
24/04/2024
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق
حلقہ ژوب شیرانی قلعہ سیف فارم 45 اور 48 میں تضادات کی تفصیل
آر او قلعہ سیف اللہ کی جانب سے فارم 45 سے ہٹ کر فارم 48 میں سنگین تبدیلیاں اور فارم 48 کو اس انداز سے تبدیل کیا گیا کہ کہ مخالف امیدوار کو دانستہ طور پر فائدہ پہنچایا جاسکے جہاں خوشحال خان کاکڑ کے ووٹوں کو کم جب کہ سید سمیع الدین کے وٹوں کو بڑھایا گیا .دو پولنگ اسٹینشز کو ڈبل شمار کیا گیا
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق
فارم 45 کے مطابق خوشحال خان کاکڑ نے ایک پولنگ اسٹیشن میں 127 ووٹ حاصل کیے جس کو کم کر کہ صرف 27 بنایا گیا
فارم 45 کے مطابق خوشحال خان نے 62 ووٹ حاصل کیے جسکو صفر کیا گیا
ایک پولنگ اسٹیشن پر 195 ووٹ کو صرف 17 قرار دیا گیا
فارم 45 پر ایک پولنگ پر 301 ووٹ کو 201 بنا دیا گیا
ایک پولنگ اسٹیشن پر 211 کو 111 بنایا گیا
ایک پولنگ اسٹیشن پر 209 کو 109 بنایا گیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جبکہ دوسری جانب ایک امید وار کو فائدہ پہنچانے کے لیے
فارم 45 کے مطابق 60 ووٹ پڑھے جسکو 160 ووٹ بنایا گیا
ایک پولنگ اسٹیشن پر سید سمیع الدین کو 119 ووٹ پڑے جسکو 219 بنایا گیا
ایک پولنگ اسٹیشن پر 204 کو 304 بنایا گیا
ایک پولنگ اسٹشن پر 45 کو 145 بنایا گیا
اب سوال یہ بنتا کہ انسانی غلطی نتائج میں ہوسکتی لیکن ایک امیدوار کے ووٹ کم کرنے کے لیے اس کے ووٹ میں ہر جگہ اسکے ووٹ کم کیے گئے اور دوسری جانب ایک امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسکے ووٹ بڑھائے جائیں کہ یہ الیکشن ایکٹ کے تحت ایک سنگین بے ضابطگی نہیں کیا یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتا ۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ اپنی جگہ لیکن کیا اس ملک میں جزا وسزا کا کوئی نظام ہے جہاں غلط کو غلط اور صیح کو صیح کہا جائے اور جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے ؟؟؟؟؟
الیکشن ایکٹ 2017 میں ایک ووٹ کو ادھر ادھر کرنے پر جو سزائیں لکھی گئی ہیں ان پر اگر عمل ہو تو اس ملک کے اکثر آر اوز اور ڈی آر اوز کے فارم 48 سے ایسی بے ضابطگیاں نکلیں گی
اور اگر آر او اتنا نا اہل ہے کہ اس سے ایک حلقے میں اتنی غلطیاں سر زد ہوسکتی ہے تو پر وہ شائد اس کا اہل ہی نہیں تھا کہ اس کو آر او بنایا جاتا کیونکہ جس نوعیت کی غلطیاں انہوں نے کی شائد وہ غلطیاں ایک عام کلرک ہی نہ کرے ۔اور اگر یہ غلطیاں دانستہ ہیں تو پر ان غلطیوں کی سزا بھی ہونی چائیے