
15/07/2025
تیسرا نظمیہ مجموعہ:
بہت جلد ان شاءاللہ
۔
میں نے اپنے ادبی سفر میں کسی کا سر کچل کر آگے بڑھنے کی کوشش کبھی نہیں کی البتہ اپنا سر بچانے کی ناکام کوشش میں ضرور مصروف رہا ۔۔کئی ادبی تنظیموں میں کام کیا لیکن شاعری ہی کو ادب کی خدمت جانا ۔۔
2013 میں نظمیہ مجموعہ " کامنی' شائع ہوا اور پزیرائی بھی حاصل ہوئی جس میں تخیلاتی رومانی کردار کے گرد میرے تخلیقی اور لسانی تجربات گھومتے ہیں ۔اس کی اشاعت کے بعد تشنگی میں مزید اضافہ ہوا ۔دوست جانتے ہیں کہ میں کسی دوڑ کا حصہ نہیں ۔ہمیشہ دوسروں کو ہی اپنے آپ سے بہتر جانا ۔ہاں! عصری رجحانات دیکھتے ہوئے کچھ اختلافات ضرور ہیں لیکن ان کا اظہار بھی نہیں کیا ۔لیکن اپنے راستے پر ضرور گامزن ہوں۔
2013 سے لے کر 2024 تک کئی مسائل کا سامنا کیا ۔کبھی شاعری مجھ سے ناراض ہوئی اور کبھی میں نے شاعری کو اپنے پاس آنے نہیں دیا ۔انسان ہونے کے ناطے کچھ روایات سے میں نے بھی انحراف نہیں کیا ۔جیسے لاہور پر شعر مشہور ہو تو وہ لوگ بھی اسے اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہوتا ہی نہیں۔ایسے کام میں نے بھی بہت سارے کیے۔اس طویل دورانیے میں تخلیقی سطح پر میں نے بھی بہت کچھ لکھا لیکن تازہ مجموعے میں ان میں سے ایک نظم بھی شامل نہیں کی جو دوسروں کو دیکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔کوشش کی ہے کہ نوید ملک خالص شکل میں آپ کے سامنے آئے ۔
اسی دورانیے میں طویل نظم " منقوش" سے میری دوستی ہوئی ۔اس نظم سے بھی میری روحانی اور جذباتی وابستگی یے۔منقوش نے پہلے دل پر دستخط کیے اور پھر ذہن پر آمد کی بارش ہوئی اور ایک مہینے میں سو سے زیادہ صفحات لکھ ڈالے ۔کچھ عرصہ سانس لینے کے بعد معلوم ہوا کہ بہت سی باتیں دہرائی گئی ہیں ۔۔ایک سال کانٹ چھانٹ میں لگ گئے اور چالیس پینتالیس صفحات رہ گئے ۔نظم کو علامتی بنا کر اپنے پیغام کو چھپانا نہیں چاہتا تھا اس لیے ہر طرح کے قاری کی ذہنی سطح کو ملحوظِ خاطر رکھا ۔الحمد اللہ کامیاب ہوا ۔۔نظم اور غزل دونوں نے میرا قلم تھامے رکھا ہے۔2022 میں غزلیہ مجموعہ "تاب دان " شائع ہوا ۔اس میں بھی 10 سال کی منتخب غزلیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات سے زیادہ عزت دی اور دوستوں نے جو محبت دی میں اس قابل بھی نہیں ہوں ۔ قلمی سفر میں اپنے ہونے کا احساس دلانا ہر تخلیق کار کا حق ہے اور اسی حق کے تحت یہ سفر جاری رہے گا ۔
"ارتعاش" میں کوشش کی ہے کہ دھند سے باہر نکل کر دوستوں کو صاف نظر آؤں ۔میں محترم نصیر احمد ناصر ' محترم حمید شاہد ' محترم ڈاکٹر روش ندیم اور محترمہ پروین طاہر صاحبہ کا ممنون ہوں کہ وقت نکال کر اپنی آراء سے نوازا ۔ادب اور تنقید کے حوالے سے یہ قابلِ قدر ادبی اور اہم شخصیات ہیں ۔اسی کے ساتھ میں ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز کے سرپرست نوجوان مصنف شہزاد افق کا ممنون ہوں جن نے کتاب کی اشاعت کے لیے پورے خلوص کے ساتھ اہتمام کیا ۔