Balochistan24

Balochistan24 Balochistan’s Premier Multimedia Web TV
A Voice for the People of Balochistan
Sharing News, Stories, and Perspectives.
(1)

بلوچستان 24 "اگر میں شہید ہوگیا تو۔۔۔" چوہدری اسلم نے رات کے اندھیرے میں اہلیہ سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر کون سا وعدہ لیا؟...
11/12/2025

بلوچستان 24

"اگر میں شہید ہوگیا تو۔۔۔" چوہدری اسلم نے رات کے
اندھیرے میں اہلیہ سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر کون سا وعدہ لیا؟ 8 سال بعد راز سے پردہ اٹھ گیا
کراچی: شہرِ قائد کے وہ نڈر پولیس افسر جن کے نام سے دہشت گرد کانپتے تھے، ان کی زندگی کا آخری باب کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔

شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم کی شہادت کو برسوں بیت گئے، مگر اب ان کی اہلیہ نے اس بہادر افسر کی نجی زندگی اور شہادت سے قبل ہونے والی پراسرار گفتگو کے وہ راز افشاں کر دیے ہیں جنہیں سن کر ہر آنکھ اشکبار ہو جائے۔

رات کا پچھلا پہر اور قرآن پر حلف
ڈیجیٹل پاکستان کو دیے گئے انٹرویو میں چوہدری اسلم کی بیوہ نے انکشاف کیا کہ شہادت سے کچھ عرصہ قبل کی ایک
رات، جب دنیا محوِ خواب تھی، چوہدری اسلم بے چین تھے۔

انہوں نے اپنی اہلیہ کو نیند سے جگایا اور ایک ایسا سوال کیا جس کی توقع کوئی بھی بیوی اپنے شوہر سے نہیں کر سکتی۔

"اگر میں شہید ہوگیا تو کیا تم دوسری شادی کر لو گی؟"
اہلیہ نے گھبرا کر انکار کیا، لیکن "کراچی کے شیر" کو محض زبانی انکار پر تسلی نہ ہوئی۔

انہوں نے قرآن پاک منگوایا، اس پر اپنی شریک حیات کا ہاتھ رکھوایا اور قسم لی کہ ان کے جانے کے بعد وہ کسی اور کی نہیں ہوں گی۔ ان کے الفاظ تھے: "میں تمہیں اپنی وفا میں ڈوبتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔"

دبئی سے آنے والی الوداعی کال

اہلیہ نے بتایا کہ جب وہ ناراض ہو کر دبئی چلی گئی تھیں، تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات کس قدر سنگین ہو چکے ہیں۔ تبھی ان کا فون بجا، دوسری طرف چوہدری اسلم تھے جنہیں اپنی موت کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔

انہوں نے کہا:
"مجھے لگتا ہے اب ہماری ملاقات نہیں ہو پائے گی، شاید یہ آخری کال ہے۔ میں نے کراچی کا 80 فیصد گند صاف کر دیا ہے، باقی رہ جانے والے 20 فیصد کے لیے اگر مجھے جان بھی دینی پڑی تو پیچھے نہیں ہٹوں گا۔"

ان کاؤنٹرز کی حقیقت: "حساب تو کرنا پڑتا ہے"
چوہدری اسلم پر لگنے والے "ماورائے عدالت قتل" کے الزامات پر ان کی اہلیہ نے گرجدار لہجے میں جواب دیا۔

انہوں نے کہا کہ جب شہر میں 25، 25 لوگوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہوں اور خوف کے مارے کوئی گواہ عدالت جانے کو تیار نہ ہو، تو پھر چوہدری اسلم کو خود ہی "حساب" برابر کرنا پڑتا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کراچی میں امن ان کے شوہر کی بے خوفی اور سخت فیصلوں کی مرہونِ منت ہے۔

فرض، خاندان سے بڑا ہے

ایک جذباتی لمحے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے شوہر کو روکنے کی کوشش کی تو ان کی اپنی ہی بیٹی نے کہا، "ماما! اگر پاپا شہید ہو گئے تو کیا آپ ان سے ناراض ہی رہیں گی؟"

چوہدری اسلم کو معلوم تھا کہ وہ کس راستے کے مسافر ہیں، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ مجھے بلٹ پروف گاڑیوں پر نہیں، عوام کی دعاؤں پر یقین ہے۔

جنرل (ر) فیض حمید کو 14 سال قید: عمران خان کے لیے خطرہ یا نجات؟ حامد میر کے ہوشربا انکشافاتبلوچستان 24 سینئر صحافی اور ن...
11/12/2025

جنرل (ر) فیض حمید کو 14 سال قید: عمران خان کے لیے خطرہ یا نجات؟ حامد میر کے ہوشربا انکشافات

بلوچستان 24

سینئر صحافی اور نامور تجزیہ کار حامد میر نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو ملٹری کورٹ کی جانب سے 14 سال قید کی سزا سنائے جانے پر تہلکہ خیز انکشافات کر دیے ہیں۔

اپنے تازہ ترین وی لاگ میں حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ فیض حمید نہ صرف 9 مئی کے واقعات کے ماسٹر مائنڈ تھے بلکہ وہ عمران خان کو راستے سے ہٹا کر ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے تھے۔

تکبر کا انجام اور عدالتی کارروائی
حامد میر نے اپنے تجزیے میں کہا کہ طاقت کے نشے میں چور فیض حمید اپنے دور میں خود کو "فرعون" سمجھتے تھے۔ وہ مخالفین، صحافیوں اور سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمات بنواتے اور ان کی کردار کشی کرواتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق آئی ایس آئی چیف کو ان کے اپنے ادارے نے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔ 15 ماہ تک جاری رہنے والی سماعت میں 27 گواہ پیش ہوئے، جس کے بعد انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

حامد میر کے مطابق فیض حمید پر سیاست میں مداخلت کے علاوہ کاروباری شخصیات کو بلیک میل کر کے کروڑوں روپے بٹورنے کے الزامات بھی ثابت ہوئے ہیں۔
عمران خان کے لیے دوہری صورتحال
سینئر صحافی نے اس سزا کو پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے لیے "نقصان اور فائدہ" دونوں کے تناظر میں دیکھا۔

* خطرہ: حامد میر کا کہنا ہے کہ چونکہ فیض حمید کو 9 مئی کی سازش کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جا رہا ہے، اس لیے قوی امکان ہے کہ وہ دورانِ تفتیش خود کو بچانے کے لیے عمران خان کا نام لیں گے، جس سے سابق وزیراعظم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

* فائدہ: دوسری جانب حامد میر نے دعویٰ کیا کہ عمران خان ایک بڑی سیاسی موت سے بچ گئے ہیں۔ فیض حمید کا اصل منصوبہ آرمی چیف بن کر پاکستان میں صدارتی نظام لانا تھا، جس کے نتیجے میں عمران خان کو بھی سیاست سے فارغ کر دیا جاتا۔ فیض حمید کی گرفتاری سے یہ منصوبہ خاک میں مل گیا۔

’ڈبل گیم‘ اور فوج میں بغاوت کی سازش
حامد میر نے انکشاف کیا کہ جنرل فیض "ڈبل گیم" کھیل رہے تھے۔ وہ ایک طرف عمران خان کو وفاداری کا یقین دلاتے رہے، جبکہ دوسری طرف آرمی چیف بننے کے لیے نواز شریف اور شہباز شریف سے بھی رابطے کی کوشش کی، تاہم لیگی قیادت نے ان پر اعتبار نہیں کیا۔ حامد میر کے مطابق 9 مئی کے واقعات دراصل فوج کے اندر بغاوت کروانے کی ایک گہری سازش تھی جس کی ڈوریاں ریٹائرمنٹ کے باوجود فیض حمید ہلا رہے تھے۔

میڈیا اور عدلیہ پر کنٹرول

وی لاگ میں مزید بتایا گیا کہ اپنے دورِ اقتدار میں فیض حمید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس وقار سیٹھ جیسے ججز کے خلاف سازشیں کیں اور میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے حامد میر سمیت متعدد صحافیوں پر پابندیاں لگوائیں۔

حامد میر نے اپنے تجزیے کا اختتام اس بات پر کیا کہ فیض حمید کی سزا پاکستان میں "پولیٹیکل انجینئرنگ" کے خاتمے کی طرف ایک پہلا قدم ہے اور یہ آئین شکنی کرنے والوں کے لیے ایک عبرت ناک مثال ہے۔

11/12/2025

عامر علی احمد کو صوبے کا نیا چیف سیکرٹری مقرر کر دیا۔

11/12/2025

بلوچستان میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی صفر

11/12/2025

افغان مہاجرین کے خلاف ہفتہ وار بنیادوں پر بڑے آپریشنز کرنے کا فیصلہ

11/12/2025

کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن: ٹاور کے نیچے بھی آواز گم۔۔۔
رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری

11/12/2025

بلوچستان میں عدالت کی جگہ انگارے
بلوچستان 24 کا خصوصی پوڈ کاسٹ

وزیرِ صحت صاحب! سہیل وڑائچ صاحب کو یہ بھی بتا دیں کہ بی ایم سی میں 50 لاکھ روپے والا ڈینٹل چیئر ایک کروڑ 14 لاکھ روپے می...
11/12/2025

وزیرِ صحت صاحب! سہیل وڑائچ صاحب کو یہ بھی بتا دیں کہ بی ایم سی میں 50 لاکھ روپے والا ڈینٹل چیئر ایک کروڑ 14 لاکھ روپے میں کیوں خریدا گیا؟

بلوچستان: خشک سالی کی دستک اور پی ڈی ایم اے کا واٹس ایپ گروپرپورٹ: مرتضیٰ زیب زہریاگست 2025 کی ایک تپتی دوپہر تھی، جب کو...
10/12/2025

بلوچستان: خشک سالی کی دستک اور پی ڈی ایم اے کا واٹس ایپ گروپ

رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری

اگست 2025 کی ایک تپتی دوپہر تھی، جب کوئٹہ کے سرکاری ایوانوں کے ٹھنڈے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں ’سرکار بابا‘ کے اعلیٰ عہدیدار سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔

طویل بحث اور کافی کے دور چلنے کے بعد جو حل نکالا گیا وہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے
فیصلہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ کے ایک چہیتے افسر کی نگرانی میں فوری طور پر ایک واٹس ایپ گروپ بنا لیا جائے۔

حکم جاری ہوا کہ تمام بڑے افسران اور این جی اوز کو اس گروپ میں ڈال کر سروے شروع کیا جائے۔

واٹس ایپ گروپ تو شاید بن گیا مگر اگست گزرا اور اب دسمبر آ گیا ہے۔

وہ سروے موبائل کی اسکرین سے نکل کر زمین پر نہیں آ سکا اور نہ ہی کسی بابو نے دفتر سے باہر نکلنے کی زحمت کی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ اس ادارے نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام کے لیے پیسے بھی این جی اوز لئیے گئے۔

ادھر افسران کی سستی تھی اور ادھر قدرت نے اپنے تیور بدل لیے۔

محکمہ موسمیات کے تازہ اعداد و شمار کلیجہ منہ کو لانے کے لیے کافی ہیں۔

ساحل کے کنارے بسے شہر جیونی کے مکینوں نے گزشتہ 314 دنوں سے آسمان سے پانی کا ایک قطرہ برستے نہیں دیکھا۔

پنجگور کا حال اس سے بھی برا ہے جہاں پچھلے چھ ماہ میں بارش کا تناسب صفر رہا یعنی وہاں سرے سے بادل برسے ہی نہیں۔

پہاڑوں کے دامن میں بسے شہر کوئٹہ میں بھی معمول سے 87 فیصد کم بارش ہوئی ہے اور موسم روٹھ چکا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب چاغی اور خاران کے صحرا پھیل کر بستیوں کو نگل رہے ہیں تو قدرتی آفات سے نمٹنے والا ادارہ پی ڈی ایم اے کہاں ہے

زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ ادارہ فرنٹ لائن کے بجائے کرپشن اور گھوسٹ ملازمین کا گڑھ بن چکا ہے۔

حیرت کا جھٹکا تو آپ کو اب لگے گا کہ جس ادارے کے کندھوں پر لاکھوں زندگیوں کا بوجھ ہے اس کا ایک بڑا افسر لندن کی سیر کر رہا ہے
انتظامیہ کی بے حسی دیکھنی ہو تو نوشکی چلے جائیں۔

وہاں پی ڈی ایم اے کے چار ملازمین جنہیں عوام کی جان بچانے کی تنخواہ ملتی ہے وہ ایک افسر کے ذاتی ڈیری فارم پر ڈیوٹی دے رہے ہیں

یہ سرکاری ملازمین وہاں افسر کی بھینسوں کا دودھ دوہتے ہیں اور گوبر صاف کرتے ہیں

ادارے میں ٹیکنیکل ماہرین نہیں ہیں بس سفارشی بھرتیاں ہیں جو گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔

دوسری طرف خشک سالی نے بلوچستان کی رگوں یعنی کاریزوں اور چشموں کو سکھا دیا ہے
کسان پریشان ہے کہ ربیع کی فصل نہیں ہو گی تو وہ کھائے گا کیا جبکہ آنے والا موسم بھی اچھی خبر نہیں لا رہا۔

محکمہ موسمیات نے فروری 2026 تک مزید خشک سالی اور گرمی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 11 اضلاع میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے

مگر ایسا لگتا ہے کہ سیلاب کے فنڈز میں دلچسپی رکھنے والی بیوروکریسی کو خشک سالی کی اس خاموش موت سے کوئی غرض نہیں کیونکہ یہاں سے پیسہ نہیں بنتا۔

بلوچستان کے عوام آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ واٹس ایپ پر چلنے والا یہ نظام کیا انہیں موت کے منہ سے بچا پائے گا۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال عام نہیں بلکہ ایک "مجموعی تباہی" ہے جس نے بلوچستان کے سطحی اور زیرِ زمین پانی کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے ۔

تجزیے کے مطابق ڈیم، کاریز اور چشمے سوکھ چکے ہیں اور اب زمین کی تہوں سے پانی کھینچنے کی وجہ سے ٹیوب ویلز بھی جواب دے رہے ہیں ۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ نمی نہ ہونے سے موجودہ ربیع کی فصل کے ناکام ہونے کا قوی خدشہ ہے اور چارے کی شدید کمی سے مویشی پالنے والوں کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔

دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے حالات عالمی "کلائمیٹ چینج" کے بدترین اشارے دے رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ مہینوں میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ اور بارشیں معمول سے کم رہیں گی، جو عالمی موسمیاتی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے ۔

ماہرین کے مطابق "مسلسل خشک دنوں" (CDD) میں خطرناک حد تک اضافہ اور ہیٹ ویو کا یہ ملاپ زمین کو بنجر بنا رہا ہے، جس سے چاغی اور خاران جیسے علاقوں میں صحرا زدگی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔

کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن:  ٹاور کے نیچے بھی آواز گم۔۔۔رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہریکوئٹہ کی مرکزی شاہراہ جناح روڈ پر ٹریفک کا معمول ک...
09/12/2025

کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن: ٹاور کے نیچے بھی آواز گم۔۔۔

رپورٹ: مرتضیٰ زیب زہری

کوئٹہ کی مرکزی شاہراہ جناح روڈ پر ٹریفک کا معمول کا شور اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس شور کے درمیان ساٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گاڑی میں بیٹھے پرانے ریڈیو سیٹ کا فریکوئنسی نوب گھما رہے ہیں۔

محمد رفیق ان مقامی افراد میں شامل ہیں جن کے لیے ریڈیو پاکستان طویل عرصے تک خبروں اور ثقافتی ورثے کی ترسیل کا بنیادی ذریعہ رہا ہے۔ تاہم آج ان کی تلاش مقامی زبانوں کی موسیقی نہیں بلکہ محض ایک صاف سگنل ہے۔

ان کی گاڑی کے اسپیکر سے مستقل 'گغ گغ' کی آواز آ رہی ہے جو ریڈیو نشریات کے خراب معیار کی علامت ہے۔

گزشتہ دنوں محمد رفیق نے مایوسی کے عالم میں گاڑی ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے مرکزی اسٹیشن کی طرف موڑ دی۔ یہ اسٹیشن کوئٹہ میں حالی روڈ پر واقع ہے جہاں نشریات کو ہوا میں بکھیرنے والا عظیم آہنی ٹاور کھڑا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ ٹرانسمیٹر کے قریب ترین مقام پر تو آواز صاف ہو گی۔

تاہم ٹاور کے بالکل نیچے بھی نشریات کا معیار غیر تسلی بخش رہا اور آواز شور میں ڈوبی ہوئی تھی۔

محمد رفیق نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا "ریڈیو کی عمارت اور ٹاور اپنی جگہ موجود ہے مگر اس کی روح یعنی سننے کے قابل آواز کہیں گم ہو چکی ہے۔"

ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں نشریات کے معیار کا یہ مسئلہ انفرادی نہیں بلکہ تکنیکی نظام کے طویل المدتی زوال کا نتیجہ ہے۔

ذرائع نے بلوچستان 24 کو بتایا ہے کہ کوئٹہ سے نشریات کے لیے استعمال ہونے والے ٹرانسمیٹرز جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نہیں ہیں۔

بلکہ یہ سابق سوویت یونین (روس) کی جانب سے دہائیوں قبل پاکستان کو دیے گئے تھے۔

ان مشینریوں کی قدامت کا یہ عالم ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق خود روسی حکام نے مبینہ طور پر انہیں واپس لے کر ماسکو کے کسی میوزیم میں رکھنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

یہ صورتحال ایک شدید تضاد کو نمایاں کرتی ہے ایک مشین جو ایک ملک میں تاریخ کا حصہ سمجھی جا رہی ہے وہ کوئٹہ میں لاکھوں سامعین تک معلومات پہنچانے کا واحد سرکاری ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
نشریات کے لیے استعمال ہونے والی یہ پرانی ٹیکنالوجی ایمپلی ٹیوڈ ماڈیولیشن (Amplitude Modulation) پر مبنی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی خوبی یہ تھی کہ اس کی لہریں آینواسفیئر (Ionosphere) سے ٹکرا کر لمبے فاصلے تک سفر کرتی ہیں اسی لیے یہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں رسائی کا واحد راستہ تھیں۔

تاہم اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ بجلی کے تاروں برقی آلات اور موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خلل کے خلاف انتہائی کمزور ہوتی ہے۔

موجودہ فرسودہ مشینری کے ساتھ یہ خلل اب نشریات کے معیار کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

ٹرانسمیٹرز کی خستہ حالی کا اثر صرف سامعین تک محدود نہیں۔ بلوچستان 24 سے بات کرتے ہوئے ادارے سے وابستہ ایک سینئر کمپئیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اندرونی مشکلات کی تصدیق کی۔

انہوں نے بتایا کہ "عوام تک آواز پہنچنا تو ایک طرف ہم براہ راست نشریات (Live Transmission) کے دوران بھی ہیڈ فونز پر اپنی ہی آواز واضح نہیں سن پاتے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ادارے میں انجینئرز کی ٹیمیں موجود ہیں جو تنخواہیں بھی لے رہی ہیں مگر وہ اس قدیم اور ناکارہ مشینری کی وجہ سے بے بس ہیں۔

انجینئرز کو اکثر مقامی سطح پر 'جگاڑ' (عارضی حل) استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے نہ صرف مسئلے کی شدت بڑھ رہی ہے بلکہ سسٹم کی پائیداری بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ریڈیو پاکستان کوئٹہ کو بلوچستان کی ثقافت اور لوک ورثے کی سرپرستی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تاہم مالی اور تکنیکی بحران نے اس ادارے کی ثقافتی خدمات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ جو فنکار اور موسیقار اپنی پوری زندگی ادارے کے مائیکروفون کے سامنے گزار دیتے ہیں انہیں زندگی کے آخری آیام میں صرف ایک اعزازی شیلڈ دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب نئی نسل کے انٹرنیز کو بھی کئی کئی ماہ تک معمولی وظیفہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف پروڈکشن کا معیار گرا ہے بلکہ مقامی ثقافتی فنکار ادارے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

ثقافتی اور عوامی حلقوں نے وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات سے مطالبہ کیا ہے کہ ان فرسودہ روسی ٹرانسمیٹرز کو تبدیل کیا جائے اور ان کی جگہ جدید ڈیجیٹل ٹرانسمیٹرز نصب کیے جائیں۔

تاکہ بلوچی پشتو براہوی ہزارگی اور دیگر مقامی زبانوں کی نشریات کو خلل اور رکاوٹوں سے پاک کر کے عوام تک پہنچایا جا سکے۔

08/12/2025

موسیٰ خیل میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کرگئی، 10 بچے جان کی بازی ہار گئے

موساخیل میں خسرہ کی ہولناک وبا پھوٹ پڑی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 10 معصوم بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مقامی آبادی کے مطابق کئی علاقوں میں ویکسینیشن کی شدید قلت ہے جبکہ صحت کے حکومتی اداروں کی جانب سے مؤثر اقدامات نہ ہونے پر والدین میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں فوری ایمرجنسی، موبائل میڈیکل ٹیمیں اور ویکسینیشن مہم شروع کی جائے تاکہ مزید قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔










07/12/2025

سعودیہ عرب نے حج کے دوران حرم شریف میں فوٹوگرافی پر پابندی عائد کردی۔۔

Address

Jinnah Road
Quetta Cantonment
87800

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Balochistan24 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Balochistan24:

Share