس کو اپنائیں گی، اس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ لیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنایا جا ئے گا اس بار ے میں خامیو ں کو دور کیا جائے گا علا وہ ازیں عدلیہ کو آئینی طور پر مضبوط اور با اختیا ر بنایا جا ئے گا تاکہ سہو لت کا ری کا دھندا ختم ہو جائے اس بارے میں کئے اہم فیصلے بھی کیے گئے ہیں کہ کس طر ح شفاف بنا یا جا ئے گا ان فیصلوں سے کئی جج جو میرٹ پر تعینا ت نہیں ہوئے وہ واپس ہو جائیں گے، حکومت سازی کے بارے میں اور سیا سی بیا ن بازی کے بارے میں بھی فیصلہ کیا گیا کہ انتخابی مہم کے دوران پی ڈی ایم کی کوئی جما عت ایک دوسرے کہ خلا ف دشنا م طرازی نہیں کر ے گی بلکہ سیا سی اقدار کے مطابق انتخا بات میں حصہ لے گی، حکومت سازی کے بارے میں بھی فارمولہ طے پاگیا ہے کہ پی ڈی ایم کی کوئی جما عت کسی بھی جماعت کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا ئے گی بلکہ جس حکومت سازی کا حق بنائے گا وہی جما عت حکومت بنایے گی چاہے وہ دو ووٹ کی اکثریت سے بنے، اس کے ساتھ صوبوں کی سطح ُپر بھی فیصلہ کر لیاگیا ہے پی پی کو سندھ کی بڑی جما عت تسلیم کرلیا گیا ہے اور اس کو اکثریت مل جانے پر سندھ میں پی پی کی حکو مت قائم کر نے میں پی ڈی ایم یا عظیم میثاق جمہوریت کے دائر ے میں آنے والی جماعتین تعاون بھی کر یں گی، اتنخاب لڑنے کے امید وار کھڑے کرنے کا بھی اصول طے کردیا گیا ہے کہ کو شش کی جائے کہ ایسے حلقوں میں پی ڈی ایم کی جما عتیں اپنے اپنے امیداور نہ کھڑے کر یں جہا ں آپس کے مقابلے کی وجہ سے نقصان اٹھا نا پڑ جائے، پنجا ب میں مسلم لیگ ن کی اکثریت کو تسلیم کر لیا گیا چنا نچہ کوئی دوسری جماعت پنجا ب میں حکومت قائم کر نے کی تگ دود نہیں کر ے گی، بلو چستان میں موجو د ہ سیا سی وحکو متی سٹ اپ کو برقرار رکھنا بھی طے پایا ہے البتہ صوبہ کے پی کے میں جمعیت العلمائے اسلا م کی اکثریت کو یقینی بنا نے کی مساعی کی جا ئے گی اور حکومت سازی میں تعاون فراہم کیا جائے گا پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہو گایا ہوگی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا یہ مسلم لیگ ن کا اپنا معاملہ ہے البتہ ایک بات طے ہو گئی ہے کہ قومی اسمبلی میں اگر مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو وزیر اعظم نہ تو نو از شریف ہو ں گے نہ مریم نواز ہو ں گی بلکہ دوبارہ شہباز شریف ہی وزیر اعظم کا عہد ہ سنبھالیں گے تاہم آصف زرداری کی خواہش ہے کہ بلا ول بھٹو ان کی زندگی میں وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہو جائیں۔ مسلم لیگ ن کو استحکام پاکستان پارٹی کا تعاون حاصل ہوگا جبکہ پرویز خٹک کا کر دار بھی اہم ہو گا ممکن ہے کہ کے پی کے میں وہ مولا نا فضل الرحمان کے سنگی بن جائیں گے اس کھیل میں عمر ان خان کہا ں گئے جب کہ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کا سو فی صد ووٹ عمر ان خان کا ہے لیکن عمر ان خان کو امید واروں کی قلت کا سامنا ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ اگر کھمبا کھڑا کر دیں تو وہ بھی جیت جائے گا علا وہ ازیں پی ٹی آئی سے بچھڑنے والو ں کا کہنا ہے کہ ایسے موقع پر پی ٹی آئی کے ایک سو کے لگ بھگ امید وار ٹکٹ واپس کر جائیں گے جس طر ح حال ہی میں عمر ان خان نے پنجاب اسمبلی کے ٹکٹوں بانٹاتھا اور وہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ عمر ان خان کے خلا ف جو مقدما ت ہیں اس میں کئی ایسے مقدما ت ہیں کہ ان کے لیکن بچ نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے خاص ور پر توشہ خانہ کا کیس ہے چنا نچہ اگر وہ گرفتا ر کرلیے گئے یا کسی مقدمہ کا فیصلہ آیا گیا تو پھر پی ٹی آئی کی قیا دت کی ڈگی ڈگی بج جائے گی ہو سکتا ہے کہ وہ پرویز الہی جو ہنو ز آس لگائے پی ٹی آئی جمے بیٹھے وہ پارٹی پر ہا تھ ما رجائیں یا پھر شاہ محمود کوئی روحانی جلو ہ دیکھا جائیں، سیا ست میں عمر ان خان کے لیے کوئی راہ نکلتی نظر نہیں آرہی ہے وہ جو طوفان 9مئی کو کسی کو ڈبونے کے لیے لائے تھے اس طوفان میں وہ خود کوہی ڈبو بیٹھے ہیں دوسری طرف موجو دہ حکومتی پارٹیو ں کی سیا ست ڈوب چلی تھی ان کے لیے یہ طوفان زندگی کی نوید لے آیا۔

02/07/2023

تحریر سیدشکیل احمد 2nd July 2023

عدل عمر انی

گفتگو کا موضو ع دیکھ کر قارئین کاکم کا دھیا ن کسی اور طرف چلا جائے اس سے پہلے تشریع کیے دیتے ہیں کہ تمام اردو لغت میں عدل عمر انی کے معنی سماجی انصاف ہے، عوام کے ساتھ انصاف کر نا، مساوات،سماجی انصاف، برابری وغیرہ، تاہم عام طور پر عدل اورانصاف کوایک ہی معنی میں لے لیا جا تا ہے جب کہ دونو ں میں واضح فرق ہے اس فرق کو ایک مثال سے سمجھ لیجئے کہ تین ایسے افراد ہیں جن میں ایک نوعمر، دوسر ا جوان اور تیسر ضعیف العمر ہے، ایک صاحب آپ کو تین روٹیا ں دیتے ہیں کہ ان تینو ں میں تقسیم کر دو آپ اگر ایک ایک روٹی تنیو ں کو دیدیتے ہیں تو یہ ہوا انصاف کیو ں کہ تینوں کو برابری کا حصہ مل گیا جب کہ عدل یہ ہے کہ نوعمر کی بھوک ضعیف العمر شخص سے کم ہو تی ہے اس لیے اس کو آدھی روٹی ملنی چاہییے، ضعیف العمر کی بھوک جو ان سے کم اور نو عمر بچے سے زیا دہ ہو تی ہے اس لیے بوڑھے کا حق ایک روٹی ہے اور جو ان کی بھوک دونوں سے زہا دہ ہوتی ہے تو اس کے حصہ میں ڈیڑ ھ روٹی آنا چاہیے،دوسرے الفاظ میں ہر شخص کو اس کا حصہ اس کے حق کے مطابق ہونا چاہیے یہی عدل عمرانی ہے چنانچہ اسی فرق کی بنا پر جہا ں سے آدمی کو عدل یا انصاف حاصل ہو تا ہے اس کو کمر ہ انصاف نہیں کہا جا تا بلکہ کمر ہ عدالت کہا جا تا ہے اور ایک اچھا عادل شخصیا ت پر نظر نہیں رکھا کرتے وہ عدل پرقائم رہتے ہیں چنا نچہ عدل کے عمل میں مصالحت یا ثالثی نہیں چلا کرتی اصول وضوابط اورقواعد کی علمداری ہو ا کرتی ہے،کچھ سال پہلے بابارحتمتے کا ذکر ایک معزز شخصیت نے کیا تھا کہ وہ منجھی پر بیٹھ کر گاؤں کے تنا زعات کا فیصلہ کیا کرتاتھا پھر اس کے بعد بابارحمتے انصاف کے حوالے سے ایک علا مت بن گئی اور عوام میں مثال بن کر گھومنے لگی، اب با با رحمتے نہ جانے کس مزے میں ہیں پر ان کا پرتو فگن بہت ہیں اورپرچھا واں بھی گہر ا ہے،ذرا ذرا یا د ہے کہ عمر ان خان نیا زی نے جب گلستان بے مہک سیا ست میں قدم رکھا تھا اس وقت ان کا مدعا ایک ہی تھا کہ پاکستان میں امیر کے لیے الگ سے قانون ہے اور غریب کے لیے الگ ہے، گو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی تاہم کسی سیا سی قیا دت کی جانب سے پہلی مر تبہ یہ تصدیق کھلے الفاظ میں کی گئی تھی کہ عدل عمر انی کے فقدان کی بناء پر عوام خاص طورپر غریب پسے ہوئے معاشرے کی زندگی بسر کررہے ہیں وہ ایک بہت بڑی آرذو اور امید بن کر افق سیا ست میں چمکے تھے ان کی ہر دلعزیزی کی ایک بڑی وجہ عدل عمر انی کا نظریہ بھی تھا یہ الگ سی بات ہے کہ دور پی ٹی آئی میں نہ تو عدل جہا نگیر ی نہ عدل تغلق کی رتی بھر جھلک نظرنہیں آئی بلکہ اکبری انصاف میں چنوائی گئی انار کلی کی روح جو اب بھی انصاف کے لیے دست سوال بنی ہوئی ہے بھٹکتی نظر آئی، اگر عمر ان خان نیا زی اپنے دور عدل میں وعد ے نبھا جا تے تو ان کو آج قریہ قریہ عدل وانصاف کے لیے چکر نہ لگانا پڑتے، تاہم ایک بات ہے کہ وہ ہیں بہت خوش قسمت کیو ں کہ ان کو اداروں کی جانب سے سہولت حاصل ہو جا تی ہے اس طر ح ان کی مشکلات میں کمی بھی واقع ہو تی نظر آتی ہے ایسی سہولت موصوف کو بابارحمتے کے دور میں بھی حاصل تھی چلے تھے پانا ما کا پاجاما کسنے جو بن گیا اقاما کا کچھا۔ایسے نہ جا نے کتنے کچھے بنتے رہیں گے،لیکن جب تک ملک میں عدل عمر انی قائم نہیں ہو تا حالا ت دیگر گو ں رہیں گے، پاکستان کے ایک معروف سفارت کا ر شمشا د احمد رہ گزرے ہیں، اللہ ان کو صحت کاملہ سے نواز ے انھو ں نے مشکل ترین حالا ت میں بھی پا کستان کے لیے عمدہ سفارت کاری کی ہے گزشتہ روز ایک تقریب میں عمر ان خا ن کی موجو دگی میں بڑی کام کی باتیں بتائی ہیں، سابق سفیر شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ اپنی سفارت کا ری کے تما م دور میں ان کو یہ احساس ہو ا کہ ملک کے بیرونی کوئی مسائل نہیں ہیں جتنے بھی مسائل ہیں وہ سب کے سب اندورن ملک ہیں، شمشاد احمد نے بتایا کہ اپنی چالیس سالہ سفارتی زندگی میں ان کو دو چیزوں کا تجربہ ہو ا اس میں سے ایک یہ کہ جن ممالک کی زبان انگریز ی نہیں تھی ان کے حکام ہمیشہ اپنی زبان میں بات کر تے تھے یہ تو دیکھنے میں آیا کہ نجی گفتگو میں وہ انگریزی میں بات کرلیا کرتے تھے، لیکن ریا ستی بات چیت میں وہ اپنی زبان میں ہی بات کرتے اور ایک ترجما ن کو معاونت کے لیے ساتھ رکھ لیتے۔موصوف شمشا د کی اس بات پر ایک تاریخی اور سبق آمو ز واقعہ یا د آیا کہ وائسرے ہندنے جو ہندوستان میں ایک مطلق العنا ن حکمران ہو تا تھا ایک مر تبہ مولا نا ابو الکلا م آزاد سے ملا قات کی اس ملا قات میں وہ اپنے ہمر اہ ایک ترجمان بھی لایا وہ انگریز ی میں بات کر تا تھا اورترجما ن اردو میں ترجمہ کر دیتا تاکہ مولانا کی سمجھ میں آجائے لیکن ایک موقعہ پر ترجمان صحیح طور پر ترجمہ نہ کر سکا تو مولا نا نے دوست کردیا جس پر وائسرے نے مو لا نا سے کہا کہ جب آپ کو انگریز ی آتی ہے تو براہ راست انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کرتے جس پر مولا نا تاریخی جواب دیا کہ تم انگریز لوگ ہزاروں میل دور سے آکر اپنی زبان بولتے ہو تو میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی زبان کیو ں چھو ڑ دو ں، اسی طرح مولا نا ابو الکلا م کا ایک اور واقعہ بھی یا د آرہا ہے کہ وہ کا نگر س کے صدر تھے صلا ح ومشورے کے لیے گاندھی جی ان کے گھر تشریف لے گئے جہا ں مولانا کہ سیکرٹری نے گاندھی جی کو بتایا کہ یہ مولا نا کے تصنیف و تالیف و مطالعہ کا وقت ہے وہ اس لمحہ کسی سے ملا قات نہیں کیا کرتے آپ وقت لے کر آئیں ہندوستان کے اتنے بڑھے لیڈر کو یہ جواب ناگوار تو گزرا مگر انھو ں نے اصرا ر کیا کہ ان کی آمد کی اطلا ع کر دی جائے وہ ملا قات کرلیں گے پہلے تو مولا نا کے سیکرٹری انکا ر ہی کرتے رہے تاہم پھر وہ مولانا کو مطلع کر نے کمرے میں چلے گئے واپس آکر بتایا کہ مولا نا کا کہنا وہ مصروف ہیں بہر حال گاندھی کا فی دیر تک انتظار کے بعد واپس لو ٹ گئے، یہ اصول ضوابط ہو تے ہیں، شمشا د احمد اپنی چالیس سالہ ملا زمت کا نچوڑ یہ بتاتے ہیں کہ آئین میں سب کچھ مصفا درج ہے، قوانین بھی موجو د ہیں بگاڑ جب پید ا ہو تا ہے کہ دونو ں کو نظر انداز کر کے ترجیحات بدل دی جا تی ہیں اور یہی ملک کا اصل مسلۂ ہے انھو ں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ امریکا کسی ملک کے خلاف سازش نہیں کیا کرتا، ساز ش بھی گھر کے اندر سے ہو تی ہے۔انھو ں نے امریکی اسسٹنٹ وزیر خارجہ کے سائفر سے متعلق بھی یہ ہی کہا کہ وہ ساز ش نہیں تھی بلکہ مٗوقف تھا جو کچھ ہوا وہ ملک کے اندر ہی ہو ا۔

06/05/2023

سید شکیل احمد مونگ دلنااس ہی کو کہا جا تا ہے 6/مئی 2023
پاکستان تحریک انصاف سیکرٹری جنرل اسد عمر نے پاکستان کی علا قائی تعاون کی شنگھائی کا نفرنس میں وزیر خارجہ بلا ول بھٹو کی شرکت پر کڑی تنقید کر تے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے ہاتھ نہ بڑھانے کے باوجو د یہ وہا ں چلے گئے، پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ سیا ست دان اپنے مخالف کو نیچا دیکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر تے ہیں گو کہا یہ جا تا ہے کہ منھ سے نکلی ایک بار بار بار واپس نہیں پلٹتی، یہاں یہ صورت حال ہے کہ ایک کہی گئی کسی مو ضوع پربات دن میں بار بار الٹے پلٹے کھا تی رہتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیرخارجہ بلا ول بھٹو کا یہ دورہ بھارت کا نہیں ہے پاکستان شنگھائی تعاون کانفرنس کا ممبر ہے جس کا اجلاس بھارت میں ہوااور تنظیم کے رکن کی حثیت سے پاکستان نے دیگر رکن ممالک کی طرح شرکت کی، اگر وزیر خارجہ کا نفرنس میں پاکستان کی نمائندگی نہ کر تے تو یہ تنظیم سے عدم تعاون کا مظاہر ہ قرار پاتا۔ عالمی برادری سے جڑ کر ہی کچھ پایاجا سکتا ہے، دجہا ں تک اسد عمر کا تبصرہ ہے ان کو شاید معلو م نہیں کہ اس میں بھارت کی جانب سے ہاتھ بڑھا نے یا گھٹانے کا معاملہ نہیں تھا کیو ں کہ بھارت کا محض اتنا کر دار تھاکہ وہ میزبانی کے فرائض انجا م دے باقی تنظیم کے ذمہ داران کے معاملا ت تھے، البتہ آنے جانے سے بہتر دیکھنا یہ ہے کہ اس امر کاجائز ہ لیا جائے کہ بھارت جیسے ملک جا کر وزیر خارجہ بلا ول بھٹو کی کا رکردگی کیا رہی ہے، ایک بات تو پی ٹی آئی کی تما م لیڈر شپ تسلیم کرے گی کہ ان کے دور میں پاکستان کے خارجہ پالیسی کی وجہ سے انتہائی دوست ممالک کے ساتھ میں جو سرد مہری یا بگاڑ پیدا کردیا گیا تھا موجو د حکومت نے اس کو کا میا بی سے پاٹ دیا ہے، اس امر کا اندزہ یوں بھی لگایاجا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے چوسرکھیل رہی ہے اس کے باوجو د پاکستان دیو الیہ کی حدو د سے دور ہو تاجا رہا ہے، جس کی بنیا دی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کے دوست از سرنو پاکستان کی امداد کے لیے کمر بستہ ہوگئے ہیں، آئی ایم ایف قرضہ فراہمی میں جو ٹال مٹول کیے ہوئے ہے اس سے ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں آئی ایم ایف کے جس معاہدے کی خلا ف ورزی کی مرتکب ہوئی تھی اس کو بہا نہ بناکر پاکستان کی اقتصادی مشکلا ت کو گہرا کیا جا تارہے اور اس کے لیے عمیق العمیق اقتصادی گہر ائی کھو د دی جائے جس میں وہ سسکیا ں لیتا رہے، پی ٹی آئی شنگھائی کا نفرنس میں شرکت پرموجودہ حکومت کو جو حرف تنقید بنائے ہوئے یہ یہ بھی عیاں کر ے کیا پاکستان کو اس بائیکاٹ کا فائدہ حاصل ہو تا، جس طرح او آئی سی کے اجلا س کا پاکستان نے بائیکا ٹ کرکے او آئی سی کے معزز ارکا ن کے سامنے پاکستا ن کا کشمیر اور بھارت کی چیر ہ دستیو ں کو ننگا کر نے کاموقع گنو ا دیا تھا، جب سے ملک کے سیا ستدانو ں کی جا نب سے سیا سی مفا د کی حرص میں پاکستان کے قومی مفا د کو پس پشت ڈالنے کا رواج پایاہے تب سے پاکستان کئی بین الا قوامی امو ر میں پیچھے رہ گیا ہے، پاکستان پر شنگھائی کا نفرنس میں بھارت جا کر شرکت کو تنقید کا نشانہ بنا نے والے یہ بتائیں کہ پاکستا ن اس میں کیا کھویا، کیا پاکستان نے کشمیر سمیت اپنے دیگرمعاملا ت کی بھر پور ترجما نی نہیں کی، یا وہ یہ چاہتے تھے کہ بلا ول بھٹو بھی کا نفرنس میں بھارتی وفد کی طر ف تحریک انصاف کا وہ ترانہ الاپتے جو اس نے بھارت کی طرف سے کشمیر کو ہڑپ کر نے کے بعد کشمیر کی طرف منہ کر کے الاپا تھا،اس ترانے کے کیا اثرات نکلے، شنگھائی کا نفرنس میں وزیر خارجہ بلا ول بھٹو نے واضح الفاظ میں تنظیم کو آگاہ کر دیا کہ پاکستان کا مؤ قف ہی ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے جو اقداما ت کیے گئے وہ کا فی سنگین ہیں اور جب تک ان پر نظر ثانی نہیں کی جا تی تب تک معنی خیز دو طرفہ بات چیت مشکل ہے، اس کا نفرنس میں بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں کا نفرنس کے سامنے جو تصویر پیش کی اس کا بھی بلاول بھٹو نے بھارت کی سر زمین کھڑے ہوکر جو اب دیا اور بھارت کو کہا کہ سفارتی پوائنٹ اسکو رنگ کے لیے دہشت کردی کو ہتھیا ر بنانے میں نہ الجھا جائے، انھو ں نے ایک چپت یہ بھی ما ری کہ دہشت گردسرگرمیو ں کے لیے مالیہ کی فراہمی کے تما م ذرائع کسی بھید بھا ؤکے بغیر بند ہو نا چاہیں، اور دہشت گردی کااس کی تما م اشکال میں بشمول سرحد پا ر دہشت گردی خاتم ہو نا چاہیے، وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ کے ایک ریماکس پر کہا کہ ہما رے عوام کی مجموعی سلا متی ہما ری مشترکہ ذمہ داری ہے، دہشت گردی عالمی سلا متی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے، بلا ول بھٹونے بھارت پر طنزکرتے ہوئے کا کہ، دہشت گردی کے موضوع پر جب وہ اظہار خیال کرتے ہیں تو صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی حثیت سے نہیں بلکہ اس ماں کے بیٹے کی حثیت سے بھی اظہار خیال کرتے ہیں جو دہشت گردوں کے ہاتھ قتل ہوئیں، وزیر خارجہ پاکستان نے یہ بھی بتا یاکہ میر ے ملک کے عوام کئی دہشت گردی کے حملے جھیل چکے ہیں، یہ ہی نہیں بلا ول بھٹو نے اس موقع پر افغانستان پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہ ہو نے دینے کا اپنا وعد ہ ایفا کرے، کا نفرنس میں وزیرخارجہ نے سعودی عرب اور ایران کے اختلاف دورکرنے میں چین کے کر دار کا خاص طور پر تذکرہ کرکے کانفرنس کے شرکاء کو آگا ہ کر دیا کہ پاکستا ن غیر جانبدار خارجہ پالیسی کاحامی ہے اور آئندہ کے خارجہ تعلقات کے خطوط بھی متعین کر دئے، پاکستان نے اس کا نفرنس میں شرکت کرکے عالمی برادری پر واضح کر دیا کہ وہ بھارت کے کشمیر کے بارے میں 2019کیے گئے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور پاکستان کا کشمیر سے متعلق ٹھوس اور واضح مؤقف ہے اور پاکستان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کیا جا ئے بھارت بین الا قوامی اور دوطرفہ سمجھو تو ں کی خلا ف ورزی کرتا ہے یہ بھی بیا ن کر دیا کہ بات چیت کا کیا مستقبل ہوگا 2019کااقدام واپس نہ لینے تک بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تبدیلی نہیں آسکتی ہے، پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر فرخ حبیب بھی بولے کہ بلا ول سیر وتفریح کر تے پھرتے ہیں وزارت خارجہ سیر وتفریح کے لیے، کیا بھارت کی سر زمین پر ہی کھڑ ے ہو کر بھارت کے سینے پر جو مونگ دلی ہے کیا اس کو تفریح کا نا م دیا جا سکتا ہے

Address

Peshawar
25000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ز خمۂ دل Zakham-a-Dil posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to ز خمۂ دل Zakham-a-Dil:

Share