26/09/2024
نصیرآباد یونیورسٹی کا قضیہ
نصیرآباد ڈویژن تو خیر کولپور سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اگر صرف نصیرآباد "ریجن" کی بات کی جائے تو یہ جھل مگسی، ڈیرہ مراد جمالی، جعفرآباد، صحبت پور اور اوستا محمد کے پانچ اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان پانچ اضلاع کی آبادی دس لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ دس لاکھ کی اس آبادی کے لیے اعلیٰ معیار کا کوئی ہسپتال ہے نہ کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ۔ یہاں کے سیاسی نمائندے جاگیردار اور سیکڑوں، ہزاروں ایکڑ زمین رکھنے والے زمیندار ہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپی کا مرکز پانی اور فصلیں ہیں۔ روڈ، ہسپتال اور تعلیم کے لیے بولتے ہوئے انہیں کبھی نہیں سنا گیا۔
کوئی پانچ چھ برس قبل یہاں لسبیلہ یونیورسٹی کے کیمپس کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں آنے والا ابتدائی اسٹاف ہمیں بتاتا تھا کہ یہ کیمپس لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر دوست محمد پندرانی کے "وژن" کا نتیجہ ہے جو مستقبل میں اسے مکمل یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کا عزم رکھتے ہیں، کیونکہ ان کا اپنا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ اب چھ سال بعد، جب اس وائس چانسلر کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کو ہے اور یہ اسٹاف اس دوران مستقل نہیں ہو سکا تو وہی اب ہمیں بتا رہے ہیں کہ اس کیمپس کو تباہ کرنے والے یہی "وژنری" وائس چانسلر ہیں۔ جن کی وجہ سے کیمپس بند ہونے کی نوبت آ چکی ہے۔ مزید دلچسپ یہ ہے کہ کیمپس بند ہونے کی دُہائی دینے والے وہی احباب اسی کیمپس میں اب داخلوں کی مہم بھی چلا رہے ہیں!!
یہ بات شاید درست ہو کہ یہ کیمپس وائس چانسلر کی ذاتی دلچسپی سے ہی یہاں بنا۔ مقامی جاگیرداروں میں سے صرف کھوسہ قبائل نے ہی اس کی دامے، درمے، سخنے مدد کی اور اپنی ایک قدیمی حویلی اس کے لیے دان کی، جہاں چھ سال سے کلاسز ہو رہی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کھوسہ قبائل کا نصیرآباد میں کوئی پولیٹیکل اسٹیک ہے ہی نہیں۔ وہ جعفرآباد اور صحبت پور میں الیکشن لڑتے ہیں۔
ایک اہم کام یہ ہوا کہ ڈیرہ مراد شہر سے کچھ ہی فاصلے پر کیمپس کے لیے پانچ سو ایکڑ سرکاری اراضی حاصل کی گئی۔ اس زمین پر خاصے پھڈے ہوئے۔ کئی قبائل اس کے دعوے دار ہوئے۔ معاملات عدالتوں تک گئے۔ خاصے جھنجھٹ کے بعد بالآخر زمین حاصل کر لی گئی اور اب اس کی خاصی تعمیرات بھی ہو چکی ہیں۔ میرا محتاط اندازہ ہے کہ پانچ سو ایکڑ کی زمین بلوچستان کی کسی یونیورسٹی کے پاس نہیں ہو گی (شاید پاکستان میں بھی کم ہی یونیورسٹیوں کے پاس ہو)، اور یہ زرعی زمین ہے۔ شنید میں تھا کہ منصوبہ یہ ہے کہ اس میں سے دو سو ایکڑ یونیورسٹی کی تعمیرات کے لیے ہو گی اور تین سو ایکڑ پر کاشتکاری کی جائے گی۔ جس سے یونیورسٹی اپنے مالی معاملات میں خودمختار ہو سکتی ہے۔
لیکن ہوا یہ کہ بلوچستان میں یونیورسٹیز اور کیمپسز کی تعمیر بنا کسی پالیسی میکنگ کے ہوئی۔ جس علاقے کے سیاسی نمائندے تگڑے تھے، وہاں زیادہ ادارے بند گئے، جہاں کے سیاسی نمائندوں کو کوئی دلچسپی نہ تھی، وہ پیچھے رہ گئے۔ نتیجہ یہ کہ مکران کے تین اضلاع میں سے ہر ایک میں الگ الگ یونیورسٹی بن چکی، رخشان اور نصیرآباد کا پورا ڈویژن یونیورسٹی سے محروم ہے۔ کیمپسز پہ گزارہ چل رہا ہے، جن کا مستقبل مخدوش ہے۔
نئی حکومت بلوچستان میں مزید یونیورسٹیوں اور کیمپسز کے حق میں نہیں (میں خود بھی اس کے حق میں نہیں)، ہمارے ہاں یونیورسٹیاں زمینی حقائق اور ضرورت کے تحت کم اور سیاسی مفادات کے تحت زیادہ بنیں۔ نتیجہ یہ کہ ان میں سے اکثر اس وقت بھی مالی بوجھ بنی ہوئی ہیں، مستقبل میں مزید بوجھ بنیں گی۔ اگر تو سیاسی نمائندے فراست کا مظاہرہ کریں اور مکران کے عوام اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا کسی عصبیت کی بجائے وطن کے مجموعی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں تو مکران میں ایک یونیورسٹی کم کر کے رخشان میں یونیورسٹی بنائی جا سکتی ہے اور نصیرآباد کے کیمپس کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد آبادی کے تناسب سے اگلے پچاس برس مزید کسی یونیورسٹی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
البتہ یہ طے ہے کہ نصیرآباد کا کیمپس کسی صورت بند نہیں ہو گا، اسے بچانے والا سب سے بڑا فیکٹر اس کی پانچ سو ایکڑ اراضی ہو گی۔ جو اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ اساتذہ کی مستقلی، اسٹاف کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی و دیگر مسائل یقیناً حل طلب ہیں۔ انہیں بروقت حل ہونا چاہیے۔ معاشی مسائل تو اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان اور بیوٹمز کو بھی درپیش ہیں۔ لیکن اس بنا پر یونیورسٹیاں بند نہیں ہوتیں۔ آج تک کوئی انٹر کالج برائے نام داخلوں کے باوجود بند نہیں ہوا، یونیورسٹی کیمپس تو پھر ایک بڑا معاملہ ہے۔
الغرض، اگر کوئی مہم بنتی ہے تو وہ کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کی ہو سکتی ہے جو فی الوقت اس لیے موثر ہونے کا امکان نہیں کہ مالی مسائل کے پیشِ نظر موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں یہ معاملہ شامل ہی نہیں۔ اس لیے اسے مستقبل کے لیے اٹھا رکھا جائے اور موجودہ کیمپس کو علمی طور پر زیادہ متحرک کیا جائے تو یہی ریجن کے لیے مجموعی طور پر بہتر ہو گا۔
باقی کرپشن سمیت ادارے کے اندرونی اور باہمی مسائل کے لیے طلبہ یا سول سوسائٹی کو استعمال کرنا کوئی جائز بات نہیں۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے ادارے نیب، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے وغیرہ موجود ہیں۔ کسی کے پاس ثبوت ہیں تو ان فورمز سے رجوع کریں۔ میڈیا پہ تو کرپشن کی اس سے بڑی کہانیاں ہم روز سنتے رہتے ہیں، اس سے نہ کوئی فرق پڑتا ہے، نہ پڑنا ہے!
مجموعی طور پر کیمپس کو بند کروانے کی نیت نہ ہو تو یہ کیمپس بند نہیں ہو گا بلکہ یہ مستقبل کی مکمل یونیورسٹی ہے ۔۔۔۔ اس خواب کی تعبیر البتہ اور کتنے سال لے جائے، اس کا انحصار مقامی نمائندوں کے عمل اور عوام کے ردِعمل پر منحصر ہے۔