HaalHawal.Com

HaalHawal.Com بلوچستان سے متعلق بامعنی اور باسلیقہ علمی مکالمے کا فروغ "حال حوال" کا بنیادی مطمع نظر ہے۔

بلوچستان سے متعلق بامعنی اور باسلیقہ علمی مکالمے کا فروغ “حال حوال” کا بنیادی مطمع نظر ہے.

ہم ایسے تمام خیالات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو بلوچستان کو ایک پرامن، روشن خیال اور خوش حال خطہ دیکھنے کے خواب پر مبنی ہوں.

بلوچستان کے کسی بھی پہلو پر (یا اس سے ہٹ کر بلوچستان کے قاری کو مدنظر رکھتے ہوئے) کم سے کم چھ سو اور زیادہ سے زیادہ پندرہ سو الفاظ پر مشتمل کوئی بھی تحریر آپ ہمیں ارسال کرتے ہیں۔

آپ

کی تحریر کمپوزڈ، آپ کی اپنی ای میل آئی ڈی سے، آپ کی مکمل شناخت کے ساتھ موصول ہونی چاہیے۔

تحریر کے ساتھ تصویر کا بھی تقاضا ہو گا۔

شخصی طنز اور تحقیر پر مبنی تحریر شایع نہ ہو گی۔

مذہبی، فرقہ ورانہ ، گروہی،لسانی، اور نسلی نفرت پھیلانے والی تحریریں بھی ہم شایع نہیں کر سکیں گے۔

ہم ایسی کوئی خبر اور تحریر شایع کرنے سے بھی معذور ہوں گے؛
۰ جس کے ذرایع نا معلوم ہوں….
۰ جس کے بھیجنے والے کی شناخت واضح نہ ہو….
۰ جو محض انتشارپر مبنی ہو….
۰ جو کسی بھی پہلو سے قانون شکنی پر مبنی ہو۔

26/09/2024

نصیرآباد یونیورسٹی کا قضیہ

نصیرآباد ڈویژن تو خیر کولپور سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اگر صرف نصیرآباد "ریجن" کی بات کی جائے تو یہ جھل مگسی، ڈیرہ مراد جمالی، جعفرآباد، صحبت پور اور اوستا محمد کے پانچ اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان پانچ اضلاع کی آبادی دس لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ دس لاکھ کی اس آبادی کے لیے اعلیٰ معیار کا کوئی ہسپتال ہے نہ کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ۔ یہاں کے سیاسی نمائندے جاگیردار اور سیکڑوں، ہزاروں ایکڑ زمین رکھنے والے زمیندار ہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپی کا مرکز پانی اور فصلیں ہیں۔ روڈ، ہسپتال اور تعلیم کے لیے بولتے ہوئے انہیں کبھی نہیں سنا گیا۔

کوئی پانچ چھ برس قبل یہاں لسبیلہ یونیورسٹی کے کیمپس کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں آنے والا ابتدائی اسٹاف ہمیں بتاتا تھا کہ یہ کیمپس لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر دوست محمد پندرانی کے "وژن" کا نتیجہ ہے جو مستقبل میں اسے مکمل یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کا عزم رکھتے ہیں، کیونکہ ان کا اپنا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ اب چھ سال بعد، جب اس وائس چانسلر کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کو ہے اور یہ اسٹاف اس دوران مستقل نہیں ہو سکا تو وہی اب ہمیں بتا رہے ہیں کہ اس کیمپس کو تباہ کرنے والے یہی "وژنری" وائس چانسلر ہیں۔ جن کی وجہ سے کیمپس بند ہونے کی نوبت آ چکی ہے۔ مزید دلچسپ یہ ہے کہ کیمپس بند ہونے کی دُہائی دینے والے وہی احباب اسی کیمپس میں اب داخلوں کی مہم بھی چلا رہے ہیں!!

یہ بات شاید درست ہو کہ یہ کیمپس وائس چانسلر کی ذاتی دلچسپی سے ہی یہاں بنا۔ مقامی جاگیرداروں میں سے صرف کھوسہ قبائل نے ہی اس کی دامے، درمے، سخنے مدد کی اور اپنی ایک قدیمی حویلی اس کے لیے دان کی، جہاں چھ سال سے کلاسز ہو رہی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کھوسہ قبائل کا نصیرآباد میں کوئی پولیٹیکل اسٹیک ہے ہی نہیں۔ وہ جعفرآباد اور صحبت پور میں الیکشن لڑتے ہیں۔

ایک اہم کام یہ ہوا کہ ڈیرہ مراد شہر سے کچھ ہی فاصلے پر کیمپس کے لیے پانچ سو ایکڑ سرکاری اراضی حاصل کی گئی۔ اس زمین پر خاصے پھڈے ہوئے۔ کئی قبائل اس کے دعوے دار ہوئے۔ معاملات عدالتوں تک گئے۔ خاصے جھنجھٹ کے بعد بالآخر زمین حاصل کر لی گئی اور اب اس کی خاصی تعمیرات بھی ہو چکی ہیں۔ میرا محتاط اندازہ ہے کہ پانچ سو ایکڑ کی زمین بلوچستان کی کسی یونیورسٹی کے پاس نہیں ہو گی (شاید پاکستان میں بھی کم ہی یونیورسٹیوں کے پاس ہو)، اور یہ زرعی زمین ہے۔ شنید میں تھا کہ منصوبہ یہ ہے کہ اس میں سے دو سو ایکڑ یونیورسٹی کی تعمیرات کے لیے ہو گی اور تین سو ایکڑ پر کاشتکاری کی جائے گی۔ جس سے یونیورسٹی اپنے مالی معاملات میں خودمختار ہو سکتی ہے۔

لیکن ہوا یہ کہ بلوچستان میں یونیورسٹیز اور کیمپسز کی تعمیر بنا کسی پالیسی میکنگ کے ہوئی۔ جس علاقے کے سیاسی نمائندے تگڑے تھے، وہاں زیادہ ادارے بند گئے، جہاں کے سیاسی نمائندوں کو کوئی دلچسپی نہ تھی، وہ پیچھے رہ گئے۔ نتیجہ یہ کہ مکران کے تین اضلاع میں سے ہر ایک میں الگ الگ یونیورسٹی بن چکی، رخشان اور نصیرآباد کا پورا ڈویژن یونیورسٹی سے محروم ہے۔ کیمپسز پہ گزارہ چل رہا ہے، جن کا مستقبل مخدوش ہے۔

نئی حکومت بلوچستان میں مزید یونیورسٹیوں اور کیمپسز کے حق میں نہیں (میں خود بھی اس کے حق میں نہیں)، ہمارے ہاں یونیورسٹیاں زمینی حقائق اور ضرورت کے تحت کم اور سیاسی مفادات کے تحت زیادہ بنیں۔ نتیجہ یہ کہ ان میں سے اکثر اس وقت بھی مالی بوجھ بنی ہوئی ہیں، مستقبل میں مزید بوجھ بنیں گی۔ اگر تو سیاسی نمائندے فراست کا مظاہرہ کریں اور مکران کے عوام اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا کسی عصبیت کی بجائے وطن کے مجموعی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں تو مکران میں ایک یونیورسٹی کم کر کے رخشان میں یونیورسٹی بنائی جا سکتی ہے اور نصیرآباد کے کیمپس کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد آبادی کے تناسب سے اگلے پچاس برس مزید کسی یونیورسٹی کی ضرورت نہیں رہے گی۔

البتہ یہ طے ہے کہ نصیرآباد کا کیمپس کسی صورت بند نہیں ہو گا، اسے بچانے والا سب سے بڑا فیکٹر اس کی پانچ سو ایکڑ اراضی ہو گی۔ جو اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ اساتذہ کی مستقلی، اسٹاف کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی و دیگر مسائل یقیناً حل طلب ہیں۔ انہیں بروقت حل ہونا چاہیے۔ معاشی مسائل تو اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان اور بیوٹمز کو بھی درپیش ہیں۔ لیکن اس بنا پر یونیورسٹیاں بند نہیں ہوتیں۔ آج تک کوئی انٹر کالج برائے نام داخلوں کے باوجود بند نہیں ہوا، یونیورسٹی کیمپس تو پھر ایک بڑا معاملہ ہے۔

الغرض، اگر کوئی مہم بنتی ہے تو وہ کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کی ہو سکتی ہے جو فی الوقت اس لیے موثر ہونے کا امکان نہیں کہ مالی مسائل کے پیشِ نظر موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل ہی نہیں۔ اس لیے اسے مستقبل کے لیے اٹھا رکھا جائے اور موجودہ کیمپس کو علمی طور پر زیادہ متحرک کیا جائے تو یہی ریجن کے لیے مجموعی طور پر بہتر ہو گا۔

باقی کرپشن سمیت ادارے کے اندرونی اور باہمی مسائل کے لیے طلبہ یا سول سوسائٹی کو استعمال کرنا کوئی جائز بات نہیں۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے ادارے نیب، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے وغیرہ موجود ہیں۔ کسی کے پاس ثبوت ہیں تو ان فورمز سے رجوع کریں۔ میڈیا پہ تو کرپشن کی اس سے بڑی کہانیاں ہم روز سنتے رہتے ہیں، اس سے نہ کوئی فرق پڑتا ہے، نہ پڑنا ہے!

مجموعی طور پر کیمپس کو بند کروانے کی نیت نہ ہو تو یہ کیمپس بند نہیں ہو گا بلکہ یہ مستقبل کی مکمل یونیورسٹی ہے ۔۔۔۔ اس خواب کی تعبیر البتہ اور کتنے سال لے جائے، اس کا انحصار مقامی نمائندوں کے عمل اور عوام کے ردِعمل پر منحصر ہے۔

10/09/2024

اسٹڈی سرکل
(شاہ محمد مری)

محکوموں کی طرفدار انجمن یا پارٹی محض اُن کی طرفدار ہی نہیں بلکہ اُن کا ہر اول دستہ بھی ہوتی ہے۔ یہ محکوموں مظلوموں کو اکٹھا کرتی ہے۔ انہیں قیادت مہیا کرتی ہے اور انہیں استحصالی نظام کے خاتمے اور منصفانہ نظام کے قیام کے لیے تیار کرتی ہے۔

اور یہ سارا کام انہیں سیاسی تعلیم دےے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ انجمن محکوموں مظلوموں کی استاد بھی ہے، آرگنائزر بھی ہے اور راہنما بھی ہے۔ اسی لیے اس کے ارکان کے لیے لازمی ہے کہ وہ سائنسی علم اور شعور حاصل کریں، سماج کی ترقی و تبدیلی کے قوانین جانیں اور اس علم کا سماج کے ٹھوس حالات پہ اطلاق کریں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی تعلیم کسی بھی انقلابی سیاسی گروپ یا پارٹی کے سیاسی کام کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ یہ پارٹی یا گروپ سیاسی سائنٹفک تعلیم کا اعلیٰ ترین ادارہ ہوتا ہے۔ اسی لیے لازم ہے کہ سیاسی تعلیم پارٹی لائف کی ہر سطح پر ایک لازمی جزوِ ہو۔ ایک ایک پارٹی ممبر کے دل میں بٹھایا جائے کہ وہ خواہ کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو، کبھی بھی ایجوکیشن کی ضرورت سے بڑا نہیں ہوتا۔

مارکسزم ایک زندہ سائنس ہے۔ اس کا مقصد سماج کو تبدیل کرنا ہے، محض اس پہ غور کرنا نہیں۔ لہٰذا انقلابی تعلیم لوگوں کو نہ صرف انقلابی اصولوں اور تھیوری کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ وہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک بدلتی ہوئی دنیا پہ سائنسی تجزیہ کا کس طرح اطلاق کرنا ہے۔ پارٹی ممبر پارٹی لٹریچر کو محض رٹا لگانے اور جگہ جگہ سناتے پھرنے کے لیے نہیں پڑھتے۔ نہ ہی وہ اسے مطالعے کی عادت کی وجہ سے پڑھتے ہیں۔ وہ تو مارکسزم کا جوہر، اس کا مغز، اُس کا موقف ،اس کا نقطہِ نظر اور طریقِ کار پڑھتے ہیں۔ مارکسزم پڑھنے کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کی حکمران طبقات کے خلاف نفرت بڑھے، کم نہ ہو۔ چنانچہ مارکسسٹ ایجوکیشن نہ صرف نئے ممبروں کے لیے ضروری ہے بلکہ پرانے اور سینئر ممبروں کے لیے بھی ہمہ وقت اہم ہوتی ہے۔

پارٹی ممبروں کا ایک فرض یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کے طبقاتی کردار سے آگاہ کریں۔ انہیں طبقاتی شعور دیں، انہیں منظم کریں اور اپنے علم سے انہیں لیس کریں تاکہ وہ عمل کے میدان میں اتریں۔ اور وہاں بہت کم نقصان پہ پرانے سماج کو ڈھا دیں اور اُس کی جگہ پہ اپنی تعلیمات کے مطابق نظام تعمیر کریں۔

یہ جو ہم آج کل کسی لان یا ہال میں 30، 40 افراد بیٹھ کر سیاسی معاملات پہ بات کرتے ہیں، اس کا مارشل لائی پاکستان میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح کے اجتماعات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے بغیر آج کا سماج چلتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے 30 سالوں سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہر ماہ دو بڑی نشستیں منعقد کر رہی ہے۔ ان میں مقالے پڑھے جاتے ہیں، لیکچر ہوتے ہیں، سوال جواب اور ڈسکشن ہوتے ہیں۔ وہاں موقف اپنایا جاتا ہے، سیاسی ورکر اپنے حلقوں میں پھر اسی بات کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ سب کا موقف وہی ہوتا ہے جو انہوں نے اس نشست میں بنایا تھا۔۔۔۔ یہ بہت زبردست کام ہے۔
مگر، بہرحال یہ سٹڈی سرکل میں شمار نہیں ہوتا تھا۔

سٹڈی سرکل میں زیادہ سے زیادہ 7 یا 9 افراد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے چھوٹے گروپوں میں سیکھنے سکھانے کا کام کامیاب رہتا ہے۔ عقلی بنیادیں بڑے مجمعے میں نہیں، انہی چھوٹے سٹڈی سرکل گروپس سے ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ وہاں سیرحاصل ڈسکشن تو کیا، ڈھنگ کا سوال جواب بھی نہیں ہو سکتا۔ اتنے بڑے مجمعے میں سوال پوچھنا ویسے ہی جھجک کی بات ہوتی ہے اور اگر جرات کر بھی لی تو وقت اس قدر کم ہوتا ہے کہ ایک آدھ شخص ہی سوال کر پائے گا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مجمع میں سب لوگ شعوری اور سینیارٹی کے لحاظ سے یکساں سطح کے نہیں ہوتے۔ کوئی بہت پڑھا لکھا ہو گا جب کہ کچھ لوگ بس ابھی سٹارٹ کر رہے ہوں گے۔

سٹڈی سرکل میں کسی سینئر سے مشورہ کر کے یا پھر شرکا باہمی مشورے سے ایک موضوع طے کرتے ہیں، اس کے لیے متعلقہ مطالعہ مواد سلیکٹ کرتے ہیں۔ پھر وہ اس کتاب کے چار پانچ صفحے پڑھتے ہیں۔ اس پر اجتماعی بحث کرتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں اور نتائج نکالتے ہیں۔ اگلے ہفتے پھر بیٹھتے ہیں اور کتاب کے اگلے چار پانچ صفحے پڑھتے ہیں۔ کتابوں کے علاوہ سٹڈی سرکل میں پارٹی کے ترجمان اخبار کے مضامین (بالخصوص اس کا اداریہ) پڑھا جاتا ہے اور یا پھر پارٹی کی سیاسی رپورٹیں گروپ میں پڑھی جاتی ہیں۔ اور ان پہ بحث ہوتی ہے۔ سوال جواب ہوتے ہیں۔

سٹڈی سرکل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے منعقد ہوتا رہے۔ اور وہ بھی ہفتہ وار تاکہ ایک جمہوری شرکت کاری کے طریقے سے فلسفہ، معیشت، سماج، ورکنگ کلاس، قومی آزادی، نیچر اور کلچر کے بارے میں باہمی علم میں اضافہ ہو سکے۔ گہرائی اور جمہوری انداز میں ہر ممبر کی شرکت والے ڈسکشن کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں بہت دیر تک یاد رہتی ہیں۔

مہینے کے آخر میں سٹڈی سرکل انچارج اپنے سٹڈی سرکل گروپ کی کارگزاری کی رپورٹ تیار کرتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ایک سیاسی رپورٹ بن جائے گی جو کہ کونسپٹس بنانے، اہم سیاسی جدوجہدوں اور پارٹی حکومت عملی کے مطابق گروپ کی نشوونما کے بارے میں بتائے گی۔

سٹڈی سرکل میں نظریاتی تعلیم، سیاسی ڈویلپمنٹ اور لیڈرشپ ٹریننگ کا کام تو ہوتا ہی ہے مگر یہ تنظیم اور ڈسپلن کا بھی زبردست ذریعہ ہوتا ہے۔
سٹڈی سرکلز کامریڈشپ اور مشترک مقصد کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔

یہ گروپ انقلابی نظریات، تاریخ اور اصولوں کے بارے میں پڑھتے اور بحث کرتے ہیں۔ سٹڈی سرکل میں سامراج کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ عالمی کپٹلزم پہ بات ہوتی ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں موجود فیوڈلزم پہ بحث ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم، طبقاتی جدوجہد، اس کا ارتقا اور سماج پہ اس کے اثرات پہ سیکھا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں قومی مسئلہ اور عورتوں کا مسئلہ احتیاط سے اور گہرائی سے مطالعہ کے لائق ہیں۔ ان میں بالادست قوم کی طرف سے محکوم کردہ قوم پہ جبر اور استحصال کی تفصیلات پڑھی جاتی ہیں اور ان سے نجات کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ سٹڈی سرکلوں میں قومی حقِ خود اختیاری بشمول حقِ علیحدگی کے لیننی اصول کے بارے میں تفصیلی مباحث ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے سیاسی معاشی اور بالخصوص سماجی معاملات کو باریکی سے دیکھا جاتا ہے۔ گھریلو مارپیٹ سے لے کر اُن کی خرید و فروخت تک ساری تفصیل پڑھ کر اُن کے حل کی باتیں سوچنی ہوتی ہیں۔ اُس کو مین سٹریم میں لانے کی تدابیر پر بات کرنی ہو گی۔ اسی طرح پیٹر یا کی جو کہ فیوڈل نظام کا اٹوٹ حصہ ہے، اس کے خاتمے کی صورتوں کے بارے میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں لینن ازم کے سائنسی اصولوں اور پولیٹکل اکانومی کو پڑھتے ہوئے شعوری طور پر قومی سوال اور عورت سوال پہ ان اصولوں کے اپلیکیشن کی تدابیر سوچنی ہو گی۔ سٹڈی سرکل میں جدید سائنس کی latest دریافتوں اور ہم عصر سماج اور انقلابی تحریکوں کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ عورتوں کی تحریک، ٹریڈ یونین کی تحریک اور پراگریسو ادبی عملی تحریک کے بارے میں جانکاری حاصل کی جاتی ہے۔ سٹڈی سرکل میں خود پارٹی کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔ پارٹی کا نظریہ کیا ہے؟ اس کی پالیسی کیا ہے؟ اس کے ادارے کون کون سے ہیں؟ اس کی کانگریسیں کیسے منعقد ہوتی ہیں؟ اس کے الیکشن کیسے ہوتے ہیں اور اُس کی تاریخ کیا رہی ہے؟
لہٰذا انقلابی پارٹیوں کی سرگرمی میں سٹڈی سرکل لازمی ہوتے ہیں۔

سٹڈی سرکل مستقبل کے لیے لیڈر شپ تیار کرتا ہے، ان میں موثر لیڈرشپ کے لیے ضروری علم اور مہارت بھر دیتا ہے۔ اکٹھے مطالعہ کرنے سے ممبرز کے درمیان کا مریڈشپ پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مشترکہ مقصد کے لیے اتحاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایکٹوازم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تاکہ گراس روٹس تنظیم، پروپیگنڈا اور ایجی ٹیشن کے لیے ممبرز موبلائز ہوں۔

یوں مل جل کر پڑھنے سے شرکا ایک محبت بھرے ماحول میں آگے بڑھتے ہیں اور مشترکہ کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس مشترک مطالعے سے، اس تربیت سے فیصلے لینے کے لیے ممبرز کی اہلیت بڑھ جاتی ہے۔ وقت پہ بہترین ممکنہ فیصلے لینا اور موثر اقدامات اٹھانا ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔

سٹڈی سرکلوں کو ترجیح دے کر انقلابی پارٹیاں ایک مضبوط، باخبر اور متحد ممبرشپ بنا سکتی ہیں، وہ پارٹی کے مقاصد اور نظریات کو آگے لے جانے کے لیے ایک لشکر بنا سکتی ہیں۔ نظریاتی یکجہتی جس کے لیے انقلابی پارٹیاں مشہور ہیں، وہ انہی سٹڈی سرکلوں میں پروان چڑھتی ہے۔

سٹڈی سرکل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں آرگومینٹ صاف اور واضح ہو جاتے ہیں۔ ایک سالڈ نتیجے پر پہنچا جاتا ہے۔ دوستوں کی کیمسٹری میچ کرنے لگ جاتی ہے۔ وہ آرگنائزڈ ہوتے جاتے ہیں۔

لیکن یہ تب ممکن ہے جب یہ کام تسلسل کے ساتھ ہو۔

(اداریہ، ماہتاک سنگت، ستمبر 2024ء)

بلوچستان کا مون سون جس قدر چاہا جاتا ہے، اُسی قدر کوسنے اور بددعائیں بھی کھاتا ہے۔ یہ ایک طرف اپنے روٹھے روکھے پن میں خو...
01/09/2024

بلوچستان کا مون سون جس قدر چاہا جاتا ہے، اُسی قدر کوسنے اور بددعائیں بھی کھاتا ہے۔

یہ ایک طرف اپنے روٹھے روکھے پن میں خود ساختہ جلا وطن رہنے کے لیے بدنام ہے تودوسری طرف یہ، وطن واپسی پر اپنی تباہ کاری اور وحشت میں یکتا بھی ہے۔ آوارہ اور بے فکر ساون کئی کئی سال تک بلوچستان سے باہر رولُو جانوروں کی طرح آوارہ اور بے کیف زندگی گزارتا ہے مگر جب برسنے کا پروگرام ہو تو ہمارا یہی آوارہ بشام (ساون) بہت شارٹ نوٹس پر ہنگامی سیلابی حالت مسلط کرتا ہے۔ پہاڑی ندی نالے اچانک والی اپنی تیزی تندی میں دوسری ہر حرکت پر سبقت لے جاتے ہیں۔

یک دم زندگی کچھ گھنٹوں کے لیے جامد ہو جاتی ہے۔ بس پانی، بس جل تھل، بس ہنگامی بچاؤ کی صورت حال!!

- شاہ محمد مری
کتاب: مستیں تئوکلی
صفحہ نمبر 51

بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں نوجوان طالب علم کی خودکشیتربت تجابان کرکی کے رہائشی طالب علم چراغ زاہد مولابخش نے بلوچست...
06/08/2024

بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں نوجوان طالب علم کی خودکشی

تربت تجابان کرکی کے رہائشی طالب علم چراغ زاہد مولابخش نے بلوچستان یونیورسٹی ہاسٹل بلاک 5، روم 2 میں 6 اگست کی رات 1 بجے کے قریب گلے میں پھندا ڈال کر پنکھے سے لٹک کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ خودکشی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ ذرائع کے مطابق چراغ بلوچ لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل کا طالب علم تھا۔

وہ کل بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قریبی رشتہ دار کے پاس آیا تھا۔ رات 1 بجے کے دوران اس نے قریبی رشتہ دار سے کہا کہ اپنے کمرے کی چابی دے دو، میں کپڑے تبدیل کر کے آتا ہوں۔ جب اُس کے رشتہ دار آدھے گھنٹے کے بعد کمرے میں آئے تو کمرہ بند تھا۔ وہ کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو چراغ کو پنھکے سے لٹکا ہوا پایا گیا۔

مزید تفتیش پولیس کر رہی ہے۔

05/08/2024

میرین ڈرائیو گوادر کے مناظر

بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے، ڈی جی آئی ایس پی آرآ...
05/08/2024

بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نام نہاد لیڈرشپ کرمنل مافیا کی پراکسی ہے، اس پراکسی کو ایجنسیز کو بدنام کرنے کا کام دیا گیا ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے۔

ترجمان فوج نے بلوچ یکجہتی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پتھراؤ کرو، آگ لگاؤ اور بے جا مطالبات پیش کرو اور جب ریاست جواب دے تو معصوم بن جاؤ۔ بلوچستان حکومت نے کہا پرامن احتجاج کریں لیکن سڑکیں بلاک نہ کریں، انہوں نے کہا کہ ہم نے تو سڑکیں بلاک کرنی ہیں، ان لوگوں نے زائرین پر پتھراؤ کیا، ایف سی پر حملہ کیا، سبی کے سپاہی کو پرتشدد ہجوم نے قتل کیا۔

ڈی جی آئی اسی پی آر نے کہا کہ سفارتخانوں کے سامنے احتجاج پر بہت پیسہ لگایا جا رہا ہے، لابنگ فرمز ہائیر کر کے انتشار کا بیانیہ بنایا جاتا ہے، ایک مخصوص سیاسی پروپیگنڈے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ کے لیے ایک جامع اسکالرشپ کا شروع کیا گیا ہے، جس میں ان کو پاکستان آرمی کی جانب سے تعلیم کے ساتھ تمام سہولیات اور اخراجات بھی فراہم کیے جار رہے ہیں، اب تک اس پروگرام کے تحت 8 ہزار سے زائد بلوچستان کے طلبہ مستفید ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بلوچستان میں ایف سی اور پاک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے 92 اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں 19 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، یہ بھی بتاتا چلوں کہ افواج پاکستان کے تعاون سے بلوچستان کے 253 طالب علموں کو متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم بھی دی گئی ہے۔

تربت میں ضلعی چیئرمین میر ہوتمان اور سول سوسائٹی تربت کے زیر اہتمام 5 اگست یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے کار ریلی نکالی ...
05/08/2024

تربت میں ضلعی چیئرمین میر ہوتمان اور سول سوسائٹی تربت کے زیر اہتمام 5 اگست یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے کار ریلی نکالی گئی۔

یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے ائیرپورٹ چوک سے تعلیمی چوک تربت تک کار ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے کشمیر کے حق میں "کشمیر بنے گا پاکستان ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں" کے نعرے لگائے جبکہ کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی بھی کیا۔

ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں کشمیر کا پرچم اٹھا کر اپنے کشمیری بھائیوں سے محبت کا اظہار کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی اعلامیہ کل سے پورا ہفتہ بلوچ راجی مچی کے شہدا کی یاد میں بلوچستان بھر میں دیوان منعقد کیے جائ...
05/08/2024

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی اعلامیہ

کل سے پورا ہفتہ بلوچ راجی مچی کے شہدا کی یاد میں بلوچستان بھر میں دیوان منعقد کیے جائیں گے۔

بنگلہ دیش میں حکومت کا دھڑن تختہ، فوج قابض ملک میں حالات کشیدہ، ہلاکتوں کی تعداد 300 تک پہنچ گئی۔ فوج نے وزیراعظم کو است...
05/08/2024

بنگلہ دیش میں حکومت کا دھڑن تختہ، فوج قابض

ملک میں حالات کشیدہ، ہلاکتوں کی تعداد 300 تک پہنچ گئی۔ فوج نے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کا کہا۔

حسینہ واجد نے استعفے سے قبل تقریر ریکارڈ کرانے کی کوشش کی۔ حسینہ واجد کو سیکورٹی اور فوجی حکام نے تقریر ریکارڈ کرانے نہیں دیا۔ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے حسینہ واجد کو انڈیا پہنچایا گیا: نیوز ایجنسی رائٹرز کا دعویٰ

شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔حسینہ واجد کو ہیلی کاپٹر میں انڈیا پہنچایا گیا ہے۔ کچھ دیر میں انڈیا سے طیارے کے ذریعے فن لینڈ منتقل کیا جائے گا: بھارتی میڈیا

بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے بنگلہ دیش کی قوم سے خطاب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت بنے گی جبکہ بنگلہ دیش کے تمام فیصلے فوج خود کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے مطالبات پورے کیے جائیں گے، جو کچھ بھی ہوا غلط ہوا، عوام ہماری مدد کریں اور امن کا راستہ اپنائیں۔

04/08/2024

صرف دھرنے جاری رہیں گے، کوئی ہڑتال نہیں ہو گی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اعلان

مذکرات، دھرنے اور ہڑتال کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی اعلامیہ1: بلوچ راجی مچی کا مرکزی دھرنا گوادر میں جاری ہے۔...
04/08/2024

مذکرات، دھرنے اور ہڑتال کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی اعلامیہ

1: بلوچ راجی مچی کا مرکزی دھرنا گوادر میں جاری ہے۔ ریاست کسی بھی صورت میں مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مذاکرات کے دوران بلوچستان بھر میں طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے اور مکران کو مکمل طور پر سیل کر کے لاکھوں لوگوں کو بھوک اور بندوق سے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ ہمیں مذاکرات کے نام پر مسلسل دھمکایا اور ہراساں کیا جارہا ہے۔

2: بلوچ یکجہتی کمیٹی سمجھتی ہے کہ ڈی سی گوادر اور وزرا مکمل طور پر بے اختیار ہیں۔ لہٰذا اگر سنجیدہ مذاکرات کرنے ہیں تو بااختیار لوگ مذاکرات کرنے آئیں۔

3: مذاکرات کرنے سے قبل گوادر سمیت مکران کے انٹرنیٹ اور نیٹ ورک بحال کیے جائیں۔

4: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال کے بغیر بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نہیں ہو گی۔

5: گوادر میں ریاستی فوج اور خفیہ اداروں نے بندوق کے زور پر دکانیں، مارکیٹ اور شاہراہوں کو بند کیا ہے، جس سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مشکل وقت میں گوادر کے تمام دکانداروں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور دکانیں اور مارکیٹیں کھولنے میں مدد کریں۔ دکانداروں سے گذارش ہے کہ فوری طور پر دکانیں اور مارکیٹیں کھولیں۔

6: اس وقت گوادر کے علاوہ کوئٹہ، پنجگور، نوشکی، کراچی اور تربت میں دھرنے جاری ہیں۔ ان علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال نہیں ہو گی، صرف دھرنے جاری رہیں گے۔

7: بی وائی سی کے کارکنان احتجاج یا دھرنوں کے دوران ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ اس دوران بلوچستان بھر کے تمام احتجاجوں میں خفیہ اداروں کے اہلکار عام عوام کے بھیس میں دھرنے میں داخل ہو کر اشتعال انگیزی کی کوشش کر رہے ہیں، جو مسلسل عوام کے ہاتھوں پکڑے جا رہے ہیں۔

8: بی وائی سی کے کارکنان دھرنے اور احتجاج میں ہمیشہ کی طرح عوام دوست رویہ اپنائیں، ہمارے دھرنے اور احتجاج سے عوام کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی۔

9: بی وائی سی کے تمام احتجاج ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر پرامن اور نظم و ضبط کے تحت ہوں گے۔ اس کے لیے بی وائی سی کی زونل قیادت اپنے علاقوں میں ہونے والے احتجاج کے لیے مضبوط انتظامی اور سیکیورٹی ٹیم کی تشکیل کریں۔

10: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی دھرنا اس وقت گوادر میں جاری ہے، لہٰذا مذاکرات صرف گوادر دھرنے میں ہوں گے۔

گوادر جھلس جل رہا ہے!تحریر: سلیمان ہاشم گوادر میں 28 جولائی سے تمام نیٹ ورکس بند ہیں۔ آج 4 اگست کی شام کو پی ٹی سی ایل ل...
04/08/2024

گوادر جھلس جل رہا ہے!
تحریر: سلیمان ہاشم

گوادر میں 28 جولائی سے تمام نیٹ ورکس بند ہیں۔ آج 4 اگست کی شام کو پی ٹی سی ایل لینڈ لائن نیٹ ورک بحال ہونے کی اطلاعات آئی ہیں لیکن موبائل نیٹ ورکس اب تک بند ہیں۔ لوگ اپنے عزیز اقارب اور پیاروں کی حال پرسی سے محروم ہیں۔ وہ لوگ جن کی دسترس میں وائی فائی ہے وہ محدود تعداد میں ہیں۔ گوادر کے کئی لوگ علاج معالجہ کے لیے کراچی اور کوئٹہ میں کئی دنوں سے پھنس چکے ہیں۔ ان کی جمع پونجی بھی ختم ہو گئی ہے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ اور گوادر کے ڈپٹی کمشنر نے دو دن پہلے کہا کہ ہم نے دھرنے والوں کے تمام مطالبات تسلیم کیے ہیں۔ ان کے جیلوں میں بند 70 افراد کو رہا کیا گیا ہے جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس بات کی تردید کر رہی ہے۔

مکران کوسٹل ہائی وے، اوتھل زیرو پوائنٹ کو بلاجواز بند کیا گیا ہے اور آمدہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے کئی مقام پر پھر روڈوں کو بلاک کرنے کے لیے کنٹینرز رکھے جا رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو بلوچ مچی 28 جولائی کو ہی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اختتام پذیر ہوتا۔ اب بھی گوادر میرین ڈرائیو پر ماہ رنگ کی قیادت میں ہزاروں لوگوں کا دھرنا جاری ہے۔

گوادر شہر میں مکمل ہڑتال ہے۔ ایک جانب ڈی سی نے مذاکرات کی کامیابی کی نوید سنا دی اور چھوٹی گاڑیوں کو کوئٹہ کراچی آمدورفت کی اجازت دی تھی مگر مکران آنے جانے والی تمام گاڑیوں کو دوبارہ روک دیا گیا۔ اورماڑہ، پسنی، جیوانی، گوادر، تربت اور دیگر علاقوں میں خوراک اور راشن کے ساتھ زندگی بچانے والی ادوایات کی قلت ہو گئی ہے۔

عوام حکومتِ وقت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ دھرنے میں چند ہزار لوگ ہوں گے، پورے مکران کو کیوں بھوکا پیاسا رکھا جا رہا ہے؟ ان لوگوں کو فوری ریلیف دیا جائے۔ انہوں نے گوادر ڈی سی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے گوادر کے عوام کے تسلیم شدہ مطالبات کی پاسداری کریں اور موبائل و انٹرنیٹ سروس کو فوری بحال کرائیں۔

اس کے علاوہ عوام کا کہنا ہے کہ گوادر کے منتخب ایم این اے اور ایم پی اے بھی خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان کو چاہیے کہ وہ گوادر کے عوام کی تکالیف سے متعلق انتظامیہ سے رابطہ رکھیں اور انھیں حل کروانے کی کوشش کریں۔ صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ ایم پی اے اور ایم این اے دونوں گورنمنٹ میں شامل ہونے کے باوجود اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ لوگوں میں ان کے خلاف بھی غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ اگر فوری طور پر عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ماہی گیر کمپنیاں بند ہونے سے ماہی گیر سخت اذیت کے شکار ہیں۔

ایک اطلاع کے مطابق گوادر میں تمام ڈیموں سے پانی کی شہر میں رسائی میں مشکلات پیش آنے سے لوگ پیاسے رکھے جا رہے ہیں۔ جتنا جلد ہو سکے حکومت اور عوامی نمائندے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کر کے عوام کو ریلیف دیں۔

04/08/2024

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کا گوادر سے تازہ پیغام

از دفتر اسسٹنٹ کمشنر لہڑی کا اعلامیہ بابت عوام الناس
04/08/2024

از دفتر اسسٹنٹ کمشنر لہڑی کا اعلامیہ بابت عوام الناس

04/08/2024

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کا آٹھواں روز:
گوادر میں کیا ہو رہا ہے؟

محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ اتوار کو آٹھویں روز بھی جاری رہا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

اُدھر نوشکی میں فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت اور دو کو زخمی کرنے کے خلاف شاہراہ پر دھرنے کی وجہ سے کوئٹہ اور ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان شاہراہ تیسرے روز بھی بند رہی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ وہ گوادر میں ہزاروں افراد کے ہمراہ موجود ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشنری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ڈیڈلاک کے خاتمے میں پیش رفت نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اول تو حکومت نے پُرامن احتجاج پر تشدد کیا جبکہ اب ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کر رہی ہے۔ تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ حکومت نے دھرنے کے شرکا کے ساتھ حد سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاج کو طول دینے کے لیے مطالبات پر مطالبات پیش کر رہی ہے۔

"آج صبح دوبارہ مذاکرات کے لیے رابطہ ہوا"

محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اہلکار نے بتایا کہ بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی نے نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے دوبارہ رابطہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رابطے کے بعد میر ظہور بلیدی کی قیادت میں حکومتی جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے وفود کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ تاحال ان مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

موبائل فون سروس کی بندش کی وجہ سے گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے ان مذاکرات کے حوالے سے رابطہ نہیں ہوسکا تاہم سماجی رابطوں کی میڈیا ایکس پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ایک پیغام سامنے آیا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کیا کہا ہے؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنما ہزاروں افراد کے ہمراہ گوادر میں موجود ہیں۔ رستوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے گوادر شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کنٹرولڈ‘ میڈیا نے ہمیشہ اس طرح ہمیں پیش کیا کہ ہم متشدد ہیں اور مذاکرات نہیں چاہتے ہیں لیکن مبینہ ریاستی تشدد کے باوجود ہم شروع دن سے پر امن رہے ہیں۔

اس پیغام میں انھوں نے تشدد کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پہلے دن سے پرامن تھے لیکن ریاست کی جانب سے شاہراہوں اور انٹرنیٹ کو بند کیا گیا اورپر امن مظاہرین پربراہ راست گولیاں چلائی گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات واضح ہیں جن میں سے ایک ان فورسز کے خلاف مقدمات کا اندراج ہے جنھوں نے مستونگ، گوادر، تلار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ’بلاکیڈ‘ کا خاتمہ کیا جائے اور یہ ضمانت دی جائے کہ ریاستی فورسز مزید طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں کریں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں، ہمدردوں اور گوادر کے رہائشیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ اعتراف کرے کہ اس نے ایک پرامن تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان تمام افراد کو رہا کیا جائے جو کہ بلوچ قومی اجتماع کے انعقاد سے پہلے یا بعد میں گرفتار کیے گئے اور فورسز نے جن لوگوں کی گاڑیوں اور املاک کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ریاستی ادارے مزید طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور مجھے اور ’بی وائی سی‘ کی قیادت کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو خطرہ ہے کیونکہ اب ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب حالات نواب بگٹی کے دور کے مشابہ ہیں جب ایک طرف مذاکرات کا دعویٰ کیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب طاقت کا استعمال کیا گیا۔

ادھر کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے میں شریک بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ گوادر، کوئٹہ، تربت اور نوشکی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے سامنے دھرنے میں آج شام کو ایک قومی سیمنار منعقد کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے پر امن مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوشکی میں پر امن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں جس میں ایک ہلاک اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ براہِ راست گولیاں چلانے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج میں شریک لوگ پر امن رہے اور مطالبات تسلیم ہونے تک پُرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

"بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنوں کے شرکا کے ساتھ حد سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا گیا"

بی بی سی بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے کہا کہ وہ خود کئی روز تک گوادر میں اس لیے مقیم رہے تا کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی وجہ سے حالات خراب ہوں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’ایف سی، پولیس اور لیویز فورس کو شاباش دیتے ہیں کہ مظاہرین کی جانب سے تمام تر تشدد کے باوجود انھوں نے صبر اور برداشت سے کام لیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور معاہدے پر دستخط کے بعد انھوں نے اعلان بھی کیا کہ جمعہ کو 11 بجے دھرنے کو ختم کیا جائے گا۔

ان کے مطابق ’ریاست نے حقیقی معنوں میں ماں جیسا سلوک کیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے بہت سارے مطالبات تسلیم کیے گئے تا کہ معاملات پر امن طریقے سے حل ہوں۔ ہم نے راستے کھلوا دیے اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ نے متعلقہ حکام کو موبائل فون سروس کھولنے کے لیے چِھٹی بھی تحریر کی‘۔

انھوں نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ گوادر سے نکل گئے لیکن بیسمیہ پہنچنے پر جب انھوں نے گوادر رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنے کو ختم نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی اینڈ ڈی کے وزیر میر ظہور بلیدی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے مزید مطالبات پیش کیے ہیں اور ’ایسا لگتا ہے ان کے مطالبات ہر روز بچے دے رہے ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کو ختم نہیں کیا جس سے یہ لگتا ہے کہ وہ دھرنے ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے طول دینا چاہتے ہیں۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

04/08/2024

بلوچستان میں شدید بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، 12 افراد جاں بحق

بلوچستان کے شمالی، شمال مشرقی اور جنوبی اضلاع میں مون سون بارشوں کا مضبوط سسٹم موجود ہے جس کے سبب کوئٹہ سمیت صوبے کے 22 اضلاع میں شدید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطاب بلوچستان میں بارشیں برسانے والا یہ سسٹم 6 اگست تک موجود ر ہے گا جس کے سبب خضدار، لسبیلہ،آواران، پنجگور، بارکھان، موسیٰ خیل، مستونگ، سبی، شیرانی، کوہلو، بولان، ہرنائی، نصیر آباد، جھل مگسی، جعفرآباد، ڈیرہ بگٹی، کوئٹہ، زیارت، ژوب، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور قلات میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کا امکان ہے جبکہ کہیں کہیں موسلادھار بارش کے باعث ندی نالوں میں طغیانی اور لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق بلوچستان کے متعدد اضلاع میں حالیہ مون سون بارشوں، آسمانی بجلی گرنے اور سیلاب سے اب تک 12 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے، بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 263 مکانات کو نقصان پہنچا جن میں 91 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔

طوفانی بارشوں سے 312 ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور 19 کلو میٹر شاہراہیں متاثر ہوئیں جبکہ 106 مویشی مر گئے۔

04/08/2024

بی وائی سی نے مذاکرات کے لیے نئے نکات پیش کر دئیے۔

03/08/2024

گوادر دھرنے کے مقام پر خیمے لگ گئے۔
ہزاروں مظاہرین موجود۔
اشیائے خورونوش کی قلت ہونے لگی۔

میرین ڈرائیو سے دھرنے کے ساتویں دن کے مناظر

Address

Quetta Cantonment

Opening Hours

Monday 17:00 - 23:30
Tuesday 17:00 - 23:30
Wednesday 17:00 - 23:30
Thursday 17:00 - 23:30
Friday 17:00 - 23:30
Saturday 17:00 - 23:30

Telephone

+92 333 783 2323

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when HaalHawal.Com posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to HaalHawal.Com:

Share