Sarhad e Sach News

Sarhad e Sach News ہمارا میشن آپ کا آواز عوام اور اعلیٰ اوحکام تک پہنچانہ آپ کا کام ہمیں سپورٹ کرنا ہے۔

تحریر ۔ عبدالستار کاکڑ
06/10/2025

تحریر ۔ عبدالستار کاکڑ

ڈسکلیمر: یہ کالم خالصتاً تحقیقی اور تجزیاتی نقطۂ نظر سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں ہڑتالوں کی تاریخی نوعی...
08/09/2025

ڈسکلیمر: یہ کالم خالصتاً تحقیقی اور تجزیاتی نقطۂ نظر سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں ہڑتالوں کی تاریخی نوعیت، آئینی حیثیت اور سماجی و معاشی اثرات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس تحریر کا کسی سیاسی جماعت، تنظیم یا فردِ واحد کے خلاف جانبداری یا ذاتیات سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مقام پر کسی کی دل آزاری یا رنجش کا پہلو نکلتا ہو تو وہ غیر ارادی ہے، اور اس پر مصنف معذرت خواہ ہے۔
پشین نامہ نگار ۔ صبور اللہ درانی
پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن: آئینی حق کا استعمال یا قومی نقصان کی داستان؟
★ آئین پاکستان کے آرٹیکلز 16، 17 اور 19 شہریوں کو پرامن اجتماع، احتجاج اور آزادی اظہار کا حق دیتے ہیں۔ مگر جب یہ احتجاج تشدد، توڑ پھوڑ اور جبری دکانوں کی بندش میں بدل جائے تو غیر قانونی قرار پاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام نے ہمیشہ سیاست اور معاشرے پر گہرا اثر ڈالا۔
★ جیسا 1953 کی ہڑتال جس کا بنیادی محرک قادیانیوں کا مسئلہ تھا جنہیں عوام اور دینی حلقے نبوت کے جھوٹے دعوے کے باعث سب سے بڑا مجرم اور گمراہ سمجھتے تھے۔ اس مسئلے نے شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں شٹر ڈاؤن، پہیہ جام اور بالآخر لاہور میں مارشل لاء تک نافذ کرنا پڑا۔ 1968–69 کی طلبہ و مزدور تحریک نے ایوب خان کو استعفیٰ پر مجبور کیا مگر معیشت کو تباہ کیا، 1977 میں پی این اے کی انتخابی دھاندلی کے خلاف ہڑتال نے حکومت کو مذاکرات پر لایا مگر ضیاء الحق کی آمریت مسلط ہوئی، 1981 میں مزدوروں اور تاجروں کی ہڑتال نے مسائل تو اجاگر کیے مگر نتیجہ خالی رہا، 1997–98 میں اپوزیشن و تاجروں کے احتجاج نے حکومت پر دباؤ تو ڈالا مگر اربوں روپے کا نقصان کیا، 2007 کی وکلا تحریک عدلیہ کی بحالی میں کامیاب رہی، 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے شٹر ڈاؤن و دھرنوں نے انتخابی اصلاحات پر بحث تو چھیڑی مگر معیشت کو مفلوج کر دیا، 2019 میں تاجروں نے ٹیکس پالیسی کے خلاف احتجاج کیا جس سے حکومت دباؤ میں آئی مگر ٹیکس ریکوری رکی، اور 2023 میں سیاسی گرفتاریوں کے ردعمل میں بڑے پیمانے پر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہوئے جنہوں نے پاکستان کا عالمی تاثر متاثر کیا اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔
★ ان تمام ہڑتالوں نے جہاں عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور حکمرانوں کو مذاکرات پر مجبور کیا، وہیں معیشت کو اربوں روپے کا نقصان، غریب طبقے کی مشکلات اور قومی ساکھ کو دھچکا بھی دیا۔ یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ پرامن احتجاج اصلاحات کی راہ کھول سکتا ہے مگر تشدد اور توڑ پھوڑ اسے قومی نقصان میں بدل دیتے ہیں۔

نجیب اللہ ترین پشین گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل: عزم و خدمت کی داستاں                                       بلوچ...
16/08/2025

نجیب اللہ ترین پشین
گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل: عزم و خدمت کی داستاں
بلوچستان کی سیاسی و سماجی فضاؤں میں اگر کسی شخصیت کو استقامت، درویش صفت قیادت اور بے لوث خدمت کے استعارے کے طور پر یاد کیا جائے تو وہ شیخ جعفر خان مندوخیل ہیں، 26 دسمبر 1956 کو ضلع ژوب کے سنگلاخ اور غیر معمولی ماحول میں جنم لینے والے اس مردِ قلندر نے بچپن ہی سے خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنایا، ابتدائی تعلیم سینٹ فرانسس گرامر اسکول سے حاصل کی اور پھر جامعہ بلوچستان سے علومِ عالیہ میں دسترس حاصل کی، سنہ 1974 میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کے منصب پر فائز ہو کر سیاست کے بحرِ بیکراں میں قدم رکھا اور یوں ایک ایسے
سفر کا آغاز ہوا جو آج نصف صدی بعد بھی تسلسل کے ساتھ عوامی خدمت کی روشنی بانٹ رہا ہے۔
مندوخیل نے ایوانِ صوبائی اسمبلی میں متعدد بار عوام کی ترجمانی کی، کبھی وزارتِ تعلیم، کبھی خزانہ، کبھی صوبائی داخلہ اور کبھی ایکسائز و ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری نبھائی، ان کا ہر کردار دیانت و تدبر کی مثال رہا، کئی دہائیوں تک مسلم لیگ (ق) کا ستون بنے رہے اور پھر اکتوبر 2022 میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، فروری 2023 میں صوبائی صدارت کا منصب ملا اور 6 مئی 2024 کو بلوچستان کے 24ویں
گورنر کے طور پر عہدہ سنبھالا۔
حال ہی میں ان کا ضلع پشین کا دورہ ایک یادگار باب کے طور پر تاریخ میں درج ہو چکا ہے، یہ دورہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پشین کے ضلعی صدر اور قومی اسمبلی کے امیدوار سعد اللہ ترین کی دعوت پر کیا گیا، جرگہ اور عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایسے انقلابی اعلانات کیے جو پسماندگی کے اندھیروں میں امید کی مشعل کی مانند ہیں، پشین کے لیے بجٹ میں خصوصی فنڈز مختص کرنے کا عندیہ دیا، سول ہسپتال کو شب و روز بجلی کی فراہمی کے لیے الگ فیڈر اور سولر سسٹم کی منظوری دی، سول ہسپتال روڈ کی تعمیر و توسیع کا اعلان کیا، پشین لاء کالج کے لیے چار دیواری، دو نئی عمارتیں اور زمین کی فراہمی کا وعدہ کیا، بٹئی زئی کے عوام کے لیے آب نوشی کی سہولت کے تحت ریک بور کی منظوری دی، بٹئی زئی میں بنیادی طبی مرکز(BHU) کا اعلان کیا، گیس پائپ لائن کے ذریعے سہولت رسانی کی نوید سنائی اور پشین کے باسیوں کے لیے نادرا میگا سینٹر کی منظوری دے کر ایک
نئے دور کا آغاز کر دیا۔
شیخ جعفر خان مندوخیل کی یہ کاوشیں صرف وعدہ نہیں بلکہ عوامی خدمت کے عزمِ صادق کی گواہی ہیں، یہ اقدامات اس بات کا مظہر ہیں کہ قیادت کرسی یا اقتدار کا نام نہیں بلکہ وہ فریضہ ہے جس کے ذریعے قوم کے خوابوں کو تعبیر بخشی جاتی ہے، اگر یہ اعلانات عملی شکل اختیار کر گئے تو پشین ترقی و خوشحالی کی نئی صبح دیکھے گا اور بلوچستان کی دھرتی ایک بار پھر یہ گواہی دے گی کہ جن رہنماؤں نے اخلاص کو شعار بنایا، ان کے نام
تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف سے کندہ ہوتے ہیں۔ سرحد سچ نیوز

گرینوچ سکول کے ہونہار طلباء علم بہترین پوزیشن سے امتحان میں کامیاب۔ بی بی زائدہ درانی،بی بی سویرہ درانی،کلیم اللہ درانی،...
21/12/2024

گرینوچ سکول کے ہونہار طلباء علم بہترین پوزیشن سے امتحان میں کامیاب۔ بی بی زائدہ درانی،بی بی سویرہ درانی،کلیم اللہ درانی،بی بی مزدلفہ درانی،بی بی عالیہ درانی

نامہ نگار پشین۔ صبوراللہ درانیباباصحافت: خان عبدالصمد کی بے باک قلم کی جدوجہدخان عبد الصمد خان، جو ایک بلند پایہ پشتون ر...
02/12/2024

نامہ نگار پشین۔ صبوراللہ درانی
باباصحافت: خان عبدالصمد کی بے باک قلم کی جدوجہد

خان عبد الصمد خان، جو ایک بلند پایہ پشتون رہنما اور صحافی تھے آپ نے بلوچستان اور خاص طور پر پشتون خطے کی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی جو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ ان کی صحافتی خدمات میں ان کا جاری کردہ ہفت روزہ ''استقلال'' ایک نمایاں اہم قدم کی حیثیت رکھتا ہے، جو 20 نومبر 1938 کو منظرِ عام پر آیا۔ یہ اخبار محض ایک صحافتی ادارہ نہیں تھا بلکہ آزادی کی تحریک کا ایک مضبوط ہتھیار تھا جس نے انگریزی سامراج کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ''استقلال'' نے خان عبد الصمد خان کی فکری اور نظریاتی جدوجہد کو عملی جامہ پہنایا، جس میں بلوچستان کے عوام کی حالتِ زار کو اجاگر کیا اور ان کے حقوق کی آواز بلند کی۔
"استقلال'' کا آغاز برطانوی حکومتی دباو کے باوجود ہوا، اور اس اخبار نے خان عبد الصمد خان کی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس اخبار کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، اس پر پابندیاں لگائیں اور کئی بار اس کی اشاعت روک دی گئی، مگر خان عبد الصمد خان نے اپنی جدوجہد کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی تحریروں میں حق و صداقت کی راہ اپنائی۔ ''استقلال'' کے صفحات پر شائع ہونے والی تحریریں نہ صرف ایک احتجاج تھیں بلکہ ان میں عوامی حقوق کی حفاظت، آزادی اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی عملی رہنمائی بھی شامل تھی۔ اس طرح، خان عبد الصمد خان نے صحافت کو ایک تحریک میں تبدیل کر دیا جو آزادی کی جدوجہد کا اہم حصہ بن گئی۔
"استقلال'' کے پہلے شمارے میں خان عبد الصمد خان نے ایک دلیرانہ تحریر کے ذریعے آزادی، خودمختاری اور مظلوموں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ ان کی تحریر نے بلوچستان کے عوام کو ایک نئی سوچ دی اور ان میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا جذبہ پیدا کیا۔ ''استقلال'' نے پشین، قلعہ عبداللہ، گلستان اور کوئٹہ جیسے علاقوں کے عوام کے مسائل کو اجاگر کیا اور ان کی پسماندگی، غربت اور تعلیمی کمی یوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی تحریریں جو حقیقت پر مبنی اور بے خوف تھیں بلوچ یا پشتون خطے کے عوام کے لیے ایک نیا آدرش اور حوصلہ تھیں۔
خان عبد الصمد خان کی صحافتی خدمات اور ''استقلال'' کا کردار صرف ایک صحافتی مشن نہیں بلکہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ''بابا صحافت'' کا لقب دیا گیا۔ اس لقب کی حقیقت صرف ان کی صحافتی خدمات نہیں بلکہ ان کی جرات مندانہ تحریریں تھیں جو آزادی کے لیے ان کی لگن اور قوم کے حقوق کے لیے ان کی بے خوف جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ان کے قلم نے نہ صرف عوامی شعور بیدار کیا بلکہ اسے آزادی کی سمت میں ایک طاقتور ہتھیار بنا دیا۔
خان عبد الصمد خان کا یہ مشن آج بھی زندہ ہے، اور ان کی صحافتی خدمات نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے صحافتی میدان میں ایک اعلیٰ معیار قائم کیا۔ ان کی زندگی اور کام کا تجزیہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچائی اور انصاف کی راہ میں مشکلات آتی ہیں، لیکن یہ راہ ہمیشہ کامیابی کی طرف جاتی ہے۔ ''استقلال'' اور خان عبد الصمد خان کی تحریروں کی کہانی آج بھی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ سچ اور انصاف کی جدوجہد کبھی بھی آسان نہیں ہوتی، مگر اس میں کامیابی اور فتح کی امید ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
خان عبد الصمد خان نے ''استقلال'' کے ذریعے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جو نہ صرف صحافت میں بلکہ عوامی جدوجہد میں بھی ایک درخشاں مثال بن گئی۔ ان کی زندگی اور صحافت کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور ان کی طاقت کو اجاگر کیا جائے۔ ان کی تحریروں میں چھپی بے باکی اور سچائی نے نہ صرف ان کی قوم کو مضبوط کیا بلکہ وہ صحافت کی دنیا میں ایک علامت بن گئے۔جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ ''استقلال'' کا ہر شمارہ ان کے عزم، ان کی جرات اور آزادی کی جدوجہد کی علامت ہے۔

تعلیم سے محروم چراغ: روشنی کی جستجوپشین نامہ نگار۔ صبور اللّٰہ درانی پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت کئی بنیادی خرابیوں کا...
01/12/2024

تعلیم سے محروم چراغ: روشنی کی جستجو
پشین نامہ نگار۔ صبور اللّٰہ درانی

پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت کئی بنیادی خرابیوں کا شکار ہے جو نہ صرف ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں بلکہ نوجوان نسل کے مستقبل کو بھی غیر یقینی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کا فقدان، نجی تعلیمی اداروں کی مہنگائی، اور طبقاتی فرق نے ایک ایسے نظام کو جنم دیا ہے جو مساوات اور انصاف سے کوسوں دور ہے۔
سرکاری تعلیمی ادارے، جو ملک کی اکثریتی آبادی کو تعلیم فراہم کرتے ہیں، بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان اداروں میں اساتذہ کی کمی، غیر تربیت یافتہ عملہ، اور وسائل کی عدم دستیابی ایک عام مسئلہ ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں، خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ میں، بہت سے اسکول عملاً غیر فعال ہیں۔ ان اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں، جبکہ کئی اسکولوں کو غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے معیار تعلیم کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن ان کی فیسیں متوسط اور غریب طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے، جہاں تعلیم ایک حق کے بجائے ایک مہنگی سہولت بن چکی ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نصاب کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ نصاب میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور کئی بار نصاب کو سیاسی اور مذہبی مداخلت کے ذریعے متاثر کیا جاتا ہے۔ سائنسی، تخلیقی، اور تحقیقی رجحانات کو فروغ دینے کی بجائے رٹہ سسٹم پر زور دیا جاتا ہے، جس سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں طبقاتی فرق بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کا فرق، دیہی اور شہری علاقوں کے تعلیمی معیار میں فرق، اور امیر و غریب کے بچوں کے لیے الگ الگ تعلیمی مواقع نے معاشرے میں مزید تفریق پیدا کی ہے۔
ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانی چاہیے۔ اساتذہ کی تربیت اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ، اسکولوں میں جدید سہولیات کی فراہمی، اور نصاب کی معیاری تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کے لیے حکومتی ریگولیشنز متعارف کرائی جائیں تاکہ فیسوں پر قابو پایا جا سکے اور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے تعلیم کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں کا قیام اور وہاں کے بچوں کے لیے اسکالرشپ پروگرامز شروع کیے جائیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کی خرابی صرف ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ اگر اس پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو یہ نہ صرف ملک کی ترقی کو متاثر کرے گا بلکہ معاشرتی مسائل کو بھی جنم دے گا۔ ہمیں ایک ایسا نظام تعلیم درکار ہے جو مساوات، انصاف، اور جدیدیت کے اصولوں پر مبنی ہو تاکہ پاکستان کا ہر بچہ علم کی روشنی سے فیض یاب ہو سکے۔

بلوچستان: مسائل کے انبار، جنوبی پشتونخوا کے خدشات، اور منشیات کی کاشتنامہ نگار پشین: صبور اللہ درانیبلوچستان، جو پاکستان...
30/11/2024

بلوچستان: مسائل کے انبار، جنوبی پشتونخوا کے خدشات، اور منشیات کی کاشت
نامہ نگار پشین: صبور اللہ درانی
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے، ایک بار پھر مسائل کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں جنوبی پشتونخوا کے علاقے، جن میں کوئٹہ، پشین، چمن، قلعہ عبداللہ، گلستان، قلعہ سیف اللہ، توبہ کاکڑی، اور توبہ اچکزئی شامل ہیں ۔
جنوبی پشتونخوا کی اہمیت اپنے جغرافیائی محل وقوع اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے، مگر حکومتی بے توجہی نے یہاں کے عوام کو مختلف مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ کوئٹہ، جو صوبے کا دارالحکومت ہے، پینے کے صاف پانی، معیاری تعلیم، اور صحت کے بنیادی مسائل کا شکار ہے۔ چمن، قلعہ عبداللہ، اور پشین جیسے علاقے جو افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارت کے اہم مراکز ہیں، بے روزگاری، ناقص انفراسٹرکچر اور حکومتی غفلت کا شکار ہیں۔
حال ہی میں، گلستان اور قلعہ عبداللہ میں چرس اور افیم کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان علاقوں میں زراعت کی بجائے منشیات کی کاشت نے مقامی کسانوں کے لئے زیادہ منافع کا ذریعہ بن لیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کی کمی، روزگار کے مواقع کا فقدان، اور مقامی لوگوں کی معاشی مشکلات ہیں۔ یہ منشیات نہ صرف علاقے کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پورے صوبے کے امن و امان کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔
پشین، چمن، اور قلعہ عبداللہ جیسے سرحدی علاقوں میں منشیات کی کاشت سے نہ صرف مقامی سطح پر جرائم بڑھ رہے ہیں بلکہ اس کا اثر سرحدی تجارت اور عوامی زندگی پر بھی پڑ رہا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی بدامنی نے ان علاقوں میں حکومتی عملداری کو کمزور کر دیا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر ان علاقوں میں منشیات کی کاشت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ، زراعت اور دیگر شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری کر کے انہیں منشیات کی کاشت سے بچایا جا سکتا ہے۔ قلعہ سیف اللہ، گلستان، اور دیگر علاقوں میں حکومت کو بنیادی انفراسٹرکچر فراہم کرنا چاہیے تاکہ عوام کو باعزت روزگار کے مواقع ملیں اور وہ منشیات کی کاشت کی طرف مائل نہ ہوں۔
جنوبی پشتونخوا کے مسائل محض سیکورٹی آپریشنز تک محدود نہیں ہیں۔ یہاں کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور حکومتی توجہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر حکومت نے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کیا تو یہ مسائل نہ صرف بلوچستان کے امن و امان کے لئے بلکہ پورے ملک کے استحکام کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔

پشین نامہ نگار۔ صبور اللّٰہ درانی واپڈا لائن مین بخت اللہ بازئی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ مرحوم نصیب اللہ بازئی،...
28/11/2024

پشین نامہ نگار۔ صبور اللّٰہ درانی
واپڈا لائن مین بخت اللہ بازئی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ مرحوم نصیب اللہ بازئی، ماسٹر انور (لیویز اہلکار رحمت اللہ) کے بھائی، جبکہ فرید بازئی، ماسٹر بلال بازئی اور میروایس بازئی کے چچا تھے۔ نماز جنازہ آج صبح 9:30 بجے نیو کلی حسیڑان، پشین میں ادا کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

پشین نامہ نگار ( صبور اللّٰہ درانی)پشین شہر میں واپڈا کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، جہاں غیر اعلانیہ اور ...
18/11/2024

پشین نامہ نگار ( صبور اللّٰہ درانی)
پشین شہر میں واپڈا کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، جہاں غیر اعلانیہ اور غیر ترتیب وار لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف شہریوں کے روزمرہ معمولات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں کو بھی مفلوج کر چکی ہے۔ بجلی کی اس غیر متوقع بندش کے باعث طلبہ اپنی تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں، جبکہ بیماروں اور بزرگ شہریوں کو ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا ہے۔عوامی شکایات کے باوجود متعلقہ حکام کی خاموشی نے ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واپڈا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکا ہے، یا عوام کی مشکلات اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں؟ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے فوری اقدامات اٹھائیں اور اس نااہلی کا سدباب کریں، تاکہ شہریوں کو اس اذیت ناک صورتحال سے نجات دلائی جا سکے۔

Iqbal Day 09 November 2024
09/11/2024

Iqbal Day 09 November 2024

الشمس اسٹیشنری ہولسیلر پتہ۔ بلمقابل عسکری بینک محمد اکبر آغا بیلڈنگ بند روڈ پشین
08/11/2024

الشمس اسٹیشنری ہولسیلر
پتہ۔ بلمقابل عسکری بینک محمد اکبر آغا بیلڈنگ بند روڈ پشین

پشین شہر میں مختلف محکموں میں بے شمار آسامیاں تمام آسامیوں کی فارم و اشتہار اور تمام سیٹ رضوان اللہ اسٹیشنری اینڈ ہولسیل...
05/11/2024

پشین شہر میں مختلف محکموں میں بے شمار آسامیاں تمام آسامیوں کی فارم و اشتہار اور تمام سیٹ رضوان اللہ اسٹیشنری اینڈ ہولسیل ڈیلر نزد پوسٹ آفس بند روڈ پشین میں دستیاب ہے

Address

Pishin

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sarhad e Sach News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share