09/01/2025
سنجدی کوئلہ کان دھماکہ، 12 کانکن پھنس گئے ریسکیو آپریشن جاری
عبدالحکیم مجاہد رہنما نیشنل لیبر فیڈریشن
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 40 کلومیٹر دور سنجدی کے علاقے میں کوئلے کی ایک کان میتھین گیس کے دھماکے کے باعث منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں 12 کان کن کان کے اندر پھنس گئے۔
ریسکیو ٹیمیں متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی ہیں اور مزدوروں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم ابتک کانکنوں کو نکالا نہیں جاسکا ہے۔
یاد رہے کہ اکثر اوقات بلوچستان میں کوئلہ حادثات کے واقعات پیش آتے ہیں جہاں گذشتہ سال بھی کوئلے کی کانوں میں حادثات کے کئی واقعات پیش آئے، صوبائی محکمہ معدنیات کے مطابق، 2024 میں 46 حادثات کے نتیجے میں 82 کان کن جان کی بازی ہارگئے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کے کئی منصوبے جاری ہیں، جن میں ہزاروں مزدور کام کر رہے ہیں، ان میں بلوچستان کے مقامی مزدوروں کے علاوہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی شامل ہیں۔
ان کانوں میں اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی کان کن کی جان چلی جاتی ہے۔
کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی سب سے بڑی و نمائندہ تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی آوز و دیگر تنظیمیں ان حادثات کی ذمہ داری ناکافی سہولیات اور ناقص حفاظتی سامان پر ڈالتی ہیں، جو کان کنوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ جس سے ہر سال سینکڑوں مزدور جان بحق ہو جاتے ہیں جو کہ المیہ سے کم نہیں اور حکومت کیلئے سوالیہ نشان و لحہ فکریہ ہے
بدقسمتی سے بلوچستان میں امن و امان کے دگرگوں کے صورتحال ہیں جسمیں میں بھی مزدوروں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے گزرے ہوئے سال مزدور طبقے کیلئے انتہائی غمزدہ سال ثابت ہوا جسمیں مقامی و غیر مقامی درجنوں کان کنوں کو مختلف واقعات میں شہید کیا گیا خاص کر دکی میں بیک وقت بیس سے زائد مزدور شہید کے گئے ان حالات میں امن و امان کیساتھ ساتھ دیگر سہولیات میسر و فراہم نہ ہو اور حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو جیسے ہزاروں کان کن اپنے علاقوں میں چلے گئے مزید بھی سہولیات و تحفظ نہ ٹن ملنے کے صورت میں مزدور جانے پر مجبور ہونگے جو کہ کوئلہ کاروبار کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگی اور بلوچستان میں چونکہ پہلے سے بے روزگاری ہے مزید لوگ بے روزگار ہو جائیں اور ہر کاروبار کو متاثر کریں گے
لہذا موجودہ صوبائ و وفاقی حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور ایسے واقعات کے روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہیے اور بہتر سے بہتر سہولیات اور امن و امان کو برقرار رکھ کر مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ کوئلہ کان کنی کے صنعت کو درپیش خطرات کا خاتمہ کیا جاسکے
مزدور تنظیموں کا کہنا ہے حکام کو ان واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اور بہتر حفاظتی انتظامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔سنجدی کوئلہ کان دھماکہ، 12 کانکن پھنس گئے ریسکیو آپریشن جاری
عبدالحکیم مجاہد رہنما نیشنل لیبر فیڈریشن
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 40 کلومیٹر دور سنجدی کے علاقے میں کوئلے کی ایک کان میتھین گیس کے دھماکے کے باعث منہدم ہو گئی، جس کے نتیجے میں 12 کان کن کان کے اندر پھنس گئے۔
ریسکیو ٹیمیں متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی ہیں اور مزدوروں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم ابتک کانکنوں کو نکالا نہیں جاسکا ہے۔
یاد رہے کہ اکثر اوقات بلوچستان میں کوئلہ حادثات کے واقعات پیش آتے ہیں جہاں گذشتہ سال بھی کوئلے کی کانوں میں حادثات کے کئی واقعات پیش آئے، صوبائی محکمہ معدنیات کے مطابق، 2024 میں 46 حادثات کے نتیجے میں 82 کان کن جان کی بازی ہارگئے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کے کئی منصوبے جاری ہیں، جن میں ہزاروں مزدور کام کر رہے ہیں، ان میں بلوچستان کے مقامی مزدوروں کے علاوہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی شامل ہیں۔
ان کانوں میں اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی کان کن کی جان چلی جاتی ہے۔
کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی سب سے بڑی و نمائندہ تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی آوز و دیگر تنظیمیں ان حادثات کی ذمہ داری ناکافی سہولیات اور ناقص حفاظتی سامان پر ڈالتی ہیں، جو کان کنوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ جس سے ہر سال سینکڑوں مزدور جان بحق ہو جاتے ہیں جو کہ المیہ سے کم نہیں اور حکومت کیلئے سوالیہ نشان و لحہ فکریہ ہے
بدقسمتی سے بلوچستان میں امن و امان کے دگرگوں کے صورتحال ہیں جسمیں میں بھی مزدوروں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے گزرے ہوئے سال مزدور طبقے کیلئے انتہائی غمزدہ سال ثابت ہوا جسمیں مقامی و غیر مقامی درجنوں کان کنوں کو مختلف واقعات میں شہید کیا گیا خاص کر دکی میں بیک وقت بیس سے زائد مزدور شہید کے گئے ان حالات میں امن و امان کیساتھ ساتھ دیگر سہولیات میسر و فراہم نہ ہو اور حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو جیسے ہزاروں کان کن اپنے علاقوں میں چلے گئے مزید بھی سہولیات و تحفظ نہ ٹن ملنے کے صورت میں مزدور جانے پر مجبور ہونگے جو کہ کوئلہ کاروبار کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگی اور بلوچستان میں چونکہ پہلے سے بے روزگاری ہے مزید لوگ بے روزگار ہو جائیں اور ہر کاروبار کو متاثر کریں گے
لہذا موجودہ صوبائ و وفاقی حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور ایسے واقعات کے روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہیے اور بہتر سے بہتر سہولیات اور امن و امان کو برقرار رکھ کر مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ کوئلہ کان کنی کے صنعت کو درپیش خطرات کا خاتمہ کیا جاسکے
مزدور تنظیموں کا کہنا ہے حکام کو ان واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اور بہتر حفاظتی انتظامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔