13/08/2023
اس تحریر کو ایک سال بیت گیا ٹھیک ایک سال بعد بھی یہ ہی سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ
"ہم کیوں کر کھڑ ے ہیں"
سید شکیل احمد ہم کیو ں کرکھڑے ہیں 13 /اگست 2022ء
محارتاًبولا جا تا ہے کہ ہم کہا ں کھڑے ہیں کہنے کو یہ ایک استفہا میہ جملہ ہے مگر یہ خود احستابی کی دعوت دیتے ہیں اس جملہ کی بجائے یہ بول دیاجائے تو ہم کیو ں کھڑے ہیں تو اس میں حصر کا مفہوم زرو دار پیدا ہو جا تا ہے، جس سے خود احتسابی کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری کی کو تاہی کی بھی نشاند ہی ہو جا تی ہے۔ قارئین آج جب گفتگو میں محو ہو ں گے اس وقت پوری قوم ملک کی پچھترویں سالگر ہ منارہی ہوگی یہ پچھتر سال پوری قوم سے استفسار کررہے ہیں کہ ہم کیو ں کرکھڑے ہیں یا کہا ں کھڑے ہیں کیا ان ڈھیر سارے بیتے روز وشب میں خود کا احتساب کیا ہے یا پھر خود پر ستی کی ہے، اس سوال کا جواب رہنمائے عوام بھی نہ دیں پائیں مختصر اًکہا جاسکتا ہے کہ اللہ بزرگ برتر پاکستان کا حامی ونا صر ہے ورنہ اقتدار پرستو ں نے خود پر ستو ں کے ساتھ ملک بیچ ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھو ڑی، جہا ں تک یہ سوال ہے کہ کہا ں کھڑے ہیں اس کا جو اب یہ بنتا ہے کہ جس وقت حکو مت وقت روپے کی گرتی قدر کی وجہ گہنا رہی تھی اب ڈالر میں مسلسل گراوٹ پر بغلیں بجا کر دھوم مچارہی ہے اس سب کے باوجو د سوال اپنی جگہ ہے کہ ہم کہا ں کھڑ ے ہیں اس کا اندازہ اپنے پڑوسیوں کی معاشرت سے لگایا جا سکتا ہے کیو ں کہ ہمسائے وہ واحد سنگی ہیں جن معاشرت ایک دوسرے جڑی ہوتی ہے، بنگلہ دیش پاکستان سے جب الگ ہو ا تو وہ کس مقام پر کھڑا تھا آج اس کا ایک ’’ٹکہ“ (روپیہ) پاکستان کے دو روپے چھبیس پیسے کے برابر ہے، بھارت کا ایک روپیہ دو روپے ستر پیسے پاکستانی کے برابر ہے گویا بنگلہ دیش سے صرف تین پیسے آگے ہے،
افغانستان کا ایک روپیہ (وہاں کا روپیہ افغانی کہلاتا ہے) پاکستان کے دو روپے چالیس پیسے کے لگ بھگ ہے الغرض آس پڑوس کی کرنسی پاکستان کی کرنسی سے مضبوط ہے جس سے اندازہوجا تا ہے کہ ہم کہا ں کھڑے ہیں اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے یا د رہے کہ ما ضی میں ان ممالک کی کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں پسماندہ ترین قرار پاتی تھی، اور تو اور دنیا کے پسماند ہ ملکو ں میں بحرہند کے ایک چھو ٹے سے ملک مالدیب کی کرنسی ایک روپیہ کے مقابلے میں پاکستان کی کرنسی چود ہ روپئے ہے، پڑوس میں پاکستان کی کرنسی صرف سری لنکا سے مضبوط ہے جو پاکستانی چالیس پیسے کم ہے، چلیں مالدیپ کے احوال سے اندازہ لگالیتے ہیں پسماندہ ملک قرار پانے کے باوجو د اس کی معشیت اتنی مضبو ط کیو ں ہے، حقیقت یہ ہے کہ مالدیپ میں مطلق العنان حکومت یعنی بادشاہت قائم تھی اس کے باوجود پوری قوم میں یکجہتی پائی جاتی تھی اور یہ آج بھی بدرجہ اتم موجو د ہے، مالدیپ ایک ہزار ایک سو بانوے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ایک ایسا ملک ہے جس کے صرف دوسو جزیر وں پر انسانی آبادی پائی جا تی ہے، اس وقت مالدیپ کی سو فی صد آبادی مسلما ن ہے اس ملک کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ جو اس ملک میں آباد رہنا چاہتا ہے اس کے لیے مسلما ن ہو نا ضروری ہے، اب خود موازنہ کرلیں کے اسلا م کے نا م پر معرض وجو د میں آنے والے ملک کا اپناکیا حال ہے، اس کو معجزہ ہی کہاجا سکتا ہے کہ مالدیپ بدھ مت کا پیر و کاروں کا ملک تھا،صرف دوماہ کے اندر اندر بادشاہ، عوام و خواص سب دائرہ اسلا م میں داخل ہوگئے، یہ معجزہ کیسے ہوا مشہو ر سیا ح ابن بطوطہ نے جو مالدیپ ایک عرصہ تک قاضی کے عہد ے پر فائز رہے اپنی کتاب سیاحت میں درج کیا ہے کہ مالدیپ کے عوام بدھ مت ہونے کے نا تے حد درجہ توہم پر ست بھی تھے ان کے مطا بق ایک خوفنا ک بلاہر ما ہ کی آخریتاریخ کو روشنیوں کہ طرف سے نمو دار ہو تی ہے مالدیپ کے عوام اس عفریت کے خوف سے کہ تباہی نہ مچا دے ایک نو جوان حسینہ کا بناؤ سنگھا ر کرکے سمندر کے کنا ر ے واقع بت خانے میں رات گئے چھو ڑ دیتے، صبح وہ لڑکی مر دہ پائی جا تی پھر لوگ اس کی لاش جلا دیتے، باکرہ حسینہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ کیاجا تا ایک مرتبہ ایک ضعیف العمر بیو ہ کی اکلوتی نو جو ان بیٹی کے نام قرعہ نکل آیا اس نے زرو زور سے آہ زاری شروع کر دی ان دنو ں مالدیپ میں ایک مسلمان بزرگ ابوالبرکات ٹھہر ے ہوئے تھے جب ان کو پتہ چلا تو انھو ں نے پیش کش کی کہ وہ رات لڑکی کی جگہ بت خانے میں گزاریں گے چنا نچہ انھو ں نے رات بدھ خانے میں گزاری، صبح لو گ بزرگ کو دیکھ کر حیران ہوگئے جس کے بعد کبھی وہ بلا نہیں آئی اور مالدیپ کے لوگ داعی اسلا م ابو برکا ت بربری کے ہاتھوں مسلم ں ہوگئے بادشاہ نے بھی اسلا م قبول کرلیا اور صرف دوما ہ میں سارا مالدیپ مسلما ن ہو گیا، مسلما ں ملک بن جانے کے بعد ملک یکجہتی کو فروغ ملا، اب وہاں عدالتوں میں قاضی شریعت اسلا می کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، مالدیپ کی صنعتی پیداور کچھ نہیں لوگو ں کا ذریعہ آمدنی نا ریل جمع کرنا یا پھر سمندر سے مچھلیا ں پکڑ کر گذر بسر کرنا ہے مالدیپ نے آزادی کے بعد سے تما م غیر ملکی زبانو ں کو دیس نکلا کردیا وہا ں تعلیم اپنی قومی زبان میں دی جا تی ہے زندگی کے ہر شعبے میں صرف مالدیپ کی قومی زبان رائج ہے تعلیمی اداروں میں اسلا می تعلیم ہی بنیا دی تعلیم ہے وہا ں کے عوام سو فی صد تعلیم یا فتہ ہیں لوگ انگریزی یا کسی دوسری بدیسی زبان سے قطعی نا واقف ہیں،مختلف چھو ٹے بڑے جائزائر میں آباد مختلف نسل ہیں مگر ان میں کوئی نسلی تعصب کا شائبہ نہیں پایا جا تا جیسا کہ محولہ بالا بتایا جا چکا ہے کہ مالدیپ کی شہریت کی شرط اولین مسلمان ہو نا ہے وہا ں کوئی مسلکی تقسیم بھی نہیں ہے وہ ایک قوم ہیں پاکستان کو سیا ستدانو ں سمیت کچھ دوسری طا قتوں نے قومی یکجہتی کو پا رہ پارہ کر ڈالا ہے، لسانی فساد، مسلکی نفرت وعناد، شخصیت پر ستی کی آڑ میں خود پرستی کے فروغ نے پاکستان کو کہا ں لا کھڑا کیا ہے کیا پاکستان کا کوئی ادارہ چاہیے وہ سیاسی ہو یا غیر سیا سی وہ خود پر ستی کا شکا ر نہیں ہے نام انا پرستی اور خواہش پر ستی، اور شخصیت پرستی کا دے رکھا، اسی خود پر ستی نے جیا لے، یو تھیئے، شیر یے اور نہ جا نے کن کن کوپید اکررکھا ہے بھارت کے وزیر مواصلا ت وتعمیر ات نے اپنے ایوان میں بتایا کہ آئندہ سال بھارت میں چھبیس ایکسپر یس وے تعمیر کی جائیں گی ایک درجن کے قریپ ایکسپریس وے پہلے ہی کام کررہی ہیں ان کا دعوی ٰ ہے کہ پیسے کی کمی نہیں جو ان سے اپنے علا قے کے لیے سڑک کا مطالبات کرتا ہے وہ اسے انکا ر نہیں کرتے فوری طورپر سٹرک کی تعمیر کا حکم نا مہ جاری کر دیتے ہیں، یہا ں کشکول لیے پھرتے ہیں پھر بھی نہیں بھر پاتا، پہلے کشکولی سے عوام کی چمڑی کھینچواتے ہیں پھر چند ٹھیکریا ں ڈال دیتے ہیں تاکہ کشکول کبھی بھر نہ پائے اور محتاجی ختم نہ ہوپائے اور محتاجی صرف یک جہتی سے ہی ختم ہوگی۔