01/12/2025
PAA کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن انکریزز کے غیر یکساں نفاذ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں، حسیب الرحمان
کراچی: پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (PAA) کے ریٹائرڈ ملازمین گزشتہ پانچ سال سے پنشن انکریزز کے غیر یکساں نفاذ کے باعث شدید مالی مشکلات اور بدحالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ادارہ نہ صرف اربوں روپے ٹیکس حکومتِ پاکستان کو ادا کرتا ہے بلکہ قابلِ ذکر زرمبادلہ فراہم کرتا ہے اور قومی ایئرلائنز کو مالی معاونت بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔
حالیہ انتظامیہ نے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے چار کیٹیگریز بنا کر قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں سابقہ ملازمین محروم ہیں۔ کیٹیگری 1 میں وہ ملازمین شامل ہیں جو 30 جون 2014 یا اس سے قبل ریٹائر ہوئے اور انہیں تمام پنشن انکریزز باقاعدگی سے 2025 تک بغیر کسی گیپ کے ادا کی جا رہی ہیں۔ کیٹیگری 2 میں وہ ملازمین شامل ہیں جو یکم جولائی 2014 سے 30 جون 2022 کے درمیان ریٹائر ہوئے اور جن کی تعداد تقریباً 2,280 ہے، انہیں سال 2021، 2022، 2024 اور 2025 کی پنشن انکریزز نہیں دی گئیں۔ کیٹیگری 3 میں وہ 309 ملازمین شامل ہیں جو یکم جولائی 2022 سے 30 جون 2023 کے درمیان ریٹائر ہوئے، انہیں سال 2022 اور 2023 کی انکریزز دی گئی ہیں، مگر 2024 اور 2025 کی انکریزز محروم ہیں۔ کیٹیگری 4 میں وہ ملازمین شامل ہیں جو یکم جولائی 2023 سے جون 2025 کے دوران ریٹائر ہوئے، انہیں سال 2023 کی انکریز تو دی گئی ہے مگر 2024 اور 2025 کی انکریزز نہیں دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ موجودہ منیجمنٹ، جو گزشتہ پانچ سال سے پنشن کے اس ایشو کو دیکھ رہی ہے، وہی انتظامیہ ہے جس نے پہلے 2011، 2015، 2016، 2017، 2018 اور 2019 کی پینشن انکریزز کو ایکسیس پیمنٹ ظاہر کیا۔ آج، اسی انتظامیہ نے موجودہ بورڈ کے ساتھ اپنی اٹھارویں بورڈ میٹنگ (26 جولائی 2025) میں 2011 اور 2015 کی پینشن انکریزز کی منظوری دی، پھر 2016، 2017، 2018 اور 2019 کی دی گئی پینشن انکریزز ایکسیس پیمنٹ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سے پہلے والی پینشن انکریزز 2011 اور 2015 کی درست ہیں جبکہ 2016، 2017، 2018 اور 2019 کی کٹیگری 2 کے لیے ایکسیس پیمنٹ قرار دی گئی؟ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منیجمنٹ کس طرح اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروا رہی ہے،
اس معاملے میں حسیب الرحمان، سینئر ریٹائرڈ آفیس، پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی، نے اپنی درخواست سینیٹ آف پاکستان میں دی تھی۔ سینیٹ نے اس درخواست پر مکمل انکوائری کروائی جس میں سیکرٹری ایوی ایشن،(Director Human Resources)، اس وقت کے DGCAA، اور Director Finance کو سینیٹ کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا گیا۔ تاہم ان میں سے کسی نے بھی یہ ثابت نہیں کیا کہ 2016، 2017، 2018 اور 2019 کی پینشن انکریزز ایکسیس پیمنٹ تھیں، اور اس رپورٹ کو بورڈ اور سینیٹ سے چھپایا جا رہا ہے۔ مزید برآں، ایوی ایشن سیکریٹری کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی، جس میں سینئر جوائنٹ سیکریٹری ایوی ایشن، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ممبر اور سینئر کانٹ آفیسر پاکستان سیول ایوی ایشن شامل تھے، نے بھی مکمل جانچ کی لیکن کہیں بھی ایکسیس پیمنٹ کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور اس رپورٹ کو بورڈ سے چھپایا جا رہا ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ 2014 کے نافذالعمل رولز کے مطابق تمام ریٹائرڈ ملازمین پر یکساں اصول لاگو ہیں اور کسی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کی بنیاد پر امتیاز جائز نہیں ہے۔ موجودہ انتظامیہ کا دعویٰ کہ یکم جولائی 2014 یا اس کے بعد ریٹائر ہونے والوں پر پنشن انکریزز لاگو نہیں ہوتیں، قانونی طور پر بے بنیاد اور غیر منصفانہ ہے۔
اس غیر یکساں اور امتیازی رویے کے نتیجے میں ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین مالی دقت اور بدحالی کا شکار ہیں۔ کیٹیگری 2 سب سے زیادہ متاثر ہے جبکہ کیٹیگریز 3 اور 4 بھی کچھ سالوں کی انکریزز سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے مستحقین اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔
لہٰذا، سیکریٹری دفاع جو کہ چیئرمین PAA بورڈ بھی ہیں، اور تمام بورڈ ارکان سے مؤدبانہ درخواست کی جاتی ہے کہ اس معاملے کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر دیکھیں۔ یہ بات واضح رہے کہ پینشن کی ادائیگی PAA فنڈ یا حکومت پاکستان کے فنڈ سے نہیں بلکہ پنشن فنڈ سے کی جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں، جہاں مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو علاج اور روزمرہ ضروریات کے لیے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ محروم شدہ پینشن انکریزز فوری طور پر ادا کی جائیں اور انسانی بنیادوں پر اس مسئلے کا فوری حل نکالا جائے۔
اس پس منظر میں، ہم متعلقہ حکام سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ چاروں کیٹیگریز کے قانونی جواز کا فوری جائزہ لیا جائے اور 2014 کے رولز کے مطابق پنشن انکریزز کا یکساں اطلاق یقینی بنایا جائے۔ متأثرہ پینشنرز کو محروم شدہ انکریزز کی ادائیگی کی جائے اور شفاف اور قابلِ اعتماد انکوائری یا آڈٹ کے ذریعے آئندہ غیر قانونی اور امتیازی فیصلوں کو روکا جائے تاکہ ریٹائرڈ ملازمین کے مالی حقوق بحال ہوں اور انہیں معاشی تحفظ میسر آئے۔