
03/05/2025
تحقیقی مضمون: ”عائشہ صدیقہ کے شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" کا تحقیقی جائزہ“
تجزیہ نگار: الزبہ مقرب خان
اردو شاعری میں نسائی شعور کی نمائندگی ہمیشہ سے اہم رہی ہے، اور عائشہ صدیقہ کی شاعری اس سلسلے کی ایک منفرد کڑی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" نہ صرف جذباتی گہرائی کا مظہر ہے بلکہ فکری اور فنی لحاظ سے بھی قابلِ توجہ ہے۔ اس مضمون میں ہم ان کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے۔
عائشہ صدیقہ کا تعارف اور ادبی خدمات:
عائشہ صدیقہ، جن کا اصل نام عائشہ غلام رسول ہے۔ 15 ستمبر 2002ء کو گوجرانوالہ، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے جامعہ مجدید اُم الکبیر سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی اور اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کا قلمی نام "عائشہ صدیقہ" اور تخلص "عاشی" ہے۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا اور ان کا پہلا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" 2024ء میں منظرِ عام پر آیا۔
عائشہ صدیقہ کی تحریریں مختلف اخبارات اور ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ انہیں بطور شریک مصنفہ کئی کتابوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جن میں "دریچہ حیات"، "قصص القران"، "کتاب الصحابیات"، "انسانیت کا فقدان"، "نروان"، "بحر سخن" اور "ادب، ادیب اور قلم" شامل ہیں۔ انہوں نے"سیرت النبی"،"فلسطین کی پکار"اور "خواہشوں کے درمیان" جیسی کتابیں بھی مرتب کی ہیں۔ وہ "ادب کی دنیا" ڈائجسٹ کی مدیرہ ہیں اور آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن میں جنرل سیکرٹری خواتین ونگ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" فنی و فکری جائزہ:
شاعری محض الفاظ کا حسین امتزاج نہیں، بلکہ ایک ایسا فکری و جمالیاتی اظہار ہے جو انسانی جذبات، معاشرتی تلخیوں، خوابوں، شکست و ریخت، اور روحانی لمس کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فنونِ لطیفہ میں وہ گوہرِ نایاب ہے جو فرد کو کائنات سے جوڑتا اور دل کی دھڑکن کو معنی عطا کرتا ہے۔
اسی سلسلے میں اکیسویں صدی میں جو نئی آوازیں ابھریں، اُن میں عائشہ صدیقہ کا نام بھی بڑی سرعت سے ابھرا ہے، جو ایک نوجوان شاعرہ ہونے کے باوجود گہرے فکری شعور، سادہ مگر مؤثر طرزِ اظہار، اور نسوانی احساس کی بھرپور نمائندگی کے باعث نمایاں نظر آتی ہیں۔
عائشہ صدیقہ کا پہلا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" اردو شاعری میں ایک نیا دریچہ کھولتا ہے۔ یہ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ احساسات، مشاہدات، سوالات، اور تسلیمات کا مرقع ہے۔ اس کتاب کو تین نمایاں حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1) نعتیہ و مذہبی موضوعات:
پہلے حصے میں دو نعتوں کے ساتھ "رمضان آگیا" اور "مسجد اقصیٰ" جیسے موضوعات پر نظمیں شامل کی گئی ہیں، جو مذہب و تہذیب کی خوشبو سے معطر ہیں۔
2)غزلیات:
دوسرے حصے میں 77 غزلیں شامل ہیں، جن میں عشق، سماج، تنہائی، خواب، بغاوت اور نسائی جذبات کا حسین امتزاج موجود ہے۔
3)نظمیں:
تیسرا حصہ 17 مختصر مگر معنی خیز نظموں پر مشتمل ہے، جن کا اسلوب روایتی اور جدید شاعری کے سنگم پر کھڑا نظر آتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کا اندازِ سخن نرم و نازک ہونے کے باوجود زندگی کے کٹھن سچائیوں سے نظریں نہیں چراتا۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں فکری پختگی اور جذبوں کی شدت نمایاں ہے۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں، کبھی مداوا تلاش کرتی ہیں اور کبھی محض خامشی کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔ ان کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کیجیے:
عاشی ہوئی کبھی کبھی یوں شعر و شاعری
جو حرف تھے غزل کے، وہ نظموں میں ڈھل گئے
(صفحہ 47)
یہ اسلوب اور شعری ارتقاء ہمیں کسی حد تک بیسویں صدی کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر کی یاد دلاتا ہے، جن کی شاعری میں بھی جذبات کی شدت، نسائی شناخت، اور جمالیاتی ندرت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اسی مجموعے میں عائشہ صدیقہ کا ایک شعر قاری کو جھنجھوڑ دیتا ہے:
پڑھتے ہیں شعر و شاعری حیرت کی بات ہے
میرے لیے تو آپ کا یہ بھی کمال ہے
(صفحہ 58)
یہ مصرع محض انکساری کا اظہار نہیں، بلکہ اُن سماجی رویوں پر بھی ایک لطیف تنقید ہے، جہاں عورت کی فکری بلندی کو تعجب سے دیکھا جاتا ہے۔
فنی محاسن اور عروضی شعور:
دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں شاعری اور نثر کے درمیان امتیاز کا ایک بنیادی وسیلہ "وزن" ہے، جو شاعری کی داخلی موسیقیت اور روانی کو قائم رکھتا ہے۔ عائشہ صدیقہ نے اس فنی لوازمے کی اہمیت کو بخوبی سمجھا اور اپنے شعری سفر میں عروضی قواعد و ضوابط کو سیکھنے کے لیے باقاعدہ طور پر استادِ سخن، ابوبکر فیض سے اصلاح لی۔ یہ ان کے فنی شعور، لگن اور سنجیدگی کی علامت ہے کہ انہوں نے صرف جذبات کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس اظہار کو ایک فنکارانہ قالب میں ڈھالنے کی سعی بھی کی۔ شاعری کے ابتدائی خواب کو تعبیر دینے کے لیے درپیش مشکلات، فکری کشمکش اور جذباتی تضاد کی عکاسی وہ خود یوں کرتی ہیں:
خیالوں میں خوابوں کو رکھا سجا کر
کہا دل سے کوئی جفا کر رہی ہوں
(صفحہ51)
ان کے مجموعے "چراغ بجھنے لگے" میں فنی سادگی کے ساتھ ساتھ معنوی گہرائی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ عائشہ صدیقہ کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات ہجر، اداسی، مایوسی، انا، وفا، خواب، خیال، آنسو، منظر اور آئنہ کو ایک منفرد اور تازہ انداز میں پیش کرتی ہیں، جہاں ہر لفظ ایک تجربے کا عکس بن کر قاری کے دل کو چھو جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں مایوسی کے بعد امید، تنہائی کے پس منظر میں وفا کا روشن تصور، اور خودی و قربانی کا لطیف توازن قائم رہتا ہے، جو انہیں موجودہ عہد کی ایک فکری شاعرہ کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ ان کا ایک خوبصورت شعر اس فکری امید کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے:
کریں گے تیری راہوں میں اُجالا
چراغوں میں دعا بن کر جلیں گے
یہ اشعار صرف لفظوں کا امتزاج نہیں، بلکہ ان میں عائشہ صدیقہ کی ذاتی زندگی، جذباتی دریا، اور فنی ہنر کی وہ گہرائیاں چھپی ہوئی ہیں جو ایک باشعور قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
عاٸشہ صدیقہ کی شاعری میں آفاقیت کا عنصر بہت گہرا اور نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں انسانیت کی وسیع اور پیچیدہ حالتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں صرف فرد یا مخصوص ماحول کی نہیں بلکہ پورے انسانیت کے جذبات، احساسات اور تجربات کو ایک ایسا انداز فراہم کرتی ہیں جو عالمی سطح پر ہر انسان سے جڑا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں انسان کے اندر کے تضادات، کیفیات اور جدوجہد کا گہرا اور سچا منظر دکھائی دیتا ہے۔
ان کی شاعری میں محبت، زندگی، ہجر، اُمید، اور مایوسی جیسے آفاقی موضوعات کا بیانیہ بھی منفرد طرز کا ہے جو قاری کو ایک خاص جذبے میں مبتلا کرتا ہے۔ عاٸشہ صدیقہ نے ان جذبات کو نئے زاویوں سے پیش کیا ہے، اور ان کے اشعار میں نہ صرف دنیا کی حقیقتوں کا عکس نظر آتا ہے بلکہ وہ انسانی نفسیات کی گہرائی کو بھی چھوتی ہیں۔ ان کے اشعار کی تفصیل میں، ہم ان کی شاعری کے تنوع اور گہرائی کو دیکھتے ہیں جو نہ صرف ایک فرد بلکہ ایک عالمی سطح پر سب انسانوں کی مشترکہ تجربات کو سامنے لاتی ہے۔مثال کے طور پر، ان کے اشعار میں یہ بات واضح ہوتی ہے:
بچھڑنے والا قدم کیوں ادھر نہیں رکھتا
یہ ہجر واپسی کی راہگزر نہیں رکھتا؟
(شعری مجموعہ”چراغ بجھنے لگے“ ص23)
یہ اشعار کسی بھی انسان کے دل کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ہجر کی شدت اور اس کا واپس لوٹنے کی راہ کی بندش، انسان کی داخلی دنیا کی حقیقت کو پیش کرتی ہے۔ اس میں آفاقیت کی جھلک یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی بات نہیں بلکہ ہر انسان کے دل میں چھپے ہوئے ہجر کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔
اسی طرح، ان کے دوسرے اشعار بطور مثال ملاحظہ ہو:
محبت کی کہانی لکھ رہی ہوں
قیامت کی نشانی لکھ رہی ہوں
جو اب تک زندگی گزری ہے میری
اسے میں امتحانی لکھ رہی ہوں
لا حاصل مرحلہ ہے یہ محبت
اسے میں جاودانی لکھ رہی ہوں
(شعری مجموعہ”چراغ بجھنے لگے“ ص 27)
یہ اشعار ایک فرد کی محبت کی کہانی کی پیچیدگی کو اور اس کی داخلی کشمکش کو اجاگر کرتے ہیں۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ محبت میں جو لا حاصل مراحل ہوتے ہیں وہ ہی اس کی حقیقت ہیں، اور ان مراحل کو ہی وہ اپنے کلام میں جاودانی کی شکل دے رہی ہیں۔ یہ دراصل انسانی جذبات کی اتھاہ گہرائی کو بیان کرتا ہے جو ہر انسان کسی نہ کسی وقت اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔
عاٸشہ صدیقہ کے کلام میں یہ گہری حقیقتیں، ایک منفرد اور خاص انداز میں بیان کی گئی ہیں، اور ان کی شاعری میں موجود کرداروں کی تنوعیت اور ہم کلامی آفاقیت کو مزید پختہ کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں جو سادگی اور پیچیدگی کا امتزاج ہے، وہ انسان کے اندر کے پیچیدہ جذبات، خیالات اور تجربات کو ایسی زبان میں پیش کرتا ہے جو ہر فرد کے دل کو چھو لیتی ہے۔
شاعرہ اپنے شاعرانہ ذوق کے بارے میں کہتی ہیں:
"مجھے خود اکثر یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کونسی چیز شاعری کی طرف کھینچ کر لے گٸی ہے۔ کبھی لوگوں کے رویے، کبھی نفسیات، کبھی کوٸی کتاب، کبھی کوٸی معاشرتی محرک۔ میں جھوٹے اشعار نہیں کہتی جب کبھی کچھ مختلف ہو تو شعر ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔"
یہ اقتباس ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عاٸشہ صدیقہ نے شاعری کو محض ایک تخلیقی عمل نہیں سمجھا بلکہ ان کی شاعری زندگی کے تمام معاملات، انسانی رویوں، اور جذبات کی کھوج ہے۔ ان کا کلام بہت سچی شاعری ہے، جو سچے تجربات اور حالات کی بنیاد پر مرتب ہوا ہے۔اس میں ان کی غزل کے آخری دو اشعار بہت اہم ہیں:
یہ جو دعوے ہیں ہواٶں میں بکھر جاٸیں گے
اپنی اوقات دکھاٶ گے چلے جاٶں گے
ساری دنیا الگ لڑکی تمہاری عاشی
مجھ کو دنیا سا بناٶ گے چلے جاٶ گے
(صفحہ 55)
یہ اشعار عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے دنیا کی حقیقتوں کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ انہیں ایک ایسی شکل میں ڈھال کر پیش کرتی ہیں جو ہر انسان کے تجربے سے جڑتی ہے۔
مختصراً، عاٸشہ صدیقہ کی شاعری نہ صرف فنی لحاظ سے اعلیٰ ہے بلکہ اس میں موجود آفاقی اور فلسفیانہ پہلو ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری انسانیت کی گہرائی، پیچیدگی اور حقیقتوں کو اتنی خوبصورتی اور سادگی کے ساتھ پیش کرتی ہے کہ یہ ہر فرد کے دل میں ایک الگ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
ہوا کے لہجے میں عاشی یہ بولتا ہے کون
کیا ہے کس نے مخاطب چراغ بجھنے لگے
اس تحقیقی جاٸزہ کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کی فنی خصوصیات اور فکری گہرائی نے اردو ادب میں ایک نیا رنگ بھرا ہے۔ ان کی تخلیقات میں جو بلیغ پیغام اور آفاقی سچائیاں پائی جاتی ہیں، وہ آج کے دور میں ہمیں اپنی حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں اور دنیا کو سمجھنے کی نئی روشنی فراہم کرتی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے، جو انسانیت کے جذبات اور تجربات کو نئے زاویے سے پیش کرتا ہے۔
لہٰذا، عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کا تحقیقی جاٸزہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کی تخلیقات اردو ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہیں، جو انسانی تجربات، جذبات، اور سماجی حقیقتوں کی گہرائی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح شاعری انسانی زندگی کی پیچیدگیوں اور اس کے داخلی جذبات کو سلیقے سے بیان کرتی ہے۔