15/10/2025
ان سے ملئے۔۔!!
ان کا نام عثمان علی ہے۔اور انکا تعلق خیبرپختون خواہ کے شہر مردان سے ہے۔
عثمان مردان کا خوبصورت اور پڑھا لکھا نوجوان تھا۔تعلیم مکمل کرکے اچھی جگہ نوکری کے خواب آنکھوں میں سجائے زیر تعلیم تھا۔لیکن معاشی حالات نے عثمان کے تعلیمی سفر کو مکمل ہونے نہیں دیا۔
سال 1962میں عثمان علی مردان سے روزگار کے سلسلے میں کراچی آتا ہے اور کسی کنٹرکشن کمپنی میں بطور مزدور کام شروع کرتا ہے۔
جو ہاتھ اب تک قلم کی سیاہی سے رنگے تھے،جس کمر پر کتابوں کا بوجھ ہوتا تھا وہ ہاتھ اب سیمنٹ سے رنگ گئے اور کمر پر بستے کی جگہ ریتی اور سیمنٹ کی بوریوں نے لی تھی۔
منشی نے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس لڑکے میں کچھ خاص محسوس کیا اسے بلاکر بٹھایا اور پس منظر جاننا چاہا۔
عثمان میٹرک سائنس اور ادھورے انٹر کا بتاتا ہے اور پھر حالات نے یہ موڑ دکھانے کا بتایا۔
منشی اگلی صبح کمپنی کے مالک عبدالجلیل انصاری کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ یہ بچہ پڑھا لکھا ہے اور یہاں ہمارے ساتھ وزن اٹھاتا ہے مشقت کا کام کرتا ہے اس کا کچھ خیال رکھیں کسی مناسب کام پر لگائیں۔
مالک عثمان کو بلاتا ہے انٹرویو کرتا ہے اور اپنے آفس میں کوئی ذمہ داری دےدیتا ہے۔
عثمان کی دیانت داری،امانت داری،خوش اخلاقی اور ایمانداری سے مالکان اور تمام عملہ بہت خوش تھا اور رفتہ رفتہ عثمان مالک کے گھر کے ایک فرد کی طرح بن گیا۔
کچھ عرصہ بعد مالک اپنی شہزادی بیٹی سلمی کا رشتہ عثمان کے ساتھ طے کرتا ہے اور بہت خوشی دھوم دھام کے ساتھ شادی ہوجاتی ہے۔
اللہ نے عثمان کو بیٹا عطا کیا۔بیٹے کا نام مراد علی رکھا گیا۔بیٹےمراد علی کی عمر ایک سے ڈیڑھ سال تھی کہ عثمان کی بیوی سلمی اللہ کو پیاری ہوگئی۔
مالک عبدالجلیل انصاری اور اسکی بیوی (سسر اور ساس) نے عثمان کو بٹھاکر سمجھایا کہ تم نے کل کو اپنے گاوں چلے جانا ہے۔اس بچے کو ہم نے رکھنا ہے اسکی اچھی پرورش کرنی ہے ،تم ہمارے ساتھ معاہدہ کرلو کہ یہ بچہ اپنے نانا نانی کے ساتھ رہےگا۔اور اس بچے کو ہم نے تعلیم دلانی ہے ہم اس کے ماں باپ بنیں گے۔حلف لےکر لکھوایا کہ عثمان علی اپنے بیٹے مراد علی سے کبھی ملنے نہیں آئےگا۔
سال 1964/65 میں عثمان علی اپنے گاوں آتا ہے اور بیٹے کی محبت دل میں لئے اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کرتا ہے۔
مردان میں دوسری شادی کرتا ہے
اپنی پہلی شادی کا دوسری بیوی اور اس سے ہونے والے بچوں کو لاعلم رکھتا ہے۔ ایک طرف اپنے حلف کی پاسداری اور دوسری طرف کہیں بیوی اور بچوں کو کو برا محسوس نا ہو کہ پہلی شادی کیوں چھپائی جدائی کی تکلیف برداشت کرکے وقت گزارتا ہے۔
وقتا فوقتا کراچی آتا اور اپنے بچے کے بارے میں خفیہ معلومات لیتا۔اسکے اسکول کے باہر چھٹی کے وقت جاکر کھڑا ہوجاتا ایک جھلک بیٹے کو دیکھتا اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتا اور مردان کی طرف رخت سفر باندھ دیتا۔
اپنے مالک (سسر) کی کمپنی کے چوکیدار سے پرانی دوستی تھی وہ چوکیدار عثمان کو اسکے بیٹے کے احوال چھپ چھپ پر دیتا رہتا تھا۔ فون تو نہیں ہوتے تھے۔ ایک خبر لینے کے لئے مردان سے کراچی آتا اور چوکیدار سے ملتا۔
سال 1992 میں عثمان کراچی آکر اپنے اس چوکیدار کے ہاں ملنے جاتا ہے۔چوکیدار چارپائی پر بیمار لیٹا تھا اور کافی ضعیف ہوچکا ہوتا تھا۔
عثمان چوکیدار سے اپنے بیٹے مراد علی کےمتعلق پوچھتا ہے تو چوکیدار کہتا ہے کہ "ایک دن تمہارا بیٹا میرے پاس ہنستا کھیلتا آیا کہنے لگا میں بھی تمہارے پھٹان کا بیٹا ہوں میرا باپ یوسفزئی تھا۔ میں نے بچے سے کہا کہ کیا آپکو معلوم ہے آپکے بابا کہاں ہیں؟ بچے نے کہا صبر میں جاکر بابا سے پوچھتا ہوں کہ میرے ابو کہاں ہیں؟ پھر کچھ دیر بعد آکر کہا کہ بابا نے بتایا میرے امی ابو دونوں ایک ساتھ ٹریفک حادثے میں فوت ہوگئے ہیں۔ والدہ کی قبر کے ساتھ ایک الگ مصنوعی قبر بناکر بچے کو یہ ذہن نشین کرادیا تھا کہ یہ والد کی قبر ہے۔بچے نے جب نانا سے پوچھا تھا کہ مجھ سے "چوکیدار نے" پوچھا تمہارا ابو کہاں ہے؟ اس کے بعد سے مالک نے چوکیدار سمیت اپنے تمام عملے کو نکال دیا۔ اور ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو عثمان کے بارے میں جانتے نہیں تھے۔تمہارے بیٹے نے ایم بی بی ایس مکمل کرلیا ہے اب وہ ڈاکٹر مراد علی بن چکا ہے"۔
یہ آخری بار تھا جب عثمان کو چوکیدار نے مراد علی کے احوال سے آگاہ کیا تھا۔
چوکیدار کے فوت ہوجانے کے بعد عثمان کو بیٹے کے احوال بتانے والا کوئی نہیں بچا تھا۔
بالآخر سال 2016 میں وفات سے کچھ عرصہ قبل عثمان علی آدھی رات کو اچانک اٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔
بیوی بچے سب اکھٹا ہوئے پریشان ہوکر رونے کی وجہ جاننے لگے۔
عثمان کی اہلیہ نے یہ بھی بتایا کہ عثمان ہمیشہ اچانک رونا شروع کرتا۔کسی کے بیٹے کی وفات یا کوئی بری خبر سنتا تو بہت روتا لیکن ہمیں آج تک نہیں بتایا تھا۔
سال 2016 میں جس رات چلاکر روتا ہوا اٹھا تھا اس رات بالآخر اپنے بیوی بچوں سے کہا کہ یہ میرے دل کا وہ راز ہے جو زندگی بھر میں نے تم لوگوں سے چھپائے رکھا تھا۔
بات یہ ہے کہ: تم لوگوں سے پہلے کراچی میں ایسے ایسے میری شادی ہوئی تھی۔میرا ایک بیٹا تھا ایسے ایسے مجھ سے جدا ہوا۔ میں ہمیشہ اسکو یاد کرکے روتا ہوں۔ابھی میں نے اسے خواب میں دیکھا اس لئے چلاکر اٹھا۔
اور عثمان نے وصیت کی کہ میرے اس بیٹے سے ضرور تم لوگ ملنا اور میری طرف سے محبت کا اظہار کرنا۔
اس خواب کے چند روز بعد عثمان علی اپنے بیٹے مراد علی کے یکطرفہ عشق کو دل میں لئے رضائے الہی سے انتقال فرماگئے۔
عثمان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ مراد علی کی پرورش اسکے نانا عبدالجلیل انصاری نے کی تھی۔ جلیل انصاری کے ایک بیٹے یعنی مراد علی کے ماموں کا نام عبد الباسط انصاری ہے۔مراد علی کی والدہ کا نام سلمی تھا۔انکی کنسٹرکشن کمپنی تھی اور ریشم کے دو کارخانے بھی تھے۔سرکاری ٹھیکے لیتے تھے۔بڑا کاروباری گھرانہ تھا۔ 1960 میں بھی انکی گاڑیاں تھیں۔
کراچی کے علاقے لال کوٹھی دہلی ہاوسنگ سوسائٹی میں انکی رہائش تھی۔
عثمان کے بیٹوں کو اپنےبھائی مراد علی کی تلاش ہے۔ ڈاکٹر مراد علی کو شاید یہ سبق ذہن نشین کرایا گیا ہو کہ اس دنیا میں اسکا کوئی نہیں ہے۔ لیکن اس کے بھائی اس سے مل کر اپنے شجرہ نسب سے ملانا چاہتے ہیں۔
کراچی کے دوست اس پوسٹ کو خوب شئیر کریں مراد علی کی اولاد تک یا اسکے خاندان کے کسی بھی فرد تک یہ پیغام پہنچے تو ضرور نیچے درج نمبر پر رابطہ کریں۔
+923162529829
15 Oct 2025