29/07/2025
آزاد ہزارستان: خواب، بیانیہ یا ضرورت؟
از قلم: برگد ہزارہ
آزادی کی جدوجہد ہمیشہ کسی خواب سے جنم لیتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہ خواب اگر قوم کی اجتماعی سوچ اور حکمتِ عملی میں ڈھل جائے تو ایک بیانیہ بن جاتا ہے، اور جب وہ بیانیہ حالاتِ حاضرہ اور تاریخی حقائق کی روشنی میں لازم ہو جائے، تو وہ صرف ایک خواب نہیں رہتا، بلکہ ایک سیاسی و قومی ضرورت بن جاتا ہے۔ آزاد ہزارستان کے تصور کا ارتقاء بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
ہزارہ قوم کی صدیوں پر محیط تاریخ، مظالم، بے دخلیوں اور جغرافیائی محرومیوں سے بھری ہوئی ہے۔ افغانستان کی ریاستی ساخت میں ان کے لیے نہ تو سیاسی نمائندگی کی جگہ رہی، نہ معاشی ترقی کے دروازے کھلے، اور نہ ہی سماجی تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ یہی مسلسل استحصال رفتہ رفتہ ایک اجتماعی شعور میں ڈھلتا گیا، جس نے ہزارہ نوجوانوں، دانشوروں اور کارکنان کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کیا کہ کیا موجودہ ریاستی بندوبست میں ان کی بقا ممکن ہے؟ یا ایک الگ خودمختار ریاست — ہزارستان — ہی ان کے وجود اور ترقی کا واحد راستہ ہے؟
ہزارستان کا بیانیہ اب محض جذباتی نعرہ نہیں رہا، بلکہ سیاسی دلیل کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ اس تصور کے تحت سوال یہ نہیں کہ ہزارہ قوم کیا چاہتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس قوم کو کیا حق دیا گیا؟ اگر ایک قوم مسلسل نسل کشی، جبری ہجرت اور شہری حقوق کی محرومی کا شکار ہو، تو کیا اسے اپنے جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی وجود کے تحفظ کے لیے خودمختاری کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے؟ اقوامِ متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے عالمی اصول اور اقوام کی آزادی کی تاریخ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب ایک قوم کو مسلسل ریاستی ظلم اور امتیازی سلوک کا سامنا ہو، تو اس کا حقِ خود ارادیت نہ صرف جائز بلکہ لازم ہو جاتا ہے۔
ہزارستان صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک شناخت، ایک تہذیب اور ایک تاریخی وجود کا نام ہے، جسے طاقت، استبداد اور خاموشی کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔ اب وہ پردے چاک ہو رہے ہیں، اور ہزارہ نوجوانوں کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ، تحریروں میں ڈھلتے مطالبات، اور دنیا بھر میں پھیلتی آواز اس حقیقت کو ابھار رہی ہے کہ آزاد ہزارستان کا مقدمہ نہ صرف تاریخی اور اخلاقی بنیاد رکھتا ہے بلکہ سیاسی انصاف کے عالمی اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم خواب، بیانیہ اور ضرورت میں فرق سمجھیں — اور اس فرق کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد، فکری بیداری اور بین الاقوامی رابطوں کو مضبوط کریں۔ آزاد ہزارستان کا سوال اب تاریخ سے زیادہ مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ اور اس قوم کا مستقبل صرف اسی صورت میں محفوظ ہے جب وہ اپنی زمین پر اپنے فیصلے خود کر سکے۔