08/09/2025
ڈسکلیمر: یہ کالم خالصتاً تحقیقی اور تجزیاتی نقطۂ نظر سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں ہڑتالوں کی تاریخی نوعیت، آئینی حیثیت اور سماجی و معاشی اثرات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس تحریر کا کسی سیاسی جماعت، تنظیم یا فردِ واحد کے خلاف جانبداری یا ذاتیات سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مقام پر کسی کی دل آزاری یا رنجش کا پہلو نکلتا ہو تو وہ غیر ارادی ہے، اور اس پر مصنف معذرت خواہ ہے۔
پشین نامہ نگار ۔ صبور اللہ درانی
پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن: آئینی حق کا استعمال یا قومی نقصان کی داستان؟
★ آئین پاکستان کے آرٹیکلز 16، 17 اور 19 شہریوں کو پرامن اجتماع، احتجاج اور آزادی اظہار کا حق دیتے ہیں۔ مگر جب یہ احتجاج تشدد، توڑ پھوڑ اور جبری دکانوں کی بندش میں بدل جائے تو غیر قانونی قرار پاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام نے ہمیشہ سیاست اور معاشرے پر گہرا اثر ڈالا۔
★ جیسا 1953 کی ہڑتال جس کا بنیادی محرک قادیانیوں کا مسئلہ تھا جنہیں عوام اور دینی حلقے نبوت کے جھوٹے دعوے کے باعث سب سے بڑا مجرم اور گمراہ سمجھتے تھے۔ اس مسئلے نے شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں شٹر ڈاؤن، پہیہ جام اور بالآخر لاہور میں مارشل لاء تک نافذ کرنا پڑا۔ 1968–69 کی طلبہ و مزدور تحریک نے ایوب خان کو استعفیٰ پر مجبور کیا مگر معیشت کو تباہ کیا، 1977 میں پی این اے کی انتخابی دھاندلی کے خلاف ہڑتال نے حکومت کو مذاکرات پر لایا مگر ضیاء الحق کی آمریت مسلط ہوئی، 1981 میں مزدوروں اور تاجروں کی ہڑتال نے مسائل تو اجاگر کیے مگر نتیجہ خالی رہا، 1997–98 میں اپوزیشن و تاجروں کے احتجاج نے حکومت پر دباؤ تو ڈالا مگر اربوں روپے کا نقصان کیا، 2007 کی وکلا تحریک عدلیہ کی بحالی میں کامیاب رہی، 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے شٹر ڈاؤن و دھرنوں نے انتخابی اصلاحات پر بحث تو چھیڑی مگر معیشت کو مفلوج کر دیا، 2019 میں تاجروں نے ٹیکس پالیسی کے خلاف احتجاج کیا جس سے حکومت دباؤ میں آئی مگر ٹیکس ریکوری رکی، اور 2023 میں سیاسی گرفتاریوں کے ردعمل میں بڑے پیمانے پر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہوئے جنہوں نے پاکستان کا عالمی تاثر متاثر کیا اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔
★ ان تمام ہڑتالوں نے جہاں عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور حکمرانوں کو مذاکرات پر مجبور کیا، وہیں معیشت کو اربوں روپے کا نقصان، غریب طبقے کی مشکلات اور قومی ساکھ کو دھچکا بھی دیا۔ یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ پرامن احتجاج اصلاحات کی راہ کھول سکتا ہے مگر تشدد اور توڑ پھوڑ اسے قومی نقصان میں بدل دیتے ہیں۔