25/10/2023
مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے
یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔
ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔
ذکریا الرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔
جابر ابن حیان
جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان کا سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔
جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔
ڈاکٹر عبدالسلام
معروف پاکستانی ماہر طبیعات ڈاکٹر عبدالسلام ۔جو نظریہ علم طبیعات کے حوالے سے بیسویں صدی کی اہم شخصیت ہیں۔ پاکستان کے وہ واحد سائنسدان ہیں جنہیں 1979ء میں طبیعات کے شعبے میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام دو امریکی سائنسدانوں شیلڈن لی اور سٹیون وینبرگ کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز کے اعزازات عطا کئے تھے۔ 22 ممالک نے اپنے اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو 36 ممالک کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دی گئیں, ڈاکٹر عبدالسلام 1960ء سے 1974ء تک حکومت پاکستان کی جانب سے مشیر سائنس کے عہدے پر بھی فائز رہے. ڈاکٹر صاحب پاکستان میں سائنس کی بنیادیں رکھنے والے اشخاص میں ہیں لیکن 1974ء میں عقیدت کی بنیاد پر ان کا مسلم تشخص چھینا گیا ۔ جس کا ان کو ساری زندگی قلق رہا ۔ ہم نے پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو دھتکار دیا۔ جبکہ ڈاکٹرالسلام نے وصیت کی تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے نوبیل انعام کو پاکستان بھیج دیا جائے۔
جو آج بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ڈاکٹرسلام کو اَسی کی دہائی میں ایک تنظیم نے پاکستان میں لیکچر کی دعوت دی لیکن مذہبی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لہٰذا ان کا دورہ منسوخ ہو گیا اور بھارت کی تیرہ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر السلام کو لیکچرز کی دعوت دے دی۔ اس نے پاکستانی شہریت کو آخر تک ترک نہیں کیا یہاں تک وہ دفن بھی اپنے ملک, آبائی علاقے میں ہوئے ۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دینے کا اہم سبب ان کا گروہ مسلح جہاد کو حرام قرار دیتا تھا اور بقایا تمام مسلم گروہ اسے جائز سمجھتے تھے اور حکمران اشرافیہ , عالمی سامراج اس جہاد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاریخ کی اس اہم شخصیت کا اب پاکستان میں ذکر کم ہی ملتا ہے ۔ اہل علم و ہنرمند افراد کی ایسی "قدر دانی" اور علم دشمنی کا سلسلہ ہمارے ہاں آج بھی زور وشور سے جاری ہے۔