New Pakistan zindabad movement-central Balochistan

New Pakistan zindabad movement-central Balochistan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from New Pakistan zindabad movement-central Balochistan, Media/News Company, model town, Quetta.

15/06/2025
اس دنیا میں ہمارے معاشرہ میں جب کسی بھی عورت کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو اس کے والدین سے گھرمیں علیحدگی پر مجبور ...
15/06/2025

اس دنیا میں ہمارے معاشرہ میں جب کسی بھی عورت کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو اس کے والدین سے گھرمیں علیحدگی پر مجبور کرتی ہے،

مگر وہی عورت اپنے والدین کے گھر جاکر اپنے بھائیوں کو اکٹھا رہنے کی تلقین کرتی ہے،،،

*امریکی سینٹرل کمانڈ جریدے کا آرمی چیف کی قیادت کا اعتراف، زبردست خراج تحسین**جنرل عاصم منیر کو ایسے لیڈر کے طور پر یاد...
24/10/2024

*امریکی سینٹرل کمانڈ جریدے کا آرمی چیف کی قیادت کا اعتراف، زبردست خراج تحسین*

*جنرل عاصم منیر کو ایسے لیڈر کے طور پر یاد کیا جائے گا جن کا اولین عزم پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی ہے، جریدہ*

اسلام آباد: امریکی سینٹرل کمانڈ کے جریدے نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کو متشدد انتہا پسندوں کے خلاف توانا آواز قراردیتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے جریدے یونی پاتھ میں جنرل سید عاصم منیر کو بطور آرمی چیف شاندار الفاظ میں خراج تحسین کیا گیا جبکہ مضمون میں جنرل سید عاصم منیر کی پیشہ ورانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔

سینٹ کام جریدے کے مطابق جنرل سید عاصم منیر کو ایسے لیڈر کے طور پر یاد کیا جائے گا جن کا اولین عزم پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی ہے۔ مضمون میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت، فوجی پس منظر، انسداد دہشت گردی کیخلاف کوششوں کو اجاگرکیا ہے۔

آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں کمان سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ سینٹ کام جریدے نے جنرل سید عاصم منیرکی انسداد دہشتگردی کے حوالے سے کوششوں کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’’ان کی قیادت میں شدت پسند گروپوں (فتنہ الخوارج) کے خلاف وسیع فوجی آپریشن ہوئے ہیں، جن میں 22,409 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز شامل ہیں، جس کے نتیجے میں 398 دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا ہے"۔

سینٹ کام جریدے کے مطابق "جنرل سید عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردوں کو ریاست کی رٹ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا جبکہ پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت کیلیے ہر قسم کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرے گا۔

جریدے نے آرمی چیف کے مستقبل کے وژن کےبارے میں بھی ان کی تعریف کی اورلکھا کہ جنرل سید عاصم منیر کا مقصد پاکستان کی اندرونی چیلنجوں سے نمٹنااور مسلح افواج اور قوم میں پیشہ ورانہ مہارت، ربط باہمی اور اتحاد کو فروغ دینا ہے۔

10/09/2024

*‏کیا بلوچستان کا الحاق پاکستان کے ساتھ زبردستی کیا گیا تھا* ؟

*اور گوادر کو سلطنت عمان سے حکومت پاکستان نے 1958 میں خریدہ تھا جسے بعد میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ضم کردیا گیا تھا*

اس تحریر کو بغور مطالعہ فرمائیں

بلوچستان کے حوالے سے دوسرا سب سے بڑا اور تاریخی جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ قلات یا بلوچستان کے علاقوں کو پاکستان نے جبراً ضم کیا۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے کچھ نواب تو الحاق میں تاخیر پر قائداعظم سے ناراض ہوگئے تھے۔ صرف 'خان آف قلات' میر احمد یار خان نے زیادہ اثرونفوذ یا فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے الحاق میں تاخیر کی لیکن آخر کر لیا تھا۔

قانون ازادی ہند کے تحت ہندوستان میں تمام شاہی ریاستوں (princely states) کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق الحاق کریں۔ ہندوستان میں 1947ء میں 565 (princely states) تھیں، جو انگریز کی باجگزار تھیں۔

قانون آزدی ہند کے تحت تمام شاہی ریاستوں نے پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا تھا۔ آزادی کا آپشن کسی ریاست کو نہیں دیا گیا۔ آزاد صرف دو ریاستیں ہورہی تھیں پاکستان اور انڈیا۔ یہ دو ریاستیں ہی تاج برطانیہ کی successor stateؔ تھیں۔ ایسی کوئی تیسری آزاد ریاست نہ تھی۔ انہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس انتخاب میں جغرافیے، آبادی اور مذہبی معاملات کو ملحوظ رکھنا تھا کیونکہ انڈیا کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہورہی تھی۔

قلات کی 98 فیصد آبادی مسلمان تھی اور جغرافیہ پاکستان کے اندر ہی تھا۔ لہذا اسکا پاکستان کے ساتھ الحاق طے تھا۔ جوناگڑھ ہندو اکثریتی ریاست نے پاکستان سے الحاق کیا لیکن بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا اور قبضہ کر لیا۔ ہندو اکثریتی حیدرآباد دکن نے ازاد رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے اسے بھی تسلیم نہیں کیا اور قبضہ کر لیا۔

بلکل اسی طرح قلات کے پاس آزاد رہنے کا کوئی آپشن نہ تھا نہ ہی وہ انڈیا کے پاس جاسکتی تھی۔ ریاست قلات برٹش انڈیا کا حصہ تھی اور پاکستان برٹش انڈیا کی"successor state" تھی۔ قلات پاکستان میں شامل نہ ہوتا تو ریاست قلات کے پاس واحد آپشن انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا تھا جو جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے ممکن نہ تھا۔

لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے 3 جون 1947 کے تقسیم ہند کے پلان کےمطابق 18 جولائی 1947 کو برطانوی سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے ہندوستان میں برطانوی زیر حفاظت تقریباً 565 راجوں مہاراجوں اور نوابوں کی ریاستوں کے بارے میں کہا کہ اِن ریاستوں کو آزادممالک تسلیم نہیں کیا جائےگا بلکہ یہ ریاستیں اپنی جغرافیائی اور مذہبی وابستگی کے حوالے سے پاکستان یا ہندوستان کےساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔

برٹش بلوچستان میں اکثریتی پشتون کاکڑ قبائل کے علاوہ مری بگٹی اور مینگل قبائل کے علاقے شامل تھے۔ یہ سارے براہ راست برطانوی حکومت ہند کے ماتحت تھے۔ جس کے سیاسی امور کوئٹہ میونسپلٹی اور پشتون و بلوچ سرداروں کی نمائندہ تنظیم شاہی جرگہ کی مشاورت سے چلائے جاتے تھے۔

ان سب علاقوں کو پاکستان میں ضم کرنے کے لیے مسلم لیگ بلوچستان کے نمائندوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں پورے بلوچستان میں پرجوش مہم چلائی۔ موجودہ بلوچستان کے ہزاروں لوگ اس وقت ان ریلیوں میں شرکت کرتے تھے۔

29 جون 1947 کو برٹش بلوچستان کے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کے لیے کوئٹہ کے ٹاؤن ہال میں صبح دس بجے بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے منتخب ارکان کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس مشترکہ اجلاس میں کل 54 ارکان شامل ہوئے۔ سب نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ آٹھ غیر مسلم اراکان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

سوائے ریاست قلات کے بلوچستان کے تمام عمائدین نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا۔ صرف ایک سردار دوست محمد مینگل نے اِس موقع پر کہا کہ وہ ریاست قلات کےساتھ جانا چاہتے ہیں لیکن جب اُنہیں گورنر جنرل نے بتایا کہ رائے شماری صرف پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کےلئے ہے تو سردار دوست محمد مینگل نے کہا کہ پھر ہم پاکستان کےساتھ جائنگے۔

خان آف قلات تاخیر کرتا رہا اور 11 اگست 1947ء کو الحاق کی شرائط پر بات کرنے کے لیے قائداعظم کے ساتھ ایک 'سٹینڈ سٹل' ایگریمنٹ کیا۔ جسے ماؤنٹ بیٹن نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔ کیونکہ اس وقت قائداعظم کسی 'شاہی ریاست' کی حیثیت کا تعئن نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں کی حثییت کا تعاؤن تاج برطانیہ نے ہی کرنا تھا۔

خاران مکران اور لسبیلہ نے بھی اس 'سٹینڈ سٹل' ایگریمنٹ کو مسترد کردیا اور واضح کیا کہ وہ قلات کا حصہ یا زیر نگیں ریاستیں نہیں ہیں اور خان آف قلات ان کا نمائندہ نہیں ہے۔

خاران، لسبیلہ اور مکران کے حکمرانوں نے فوری طور پر قائداعظم کو الحاق کے لیے درخواستیں بھیج دی تھیں۔ لیکن قائداعظم نے جب ان درخواستوں پر قلات کی وجہ سے دستخط کرنے میں تاخیر کی تو خاران کے میر حبیب اللہ خان نوشیراونی باقاعدہ غصے اور افسوس کا اظہار کیا اور قائداعظم کو ایک اور خط لکھا کہ "خاران کے لوگ قلات سے آزاد ہیں اور پاکستان کے لیے مریں گے۔"

ریاست لسبیلہ پر موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے دادا جام غلام قادر خان کی حکومت تھی۔ اس نے برطانوی راج کے خاتمے کے بعد قائداعظم کو خان آف قلات کے لسبیلہ پر دباؤ ڈالنے والی سیاست سے آگاہ کیا اور کئی خط لکھے جن میں پاکستان سے فوری الحاق کا مطالبہ کیا۔

مکران پر نواب بائی خان گچکی کی حکومت تھی۔ اس نے قائداعظم سے الحاق کی درخواست پر فوری دستخط کرنے پر بار بار اصرار کیا اور جب بےصبری بڑھی تو قائداعظم کو دھمکی دی کہ "اگر پاکستان جلد ہی مکران کا الحاق قبول نہیں کرتا تو ہم دوسروں سے رجوع کر سکتے ہیں۔" خاران، مکران اور لسبیلہ کے حکمرانوں نے مارچ 1948ء میں اسی سلسلے میں قائداعظم سے ملاقاتیں بھی کیں۔

خان آف قلات پر قلات میں موجود انڈین نیشنل کانگریس کے نمائندوں کا دباؤ تھا۔ جیسے باچا خان نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں آزاد رہنے کا آپشن رکھنے کا مطالبہ کیا تھا یہاں بھی کانگریسی خان آف قلات سے تاج برطانیہ سے آزادی کا آپشن دینے کا مطالبہ کر رہے تھے جسے مسترد کیا جا چکا تھا۔ 'خان آف قلات' جانتے تھے کہ یہ ممکن نہیں لیکن وہ تاخیری حربوں کے ذریعے نئی بننے والی ریاست پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ اور فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ قلات سے ملک سعید خان دہوار، گل خان نصیر، عالیجاہ غوث بخش مینگل، غوث بخش بزنجو کانگریسی تھے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے خلاف تھے۔

اس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ قلات کا الحاق فروری 1948ء تک موخر ہوگیا۔ جس کے بعد قائداعظم نے بلاآخر خاران، لسبیلہ اور مکران کی زیر التواء الحاق کی درخواستیں قبول کر لیں اور قلات پاکستان کے وسط میں ایک چھوٹی سی الگ تھلگ شاہی ریاست رہ گئی۔

آل انڈیا ریڈیو نے 27 مارچ 1948ء کو خبر نشر کی کہ خان آف قلات احمد یار خان نےدو ماہ قبل ہندوستان سے الحاق کرنے کی درخواست کی تھی لیکن ہندوستان نے جغرافیائی وجوہات کی بناء پر اسے قبول نہیں کیا۔ یہ خان آف قلات ی بہت بڑی سبکی تھی لہذا اس نے بھارت سے رابطوں کی تردید کرتے ہوئے فوری طور پر پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ 31 مارچ 1948 کو قلات کا انسٹرومنٹ آف ایکسیشن قائد کو پیش کیا گیا جسے انھوں نےتسلیم کر لیا۔

خان اف قلات کا دعوی تھا کہ اس نے قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق خواب میں حضورﷺ کی ہدایت پر خود کیا تھا۔ خان آف قلات کے پوتے پرنس عمر نے متعدد ٹی وی پروگرامز میں اس کا اظہار کیا کہ میرے دادا نے خواب میں حضور پاک کی ہدایت پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

خان آف قلات احمد یار خان کا بھائی پرنس کریم بھی کانگریسی سرخا تھا۔ پاکستان سے الحاق کے خلاف تھا۔ الحاق پر اپنی افغانی بیوی کے ساتھ افغانستان فرار ہوا اور وہاں افغان حکومت کی مدد سے پاکستان کے خلاف پہلا دہشتگردی کا کیمپ بنایا۔ تین ماہ بعد پاکستان پر پہلا حملہ کیا اور مار کھا کر بھاگا۔ اس کے ٹریننگ کیمپ کا حصہ بننے والے لوگ بلوچستان کے اولین 'مسنگ پرسنز' تھے۔

قوم پرست سرخوں کی طرف سے ایک سنگین غلط بیانی یہ بھی کی جاتی ہے کہ احمد یار خان کو پاک فوج نے گرفتار کر کے اس سے بندوق کی نوک پر الحاق پر دستخط کروائے تھے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ انہیں 1948 میں نہیں بلکہ 6 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کی حکومت کی طرف سے ون یونٹ کی عوامی مخالفت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ 1948ء میں تو خان آف قلات کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد شاہی لقب دیا گیا اور انہیں بلوچستان کی نو تشکیل شدہ قبائیلی کونسل کا رسمی "خان اعظم" مقرر کیا گیا۔ یوں سمجھیں بلوچستان کے بہت بڑے حصے کا حاکم بنایا گیا۔

یہ سب کچھ اسی دور کے پاکستان مخالف قوم پرست راہنماؤوں میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر حتی کہ خود میر احمد یار خان کی اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ وہاں کہیں بھی آپ کو کسی زور زبردستی کا کوئی ایک حوالہ نہیں ملے گا۔

سچ یہی ہے کہ بلوچستان کے تمام شاہی ریاستوں اور تمام نمائندوں نے ہنسی خوشی اور اپنی رضامندی بلکہ ضد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اور اس کے لیے کسی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔

گوادر کو حکومت پاکستان نے 1958ء میں سلطنت عمان سے خریدا اور 20 سال بعد میں اس کو صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا۔ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یعنی یہ بلوچستان کو موجودہ شکل پاکستان نے دی۔
(منقول)

20/07/2024

جیت ہوگی، ہار ہوگی، وہ بات بعد میں ہوگی
فلحال وفا ہوگی وفاداری ہوگی اور سرعام ہوگی___
بیانیہ کی جنگ دماغوں میں لڑی جانے والی جنگ یہ خفیہ جنگ ظاہری ہتھیاروں سے بھی بہت زیادہ خطرنا!ک ترین جنگ لہذا اپنے وطن کو اپنے پختونوں کو پنجابیوں کو سندھیوں کو بلوچوں کو اپنے غریب کو اپنے امیر کو اپنی معیشت کے لیے اپنے بچوں کے لیے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے پوری قوم کھڑی ہو جائے اور یہ ہتھیار یہ جنگ کا طریقہ ہے کیونکہ دشمن اپنے چند لوگوں کو استعمال کر رہا ہے ڈھال کے طور پر اور وطن عزیز کی معیشت ترقی امن و امان کو روکنا چاہتے ہیں لہذا اس کو روکنے کا بہترین طریقہ گلگت سے لے کر کوئٹہ لاہور کراچی پشاور سکھر پورا پاکستان تمام قومیں جس کے جو بس میں ہیں وہ کھڑے ہو کر پوری دنیا میں پیغام دیں کہ ہم ایک قوم ہیں ہم متحد ہیں ہمیں معاشی طور پر مضبوط ہوں گے ہیں بلکہ ہمیں لبنان لیباں عر-اق فلصطیمطین شام نہیں بنا سکتے ہماری معیشیت مضبوط ہوگی ہمارا گھر مضبوط ہے ہم اپنی پاک فوج کے ساتھ ہیں ہم میں کوئی اختلاف نہیں ہمارے پنجابی پختون سندھی بلوچ کو آاپ نہیں ما!ر سکتے یہ آپ کو راستہ ہم فراہم نہیں کریں گے کہ اختلافات تاکہ دشمن آسانی سے میرے پختون پنجابی سندھی بلوچ کو ٹارگٹ کرے دشمنی تیز کرنے کے لیے اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے یہ موقع ہم کبھی فراہم نہیں کریں گے کھڑے ہو جاؤ میرے وطن کے لوگوں یہی وقت ہے"

ہر طرف صدائیں بلند ہونی چاہیے پاک فوج ہم آپ کے ساتھ ہیں پوری قوم آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

20/07/2024

اگر آپ چاہتے ہیں کہ میرا پیارا پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے تو اپنی پاک افواج سےبہت بہت پیار کیا کریں کیونکہ دشمن کے خلاف فوج نے ہی لڑنا ہے نہ سیاستدانوں نے لڑنا ہے نہ میں نے اور آپ نے۔اپنی فوج کودعاؤں میں یاد رکھیں
ہم سب کا پاکستان
اسلام زندہ باد
افواج پاکستان زندہ باد
پاکستان ہمیشہ پائندہ باد 🇵🇰

مارخور کا کام ہے شکار کرنا وہ یہ نہیں دیکھتاجہاں وہ شکار کرنے جارہا ہے ،  وہ راستے کیسے ہو نگے , وہ بس شکار کا سوچتا ہے ...
20/07/2024

مارخور کا کام ہے شکار کرنا
وہ یہ نہیں دیکھتا
جہاں وہ شکار کرنے جارہا ہے ،
وہ راستے کیسے ہو نگے , وہ بس شکار کا سوچتا ہے
ہر روز نئی شناخت ، نئے راستے ، نئے شکار اور نئی منزلیں مارخور کے سامنے ہوتی ہیں ۔

20/07/2024

پوری قوم اپنی پاک فوج کے ساتھ ہے کل سے پورے پاکستان میں انقلابی کیفیت ہوگی اب اس وطن کے حقیقی مالک حقیقی بیٹے جو اپنے وطن کو لیبیا سوڈان شام بننے سے بچائیں گے کھڑے ہوں گے پورے پاکستان میں پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک زبردست سلسلہ شروع کرتے ہیں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ہر طرف پاک فوج قدم بڑھاؤ ہم آپ کے ساتھ ہیں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے اور اس کے بعد ہر شھر ہر سڑک ہر گلی ہر محلے کے چوک پر ہر گھر کے پاس ہر گاڑی پر ہر طرف پاک فوج کی حمایت پوسٹر اویزہ کریں لکھیں لکھ سکتے ہو لکھو بینر لگا سکتے ہو لگاؤ جو آپ کے بس میں ہے آپ کھڑے ہو کر ویڈیو بنا سکتے ہو بناؤ ایک ہو بناؤ 10 ہو بناؤ ہزاروں ہو بناؤ مل کر بناؤ اکیلے بناؤ بچوں سے بناؤ بزرگوں سے بنواؤ خاص طور پر نوجوان گلی محلے کے ایک جھنڈ کی شکل میں ایک پاور بن جائیں"

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا بیرونی طاقتوں کو اور ان کے اندرونی خوارج ایجنٹوں کو جو ہمیں انتشار میں فساد میں خونریزی میں معاشی قتل عام میں ہر وہ تباہی بربادی مایوسی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو شٹ اپ کال ملے گی اور ان کے حوصلے ٹوٹیں گے اور یہ بہترین انتقام ہے دشمن کو روکنے کے لیے فساد انتشار کو ختم کرنے کے لیے بہترین طریقہ ہے"

مجھے کوئ بھی نہیں جانتا۔میں اور میرے کام دنیا کی نظروں سے ہمیشہ ہی اوجھل رہتےہیں ہو سکتا کہ میں آپ کے آس پاس ہی کہیں موج...
17/07/2024

مجھے کوئ بھی نہیں جانتا۔

میں اور میرے کام دنیا کی نظروں سے ہمیشہ ہی اوجھل رہتے

ہیں ہو سکتا کہ میں آپ کے آس پاس ہی کہیں موجود ہوں کیمرہ اٹھائے خبروں کی تالاش میں بھاگتا ہوا کوئ صحافی

ہوں

کلاس میں پڑھتا ہوا کوئ پروفیسر ہوں

ہوں یا وہ فقیر جو ایک عرصے سے فوجی تنصیبات کے آس پاس ہی نظر رکھتا ہوا کوئی ملنگ یا پھر برطانیہ اور امریکہ جانے والے بزنس مین میں سے بھی کوئ

سکتا

ہو

ہوں

یا آپ ہی کی مدرسے کا کوئ قاری یا پھر آپ ہی کی مسجد کا امام بھی تو ہو سکتا

ہوں

ہو سکتا کہ ہے میں کسی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ہوا کسی گہری سوچ میں غرق ایک ہیکر بھی تو ہو سکتا ہوں

ہوں یا پھر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی تو ہو سکتا ایجنٹ جاسوس مخبر دنيا فقط مجھے انہیں ناموں سے ہی جانتی ہے لیکن میں اپنے دشمنوں میں گھل مل جاتا ہوں . ہر صبح ہر شام ہر رات ہر دن ہر گلی ہر موڑ ہر جگہ ہر وقت مجھے کوئی بھی نہیں ڈھونڈ سکتا کوئ بھی مجھ تک نہیں پہنچ سکتا کوئی بھی مجھے نہیں دیکھ سکتا کوئ بھی مجھے نہیں پہچان سکتا

میری شناخت بدلتی رہتی ہے گھات لگاتا رہتا ہوں میں اور انجانے میں ہی اپنے دشمنوں کی گردنیں دبوچ لیتا ہوں

ارے جب تک دشمنوں کو میری سمجھ آتی ہے میں اپنا کام مکمل کر کے اس کی پہنچ سے بہت دور جا چکا ہوتا ہوں

بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی انجان مشن پر .

انجان موڑ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انجان گلی میں میں مارا جاتا ہوں

لیکن کسی کو میری موت کی خبر تک نہیں ہوتی جیسے پت جھڑ میں پیڑ سے سوکھا ہوا پتا زمین پر آ گرا ہو کسی طرح مٹی میں چپکے سے دفنا دیا جاتا ہوں
اگر زندہ بچ جاؤں تو دشمن کی کسی کال کوٹھری میں اپنی موت کا انتظار کرتا رہتا ہوں

اور میرے لوگ میرے نام اور میرے کام سے بے خبر رہتے ہیں

کبھی نہیں جانتے کہ یہ کون تھا کہاں سے آیا تھا کیوں آیا تھا کس لیے آیا تھا کس کے لیے آیا تھا

کب آیا تھا اور کہاں چلا گیا ارے مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرا نام اور میرا کام جانے کیونکہ میں پاکستان ہوں اور میں پاکستان کی دفاع کی آخری لکیر ہوں ہاں میں آئ ایس آئ ہوں

Address

Model Town
Quetta
87300

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when New Pakistan zindabad movement-central Balochistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share