Balochistan24

Balochistan24 Balochistan’s Premier Multimedia Web TV
A Voice for the People of Balochistan
Sharing News, Stories, and Perspectives.
(1)

کوئٹہ: ٹماٹر پر ’قیمت کا آتشِ بازی‘: آخر عوام کا سالن مہنگا کیوں ہوا؟رپورٹ: مرتضیٰ زہری“یار! پچھلے ہفتے ٹماٹر 250 روپے ک...
19/10/2025

کوئٹہ: ٹماٹر پر ’قیمت کا آتشِ بازی‘: آخر عوام کا سالن مہنگا کیوں ہوا؟

رپورٹ: مرتضیٰ زہری

“یار! پچھلے ہفتے ٹماٹر 250 روپے کلو تھا آج تو 350 کا ہو گیا!

”جی “ہاں بھائی، لگتا ہے اب سالن میں ٹماٹر ڈالنا بھی امیروں کا شوق بن جائے گا!”

یہ گفتگو کوئٹہ کے ایک متوسط طبقے کے محلے میں دو پڑوسیوں کے درمیان ہوئی مگر یہی جملے اس وقت پورے بلوچستان اور پاکستان میں لاکھوں گھروں کا درد بیان کر رہے ہیں۔

ایک ایسی سبزی جو عام سالن کا لازمی جزو سمجھی جاتی تھی اب روزمرہ بجٹ کے لیے ایک نیا بحران بن چکی ہے۔

کوئٹہ میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں چند دنوں کے اندر 50 روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد یہ 350 روپے فی کلو کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

اندرون شہر کے بعض علاقوں میں یہی ٹماٹر 400 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے تک یہی قیمت 300 روپے تھی۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق، نئی فصل نہ آنے ایران اور افغانستان سے سپلائی متاثر ہونے اور طلب میں اچانک اضافے کے باعث قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ٹماٹر کی سالانہ پیداوار تقریباً پانچ لاکھ ٹن کے قریب ہے، جس میں بلوچستان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔

گیلپ پاکستان کی 2022-23 کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان ملک کی کل پیداوار کا تقریباً 40 فیصد فراہم کرتا ہے۔یعنی ملک کے تقریباً ہر دوسرے باورچی خانے میں استعمال ہونے والا ٹماٹر کسی نہ کسی شکل میں بلوچستان کی زمین سے جڑا ہوا ہے۔

بلوچستان کے ضلع نصیرآباد، لسبیلہ، خضدار، تربت، ہرنائی اور پنجگور میں ٹماٹر کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ تاہم، سرد موسم میں ان علاقوں میں فصل ختم ہونے سے صوبے بھر میں رسد کم ہو جاتی ہے۔

زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما عبدالرحمان بازئی کے مطابق: “فی الحال بلوچستان کے سرد علاقوں میں ٹماٹر کی فصل نہیں ہے۔ البتہ نصیرآباد ڈویژن اور لسبیلہ میں اگلے ماہ نئی فصل آنے کے بعد قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔”

بلوچستان کی مقامی پیداوار کم ہوتے ہی پاکستان کا دار و مدار درآمدی ٹماٹر پر بڑھ جاتا ہے۔ سال 2023 کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان نے تقریباً تین لاکھ چھپن ہزار میٹرک ٹن ٹماٹر درآمد کیے۔ ان میں سے اکثریت افغانستان سے آئی جبکہ ایران سے تقریباً انتیس ہزار میٹرک ٹن ٹماٹر درآمد ہوا۔

لیکن رواں سیزن میں ایران سے ٹماٹر کی آمد کم ہو گئی ہے، اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ بارڈر کلیئرنس میں سست روی نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔

بارڈر پر ٹرکوں کی تاخیر، سفارتی کشیدگی اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے اس صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ٹماٹر اب نایاب سا لگنے لگا ہے۔

کوئٹہ سبزی منڈی کے تاجر محمد یوسف بتاتے ہیں کہ پہلے روزانہ پانچ ٹرک ٹماٹر آتے تھے، اب صرف دو ٹرک پہنچتے ہیں وہ بھی زیادہ دام پر۔

ان کے بقول “جب سپلائی کم اور طلب زیادہ ہو، تو قیمت خودبخود آسمان چھوتی ہے۔”

ایک مقامی تجزیہ کار کے مطابق، کوئٹہ میں ٹماٹر کی دستیابی پچھلے دو ہفتوں میں 30 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
یہی وہ خلا ہے جس نے قیمت کو 400 روپے فی کلو تک پہنچا دیا۔

قیمتوں کے اس بحران کے پیچھے کئی پرتیں ہیں نہ صرف موسمی عوامل بلکہ تجارتی پالیسی، درآمدی انحصار، اور زراعت میں سرمایہ کاری کی کمی بھی بڑی وجوہات ہیں۔

ماہرین کے خیال میں اگر حکومت، زمیندار اور مارکیٹ ریگولیٹرز چند بنیادی اقدامات کریں تو اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے: ٹنل فارمنگ اور گرین ہاؤس زراعت کو فروغ دیا جائے۔

19/10/2025

فورسز ہی حکومت کے خلاف: ایسا احتجاج آپ نے نہیں دیکھا ہوگا۔ مزید تفصیلات ضیاء الرحمن مینگل کی رپورٹ میں

اس خبر کی تفصیل یہاں پہلے کمنٹ میں ۔۔۔!
19/10/2025

اس خبر کی تفصیل یہاں پہلے کمنٹ میں ۔۔۔!

17/10/2025

"اب ہزارہ بھی ‘مہاجر’ بن گئے؟ خواجہ آصف کے بیان نے کوئٹہ میں ہلچل مچا دی!"

خواجہ آصف کے حالیہ بیان پر کوئٹہ کی ہزارہ برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو لوگ صدیوں سے یہیں بستے آئے، کیا وہ بھی ‘غیر’ ٹھہرے؟

👀 آپ کا کیا خیال ہے؟

کیا ایسے بیانات مزید تقسیم پیدا کر رہے ہیں؟
کمنٹ میں اپنی رائے ضرور دیں ⬇️

16/10/2025

کوئٹہ میں جائیداد کی قیمتیں 15 سال پیچھے: پراپرٹی مارکیٹ میں گہرا جمود
کوئٹہ میں پراپرٹی کے کاروبار پر منفی اثرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔










15/10/2025

ایران اور افغانستان کے درمیان پہلی مسافر ٹرین سروس کا آغاز

15/10/2025

گلی گلی نشہ، کوچہ کوچہ بربادی
وزیر اعلیٰ کے احکامات ہوا میں تحلیل










اسلام آباد میں بلوچستان کی سیاحت؟"بلوچستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی انوکھی منطق پر سوالات"تحریر: مرتضیٰ زیب زہری بلوچستان حکوم...
15/10/2025

اسلام آباد میں بلوچستان کی سیاحت؟

"بلوچستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی انوکھی منطق پر سوالات"

تحریر: مرتضیٰ زیب زہری

بلوچستان حکومت کے محکمہ سیاحت نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جسے بلوچستان کی سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر منعقد کیا گیا۔ مگر اس تقریب نے سیاحت سے زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے۔

محکمہ سیاحت کے مطابق، اس ایونٹ کا مقصد بلوچستان کے حسین مقامات اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا تھا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تقریب بلوچستان کے کسی شہر، ضلع یا تفریحی مقام کے بجائے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد کی گئی۔

جہاں مہمانوں کو ٹینٹ اور کیمپس لگا کر "بلوچستان کا ماحول" دکھایا گیا۔

یہ منطق بہت سوں کے لیے ناقابلِ فہم تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر سیاحت کو فروغ دینا مقصود تھا تو غیر ملکی اور ملکی مہمانوں کو زیارت، بولان، خضدار کے مولا چٹوک یا مکران کے ساحلی بیچز جیسے اصل مقامات دکھائے جاتے، نہ کہ اسلام آباد کے کسی پارک میں بلوچستان کا مصنوعی منظر نامہ۔

معروف صحافی وسعت اللہ خان سمیت کئی کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اس حکومتی حکمتِ عملی پر تنقید کی ہے۔

مقامی صحافیوں نے بھی سوال اٹھایا کہ جب اصل بلوچستان کی خوبصورتی اور ثقافت سینکڑوں کلومیٹر دور ہے تو اسے دارالحکومت میں دکھانے کا مقصد آخر کیا تھا؟

محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر داؤد ترین اس تمام تنقید کے باوجود خاموش ہیں۔ نہ وہ اخراجات کے بارے میں کچھ بتا رہے ہیں، نہ اس ایونٹ کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کوئی وضاحت دے رہے ہیں۔

مزید برآں، بعض رپورٹس کے مطابق، تقریب میں شریک میڈیا نمائندے زیادہ تر وہ تھے جو محکمے کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ڈرون شاٹس، غیر ملکی مہمانوں کے انگریزی انٹرویوز اور "بلوچستان بہت خوبصورت ہے" جیسے جملے سوشل میڈیا پر تو خوب وائرل ہوئے، مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ تمام ویڈیوز اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئیں بلوچستان میں نہیں۔

تاجروں نے بھی اس پالیسی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاحت کا اصل فائدہ تو تب ہوتا ہے جب لوگ بلوچستان آئیں، یہاں کے بازاروں سے خریداری کریں، مقامی ہوٹلوں میں قیام کریں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔

"جب لوگ یہاں آئیں گے ہی نہیں تو ہم کاروبار کیسے بڑھائیں؟" ایک مقامی تاجر کا کہنا تھا۔

یوں بلوچستان کی سیاحت کے نام پر اسلام آباد میں ہونے والا یہ ایونٹ، مقامی عوام اور ماہرین دونوں کے لیے ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

کیا یہ تقریب واقعی سیاحت کے فروغ کے لیے تھی، یا صرف ایک نمائشی کارروائی؟

15/10/2025

بلوچستان میں تعلیمی ایمرجسنی: کیا وزیر تعلیم ایوارڈ کے مستحق ہیں؟











15/10/2025

Mass Movement at Chaman Border as Hundreds of Families Arrive










بلوچستان: تعریف کے بھوکے افسر اور تنقید سے خائف محکمےرپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری کوئٹہ میں جاری یوتھ سمٹ کے دوران ایک ایسا لم...
14/10/2025

بلوچستان: تعریف کے بھوکے افسر اور تنقید سے خائف محکمے

رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری

کوئٹہ میں جاری یوتھ سمٹ کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جب کھیلوں کی دنیا کے "سرکاری کھلاڑی" خود تنقید کے میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

سیکرٹری کھیل بلوچستان درا بلوچ نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کے دوران نہ صرف برہمی کا اظہار کیا

بلکہ اپنی "خواہشِ نایاب" بھی ظاہر کر دی کہ ان کے پاس صرف وہی صحافی آئیں جو ان کی تعریفوں کے پل باندھیں۔

تنقید کرنے والوں کے لیے، ان کے دروازے بند ہیں۔

واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک صحافی نے بالکل سادہ سا سوال کیا:

"جناب، یوتھ سمٹ پر کتنا بجٹ خرچ ہوا؟"

بس یہی سوال، سیکرٹری صاحب کے صبر کا امتحان بن گیا۔

چہرے کے تاثرات بدل گئے اور گفتگو کا محور شفافیت سے نکل کر انا کی سرحدوں میں جا داخل ہوا۔

یاد رہے کہ سیکرٹری کھیل وزیر کھیل اور دیگر اعلیٰ افسران گزشتہ چند ماہ سے کھیلوں کے فنڈز میں مبینہ خرد برد کے الزامات کی زد میں ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی یہ شور اٹھتا رہا کہ محکمہ کھیل میں پیسہ کھیل بن گیا ہے ارکان اسمبلی نے نہ صرف وزیر کھیل بلکہ پورے محکمے کے افسران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکرٹری کھیل کا دفتر اکثر مخصوص صحافیوں اور سوشل میڈیا پرستاروں سے بھرا رہتا ہے وہی لوگ جو سرکاری بیانیے کو "خبر" بنا کر پیش کرتے ہیں۔

مگر جیسے ہی کوئی تنقیدی سوال اٹھائے، وہ صحافی اچانک "بلیک میلر" قرار پاتا ہے۔

یوتھ سمٹ کے دوران بھی منظر کچھ ایسا ہی تھا۔ جب ایک مقامی ڈیجیٹل میڈیا نمائندے نے سوال پوچھا تو سیکرٹری صاحب نے پہلے چینل کا لوگو دیکھا، پھر طنزیہ انداز میں مسکرائے۔

جیسے کہہ رہے ہوں، تمہاری پہچان ہو گئی ہے، اب کیمرے
بند ہونے دو، پھر بات کریں گے!

بلوچستان کے کھیلوں میں نوجوانوں کے لیے مواقع شاید کم ہوں مگر افسروں کے لیے طاقت کے کھیل خوب جاری ہیں۔

یہ وہ میدان ہے جہاں تعریف ہی کامیابی کا معیار ہے اور سوال پوچھنا "گستاخی" سمجھا جاتا ہے۔

Address

Jinnah Road
Quetta Cantonment
87800

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Balochistan24 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Balochistan24:

Share