19/10/2025
کوئٹہ: ٹماٹر پر ’قیمت کا آتشِ بازی‘: آخر عوام کا سالن مہنگا کیوں ہوا؟
رپورٹ: مرتضیٰ زہری
“یار! پچھلے ہفتے ٹماٹر 250 روپے کلو تھا آج تو 350 کا ہو گیا!
”جی “ہاں بھائی، لگتا ہے اب سالن میں ٹماٹر ڈالنا بھی امیروں کا شوق بن جائے گا!”
یہ گفتگو کوئٹہ کے ایک متوسط طبقے کے محلے میں دو پڑوسیوں کے درمیان ہوئی مگر یہی جملے اس وقت پورے بلوچستان اور پاکستان میں لاکھوں گھروں کا درد بیان کر رہے ہیں۔
ایک ایسی سبزی جو عام سالن کا لازمی جزو سمجھی جاتی تھی اب روزمرہ بجٹ کے لیے ایک نیا بحران بن چکی ہے۔
کوئٹہ میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں چند دنوں کے اندر 50 روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد یہ 350 روپے فی کلو کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اندرون شہر کے بعض علاقوں میں یہی ٹماٹر 400 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے تک یہی قیمت 300 روپے تھی۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق، نئی فصل نہ آنے ایران اور افغانستان سے سپلائی متاثر ہونے اور طلب میں اچانک اضافے کے باعث قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ٹماٹر کی سالانہ پیداوار تقریباً پانچ لاکھ ٹن کے قریب ہے، جس میں بلوچستان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔
گیلپ پاکستان کی 2022-23 کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان ملک کی کل پیداوار کا تقریباً 40 فیصد فراہم کرتا ہے۔یعنی ملک کے تقریباً ہر دوسرے باورچی خانے میں استعمال ہونے والا ٹماٹر کسی نہ کسی شکل میں بلوچستان کی زمین سے جڑا ہوا ہے۔
بلوچستان کے ضلع نصیرآباد، لسبیلہ، خضدار، تربت، ہرنائی اور پنجگور میں ٹماٹر کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ تاہم، سرد موسم میں ان علاقوں میں فصل ختم ہونے سے صوبے بھر میں رسد کم ہو جاتی ہے۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما عبدالرحمان بازئی کے مطابق: “فی الحال بلوچستان کے سرد علاقوں میں ٹماٹر کی فصل نہیں ہے۔ البتہ نصیرآباد ڈویژن اور لسبیلہ میں اگلے ماہ نئی فصل آنے کے بعد قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔”
بلوچستان کی مقامی پیداوار کم ہوتے ہی پاکستان کا دار و مدار درآمدی ٹماٹر پر بڑھ جاتا ہے۔ سال 2023 کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان نے تقریباً تین لاکھ چھپن ہزار میٹرک ٹن ٹماٹر درآمد کیے۔ ان میں سے اکثریت افغانستان سے آئی جبکہ ایران سے تقریباً انتیس ہزار میٹرک ٹن ٹماٹر درآمد ہوا۔
لیکن رواں سیزن میں ایران سے ٹماٹر کی آمد کم ہو گئی ہے، اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ بارڈر کلیئرنس میں سست روی نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔
بارڈر پر ٹرکوں کی تاخیر، سفارتی کشیدگی اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے اس صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ٹماٹر اب نایاب سا لگنے لگا ہے۔
کوئٹہ سبزی منڈی کے تاجر محمد یوسف بتاتے ہیں کہ پہلے روزانہ پانچ ٹرک ٹماٹر آتے تھے، اب صرف دو ٹرک پہنچتے ہیں وہ بھی زیادہ دام پر۔
ان کے بقول “جب سپلائی کم اور طلب زیادہ ہو، تو قیمت خودبخود آسمان چھوتی ہے۔”
ایک مقامی تجزیہ کار کے مطابق، کوئٹہ میں ٹماٹر کی دستیابی پچھلے دو ہفتوں میں 30 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
یہی وہ خلا ہے جس نے قیمت کو 400 روپے فی کلو تک پہنچا دیا۔
قیمتوں کے اس بحران کے پیچھے کئی پرتیں ہیں نہ صرف موسمی عوامل بلکہ تجارتی پالیسی، درآمدی انحصار، اور زراعت میں سرمایہ کاری کی کمی بھی بڑی وجوہات ہیں۔
ماہرین کے خیال میں اگر حکومت، زمیندار اور مارکیٹ ریگولیٹرز چند بنیادی اقدامات کریں تو اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے: ٹنل فارمنگ اور گرین ہاؤس زراعت کو فروغ دیا جائے۔