ASI Publications Pakistan

ASI  Publications Pakistan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from ASI Publications Pakistan, Publisher, Rawalpindi.

تیسرا نظمیہ مجموعہ:بہت جلد ان شاءاللہ ۔میں نے اپنے ادبی سفر میں کسی کا سر کچل کر آگے بڑھنے کی کوشش کبھی نہیں کی البتہ اپ...
15/07/2025

تیسرا نظمیہ مجموعہ:
بہت جلد ان شاءاللہ
۔
میں نے اپنے ادبی سفر میں کسی کا سر کچل کر آگے بڑھنے کی کوشش کبھی نہیں کی البتہ اپنا سر بچانے کی ناکام کوشش میں ضرور مصروف رہا ۔۔کئی ادبی تنظیموں میں کام کیا لیکن شاعری ہی کو ادب کی خدمت جانا ۔۔
2013 میں نظمیہ مجموعہ " کامنی' شائع ہوا اور پزیرائی بھی حاصل ہوئی جس میں تخیلاتی رومانی کردار کے گرد میرے تخلیقی اور لسانی تجربات گھومتے ہیں ۔اس کی اشاعت کے بعد تشنگی میں مزید اضافہ ہوا ۔دوست جانتے ہیں کہ میں کسی دوڑ کا حصہ نہیں ۔ہمیشہ دوسروں کو ہی اپنے آپ سے بہتر جانا ۔ہاں! عصری رجحانات دیکھتے ہوئے کچھ اختلافات ضرور ہیں لیکن ان کا اظہار بھی نہیں کیا ۔لیکن اپنے راستے پر ضرور گامزن ہوں۔
2013 سے لے کر 2024 تک کئی مسائل کا سامنا کیا ۔کبھی شاعری مجھ سے ناراض ہوئی اور کبھی میں نے شاعری کو اپنے پاس آنے نہیں دیا ۔انسان ہونے کے ناطے کچھ روایات سے میں نے بھی انحراف نہیں کیا ۔جیسے لاہور پر شعر مشہور ہو تو وہ لوگ بھی اسے اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہوتا ہی نہیں۔ایسے کام میں نے بھی بہت سارے کیے۔اس طویل دورانیے میں تخلیقی سطح پر میں نے بھی بہت کچھ لکھا لیکن تازہ مجموعے میں ان میں سے ایک نظم بھی شامل نہیں کی جو دوسروں کو دیکھتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔کوشش کی ہے کہ نوید ملک خالص شکل میں آپ کے سامنے آئے ۔
اسی دورانیے میں طویل نظم " منقوش" سے میری دوستی ہوئی ۔اس نظم سے بھی میری روحانی اور جذباتی وابستگی یے۔منقوش نے پہلے دل پر دستخط کیے اور پھر ذہن پر آمد کی بارش ہوئی اور ایک مہینے میں سو سے زیادہ صفحات لکھ ڈالے ۔کچھ عرصہ سانس لینے کے بعد معلوم ہوا کہ بہت سی باتیں دہرائی گئی ہیں ۔۔ایک سال کانٹ چھانٹ میں لگ گئے اور چالیس پینتالیس صفحات رہ گئے ۔نظم کو علامتی بنا کر اپنے پیغام کو چھپانا نہیں چاہتا تھا اس لیے ہر طرح کے قاری کی ذہنی سطح کو ملحوظِ خاطر رکھا ۔الحمد اللہ کامیاب ہوا ۔۔نظم اور غزل دونوں نے میرا قلم تھامے رکھا ہے۔2022 میں غزلیہ مجموعہ "تاب دان " شائع ہوا ۔اس میں بھی 10 سال کی منتخب غزلیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات سے زیادہ عزت دی اور دوستوں نے جو محبت دی میں اس قابل بھی نہیں ہوں ۔ قلمی سفر میں اپنے ہونے کا احساس دلانا ہر تخلیق کار کا حق ہے اور اسی حق کے تحت یہ سفر جاری رہے گا ۔
"ارتعاش" میں کوشش کی ہے کہ دھند سے باہر نکل کر دوستوں کو صاف نظر آؤں ۔میں محترم نصیر احمد ناصر ' محترم حمید شاہد ' محترم ڈاکٹر روش ندیم اور محترمہ پروین طاہر صاحبہ کا ممنون ہوں کہ وقت نکال کر اپنی آراء سے نوازا ۔ادب اور تنقید کے حوالے سے یہ قابلِ قدر ادبی اور اہم شخصیات ہیں ۔اسی کے ساتھ میں ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز کے سرپرست نوجوان مصنف شہزاد افق کا ممنون ہوں جن نے کتاب کی اشاعت کے لیے پورے خلوص کے ساتھ اہتمام کیا ۔






عزم عالی شان                  تاریخ اردو ادب میں جن مہتمم بالشان شعراء و ادباء کے نام آتے ہیں ان میں افواج پاکستان سے تع...
15/07/2025

عزم عالی شان

تاریخ اردو ادب میں جن مہتمم بالشان شعراء و ادباء کے نام آتے ہیں ان میں افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والے قد آور لوگ بھی شامل ہیں۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، سابق صدر پاکستان نے اردو ادب کو ایک خوبصورت تصنیف دی۔ کرنل شفیق الرحمن ،کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری اردو ظرافت نگاری کے بڑے نام بن کر ابھرے۔ حضرت علامہ اقبال کے بعد اردو شاعری میں بلند مرتبہ اور عزت پانے والے فیض احمد فیض کا ابتدائی تعلق بھی افواج پاکستان سے تھا۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔صدیق سالک کی وہ تصنیف ہےجو دل دہلا اور انکھوں کو نم کر دیتی ہے۔ ان کا تعلق بھی بری فوج سے تھا۔ مختصرا" یہ کہ کپتان سے لے کر جنرل تک بڑے بڑے نام اردو ادب کی شہ سرخیوں میں محفوظ ہیں۔
ان بڑے ناموں میں ایک اور نام میرانی خاندان کے چشم و چراغ جنرل عبدالعزیز طارق میرانی کا بھی شامل ہو گیا ہے۔ عزم عالی شان ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے تو غلط نہ ہوگا۔ حوادث زمانہ کے تھپیڑے کھانے والا یہ شخص افواج پاکستان کا جنرل اور پھر سفیر پاکستان کے عہدے تک کیسے پہنچا یہ سب داستان عزم عالی شان میں محفوظ ہے۔ اگرچہ یہ مختصر خود نوشت ہے لیکن جنرل صاحب کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ اپنی مرحومہ والدہ محترمہ کا ذکر جس محبت اور نم آلود آنکھوں سے کیا ہے بہت کم لوگ اس طرح اپنی ماں کاذکر کر پاتے ہیں۔ یاد رفتگان، کچھ دوستوں کے قصے، جرنیلی کی یادیں اور سفارت کی بہاریں، یہ سب تصنیف میں سما گیا ہے۔عزم عالی شان خوشی اور غم کے جذبات اور واقعات سے عبارت ہے جس کے حسن بیاں اور حسن اسلوب میں قاری ڈوب ڈوب جاتا ہے۔
ایک جنرل کی یہ خود نوشت، اردو سوانح عمریوں میں یاد رکھی جائے گی

پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری



#کتاب
#ادبستان



”       از دل خیزد بر دل ریزد     “(دل سے نکلنے والی بات دل پر اثر کرتی ہے)جنرل عبدالعزیز طارق میرانی ؛ ملٹری کالج جہلم ...
15/07/2025

” از دل خیزد بر دل ریزد “
(دل سے نکلنے والی بات دل پر اثر کرتی ہے)

جنرل عبدالعزیز طارق میرانی ؛ ملٹری کالج جہلم سرائے عالمگیر میں میرا شاگرد تھا۔ کم گو، خاموش طبع، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کا حامل، باپ کے سایہ سے محروم، نامساعد حالات میں بیوہ ماں کا پروردہ، لیہ جیسے پس ماندہ علاقے سے آنے والا سادہ لوح مگر مصمم ارادے کا مالک، پاکستان آرمی میں جنرل کے عہدہ پر فائز ہو گا اور پھر ایک دن برونائی میں پاکستان کا سفیر بنے گا، کسی کے بھی وہم و گمان میں نہی ہوگا۔
جنرل کی زندگی بیشک ایک جہد مسلسل ہے۔ لیکن ان کو قدرت نے جو عالی شان مقام عطاء کیا وہ کلھم مرحوم والد اور بیوہ ماں کی قربانیوں اور دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
”عزمِ عالی شان“ جنرل کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ جس میں انہوں نے بچپن سے لے کر آخر تک اپنی یادوں ؛ والد صاحب کی وفات، مامتا کا لافانی جذبہ اور ایثار، غرض زندگی کا ہر پہلو لگی لپٹی رکھے بغیرسلیس مگرخوبصورت انداز میں بیان کر دیا ہے۔ کتاب کیا ہے۔ خوشی و غم کے جذبات و واقعات کی ویڈیو ہے۔ حسن بیاں اور حسن اسلوب منفرد ہے۔ میری کیفیت یہ تھی کہ جوں جوں پڑھتا گیا، تجسس بڑھتا گیا۔ بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں ایسے لگتا تھا جیسے شہتیر ہوں جو نہر کے پانی پر روانی سے بہتا جا رہا ہو۔
ریٹائیرمنٹ کے بعد اپنی عظیم والدہ محترمہ کے نام سے زہرہ میموریل سروسز ٹرسٹ قائم کرکے انہوں نے اپنی سوچ کو عمل میں بدل کر معاشرے میں انسانی خدمت کی ایک قابل تقلید مثال قائم کردی ہے۔
دعا ہے اللہ پاک جنرل کی کاوش ”عزم عالی شان “ کو مقبولیت تامہ عطا فرمائے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو جذبہ تازہ عطاء کرے اور زہرہ خاتون جیسی ماؤں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے۔ آمین

پروفیسر طارق محمود چوہدری








#ادبستان
#کتاب

حرف آغاز برائے طبعِ دوممجھے  بے حد خوشی ہے کہ ورائے اشک کا دوسرا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب جب شائع ہوئی تو مجھے ...
15/07/2025

حرف آغاز برائے طبعِ دوم

مجھے بے حد خوشی ہے کہ ورائے اشک کا دوسرا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب جب شائع ہوئی تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہاتھوں ہاتھ بک گئی اور فورًا ہی مزید مطالبہ آنا شروع ہو گیا، لیکن اسی اثنا میں اس پر مقالے بھی لکھے جانے لگے اور میری دوسری کتاب بھی تیاری کے مراحل میں تھی۔ پہلے یہی سوچا کہ ورائے اشک کا دوسرا ایڈیشن لے آؤں لیکن میرے قابل احترام اور قابل اعتماد احباب نے مشورہ دیا کہ دوسری کتاب لے آنی چاہیے۔ اگر بعد میں توفیق ہوئی تو اس کا دوسرا ایڈیشن لے آئیں،سو میں نے ایسا ہی کیا اور دوسری کتاب جیسے ہی آئی اس پر بھی مقالہ لکھا گیا۔ وہ بھی ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ اب دوسری کتاب کی بھی چند کاپیاں میرے پاس رہ گئی ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ جلد اس کا بھی دوسرا ایڈیشن نکالنا پڑے گا۔
میں اللہ کی شکرگزار ہوں کہ جس نے سب انتظام غیب سے کر دیا ہے اور ٹھیک دو سال بعد ورائے اشک کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

ہنی انصاری
26 مئی 2025ء

Contact the author to purchase the book.
+92 315 7627456







#ورائےاشک

کتاب دوستی ایک ایسی خوبصورت رفاقت ہے جو انسان کو تنہائی میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی۔ کتابیں صرف علم کا خزانہ ہی نہیں بلک...
15/07/2025

کتاب دوستی ایک ایسی خوبصورت رفاقت ہے جو انسان کو تنہائی میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی۔ کتابیں صرف علم کا خزانہ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین رہنما، مخلص دوست اور صابر استاد بھی ہیں۔ جو لوگ کتابوں سے محبت کرتے ہیں، وہ سوچنے، سمجھنے اور بہتر زندگی گزارنے کے ہنر سے آشنا ہوتے ہیں۔ کتابیں ہمیں دنیا بھر کی تہذیبوں، تجربات اور خیالات سے جوڑتی ہیں اور زندگی میں سکون، شعور اور بصیرت عطا کرتی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ جو کتابوں کا دوست ہوتا ہے، وہ کبھی محروم نہیں رہتا۔


#ادبستان

#کتاب



خامشی کی زباں کون جانے یہاںزندگی مسلسل جہدوجہد کا نام ہے۔ حالات کی کشتی میں سوار ہوکر منزل کی جانب روا ں دواں بڑھتے ہوئے...
03/07/2025

خامشی کی زباں کون جانے یہاں

زندگی مسلسل جہدوجہد کا نام ہے۔ حالات کی کشتی میں سوار ہوکر منزل کی جانب روا ں دواں بڑھتے ہوئے دکھ ،سکھ کامیابی و ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے ہمت،جرات سے صبر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے؛اذیتوں کےساتھ مسکراتے ہوئے چلنے کا نام زندگی ہے۔زندگی ایک آئینہ ہے اور ہم اپنے اپنے عکس اس میں تلاش کرتے ہیں۔میرا عکس کبھی فنا تو کبھی بقا کے دائرے میں ہوتا ہے۔اسی کشمکش میں، میں نے کئی منزلیں روندی ہیں اور کئی منزلیں تراشی ہیں۔
میں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی! کیونکہ مجھے میرے سوا کبھی کسی کا بھی سہارا میسر ہی نہ تھا؛یا پھر میں نے کبھی کسی سے توقع ہی وابستہ نہیں کی! کیونکہ قدم قدم پر سمجھوتہ کرنا میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔بڑی منزل کے مسافروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چلتے ہوئے اردگرد دوسروں سے اُمیدیں لگائیں اور اپنے نقوش منہدم ہونے کے لیے چھوڑ دیں۔
زندگی میں جب بھی میں تھک ہار جاتا ہوں میں پھر خود کو سہارا دیتا ہوں؛ اپنی مدد خود ہی کرتا ہوں؛ میں نے خود ہی اپنی حوصلہ افزائی کی، پھراپنے ہی کندھوں کاسہارالیااور پھر سے چلنا شروع کردیا ۔مجھے زندگی میں ہمیشہ نشیب وفراز کاسامنا رہا مگر میں کبھی مایوس نہیں ہواکیونکہ مایوسی کو ہمیشہ مجھے سے مل کر مایوس ہونا پڑا۔
ناکامیوں نےکئی بارمیرے پاؤں سے چمٹ کرمجھے روکنے کی کوشش کی، مگر ناکامی کو ہمیشہ کی طرح ہربار ناکامی کا ہی سامنا کرناپڑااور شکست سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ میں نےکبھی ناکامی کو اہمیت ہی نہیں دی اس لئے ناکامی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا؛ مگروقتاً فوقتاً ہمارا آمنا سامنا ضرور ہوتا ہے بعض اوقات ہم دونوں ساتھ بھی چلتے ہیں مگر جلد ایک دوسرے سے راہیں جدا ہوجاتی ہیں۔
میری خامی یہ ہے کہ میں کبھی وقت کےساتھ نہیں چلا اورخوبی یہ ہے کہ جب بھی مجھے ضرورت پڑی میں وقت کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلا ۔
وقت ہمیشہ اُس کے ساتھ چلتا ہے جو مایوسی کو پاؤں تلے روند کر بےغم ہو کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا ہے۔
میں نےجب سے خاموشی کو اپنا ساتھی بنا یا، دریا،سورج، پھول ،پرندے، خوشبو،ہوا،آسمان ، ستارے،تاریکی اور سورج کی کرنوں نے مجھے ہمیشہ رستہ دکھلایا ۔
مگر افسوس! مجھے ہجوم میں چلتے ہوئے مایوس ہونا پڑا کیونکہ انسان ملنا بہت مشکل تھا اگر کوئی حادثاتی طور پر ملا بھی سہی تو وہ بھی اس ہجوم سے کنارہ کشی کرنے کی جستجو میں تھا، نجانے کیوں یہ ہجوم کس سمت چل رہا ہے کس منزل کاراہی ہے جو مسلسل بے یقینی کےساتھ چل رہا ہے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح بیت جاتی ہے مگر منزل کا تعین نہیں ہو پایا۔ مجھےحالات نے دوران حصول ِتعلیم (میٹرک) یہ بات سمجھا دی کہ اگر آپ کی منزل ۱۰ میل پر آنی ہے اور آپ ۱۲ میل سفر طے کر چکے تو راستہ بدلناآپ پر فرض ہوچکا ہے کیونکہ غلط راستہ اختیار ہو چکا ہے ۔ ہم نجانے کتنی دہائیوں سے اپنے وجود کی تلاش میں رستوں کی دھول چاٹتے ہیں اور قدموں کو نہیں روکتے۔ نجانےکیوں ہم سب دوسروں میں انسانیت ڈھونڈتے ہیں جب کہ یہی توقع دوسرے بھی ہم سے کرتے ہیں ؛کیوں نہ ہم اپنے ہی اندر جھانک کر اس حقیقت کو تسلیم کریں اور بناوٹی دنیا ترک کر کے حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں نے جب سےخاموشی کو اپناساتھی بنایا گلے شکوؤں نےمجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور مجھے بھی اچھا لگا ۔میں نے خاموشی کو مستقل طور پر اپنا ساتھی بنالیا اور اسی کے ساتھ مجھ پر کئی رازوں نے اپنے نقوش کھُولنے شروع کیے۔ خاموشی اور میرے درمیاں کچھ بھی پوشیدہ نہیں اس لیے میں بہت سکون میں ہوں۔
آپ کے ہاتھوں میں میرا یہ پہلا شعری مجموعہ “آفاقِ اُفق” میری اور خاموشی کے درمیاں ہونے والی گفتگو ہے ۔ جس کو میری قلم نے نہایت ایمانداری سے ورق ورق سجایا اور اِن الفاظ میں چھپی اذیت ،دنیا میں رونما ہونے والے حادثات، انسانیت کی تذلیل سب کے سامنے الفاظ کی شکل میں لانے کی کوشش کی۔ اب میں اپنی خاموشی کو دیکھ رہا ہوں اور میری خاموشی آپ کو دیکھ رہی ہے۔ہمیں مقصدِ حیات سے شناسا ہونے کی ضرورت ہے۔اسی مقصد کے تحت میرے الفاظ کئی جگہوں پر آپ کے ذہن پر دستک دیں گے۔
عہدِ حاضر میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ہم سب کچھ جان کر انجان بن جاتے ہیں؛آخر کیوں ؟
میں ایک مسلمان ہوں اور جہاد مجھ پر فرض ہے میری طاقت میرا قلم ہے اور میں اپنےقلم سے اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔
مجھے علم نہیں کہ میری یہ کتاب آپ کے معیار پر پوار اترے گی یا نہیں ؛آپ اسے کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؛یہ آپ پر منحصر ہے ۔میں نے اسے لکھتے وقت یہ نہیں سوچا کہ آپ کیا سوچیں گے۔
کیونکہ میں جو دیکھتا ہوں؛وہ میں سوچتا ہوں اور جو میں سوچتا ہوں ؛میں وہی لکھتا ہوں ۔ہم سب ایک دوسرے کی راہوں میں کانٹے بچھاتے بچھاتے اس حال تک جا پہنچے ہیں کہ ہم سب کو کانٹوں سے گزرنا پڑ رہاہے۔
میں نے غزلیں، نظمیں، قطعات اور فردیات کا سہارا لیا۔اپنے اندر کی دنیا آپ تک پہنچانے کی کوشش کی۔اپنے جذبات کے رنگوں سے قرطاس سجانے کی کوشش کی۔
میرے باطن کا تعلق کبھی رومانیت سے جڑا، کبھی تہذیب سے، کبھی سیاست سے، کبھی مزاحمت سے۔جس جس سے میرا تعلق جڑتا گیا؛ میری شاعر ی نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے تخلیقی سفر تک لے گیا۔
میں نے اپنی کتاب کا مسودہ کئی بڑے شعراء کرام کو بھیجا اور مایوسی کا سامنا کرناپڑا کیونکہ کسی نے میری ذات کو محور بنا کر لکھااور کسی نے پتہ نہیں کس کو ۔کیونکہ کچھ تبصرے تو ایسے تھے جن کا نہ تو اس کتاب سے کوئی تعلق تھا ؛نہ ہی مجھ سے ۔ بعض ناقدین تو ایسے تھے جنہوں نے کتاب پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اورآنکھیں بند کر کے رسمی کلمات مجھےبھیج دیے۔ادبی دنیا میں اتنا تجربہ تو مجھے بھی ہو گیا ہے کہ کس قلم کا تعلق کس ذہن سے ہے اور کس ذہن سے تخلیق کار کو کہاں رکھنا ہے۔میں نے نہایت ادب کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا لیکن ان کے تبصروں کو کتاب میں شامل نہیں کیا۔اگر وہ احباب میری خامیاں میرے سامنے لاتے یا تجاویز دیتے تو مجھے اچھا لگتا۔مجھے تو اتنا ہی سمجھ آیا کہ شاید میری کتاب اُن کے تبصروں کے قابل نہیں یا وہ اس قابل نہیں کہ میری کتاب پر کچھ عنایت فرماتے۔
میں ان تمام لوگوں کا دل سے ممنون ہوں کہ جنہوں نے میرے شعری مجموعے کا مطالعہ کیا اور اپنے قیمتی آرا سے نوازا۔ جناب نسیم ِ سحر ، جناب نوید ملک، محترمہ جہاں آراتبسم صاحبہ ،ڈاکٹر تحسین بی بی اور محمد مظہر نیازی صاحب جیسی ادب شناس شخصیت شامل ہیں جنہوں نے میری خامشی کو سمجھا اور اس سے باتیں بھی کیں۔آپ بھی میری خاموشی پڑھیں اور میرے باطن کا مطالعہ کریں۔

شہزاداُفق ؔ

حرفِ آغازادب ایک آئینہ ہے،جو انسان کے اندرکےجذبات، احساسات اور معاشرتی کیفیات کو نہ صرف منعکس کرتا ہے بلکہ معاشرے کی تشک...
03/07/2025

حرفِ آغاز

ادب ایک آئینہ ہے،جو انسان کے اندرکےجذبات، احساسات اور معاشرتی کیفیات کو نہ صرف منعکس کرتا ہے بلکہ معاشرے کی تشکیل میں خاموش انقلابی کردار بھی ادا کرتا ہے۔خاص طور پر افسانہ، جو مختصر ہونے کے باوجود ایک کائنات اپنے اندر سمیٹے ہوتا ہے، زندگی کی تلخیوں، سچائیوں اور خوابوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔
زیرِنظر کتاب "ادبستان" اسی فکری اور تخلیقی سفر کا تسلسل ہے۔ اس میں شامل افسانے اور کہانیاں ہمارے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ادبی ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کرتی ہیں بلکہ قاری کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہیں۔
"ادبستان" میں شامل تخلیقات کو ملک بھر کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز،ابھرتے اور سنجیدہ لکھاریوں سے منتخب کیا گیا ہے۔ہر تحریراپنے اسلوب،فکر اور طرزِ بیان میں منفرد ہے۔ ان میں کہیں محبت کی مٹھاس ہے تو کہیں المیوں کی گونج؛ کہیں سماج کا نوحہ ہے تو کہیں انسانیت کی روشن کرن۔
یہ مجموعہ ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کی دیرینہ روایت کو برقراررکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے،جس کا مقصد نہ صرف زبان و ادب کی ترویج ہے بلکہ ادیبوں، کہانی کاروں اور تخلیق کاروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جہاں وہ اپنی بات مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے لا سکیں۔
ہم اس یقین کے ساتھ "ادبستان" قاری کے دل و دماغ پر مثبت اثر چھوڑے گا، کہ یہ محض کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ فکری سرمایہ ہے۔ ہم ان تمام لکھاریوں کے ممنون ہیں جنہوں نے اس ادبی کارواں میں اپنا حصہ ڈالا اور اپنی تحریروں سے اس کتاب کو زرخیز بنایا۔
آخر میں، ہم قاری سے یہی کہیں گے:
آئیے! ان کہانیوں کو صرف الفاظ نہ سمجھیں، بلکہ ان میں چھپے احساسات، سوالات اور تجربات کو محسوس کریں... اور خود سے بھی مکالمہ کریں۔

ادارہ
ادب سماج انسانیت فورم پاکستان

حرفِ آغازغالبؔ نے کیا خوب کہا ہے:کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہشعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھےمیں چاہتا ہوں کہ اپنے...
03/07/2025

حرفِ آغاز

غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

میں چاہتا ہوں کہ اپنے دل کا معاملہ آپ سب پر کھولوں اور اپنے خوابوں کے پرندے اُس جنگل میں آزاد کر دوں جہاں شکاری بھی ہیں اور محبت کرنے والے لوگ۔
مجھے اس بات کا اظہار کرنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میرے انتخاب نے مجھے کبھی رسوا نہیں کیا ؛اس لیے کہ میں نے انتخاب ہمیشہ خلوصِ نیت سے کیا ہے۔"ادب، ادیب اور قلم" میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف شعراء اور ادباء کے قلمی کاموں پر لکھے۔لکھے ہی نہیں بلکہ اندرون و بیرون ملک شائع بھی کروائے۔مضامین لکھتے ہوئے یہ میں نے بالکل بھی نہیں سوچا کہ کون سے مصنف کا تعلق کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔میرے نزدیک ہر قلم کار کا کام لائقِ تحسین ہے۔
موجودہ مادی پرستی کے دور میں جو لوگ قلم کے ساتھ اپنا رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں؛وہ قابلِ احترام ہیں۔یہ بات میرے لیے قابلِ فخر ہے کہ میرے توسط سے کسی شاعر یا ادیب کا کام اور نام دوسروں تک پہنچ رہا ہے۔ایسے ہی کئی منصوبے ہیں جو میں نے ترتیب دیے ؛کہیں نقصان بھی ہوا اور کہیں نہیں بھی؛لیکن حوصلہ نہیں ہارا۔
میں صحراؤں کا باسی اپنے خواب لے کر گلستاں میں آیا تو کئی مسائل کا سامنا بھی ہوا لیکن میں نے پروا نہیں کی۔
مجھے کانٹوں سے بھی گزرنا پڑا مگر میں نے پھولوں کی حفاظت میں دن رات ایک کیے۔
جو مضامین میں نے لکھے ہیں؛یہ شعراء اور ادباء اس سے زیادہ کے مستحق ہیں البتہ اپنے حصے کے اجالے بانٹنا میری ذمہ داری ہے۔
اس کتاب میں ان تمام لوگوں پر مضامین ہیں جو موجودہ ادبی منظر نامے میں ستاروں کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اِن کے علاوہ باقی احباب کا کام لائقِ تحسین نہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے

ان شاء زندگی رہی تو میں اپنا قلمی حق ادا کرتے ہوئے شعر و ادب کے گلستان کی آبیاری اپنی بساط کے مطابق ضرور کروں گا۔مجھے آپ سب کی دعاؤں اور محبتوں کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمتوں کے سائے میں پناہ دے اور محبت بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

تحقیقی مضمون: ”عائشہ صدیقہ کے شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" کا تحقیقی جائزہ“تجزیہ نگار: الزبہ مقرب خان اردو شاعری میں نسا...
03/05/2025

تحقیقی مضمون: ”عائشہ صدیقہ کے شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" کا تحقیقی جائزہ“
تجزیہ نگار: الزبہ مقرب خان

اردو شاعری میں نسائی شعور کی نمائندگی ہمیشہ سے اہم رہی ہے، اور عائشہ صدیقہ کی شاعری اس سلسلے کی ایک منفرد کڑی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" نہ صرف جذباتی گہرائی کا مظہر ہے بلکہ فکری اور فنی لحاظ سے بھی قابلِ توجہ ہے۔ اس مضمون میں ہم ان کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے۔

عائشہ صدیقہ کا تعارف اور ادبی خدمات:

عائشہ صدیقہ، جن کا اصل نام عائشہ غلام رسول ہے۔ 15 ستمبر 2002ء کو گوجرانوالہ، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے جامعہ مجدید اُم الکبیر سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی اور اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کا قلمی نام "عائشہ صدیقہ" اور تخلص "عاشی" ہے۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا اور ان کا پہلا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" 2024ء میں منظرِ عام پر آیا۔

عائشہ صدیقہ کی تحریریں مختلف اخبارات اور ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ انہیں بطور شریک مصنفہ کئی کتابوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جن میں "دریچہ حیات"، "قصص القران"، "کتاب الصحابیات"، "انسانیت کا فقدان"، "نروان"، "بحر سخن" اور "ادب، ادیب اور قلم" شامل ہیں۔ انہوں نے"سیرت النبی"،"فلسطین کی پکار"اور "خواہشوں کے درمیان" جیسی کتابیں بھی مرتب کی ہیں۔ وہ "ادب کی دنیا" ڈائجسٹ کی مدیرہ ہیں اور آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن میں جنرل سیکرٹری خواتین ونگ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" فنی و فکری جائزہ:

شاعری محض الفاظ کا حسین امتزاج نہیں، بلکہ ایک ایسا فکری و جمالیاتی اظہار ہے جو انسانی جذبات، معاشرتی تلخیوں، خوابوں، شکست و ریخت، اور روحانی لمس کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فنونِ لطیفہ میں وہ گوہرِ نایاب ہے جو فرد کو کائنات سے جوڑتا اور دل کی دھڑکن کو معنی عطا کرتا ہے۔

اسی سلسلے میں اکیسویں صدی میں جو نئی آوازیں ابھریں، اُن میں عائشہ صدیقہ کا نام بھی بڑی سرعت سے ابھرا ہے، جو ایک نوجوان شاعرہ ہونے کے باوجود گہرے فکری شعور، سادہ مگر مؤثر طرزِ اظہار، اور نسوانی احساس کی بھرپور نمائندگی کے باعث نمایاں نظر آتی ہیں۔

عائشہ صدیقہ کا پہلا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" اردو شاعری میں ایک نیا دریچہ کھولتا ہے۔ یہ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ احساسات، مشاہدات، سوالات، اور تسلیمات کا مرقع ہے۔ اس کتاب کو تین نمایاں حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

1) نعتیہ و مذہبی موضوعات:
پہلے حصے میں دو نعتوں کے ساتھ "رمضان آگیا" اور "مسجد اقصیٰ" جیسے موضوعات پر نظمیں شامل کی گئی ہیں، جو مذہب و تہذیب کی خوشبو سے معطر ہیں۔
2)غزلیات:
دوسرے حصے میں 77 غزلیں شامل ہیں، جن میں عشق، سماج، تنہائی، خواب، بغاوت اور نسائی جذبات کا حسین امتزاج موجود ہے۔
3)نظمیں:
تیسرا حصہ 17 مختصر مگر معنی خیز نظموں پر مشتمل ہے، جن کا اسلوب روایتی اور جدید شاعری کے سنگم پر کھڑا نظر آتا ہے۔

عائشہ صدیقہ کا اندازِ سخن نرم و نازک ہونے کے باوجود زندگی کے کٹھن سچائیوں سے نظریں نہیں چراتا۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں فکری پختگی اور جذبوں کی شدت نمایاں ہے۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں، کبھی مداوا تلاش کرتی ہیں اور کبھی محض خامشی کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔ ان کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کیجیے:

عاشی ہوئی کبھی کبھی یوں شعر و شاعری
جو حرف تھے غزل کے، وہ نظموں میں ڈھل گئے
(صفحہ 47)

یہ اسلوب اور شعری ارتقاء ہمیں کسی حد تک بیسویں صدی کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر کی یاد دلاتا ہے، جن کی شاعری میں بھی جذبات کی شدت، نسائی شناخت، اور جمالیاتی ندرت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اسی مجموعے میں عائشہ صدیقہ کا ایک شعر قاری کو جھنجھوڑ دیتا ہے:

پڑھتے ہیں شعر و شاعری حیرت کی بات ہے
میرے لیے تو آپ کا یہ بھی کمال ہے
(صفحہ 58)

یہ مصرع محض انکساری کا اظہار نہیں، بلکہ اُن سماجی رویوں پر بھی ایک لطیف تنقید ہے، جہاں عورت کی فکری بلندی کو تعجب سے دیکھا جاتا ہے۔

فنی محاسن اور عروضی شعور:
دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں شاعری اور نثر کے درمیان امتیاز کا ایک بنیادی وسیلہ "وزن" ہے، جو شاعری کی داخلی موسیقیت اور روانی کو قائم رکھتا ہے۔ عائشہ صدیقہ نے اس فنی لوازمے کی اہمیت کو بخوبی سمجھا اور اپنے شعری سفر میں عروضی قواعد و ضوابط کو سیکھنے کے لیے باقاعدہ طور پر استادِ سخن، ابوبکر فیض سے اصلاح لی۔ یہ ان کے فنی شعور، لگن اور سنجیدگی کی علامت ہے کہ انہوں نے صرف جذبات کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس اظہار کو ایک فنکارانہ قالب میں ڈھالنے کی سعی بھی کی۔ شاعری کے ابتدائی خواب کو تعبیر دینے کے لیے درپیش مشکلات، فکری کشمکش اور جذباتی تضاد کی عکاسی وہ خود یوں کرتی ہیں:

خیالوں میں خوابوں کو رکھا سجا کر
کہا دل سے کوئی جفا کر رہی ہوں
(صفحہ51)

ان کے مجموعے "چراغ بجھنے لگے" میں فنی سادگی کے ساتھ ساتھ معنوی گہرائی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ عائشہ صدیقہ کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات ہجر، اداسی، مایوسی، انا، وفا، خواب، خیال، آنسو، منظر اور آئنہ کو ایک منفرد اور تازہ انداز میں پیش کرتی ہیں، جہاں ہر لفظ ایک تجربے کا عکس بن کر قاری کے دل کو چھو جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں مایوسی کے بعد امید، تنہائی کے پس منظر میں وفا کا روشن تصور، اور خودی و قربانی کا لطیف توازن قائم رہتا ہے، جو انہیں موجودہ عہد کی ایک فکری شاعرہ کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔ ان کا ایک خوبصورت شعر اس فکری امید کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے:

کریں گے تیری راہوں میں اُجالا
چراغوں میں دعا بن کر جلیں گے

یہ اشعار صرف لفظوں کا امتزاج نہیں، بلکہ ان میں عائشہ صدیقہ کی ذاتی زندگی، جذباتی دریا، اور فنی ہنر کی وہ گہرائیاں چھپی ہوئی ہیں جو ایک باشعور قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

عاٸشہ صدیقہ کی شاعری میں آفاقیت کا عنصر بہت گہرا اور نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں انسانیت کی وسیع اور پیچیدہ حالتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں صرف فرد یا مخصوص ماحول کی نہیں بلکہ پورے انسانیت کے جذبات، احساسات اور تجربات کو ایک ایسا انداز فراہم کرتی ہیں جو عالمی سطح پر ہر انسان سے جڑا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں انسان کے اندر کے تضادات، کیفیات اور جدوجہد کا گہرا اور سچا منظر دکھائی دیتا ہے۔

ان کی شاعری میں محبت، زندگی، ہجر، اُمید، اور مایوسی جیسے آفاقی موضوعات کا بیانیہ بھی منفرد طرز کا ہے جو قاری کو ایک خاص جذبے میں مبتلا کرتا ہے۔ عاٸشہ صدیقہ نے ان جذبات کو نئے زاویوں سے پیش کیا ہے، اور ان کے اشعار میں نہ صرف دنیا کی حقیقتوں کا عکس نظر آتا ہے بلکہ وہ انسانی نفسیات کی گہرائی کو بھی چھوتی ہیں۔ ان کے اشعار کی تفصیل میں، ہم ان کی شاعری کے تنوع اور گہرائی کو دیکھتے ہیں جو نہ صرف ایک فرد بلکہ ایک عالمی سطح پر سب انسانوں کی مشترکہ تجربات کو سامنے لاتی ہے۔مثال کے طور پر، ان کے اشعار میں یہ بات واضح ہوتی ہے:

بچھڑنے والا قدم کیوں ادھر نہیں رکھتا
یہ ہجر واپسی کی راہگزر نہیں رکھتا؟
(شعری مجموعہ”چراغ بجھنے لگے“ ص23)

یہ اشعار کسی بھی انسان کے دل کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ہجر کی شدت اور اس کا واپس لوٹنے کی راہ کی بندش، انسان کی داخلی دنیا کی حقیقت کو پیش کرتی ہے۔ اس میں آفاقیت کی جھلک یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی بات نہیں بلکہ ہر انسان کے دل میں چھپے ہوئے ہجر کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔

اسی طرح، ان کے دوسرے اشعار بطور مثال ملاحظہ ہو:

محبت کی کہانی لکھ رہی ہوں
قیامت کی نشانی لکھ رہی ہوں
جو اب تک زندگی گزری ہے میری
اسے میں امتحانی لکھ رہی ہوں
لا حاصل مرحلہ ہے یہ محبت
اسے میں جاودانی لکھ رہی ہوں

(شعری مجموعہ”چراغ بجھنے لگے“ ص 27)

یہ اشعار ایک فرد کی محبت کی کہانی کی پیچیدگی کو اور اس کی داخلی کشمکش کو اجاگر کرتے ہیں۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ محبت میں جو لا حاصل مراحل ہوتے ہیں وہ ہی اس کی حقیقت ہیں، اور ان مراحل کو ہی وہ اپنے کلام میں جاودانی کی شکل دے رہی ہیں۔ یہ دراصل انسانی جذبات کی اتھاہ گہرائی کو بیان کرتا ہے جو ہر انسان کسی نہ کسی وقت اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔

عاٸشہ صدیقہ کے کلام میں یہ گہری حقیقتیں، ایک منفرد اور خاص انداز میں بیان کی گئی ہیں، اور ان کی شاعری میں موجود کرداروں کی تنوعیت اور ہم کلامی آفاقیت کو مزید پختہ کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں جو سادگی اور پیچیدگی کا امتزاج ہے، وہ انسان کے اندر کے پیچیدہ جذبات، خیالات اور تجربات کو ایسی زبان میں پیش کرتا ہے جو ہر فرد کے دل کو چھو لیتی ہے۔

شاعرہ اپنے شاعرانہ ذوق کے بارے میں کہتی ہیں:
"مجھے خود اکثر یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کونسی چیز شاعری کی طرف کھینچ کر لے گٸی ہے۔ کبھی لوگوں کے رویے، کبھی نفسیات، کبھی کوٸی کتاب، کبھی کوٸی معاشرتی محرک۔ میں جھوٹے اشعار نہیں کہتی جب کبھی کچھ مختلف ہو تو شعر ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔"

یہ اقتباس ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عاٸشہ صدیقہ نے شاعری کو محض ایک تخلیقی عمل نہیں سمجھا بلکہ ان کی شاعری زندگی کے تمام معاملات، انسانی رویوں، اور جذبات کی کھوج ہے۔ ان کا کلام بہت سچی شاعری ہے، جو سچے تجربات اور حالات کی بنیاد پر مرتب ہوا ہے۔اس میں ان کی غزل کے آخری دو اشعار بہت اہم ہیں:

یہ جو دعوے ہیں ہواٶں میں بکھر جاٸیں گے
اپنی اوقات دکھاٶ گے چلے جاٶں گے
ساری دنیا الگ لڑکی تمہاری عاشی
مجھ کو دنیا سا بناٶ گے چلے جاٶ گے
(صفحہ 55)

یہ اشعار عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے دنیا کی حقیقتوں کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ انہیں ایک ایسی شکل میں ڈھال کر پیش کرتی ہیں جو ہر انسان کے تجربے سے جڑتی ہے۔

مختصراً، عاٸشہ صدیقہ کی شاعری نہ صرف فنی لحاظ سے اعلیٰ ہے بلکہ اس میں موجود آفاقی اور فلسفیانہ پہلو ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری انسانیت کی گہرائی، پیچیدگی اور حقیقتوں کو اتنی خوبصورتی اور سادگی کے ساتھ پیش کرتی ہے کہ یہ ہر فرد کے دل میں ایک الگ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔

ہوا کے لہجے میں عاشی یہ بولتا ہے کون
کیا ہے کس نے مخاطب چراغ بجھنے لگے

اس تحقیقی جاٸزہ کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کی فنی خصوصیات اور فکری گہرائی نے اردو ادب میں ایک نیا رنگ بھرا ہے۔ ان کی تخلیقات میں جو بلیغ پیغام اور آفاقی سچائیاں پائی جاتی ہیں، وہ آج کے دور میں ہمیں اپنی حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں اور دنیا کو سمجھنے کی نئی روشنی فراہم کرتی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے، جو انسانیت کے جذبات اور تجربات کو نئے زاویے سے پیش کرتا ہے۔

لہٰذا، عاٸشہ صدیقہ کی شاعری کا تحقیقی جاٸزہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کی تخلیقات اردو ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہیں، جو انسانی تجربات، جذبات، اور سماجی حقیقتوں کی گہرائی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ "چراغ بجھنے لگے" ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح شاعری انسانی زندگی کی پیچیدگیوں اور اس کے داخلی جذبات کو سلیقے سے بیان کرتی ہے۔

کتاب "نشانِ منزل، لہو کے قطرے" نے اپنی بے مثال سچائی اور گہرے اثرات کے باعث نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ...
27/04/2025

کتاب "نشانِ منزل، لہو کے قطرے" نے اپنی بے مثال سچائی اور گہرے اثرات کے باعث نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت حاصل کی ہے۔ پہلی اشاعت کے 1000 نسخے قارئین کے دلوں میں جگہ بنانے کے بعد تیزی سے فروخت ہو چکے ہیں، اور الحمدللہ، اب یہ کتاب دوسری اشاعت کے مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔
یہ کتاب ایک ایسی المناک اور ایمان افروز داستان ہے، جو دل کی گہرائیوں کو چھو لیتی ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی معصوم لڑکی کی ہے جس نے آنکھ ایک قادیانی گھرانے میں کھولی — ایک ایسا ماحول جہاں دنیا بھر کی آسائشیں اور راحتیں موجود تھیں، لیکن روحانی سچائی کی خوشبو ناپید تھی۔ اس کی بڑی بہن نے جب حق کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، تو اسے بےرحمی سے گولیوں سے شہید کر دیا گیا۔ اس ظلم کے سائے میں پلنے والی یہ لڑکی محض 13 برس کی عمر میں اسلام کی خوشبو سے اس طرح مہک اٹھی کہ تمام تر خوف اور جبر کو پسِ پشت ڈال کر کلمہ پڑھا، اور راہِ حق اختیار کی۔ مگر اس روشنی کے انتخاب کی قیمت اسے وحشیانہ تشدد، اذیتوں اور ظلم کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
یہ داستان فقط ایک فرد کی نہیں بلکہ سچائی، قربانی، اور ایمان کے سفر کی ایسی گواہی ہے جو ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
یہ عظیم اور روح کو جھنجھوڑ دینے والی کتاب ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے، جو علم، سچائی اور انسانیت کے فروغ کی روشن علامت ہے۔ الحمدللہ، یہ کتاب اب مزید اشاعتوں کی جانب رواں دواں ہے، تاکہ سچائی کی یہ صدا مزید دلوں تک پہنچتی رہے۔
















ادب سماج انسانیت – ہمارا معیار، ہماری پہچان!اگر آپ اپنی کتاب، رسالہ، بروشر، یا کوئی بھی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو ...
03/04/2025

ادب سماج انسانیت – ہمارا معیار، ہماری پہچان!

اگر آپ اپنی کتاب، رسالہ، بروشر، یا کوئی بھی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز پاکستان آپ کے لیے حاضر ہے!

✅ معیاری پرنٹنگ – روایتی پرنٹنگ پریس اور جدید ڈیجیٹل پرنٹنگ کی مکمل سہولت
✅ بہترین ڈیزائننگ – دلکش سرورق اور پروفیشنل لے آؤٹ
✅ ہر زبان کی اشاعت–اردو،سرائیکی، سندھی، پشتو، ہندکو،پنجابی، ہندکو،پوٹھوہاری، گوجری،پہاڑی،میواتی، مانکیالی سمیت دیگر زبانوں میں
✅ سستی اور معیاری خدمات – آپ کا اعتماد، ہماری پہچان

آپ آئیے، ہم آپ کا خواب حقیقت میں بدلیں گے! ✨

📍 رابطہ کریں:
📞 Phone: 051-5184707 | 0312-5400326
📩 Email: [email protected]











#شاعری
#افسانہ
#ناول
#تنقید
#مضمون
#ڈرامہ
#سفرنامہ

#مکتوبات
#انشائیہ
#تحقیق
#ترجمہ
#خاکہ
#رپورتاژ


#اردو
#پنجابی
#سرائیکی
#سندھی
#بلوچی
#پشتو
#ہندکو
#براہوئی
#پوٹھوہاری
#گوجری
#بلتی
#شینا
#کشمیری
#چترالی
#ڈوگری

02/04/2025






ٰ








Address

Rawalpindi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ASI Publications Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to ASI Publications Pakistan:

Share

Category