AlJamiat

AlJamiat ماہنامہ الجمعیۃ راولپنڈی

05/05/2025

اسلام آباد: بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حالیہ کشیدگی کے پیش نظر پارلیمنٹ کے اہم اورحساس اجلاس کے موقع پرارباب اقتدار کی غیرسنجیدگی۔۔اور اہم حکومتی شخصیات کی عدم موجودگی پر قائد جمعیت دامت برکاتہم کاقومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ

03/05/2025

مرکزی جمعیۃاہلحدیث کےسربراہ پروفیسر ساجدمیر کی وفات پر
قائد جمعیۃ مولانافضل الرحمن دامت برکاتہم کا تعزیتی پیغام

پروفیسر ساجد میر صاحب کی وفات انتہائی دکھ ،صدمے اور قلق کا باعث بنی اورمیرے دل پرتو یہ خبرایک بجلی بن کر گری ہے۔ ایک ہفتہ قبل میں نے حال احوال پوچھنے کے لئے ان سےٹیلی فون پربات کی تو بڑی بے تکلفی کے ساتھ مجھ سے باتیں کیں، کھلکھلا کر ہنسے اور بتایا کہ کمر کاآپریشن ہوا ہے رفتہ رفتہ ٹھیک ہورہا ہوں۔آج جب یہ خبر ملی کہ وہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو وہ گفتگو ،ان کی آوازاور اس آوازمیں محبت، باربار دل کو چھو رہی ہے ، ایک بہت اچھا حق گو انسان اور دین اسلام پر غیرت کھانے والا ساتھی ہم سے جدا ہو گیا اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کے اعمال صالحہ کو میزان حسنات میں جگہ دے ۔وہ بھی انسان تھے ان سے کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی، اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے۔بیماری کی بڑی تکلیف اٹھا کر وہ اس دنیا سے گئے ، لاباس طہور ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ پرہمیں توکل ہے کہ ایسے بندوں کو اللہ تعالیٰ عزتوں سے نوازتا ہے ،جنتوں سے نوازتا ہے ، اللہ رب العزت ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ اور ان کے تمام پسماندگان بشمول ہمارےصبر جمیل عطافرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

16/04/2025

خیبرپختونخوا میں مائنز اینڈ منرلز بل کی مخالفت اور بلوچستان میں جےیوآئی کے بعض ایم پی ایز کا اس بل کی حمایت میں حق رائے دہی کا استعمال۔کیا جمعیۃ علماء اسلام کے قول وفعل میں تضاد ہے؟
حقائق جانئے قائد محترم کی اس گفتگو میں.

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق گورنر/وزیراعلی خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کی  ڈیرہ اسماعیل خان قائد جمعیت م...
04/04/2025

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق گورنر/وزیراعلی خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کی ڈیرہ اسماعیل خان قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ آمد

دونوں رہنماؤں نے قائدجمعیت کو عید کی مبارک باد دی۔اس موقع پر قومی سیاسی صورتحال پر بھی گفتگو ہوئ۔

ملاقات میں ضلعی امیرمولانا لطف الرحمن، مولانا عبید الرحمن، کفیل نظامی بھی شریک تھے

جمعیت علماء اسلام کےمرکزی رہنماسابق سنیٹر مولاناحافظ حسین احمدصاحب طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے،اناللہ واناالیہ راجع...
19/03/2025

جمعیت علماء اسلام کےمرکزی رہنماسابق سنیٹر مولاناحافظ حسین احمدصاحب طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے،اناللہ واناالیہ راجعون

17/03/2025

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کےامتحانات سےلےکرنتائج کی تیاری اوراعلان تک کےتمام مراحل بحسن وخوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے پر قائدجمعیت وسرپرست اعلی وفاق المدارس العربیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کامنتظمین وفاق بالخصوص صدر الوفاق حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ۔اور ناظم اعلی مولانامحمدحنیف جالندھری مدظلہ کو خراج تحسین اور امتحانات میں کامیاب ہونے والےاورامتیازی پوزیشن حاصل کرنے والےطلباء کومبارکباد اور علم باعمل واستقامت کی دعاء

امریکی ریمنڈ ڈیوس کی ڈرامائی انداز میں رہائی اورجمعیت کا موقف (از:محمد زاہد شاہ،مدیر الجمعیة )آج 16ماچ ہے،ٹھیک پندرہ سال...
16/03/2025

امریکی ریمنڈ ڈیوس کی ڈرامائی
انداز میں رہائی اورجمعیت کا موقف
(از:محمد زاہد شاہ،مدیر الجمعیة )
آج 16ماچ ہے،ٹھیک پندرہ سال قبل مارچ کی 16تاریخ کو ایک ایسے امریکی قاتل کو دیت لے کر امریکہ روانہ کیا گیا جس نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے عین وسط قرطبہ چوک میں دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر موت کی نیند سلا دیاتھا۔ عام شہری اور مقامی پولیس کے جوان بپھرے ہوئے اس امریکی کو قابو کرکے تھانے لے جانے لگے تو اس کی مدد کیلئے امریکی سفارت خانے کی گاڑی آئی، جس نے برق رفتاری اور لاپرواہی سے ایک اور پاکستانی نوجوان کو کچل ڈالا۔دو نوجوانوں کا قاتل امریکی بھاگنے میں ناکام رہا جبکہ تیسرے کے قاتل کو یہ موقع مل گیا اور وہ اپنے سفارتخانے کی پناہ میں چلا گیا ۔پکڑے جانے والے امریکی کا نام ریمنڈ ڈیوس بتایاگیا، مگر یہ نام اس کے کاغذات میں لکھے ہوئے نام سے قدرے مختلف نکلا۔ امریکی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ:'' ریمنڈ ڈیوس اس کا تکنیکی معاون ہے''
قاتل ریمنڈڈیوس جس قسم کی تکنیکی معاونت پر مامور تھا اس کی وضاحت کے حوالے سے سفارتخانہ اور امریکی انتظامیہ خاموش رہی۔ اس کے پاس سے لاہور کے بعض دینی مدارس اور ایک مذہبی تنظیم کی فوٹیج بھی برآمد ہو ئی جو اس نے بڑی مہارت سے تیار کررکھی تھی۔ بادی النظر میں ریمنڈ ایک ماہر جاسوس تھا اور محسوس ہوتا ہے کہ اس روز بھی وہ جاسوسی یا اس سے متعلقہ کسی کام کے سلسلے میں لاہور میں گھوم کر اپنے سفارتخانے کی معاونت کررہا تھا۔ اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ماہر نشانہ باز اور تربیت یافتہ آدمی نکلا جس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ کوئی سفارتکار نہیں بلکہ دہشت گر د ہے اسکی گاڑی سے کئی قسم کے ماسک ،جدید اسلحہ،زہریلی گیس ، پاکستان کے اہم مقامات کے نقشے برآمد ہوئے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس کا تعلق بھیس بدل کر دہشت گرد ی کے واقعات میں ملوث تنظیم بلیک واٹر سے ہے اور ریمنڈ ڈیوس اسی تنظیم کا ایک تربیت یافتہ رکن ہے اور بلیک واٹر کی پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہونے کی باتیں قائد جمعیت نے ایوان کے فلور پر کیںمگر حکومت نے صاف انکار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ پاکستان میں کسی بھی ایسی تنظیم کا وجود نہیں ۔عینی شاہدین کے بقول مقتولین کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کے سامنے آگئے جس پرریمنڈ نے انہیںگولیوں کا نشانہ بنایا۔اس ساری صورتحال کے بعد پاکستان پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا شدید دبائو رہا اور امریکی حکومت نے باقاعدہ دھمکی دیتے ہوئے پاکستان میں اپنے سفارتخانے بند کرنے، امریکہ سے پاکستانی سفیر کو نکالنے اور صدر آصف علی زرداری کا دورہ امریکہ منسوخ کرنے کا کہہ دیا ۔
ریمنڈ ڈیوس کیس کس طرح نمٹا؟ اس کی تفصیل روزنامہ جنگ20مارچ میں کچھ یوں شائع ہوئی:
''16مارچ کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے دن عدالت میں موجود ایک ذریعہ کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج نے متعدد مرتبہ پنجاب حکومت کے وکلاء سے استفسار کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی حمایت میں دیت قانون کے تحت معاملہ حل کئے جانے پر انہیں اعتراض ہے یا نہیں ؟لیکن ان پر اسیکیوٹرز کی جانب سے کوئی اعتراض اٹھایا گیا ،نہ ہی کسی بات پر اختلاف ظاہر کیا گیا۔ جس سے ریمنڈ کی رہائی کا راستہ صاف ہوگیا۔ '' اخبارکے مطابق ذریعہ نے بتایا کہ ''جج نے پنجاب حکومت کے وکلاء سے بھی پوچھا کہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ فساد فی الارض کے تحت تعزیرات پاکستان کی دفعہ311 کے تحت اپنا اعتراض داخل کرسکتے ہیں، لیکن وکلاء پراسیکیوشن خاموش رہے۔''
الجمعیة شمارہ فروری 2011میں سب سے اہم سوال ''اور کتنے ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں پھررہے ہیں؟ '' کو عنوان بنایا گیا بعد ازاں یہ سوال زبان زد عام وخاص ہوا، اس کی صدائے بازگشت قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی سنائی دی ۔ چنانچہ جنگ لاہور20مارچ 2011ء کے صفحہ نمبر3پر ایک کالمی سرخی کے نیچے قائد جمعیة کا مختصر بیان شائع ہوا:'' دو پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعدقوم سکتے میں ہے، سیاسی لوگ ، پیپلز پارٹی، وفاقی حکومت، نواز لیگ، پنجاب حکومت اپنے آپ کو بچانے کیلئے تمام تر ملبہ عدالت پر ڈال رہے ہیں، اس کی رہائی میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں ملوث ہیں۔''
ریمنڈ کیس کے حوالے سے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی شعلہ بیانی چنداں لائق توجہ نہ تھی، کیونکہ'' مخدوم ''ایک آزمودہ تابعدار خاندان کے چشم وچراغ ہیں، اب واقعہ کے آخری مرحلے کی تکمیل کے بعد ان کا بیان آیا ہے کہ ان کے اصولی موقف کی جیت ہوئی ہے ۔موصوف کے تمام اصول وفاقی کابینہ کی تحلیل( 27 جنوری تا9فروری ان کے پرآسائش بیڈ روم میں محو استراحت رہے،لیکن جب ان کا ہاتھ من پسند وفاقی وزارت تک نہ پہنچا اور بغیر استثناء معاملہ دیت سے نمٹ گیا تو تمام اصول ڈراؤنے خواب سے بیدار ہوئے اور موصوف کی اصولی فتح وقوع پذیر ہوگئی۔ گویا سفارتی استثناء نہ ہونے کی وجہ سے دیت کا سہارا رہائی کیلئے ضروری ٹھہرا۔ امریکیوں کو پیڑ گننے کی ضرورت نہ تھی، انہیں آم کھانے سے غرض تھی۔ سو انہوں نے اپنا کا رندہ رہا کروایا۔
ریمنڈ کی رہائی اور رخصتی کیلئے مارچ کے تیسرے ہفتے کو خاص اہمیت حاصل تھی کہ اس ہفتے میں کرکٹ کے عالمی مقابلے کے اہم میچ کھیلے جانے تھے۔ کرکٹ کی آڑ یا شورو غوغے میں اہم کام نمٹانے کی روایت کے بانی آمر جنرل ضیاء الحق تھے، جن دنوں جنر ل ضیاء امریکیوں کیلئے افغانستان میں ''خدمات ''بجالا رہے تھے ان دنوں پاک وہند باڈر کے حالات گرم ہوئے۔ جنرل ضیاء نے جنگ کا ہوا کھڑکیا اور بھارت کرکٹ میں میچ دیکھنے چل دیئے، وہاں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے چرن چھوئے، جنرل ضیاء کے زرخرید کالم نگاروں نے اس کو کرکٹ ڈپلومیسی کا عنوان دیا اور ضیاء الحق کی عاجزی وانکساری کے قصے لکھے۔ مشرف دور میں بھارتی کرکٹ ٹیم چودہ سال کے وقفے کے بعد پاکستان آئی، کراچی کا میچ دیکھنے اندرا گاندھی کے پوتے ، پوتی اور ان کے اہل خانہ آئے۔ لاہور ، راولپنڈی کے میچوں میں وزیر داخلہ ، گورنر پنجاب بلکہ خودپرویز مشرف بھی میچ دیکھنے پہنچ گئے، قوم کی کرکٹ بخار میں شدت آئی تو فوج نے اپنا نیا میچ شروع کرو یا،اس میچ کا میدان وانا وزیر ستان بن گیا۔
ریمنڈ ڈیوس کا کیس اتنا آسان اور سادہ نہ تھا جتنا جلد اور باسہولت انجام کو پہنچ گیا ۔اس کیس کو نمٹانے کیلئے وقت کا انتخاب بڑی مہارت سے کیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ریمنڈ کی رہائی کیلئے پاکستان میں امریکہ کے نمک خواروں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ ماضی میں ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا جہاں اس کو سزائے موت دی گئی، رمزی یوسف کو بھی اٹھا کر امریکہ کے حوالے کیا گیا ۔ریمنڈ کی رہائی کیلئے کچھ سیاہی عدالت کے دامن کو مزید داغدار کرنے کیلئے بھی استعمال کی گئی ۔ یہاں پر حافظ حسین ا حمد کا یہ جملہ درست ثابت ہو ا کہ عدلیہ کے چیف آزاد ہوئے ، عدلیہ ابھی آزاد نہیں ہوئی۔
ریمنڈ کیس کے حوالے سے ن لیگ اور پنجاب حکومت کا کردار اور طرز عمل خاصا پیچیدہ واقع ہوا ۔ تاثر یہ دیا جارہاتھا کہ اس سارے کیس میں میاں برادران ،ان کی پارٹی ،ان کی حکومت کو بائی پاس کیا گیا یا کم از کم معلومات سے مستفید کیا گیا ۔پھر نا جانے کیوں پنجاب حکومت کے اہم وزیر رانا ثناء اللہ نے ساری کاروائی کا دفاع کیا، جو ریمنڈ کی رہائی اور پاکستان سے روانگی کے عرصے میں ہوئی ۔ریمنڈ کیساتھ معاملات طے کرنے کیلئے بڑی گاڑیوں میں سوار متاثرہ خاندان کوکوٹ لکھپت جیل لاہور گئے، جہاں ریمنڈ کی قید فائیو سٹار سہولیات سے مزین تھی۔ یوں ریمنڈ کیس نے پنجاب حکومت اور نواز لیگ کے اصل کردار کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلے سے موجود بہت سے سیاہ اوراق ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ 17مارچ 2011ء جمعرات کا دن ریمنڈ کیس کو نمٹاتے ہوئے ضمیر فروشی، وطن فروشی، قومی وقار وخود مختاری پر سودے بازی کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

15/03/2025

شہرت اوردولت کی خاطر اخلاقی اقدارکومت بگاڑئیے(سوشل میڈیاکےمثبت اورمفیداستعمال کےحوالےسےسنئےناظم عمومی جےیوآئ پنجاب
حافظ نصیراحمداحرار کی گفتگو

14/03/2025

گورنرخیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی قائدجمعیۃمولانافضل الرحمن کی رہائشگاہ آمد

قائد جمعیت دامت برکاتہم سے ملاقات اور خیبرہختونخوا میں امن وامان سمیت ملکی سیاسی صورتحال کےمتعلق تبادلہ خیال۔

ملاقات میں پی ٹی آئ کے سابق رہنما خرم حمید روکھڑی ، احمد کنڈی ایم پی اے۔مولانا لطف الرحمن ایم پی اے، مولانا اسجد محمود، بنوں سے جےیوآئ کے ایم پی اے عمران وزیر اور پرویز خٹک بھی شریک تھے۔

اعظم ورسک مسجدمیں بم دھماکہ : جےیوآئ ضلع لوئروزیرستان کے امیرمولاناعبداللہ ندیم شدید زخمی ۔۔۔۔ ان کےعلاوہ چندنمازی بھی ز...
14/03/2025

اعظم ورسک مسجدمیں بم دھماکہ : جےیوآئ ضلع لوئروزیرستان کے امیرمولاناعبداللہ ندیم شدید زخمی ۔۔۔۔ ان کےعلاوہ چندنمازی بھی زخمی ہیں۔جنہیں طبی امدادکیلئےڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال وانامنتقل کردیاگیاہے۔

جری وجسور، دینی حمیت کےپیکرمولاناسیدشمس الدین صاحب شہید(تحریر:محمد زاھدشاہ،مدیر الجمعیة )سن 1974ء مارچ ہی کا مہینہ اور13...
13/03/2025

جری وجسور، دینی حمیت کےپیکر
مولاناسیدشمس الدین صاحب شہید
(تحریر:محمد زاھدشاہ،مدیر الجمعیة )

سن 1974ء مارچ ہی کا مہینہ اور13تاریخ تھی ، جب شاہراہ عزیمت واستقامت کا عظیم قافلہ سالارمولاناسید شمس الدین ہم سے چھن گیا۔ شہید نے اپنی مختصر عملی زندگی میں جرات و جسارت کے نقوش رفقاء جمعیت کے دلوں پر قائم کئے ۔آپ کوجناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ۖکیساتھ نسبت کا شرف حاصل ہے۔ اس عظیم نسبت کی لاج رکھنے میں آپ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی،آپ کے آخری خطاب کا یہ جملہ اس کی تابندہ مثال ہے جب انہوں نے رحیم یار خان ایک جلسے میں فرمایا کہ:میں اپنےنانا(حضورعلیہ السلام) کےدین پراس طرح کٹ مروں گا کہ دنیا حیران رہ جائےگی''پھرواقعی وہ نوجوان ختم نبوۃ پر قربان ہو گیااس نےجو کچھ کہا ،وہ کر دکھایا ۔

مولاناشمس الدین شہید 1364ھ میں ژوب (بلوچستان)کے معروف سادات خاندان کے بزرگ مولانا سید محمد زاہد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور میٹرک ژوب ہائی سکول سے کیا۔ اس کے بعد دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ،مدرسہ مخزن العلوم خان پور ،جامعہ بنوری ٹائون کراچی اور مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں کسب فیض کیا ۔طالبعلمی کے دور میں آپ جمعیت طلبہ اسلام سے وابستہ رہے اور کچھ عرصہ کیلئے بلوچستان کے صدر بھی رہے ۔
دورہ حدیث سے فارغ ہو کر واپس گھر گئے تو 1970ء کے انتخابی ہنگاموں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اب جمعیت علما اسلام کا پلیٹ فارم ان کی جولانگاہ بننے والا تھا۔ انہیں عملی سیاست سے اگرچہ کوئی لگا ؤ نہیں تھا لیکن علاقے کے نواب سردار تیمور شاہ جو گیزئی کو بلا مقابلہ کامیاب ہوتے دیکھ کر آپ نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔ لوگوں نے ڈرایا، سمجھایا، انجام سے باخبر کیا اور نواب کے غیض و غضب سے بچنے کی تلقین کی ۔مگر تجربہ کار،باوسائل اور طاقتور نواب کے سامنے ایک بے سروسامان اورنا تجربہ کار نواجوان ڈٹ گیا۔ جس کی عمربمشکل 26 سال تھی ۔مقابلہ ہوااور خوب ہوا کہ کاروں اور جیپوں کے مقابلے میں سائیکل سوار اور پیدل کارکنوں نے بھر پور انتخابی جنگ لڑی اور جب نتائج کا اعلان ہوا تو کئی نسلوں سے چلے آنے والے اجارہ دار خاندان کی سیاسی اجارہ داری کا بت دھڑام سے زمین پر آرہا۔ یوں چھبیس سالہ نوجوان نے ایک نواب کو پہلی مرتبہ ہزاروں ووٹوں سے شکست دیدی ، سید شہید کے بقول اس الیکشن مہم میں ان کے کل سات سوروپے خرچ ہوئے۔ جبکہ مد مقابل نواب کے انتخابی اخراجات لاکھوں سے متجاوز تھے ۔

سید شمس الدین شہید کو قدرت نے جرات وبیباکی سے نواز ا تھااور لوگوں نے اس میں چھپے جوہر کو اسی روز دیکھ لیا تھا جب ''سبی ''کے سالانہ دربار میں گورنرریاض حسین قبائلی سرداروں کیساتھ محو گفتگو تھے کہ اچانک دربارمیں اذان کی آواز بلند ہوئی۔ گورنر نے لوگوں سے پوچھا:''یہ کون دیوانہ ہے ؟'' جواب ملا کہ یہ دیوانہ نہیں بلکہ بلو چستان اسمبلی کا نو منتخب رکن مولوی شمس الدین ہے'' پھر اذان دینے کے بعد سیدشمس الدین گورنرکے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے حاکم اعلی ہیں، اس لیے آج نماز آپ پڑھا ئیں گے ، گورنر نے معذرت کر دی ۔ بظاہر یہ سیدھا سا واقعہ ہے مگر اس نے مولاناسید شمس الدین شہید کے اندر چھپی ہوئی بے باکی اوربسالت کو نمایاں کر دیا۔

بلوچستان اسمبلی کے باقاعدہ آغاز پر آپ کو صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر چن لیا گیا۔جبکہ جمعیة علما اسلام کے تنظیمی انتخابات میں جمعیت کے صوبائی امیر کی حیثیت سے جماعتی قیادت کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپ دی گئی اور یہ سب کچھ اتنی پر عجلت میں ہوا۔ کہ خودر شک کو بھی رشک ہونے لگا۔ یوں آپ نے 27سال کی عمر میں صوبائی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔

بلو چستان اور صوبہ سرحد میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومتیں جب قائم ہوئیں تو آپ نے حکومت کے دوران بھی اپنی بے باکی کا جراتمندانہ مظاہرہ فرمایا ۔ بعد از اں جب مخلوط حکومت ختم کر دی گئی تو آپ کو وزارت علیا کالالچ دیا گیا۔ انہی دنوں قادیانیت کے خلاف سرگرم اور فیصلہ کن جد و جہدکر کے آپ نے اس مسئلے کو از سر نو زندہ کیا۔ اسی دوران آپ گرفتاراور اغوا بھی ہوئے ۔ مسلح دستوں کے محاصرے میں رہے اور دنیا میں کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ شمس الدین کہاں ہیں ؟ آپ کیلئے ہڑتالیں ہوئیں، جلوس نکالے گئے ،احتجاجی جلسے ہوئے ،نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کی۔ قومی اسمبلی میں واویلا کیا گیا ۔ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی گئی تب جا کر انہیں ظلم و استبداد کے پنجے سے نجات ملی اور پتہ چلا کہ اس نوجوان کو اسلحے اور ہتھیار کے حصار میں بٹھا کر وزارت اعلی کی پیشکش کی جاتی رہی اور بینک چیک پیش کئے جاتے رہے مگر اقتدار اور دولت اس نوجوان کے سامنے آکر اپنی کشش اور سکت سے محروم ہو چکی تھی۔

قید ہی دنوں کے میں نام نہاد و زیر اعلی جام میرغلام قادر کی طرف سے وزارت علیا کی پیشکش کو اس درویش نے یوں مضحکہ میں ٹال دیا کہ ''ایک قیدی وزیر اعلی کیسے بن سکتا ہے ؟'' پھر وہ منظر کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے سید شہید کو بلایا، بزعم خود سمجھایا اور ایک چیک ہاتھ میں تھما دیا جس پر دستخط تو کئے گئے تھے، مگر رقم کا اندراج نہیں تھا اور کہا گیا کہ تم بھٹو کی حمایت کرو ہم تم کو بلو چستان کا وزیر اعلی بنادیں گے اور چیک پر جتنی رقم تم چاہو لکھ لو ''سید شہید نے چیک پرزہ پرزہ کر کے پھینک دیا اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ'' جو شخص خدا کے آگے بک چکا ہو اسے اور کوئی نہیں خرید سکتا "

وقت کے سب سے بڑے شاطرڈپلومیٹ ذو الفقار علی بھٹو نے ڈپلومیسی کے جال میں انہیں پھنسانا چاہا ۔ مگر بھٹو کی عیاری اور ڈپلو میسی بھی اس نوجوان کے ایمان میں نقب نہ لگا سکی۔ چنانچہ جب سید شہید سے کہا کہ''مولوی صاحب آپ لوگ بڑے اچھے ، دیانت داراوربا اصول ہیں صاحب کردار ہیں۔ میں ملک میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے اچھے ساتھی نہیں ملتے ۔اگر آپ لوگ نیپ کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ آ جائیں تو ملک و قوم کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہوں''
مولانا شمس الدین شہیدکہنے لگے : ''بھٹو صاحب !یہ ٹھیک ہے کہ ہم با اصول ہیں، لیکن فرمائیے کہ اقتدار کیلئے نیپ کا ساتھ چھوڑنے کے بعد بھی ہم با اصول رہیں گے ؟'' یہ الفاظ سن کر ذوالفقارعلی بھٹو کی زبان گنگ ہو جاتی ہے اور اہل حق کے قافلے کا ایک نوجوان اپنے ایمان اور کردار کی دولت کو صحیح سلامت بچاتے ہوئے کامیاب و کامران واپس پلٹ آتا ہے۔

1972ء میں جب نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت کو ختم کرنے کے بعد9اور 13کا جھگڑا چلا ۔نیپ اور جمعیت کے تیرہ ارکان تھے اور صوبائی حکومت کے نو(9)ارکان تھے۔ لیکن پھر بھی نام نہاد وزیر اعلی جام غلام قادرصوبے کا حکمران بنا رہا۔ عجیب ریاضی تھی عجیب حساب تھا کہ نو،تیرہ سے زائد تھے۔ اس نئے حساب کایوں چرچا ہواکہ پہلے 9میں اضافہ کی کوشش کی گئی اور جب 9 میں اضافہ نہ ہو سکا تو پھر13میں کمی کی گئی اور اس کا پہلا نشانہ مولانا سیدشمس الدین بنے۔ 13مارچ 1974ء کوایک شقی القلب کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنتے وقت ان کی عمر بمشکل تیس برس تھی، لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ملی سیاست اور کاروان دعوت و عزیمت میں جو مقام حاصل کیا ،وہ یقینا قابل رشک ہے۔ان کی شہادت کی خبر اہل بلوچستان پر بجلی بن کر گری، لوگ سڑکوں پر نکل آئے ،دفعہ 144نافذ کی گئی، لوگ اس ظلم اور بربریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوئٹہ شہر کے وسط میں 14مارچ 1974ء کی صبح کو پولیس نے غمزدہ ہجوم کو گھیرے میں لے لیا پہلے قندھاری بازار کو "لاک"کیا مگر ہجوم آگے بڑھتا رہا۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی ، پھر بے تحاشا فائرنگ کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق چھ افراد اس سانحہ میں مارے گئے اور کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلا۔ وکلاء میدان میں کو دے اور تیرہ تیرہ وکلا ایک ایک مقدمہ میں پیش ہونے کیلئے تیار ہوئے۔

یہ سید شمس الدین کی مجاہدانہ زندگی کی چند جھلکیاں تھیں، انہی کارناموں کے باعث قافلہ ولی للہی کے ہر فرد نے ان کی شہادت کو اپنے گھر کا غم سمجھا۔آج سید شمس الدین شہید ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات ، جدو جہد ، کردار ، روایات اور جرات و جسارت کے ناقابل فراموش مظاہرکھلی کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
آئیے!عہد کریں کہ شمس الدین شہید کی یاد کو اپنے عمل میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے اور اس عظیم مرد قلندر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق و صداقت اور عدل و انصاف کی جدوجہد کو اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا خراج پیش کرتے رہیں گے کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کی یاد میں اسی طرح تازہ رکھتی ہیں۔
AlJamiat

صدر ایوب کی گول میز کانفرنس اورمولانامفتی  محمودرحمہ اللہ کی جرات رندانہ(11مارچ1969ء )(از: محمد زاھد شاہ ،مدیر الجمعیۃ) ...
11/03/2025

صدر ایوب کی گول میز کانفرنس اور
مولانامفتی محمودرحمہ اللہ کی جرات رندانہ(11مارچ1969ء )

(از: محمد زاھد شاہ ،مدیر الجمعیۃ)

جمعیت علماء اسلام نے جنوری 1969ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی کا نفرنس رکھی۔ اس موقع پر ڈھا کہ میں 4,5جنوری کو جمعیة علماء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس ہوا۔ جس میں جمعیت علمائے اسلام کی مساعی کوملک کے دونوں حصوں میں تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ نیز ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل کی اگر کوئی صورت ممکن ہو تو ایسا کرنے کے لیے مولا نا مفتی محمود کو نمائندہ چن لیا گیا۔ملک میں پہلے سے پاکستان تحریک جمہوریت (PDM) کے نام سے ایک اتحاد موجود تھا۔ جس میں پاکستان عوامی لیگ(نوابزادہ نصر اللہ گروپ)نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ ،کونسل مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی،جماعت اسلامی شامل تھے۔ لیکن (P.D.M) کے مطالبات سے ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کا امکان نہیں تھا۔ انہی تاریخوں میں پی ڈی ایم نے ڈھاکہ میں اجلاس بلایا ہوا تھا اور ان پانچ جماعتوں کے علاوہ جمعیت علماء اسلام،نیشنل عوامی پارٹی (ولی قصوری گروپ)عوامی لیگ( مجیب الرحمن گروپ)کو بھی اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی ۔جمعیت علماء اسلام کی طرف سے مولانا مفتی محمود صاحب نے نمائندگی کی ،انہوں نے اپنی جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرمایا: مثبت اور دیر پا اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ اسلام بنیاد اتحاد ہو اور علما کے22نکات پروگرام میںشامل کیے جائیں۔نیزآئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے اس لیے کہ موجودہ نظام میں نہ تو حقیقی آزادانہ انتخابات ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعہ موجودہ حاکمیت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مولانا مفتی محمود صاحب کی اس تجویز سے تو اکثر جماعتوں نے اتفاق نہ کیا لیکن آٹھ جماعتوں کا اتحاد جمہوری مجلس عمل کے نام سے 8جنوری کو ڈھا کہ میں قائم ہواوردس نکاتی فارمولا پر اتفاق کا اعلان کر دیا گیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا سیاسی اتحاد تھا ۔ اتحاد میں جماعت اسلامی کی شمولیت کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام میں کچھ اختلاف رائے پیدا ہوا۔ لیکن نتائج کے لحاظ سے یہ اتحاد جمعیت کے لیے نیک فال ثابت ہوا اور ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو یہ اعتماد آ گیا کہ جمعیت علمائے اسلام چند مولوی صاحبان کی جماعت نہیں بلکہ صحیح معنی میں ایک دینی سیاسی جماعت ہے۔بلاشبہ تحاد میں ان تینوں جماعتوں کی شمولیت کی بنیاد پر ہی مشرق و مغرب کا اتحاد عمل میں آیا۔ بعض اسلام دوست جماعتوں کے لیڈر ولی خان اور جمعیت کی شمولیت پر زیرلب گفتگو کرتے رہے کہ ان کانگریسی اور اسلام دشمن عناصر کو جمہوری مجلس عمل میں کیونکر شامل کیا گیا ہے۔ یہ سیاسی اتحاد اس وجہ سے بھی اہم تھا کہ اس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ایک پیج پراکٹھی ہو ئیں جبکہ دونوں جماعتوں میں مذہبی و سیاسی مسائل میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں جماعتوں میں بظاہر کوئی نقطہ اتحاد نظرنہیں آتا تھا جس پر دونوں مل بیٹھیں۔ مگر سیاسی ماحول کے تقاضوں نے دونوں جماعتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ملک کے بہترین مفاد کی خاطر وقتی طور پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں۔جمعیت علماء اسلام کی طرف سے حضرت مفتی محمود صاحب کو اختیار دیا گیا کہ وہ جمعیت کی طرف سے جمہوری مجلس عمل میں شریک ہوں اور صدر ایوب خان سے گفت و شنید میں بھی شامل ہوں ۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب کی جمہوری مجلس عمل میں جمعیت کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام سیاسی حلقوں میں متعارف ہوئی۔

صدر ایوب کی غلط روش اورمجبورا
مذاکرات کیلئے گول میز کانفرنس کا فیصلہ

ایوب خان نے اپنے دس سالہ دور میں مخالفوں کو طن دشمن اورغدار کہنے کی پرانی تکنیک پرزیادہ کام کیا ۔ اس نے شیخ مجیب پر غداری اور ملک توڑنے کی مکروہ سازش کے الزامات عائد کر کے اسے اور اس کے ساتھیوں کو پابند سلاسل کر دیا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کی نیندیں حرام کر دیں ۔ جمہوری مجلس عمل کے قیام کے وقت ایوب خاں، اس کے اخبارات اور ریڈیو یہ تاثر دیتے تھے کہ یہ چوں چوں کا مربہ ہے،ایوب خاں اس سے نہیں ڈرتا۔ چنانچہ ہاتھ دھو کر ریڈیو اور اخبارات حزب اختلاف کے پیچھے پڑ گئے مگر ایوب آمریت کی گیارہ سالہ آہنی دیوار میں اندر سے شگاف پڑ چکے تھے، چنانچہ جمہوری مجلس عمل (DAC)کے قیام کے ٹھیک تیس دن بعد یکم فروری کوصدر ایوب خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ملک کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپوزیشن کی گول میز کانفرنس بلائی جائے گی۔ اپوزیشن کو دعوت نامے جاری کر دیئے گئے کہ وہ 17 فروری کو راولپنڈی میں صدارتی ہائوس میں مذاکرات کے لیے تشریف لائیں۔ حزب اختلاف نے مذاکرات کی دعوت میں شرکت یا عدم شرکت کے لیے اپنا ایک اجلاس بلایا جو دو دن تک جاری رہا۔ متفقہ طور پر جمہوری مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے یہ طے کیا کہ صدرسے سیاسی مذاکرات اس وقت کئے جائیں گے جب درج ذیل تین مطالبات فورا تسلیم کر لیے جائیں۔(1) ہنگامی حالات ختم کئے جائیں (2)سیاسی قیدیوں اور حالیہ واقعات کے دوران گرفتار ہونے والوں کو فورارہا کر دیا جائے۔ (3) شہری آزادیاں بحال کی جائیں۔
حزب اختلاف کے ان مطالبات پر ہمدردانہ غور کا وعدہ کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ چنانچہ جمہوری مجلس عمل نے اعلان کیا کہ وہ گول میز کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ ایوب خان نے اپوزیشن کو مزید اعتماد میں لینے کے لیے ریڈیو سے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے ۔ اس اجلاس میں حزب اختلاف اور حکومت کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے،گول میز کانفرنس کیلئے دوبارہ9مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی۔ کافی دنوں کے تعطل کے بعد10 مارچ1969ء کو جب گول میز کانفرنس پھر شروع ہوئی تو ابتدائی تقریر صدر ایوب خاں نے کی ۔ ان کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خاں نے جمہوری مجلس کی طرف سے دو مطالبات پیش کیے جن کا ذکر او پر آ چکا ہے۔ مولانا مودودی نے کہا:ان دو مطالبات کے علاوہ اگر کوئی جماعت کوئی مطالبہ پیش کرے تو اس کا نقطہ نظر ہوگا اور مجلس عمل کانہ ہوگا۔''شیخ مجیب الرحمن نے نو صفحات پر مشتمل تقریر کی اور اپنے چھ نکات کو اٹھایا۔ خان عبدالولی خاں نے ون یونٹ توڑنے کی بات کی۔ ائیر مارشل اصغر خان اور جسٹس محبوب مرشد نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔میاں ممتاز دولتانہ نے ون یونٹ توڑنے کے سلسلہ میں خان عبدالولی کی ہمنوائی کی۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر پروفیسر غلام اعظم نے بھی کچھ مخصوص انفرادی مطالبات اٹھائے ۔

مولانا مفتی محمود نے کمال
عمدگی کے ساتھ اسلام کا کیس لڑا:

اب کانفرنس کی میز پر یہ سب مطالبات تو تھے مگر وہ مطالبہ کہیں نہ تھا جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا گھر بارلٹائے ،جان ومال کی قربانیاں دیں ، ہزاروں سہاگ اجڑے ۔اللہ جزائے خیر دے مولانا مفتی محمود کو،کہ انہوں نے بڑی عمدگی کے ساتھ اسلام کا کیس لڑا،نہایت موثر تقریر کی اور دستور کی گاڑی کو اسلامی اصولوں کی پٹڑی پر چلانے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے اس غرض سے علماء کے وہ مشہورنکات کا نفرنس کی میز پر رکھے جنہیں پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام نے جنوری1951ء میں بالاتفاق پیش کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور ا نہی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر وضع کیا جائے ۔ مفتی صاحب نے عقیدہ ختم نبوت کے آئینی تحفظ کی غرض سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دستور میں مسلمان کی تعریف بھی متعین کی جائے ۔ایم ایم احمد ایسے سکہ بند قادیانی ایوب خان کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے، وہ مفتی صاحب کے اس مطالبے سے بھنا اٹھے ۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ دستور میں جب یہ بات موجود ہے کہ پاکستان کا صدر مسلمان ہو گا تو مسلمان کی تعریف بھی متعین ہونی چاہیے۔

جرات رندانہ کا اظہارکرتے ہوئے
مفتی محمود کا صدر ایوب سے مکالمہ:

صدر ایوب خوب سمجھتے تھے کہ مفتی صاحب کے اس مطالبے کی زردکہاں پڑتی ہے،اس لئے اس موقع پر مفتی صاحب سے ان کامکالمہ ہوا۔
صدرایوب: کون نہیں جانتا کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟
مفتی محمودصاحب : " بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اس ملک میں خدا کے منکر ہیں ، رسول کے منکر ہیں ، نبوت کے منکرہیں، ختم نبوت کے منکر ہیں، وہ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔
صدر ایوب: کوئی شخص غیر مسلم کو ووٹ نہیں دے گا۔
مفتی صاحب :آپ ایسا کریں کہ دستور ے اس دفعہ کو بھی حذف کردیںکہ'' صدر مسلمان ہوگا''کیونکہ اس میں لازما مسلمان ہی صدر منتخب ہوگاتو اس طرح دستور کی یہ شرط بھی لغو ہو جائے گی''
گول میز کانفرنس کے شرکا میں سے صرف جسٹس محبوب مرشد نے اس معاملہ میں مفتی صاحب کی تائید کی اور کہا''اصولا یہ صحیح ہے، مسلمان کی تعریف لازما متعین ہونی چاہیے''
اس موقع پر اگرچہ مفتی صاحب کے یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تاہم یہ ضرور آشکارا ہو گیا کہ مفتی محمود پاکستان میں اسلامی سیاست کی پیشانی کا جھومر اور نہایت غیر مرعوب قسم کی شخصیت ہیں۔
13 مارچ کو یہ گول میز کانفرنس ختم ہوئی۔ صدر ایوب نے جمہوری مجلس عمل کے دو مطالبات تسلیم کر لیے اور باقی مسائل کے بارے میں کہا کہ ان کا حل اسمبلی پر چھوڑ دینا چاہیے۔
گول میز کانفرنس کے پس منظر میں جو سر گرمیاں جاری تھیں بالآخر وہ رنگ لائیں ۔ چنانچہ 25مارچ کو وجنرل یحیٰ خان نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا۔اس نے اپنے پیش رووں کی طرح چکنی چپڑی باتیں کیں۔اورکہا: میں یہ بات قطعی طور پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری سوائے اس کے اور کوئی آرزو نہیں ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو ملک میں آئینی حکومت کے قیام کاباعث بن سکیں۔ اپنے اس نصب العین پر اس نے عمل درآمد کا آغاز اس طرح کیا کہ آئین منسوخ کر دیا۔ اسمبلیاں توڑ ڈالیں ۔ سیای سرگرمیاں معطل کر دیں اور اخبارات پر سنسر شپ کا پہرہ بٹھا دیا۔ اب یحیی خاں نے وہی راگ الاپنا شروع کر دیا جو ایوب خان نے اقتدار حاصل کرتے وقت الا پا تھا۔یحیٰی خان کے برسراقتدار آتے ہی آٹھ جماعتوں کا اتحاد ختم ہو گیا۔ اس سے ملک میں ایسا سیاسی خلا پیدا ہو گیا جو آخر وقت تک پر نہ ہو سکا اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا ۔

صدر ایوب کی شاطرانہ چال
اور مفتی محمود کا دوٹوک جواب :

ہوس اقتدار کا برا ہو۔ انسان اس میں پھنس کر پاکیزہ سے پاکیزہ خیالات کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتا۔ جب ایوب خان کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولنے لگا تو وہ خود لاہور آیا ۔ یہ اندازہ کرکے کہ نفاذ شریعت کا مطالبہ اٹھانے کے باعث علما ء کو عوام میں سیاسی رسوخ حاصل ہو رہا ہے۔ اس نے اس کا توڑ سوچا دسمبر 1968ء کے آخری دنوں میںاس نے گورز ہاس لاہور میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک شاطرانہ چال چلی اور اعلان کیا : میرا ایمان ہے کہ پاکستان میں شرعی قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔ میں علما ء سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مل جل کر بیٹھیں اور اسلامی ضابطہ حیات کا ایک ایسا جامع مسودہ تیار کریں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لئے قابل قبول ہو اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد ملک میں نافذ کیا جائے ۔''
ایوب خان نے اپنے طور پہ بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح علماء آپس میں دست دگر بیان ہو کہ عوام کی نظروں سے گر جائیں گے۔ اور اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جائے گا مگر اس کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی ۔ اور علماء نے یک زبان ہوکر ان کی ایسی خبر لی کہ وہ آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا
اس موقع پر مفکر اسلام مولانا مفتی محمود صاحب نے ایوب خان کے جواب میں کہا ؟مجھے تعجب ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے خلاف سازشی گروہ نے پاکستان کے یوم تاسیس سے لیکر آج تک جس بوگس دلیل کا سہارا لیا تھا آج صدر ایوب خان نے بھی اس کا اعادہ کر دیا ہے۔ میں صدر ایوب خان سے پوچھتا ہوں کہ مختلف اسلامی فرقوں کے31علماء کرام نے آئین کے متعلق جن اصولوں کو اتفاق رائے سے طے کیا تھا ۔ صدر ایوب خاں نے انہیں اپنے دستور کا حصہ بنا یا ہے ؟ عائلی قوانین میں ترمیم کے سلسلہ میں قومی اسمبلی کی سب کمیٹی نے ،جس میں تین خواتین بھی شامل تھیں جو ترمیمی رپورٹ اتفاق رائے سے پیش کی تھی ، کیا اسے اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا؟ گذشتہ عام انتخابات کے دوران بھی صدر ایوب خان نے اسلامی قوانین کے بارے میں سفیدکاغذ پر دستخط کرنے کا اعلان کر کے قوم کو سیاہ باغ دکھائے تھے ۔ لیکن آج قوم کا شعور بیدار ہو چکا ہے ، وہ اس قسم کی باتوں سے گمراہ نہیں ہو سکتی۔ اسلام میں ہر فرقہ کے شخصی قوانین کو اس کے عقیدہ کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔ اس لئے مختلف فرقوں کی موجودگی اسلامی قوانین کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مسلم قوم اب بیدار ہو چکی ہے اور اس طرح کی بوگس اور بوسیدہ باتوں سے اسے مطمئن نہیں کیا جا سکتا ۔''
ایوب خان ان باتوں کا جواب کیا دیتے ، ان کا تو مقصد ہی کچھ اور تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Address

ادارہ الجمعیۃ راولپنڈی
Rawalpindi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AlJamiat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to AlJamiat:

Share

Category