
09/08/2025
دو دن سے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ سروسز مکمل بند ہیں۔۔۔ یہ صرف ایک سہولت کا نام نہیں، بلکہ علم کے دروازے بلوچستان کے عوام پر بند کرنا ، عوام کے لئے روزگار کے ذرائع محدود کرنا اور عوام کی زبان خاموش کر دینے کے مترادف عمل ہے۔
طلباء آن لائن کلاسز اور امتحانات سے محروم ، تاجر اپنے کاروبار سے کٹے ہوئے، اور سرکاری و نجی دفاتر مکمل مفلوج—یہ سب ایک ایسے روشن دور میں ہو رہا ہے جہاں دنیا لمحوں میں رابطے میں رہتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران موجودہ روشن دور میں ترقی کے دعوے کرتے ہوئے تھکتے بھی نہیں۔۔۔۔
سوچنے کی بات ہے، بلوچستان میں کلاشنکوف کی نمائش اور بے شمار نام نہاد اسلحہ بردار مشران موجود ہیں، مگر پھر بھی ہم بنیادی سہولیات کے لیے ترستے ہیں۔ کیوں؟ کیا ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم بلوچستان میں پیدا ہوئے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ ہم ہر اُس نعمت سے محروم ہیں جو کسی بھی ملک کے شہری کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے، اور دوسرے ممالک کے عوام کو یہ نعمتیں اور لوازمات میسر ہیں جبکہ ہم اہل بلوچستان اپنے بنیادی حقوق سےمحروم ہیں؟
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر کے شہروں کی خاموش سڑکیں، بند دکانیں، اور مایوس چہرے ایک ہی سوال کر رہے ہیں:
آخر کب تک بلوچستان کے ساتھ یہ ناروا سلوک جاری رہے گا؟