Pakeeza bridel

Pakeeza bridel We deal all kind of bridel and party wears wholesale and retail
contect=
https://youtube.com/shorts

hamary pas bridel party wear lenga maxi order booking old lenga maxi mangemint

 حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھ...
24/08/2025


حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے- حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کیلیۓ حیران کن تھی...

وہ تیس برس تک دنیاداری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزاراتھا اور اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندرسے روشن ہوگۓ تھے وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گۓ تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا،لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے- وہ ان کے لیۓ دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرمادیتا تھا- اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا....

وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی- انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں- خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لیۓ کپڑوں کے نۓ ڈیزائن بناۓ- یہ ڈیزائن یورپ بھجواۓ- باہر سے آرڈر آۓ اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کردیا- یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے- دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو،تین لاکھ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین لاکھ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا ...

پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعدازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں- انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ سے لو لگائی لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گۓ توانہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اورمکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی- وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گۓ تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آگۓـ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی...

حاجی صاحب کی گارمنٹس فیکٹری تھی، حاجی صاحب صبح صبح فیکٹری چلے جاتے اور رات بھیگنے تک کام کرتے تھے- ایک دن وہ فیکٹری پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایک درمیانے قد کاٹھ کا کتا گھسٹ گھسٹ کر ان کے گودام میں داخل ہو رہا ہے، حاجی صاحب نے غور کیا تو پتہ چلا کتا شدید زخمی ہے، شاید وہ کسی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا جس کے باعث اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور وہ صرف ایک ٹانگ کے ذریعے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ان کے گودام تک پہنچا تھا- حاجی صاحب کو کتے پر بڑا رحم آیا، انہوں نے سوچا وہ کتے کو جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، اس کا علاج کراتے ہیں اور جب کتا ٹھیک ہو جائے گا تو وہ اسے گلی میں چھوڑ دیں گے- حاجی صاحب نے ڈاکٹر سے رابطے کے لیۓ فون اٹھایا لیکن نمبر ملانے سے قبل ان کے دل میں ایک انوکھا خیال آیا اور حاجی صاحب نے فون واپس رکھ دیا.....

حاجی صاحب نے سوچا کتا شدید زخمی ہے، اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، اس کا جبڑا زخمی ہے اور پیٹ پر بھی چوٹ کا نشان ہے چنانچہ کتا روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتا- حاجی صاحب نے سوچا' اب دیکھنا یہ ہے قدرت اس کتے کی خوراک کا بندوبست کیسے کرتی ہے، حاجی صاحب نے مشاہدے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ بیٹھ بیٹھ گئے...

وہ کتا سارا دن گودام میں بیہوش پڑا رہا، شام کو جب اندھیرا پھیلنے لگا تو حاجی صاحب نے دیکھا ان کی فیکٹری کے گیٹ کے نیچے سے ایک دوسرا کتا اندر داخل ہوا، کتے کے منہ میں ایک لمبی سی بوٹی تھی- کتا چھپتا چھپاتا گودام تک پہنچا، زخمی کتے کے قریب آیا، اس نے پاؤں سے زخمی کتے کو جگایا اور بوٹی اس کے منہ میں دے دی- زخمی کتے کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا چنانچہ اس نے بوٹی واپس اگل دی- صحت مند کتے نے بوٹی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، بوٹی چبائی، جب وہ اچھی طرح نرم ہو گئی تو اس نے بوٹی کا لقمہ سا بنا کر زخمی کتے کے منہ میں دے دیا- زخمی کتا بوٹی نگل گیا....

اسکے بعد وہ کتا گودام سے باہر آیا، اس نے پانی کے حوض میں اپنی دم گیلی کی، واپس گیا اور دم زخمی کتے کے منہ میں دے دی- زخمی کتے نے صحت مند کتے کی دم چوس لی- صحت مند کتا اس کروائی کے بعد اطمینان سی واپس چلا گیا- حاجی صاحب مسکرا پڑے- اس کے بعد یہ کھیل روزانہ ہونے لگا- روز کتا آتا اور زخمی کتے کو بوٹی کھلاتا، پانی پلاتا اور چلا جاتا،حاجی صاحب کئی دنوں تک یہ کھیل دیکھتے رہے...

ایک دن حاجی صاحب نے اپنے آپ سے پوچھا "وہ قدرت جو اس زخمی کتے کو رزق فراہم کر رہی ہے کیا وہ مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے گی؟" سوال بہت دلچسپ تھا، حاجی صاحب رات تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ توکل کی حقیقت بھانپ گئے، انہوں نے فیکٹری اپنے بھائی کے حوالے کی اور تارک الدنیا ہو گئے...

وہ مہینے میں تیس دن روزے رکھتے اور صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک رکوع و سجود کرتے، وہ برسوں اللہ کے دربار میں کھڑے رہے، اس عرصے میں اللہ انہیں رزق بھی دیتا رہا اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بھی- یہاں تک کہ وہ صوفی بابا کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنے لگے لیکن پھر ایک دوسرا واقعہ پیش آیا اور صوفی بابا دوبارہ حاجی صاحب ہو گئے....

یہ سردیوں کی ایک نیم گرم دوپہر تھی، صوفی بابا کی بیٹھک میں درجنوں عقیدت مند بیٹھے تھے- صوفی بابا ان کے ساتھ روحانیت کے رموز پر بات چیت کر رہے تھے- باتوں ہی باتوں میں صوفی بابا نے کتے کا قصہ چھیڑ دیا اور اس قصے کے آخر میں حاضرین کو بتایا....

"رزق ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہم بیوقوف انسانوں نے رزق کا پیچھا شروع کر دیا ہے- اگر انسان کی توکل زندہ ہو تو رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے بلکل اس کتے کی طرح جو زخمی ہوا تو دوسرا کتا اس کے حصے کا رزق لے کر اس کے پاس آ گیا- میں نے اس زخمی کتے سے توکل سیکھی- میں نے دنیاداری ترک کی اور اللہ کی راہ میں نکل آیا- آج اس راہ کا انعام ہے میں آپ کے درمیان بیٹھا ہوں- ان تیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اللہ تعالی نے کسی نہ کسی وسیلے سے مجھے رزق نہ دیا ہو یا میں کسی رات بھوکا سویا ہوں- میں ہمیشہ اس زخمی کتے کو تھینک یو کہتا رہتا ہوں جس نے مجھے توکل کا سبق سکھایا تھا
صوفی بابا کی محفل میں ایک نوجوان پروفیسر بھی بیٹھا تھا، پروفیسر نے جینز پہن رکھی تھی اور اس کے کان میں ایم پی تھری کا ائر فون لگا تھا- نوجوان پروفیسر نے ائر فون اتارا اور قہقہہ لگا کر بولا "صوفی بابا ان دونوں کتوں میں افضل زخمی کتا نہیں تھا بلکہ وہ کتا تھا جو روز شام کو زخمی کتے کو بوٹی چبا کر کھلاتا تھا اور اپنی گیلی دم سے اس کی پیاس بجھاتا تھا- کاش آپ نے زخمی کتے کے توکل کی بجائے صحت مند کتے کی خدمت، قربانی اور ایثار پر توجہ دی ہوتی تو آج آپ کی فیکٹری پانچ، چھ سو لوگوں کا چولہا جلا رہی ہوتی-"

صوفی بابا کو پسینہ آ گیا- نوجوان پروفیسر بولا "صوفی بابا! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے، وہ صحت مند کتا اوپر والا ہاتھ تھا جبکہ زخمی کتا نیچے والا- افسوس آپ نے نیچے والا ہاتھ تو دیکھ لیا لیکن آپ کو اوپر والا ہاتھ نظر نہ آیا- میرا خیال ہے آپ کا یہ سارا تصوف اور سارا توکل خود غرضی پر مبنی ہے کیونکہ ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے" نوجوان اٹھا' اس نے سلام کیا اور بیٹھک سے نکل گیا..

حاجی صاحب نے دو نفل پڑھے، بیٹھک کو تالا لگایا اور فیکٹری کھول لی، اب وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی

یہ محاورہ برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے " یہ منہ اور مسور کی دال"۔ کیوں بھائی مسور کی دال میں ایسی کونسی انوکھی بات ہے جو ب...
24/08/2025

یہ محاورہ برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے " یہ منہ اور مسور کی دال"۔ کیوں بھائی مسور کی دال میں ایسی کونسی انوکھی بات ہے جو بادشاہوں کو یہ کہنا پڑا۔اس کے پیچھے کوئی راز تو ہو گا۔
جلیبی جو آپ کھاتے ہیں وہ دراصل میدہ اور چینی ہے۔ اصل جلیبی میں 60٪ دال ماش دھلی ہوئی ، 30٪ دال مونگ دھلی ہوئی اور 10٪ میدہ ہوتا ہے۔ اب تیس چالیس سال سے یہ ناپید ہو چکی ہے۔۔ وجہ اس کی لاگت بہت زیادہ آتی ہے جو پاکستانی عام بندہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ لہذا میدہ کھاؤ اور جان بناؤ ۔
اصل جلیبی بہت کڑک ہوتی ہے، جس کو کسی حد تک امرتی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ آخری بندہ جو یہ جلیبی بناتا تھا چھوڑ گیا ہے۔
دال ماش پروٹین کا خزانہ ہے۔ اس میں مردانہ طاقت کے لیے اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے جلیبی بادشاہوں کے دسترخوان پر موجود ہوتی تھی۔ اسی راز کی بدولت جلیبی کو دودھ میں ڈال کر دلہا دلہن کے کمرہ عروسی میں رکھا جاتا تھا۔ یہ رسم صدیوں سے سنٹرل ایشیا سے چلتی ہوئی انڈیا میں آئی ۔ اور یہ رسم آج بھی جاری ہے۔۔ مگر اس وقت جلیبی نہیں دودھ میدہ کا جگ بھر کر کمرہ عروسی میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ ایسا لعنتی مرکب بنتا ہے جس سے دلہا کو آئی ہوئی بھی چلی جاتی ہے۔ اس سے پرہیز کریں۔
اگر آپ نے واقعی یہ کام کرنا ہے یا خود شوقیہ طور پر جلیبی کھانی ہے تو خود دال ماش ، دال مونگ کو پسوا کر کسی حلوائی سے جلیبیاں نکلوا لیں۔ ورنہ میدہ تو ہر جگہ مل رہا ہے ۔

دنیا میں فحاشی کے لحاظ سے سرفہرست دس ممالک کی غالب مذہب1. تھائی لینڈ – (بدھ مت)2. ڈنمارک – (عیسائیت)3. اٹلی – (عیسائیت)4...
24/08/2025

دنیا میں فحاشی کے لحاظ سے سرفہرست دس ممالک کی غالب مذہب

1. تھائی لینڈ – (بدھ مت)

2. ڈنمارک – (عیسائیت)

3. اٹلی – (عیسائیت)

4. جرمنی – (عیسائیت)

5. فرانس – (عیسائیت)

6. ناروے – (عیسائیت)

7. بیلجیم – (عیسائیت)

8. اسپین – (عیسائیت)

9. برطانیہ – (عیسائیت)

10. فن لینڈ – (عیسائیت)

دنیا میں چوری کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست دس ممالک اور ان کی غالب مذہب:

1. ڈنمارک اور فن لینڈ – (عیسائیت)

2. زمبابوے – (عیسائیت)

3. آسٹریلیا – (عیسائیت)

4. کینیڈا – (عیسائیت)

5. نیوزی لینڈ – (عیسائیت)

6. بھارت – (ہندومت)

7. انگلینڈ اور ویلز – (عیسائیت)

8. امریکا – (عیسائیت)

9. سویڈن – (عیسائیت)

10. جنوبی افریقہ – (عیسائیت)

دنیا میں شراب نوشی کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست ممالک اور ان کی غالب مذہب:

1. مالڈووا – (عیسائیت)

2. بیلاروس – (عیسائیت)

3. لیتھوینیا – (عیسائیت)

4. روس – (عیسائیت)

5. چیک ریپبلک – (عیسائیت)

6. یوکرین – (عیسائیت)

7. انڈورا – (عیسائیت)

8. رومانیہ – (عیسائیت)

9. سربیا – (عیسائیت)

10. آسٹریلیا – (عیسائیت)

دنیا میں قتل کی بلند شرح والے ممالک اور ان کی غالب مذہب:

1. ہونڈوراس – (عیسائیت)

2. وینزویلا – (عیسائیت)

3. بیلیز – (عیسائیت)

4. ایل سلواڈور – (عیسائیت)

5. گوئٹے مالا – (عیسائیت)

6. جنوبی افریقہ – (عیسائیت)

7. سینٹ کٹس – (عیسائیت)

8. بہاماس – (عیسائیت)

9. لیسوتھو – (عیسائیت)

10. جمیکا – (عیسائیت)

دنیا کی چھ خطرناک ترین گینگوں کی مذہبی شناخت:

1. یاکوزا – جاپان (لا مذہبی)

2. اگبیرس – نائجیریا (عیسائیت)

3. واہ سینگ وُو – ہانگ کانگ / چین (بدھ مت)

4. جمیکا بوس – جمیکا (عیسائیت)

5. پی سی سی – برازیل (عیسائیت)

6. آرین برادرہڈ – امریکا (انتہا پسند سفید فام عیسائیت)

دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں کی قومیت اور مذہب:

1. پابلو ایسکوبار – کولمبیا (عیسائی)

2. آمادو کاریو – میکسیکو (عیسائی)

3. کارلوس لیدر – کولمبیا (عیسائی)

4. گریسیلڈا بلانکو – کولمبیا (عیسائی)

5. خواکین گوزمان (ال چاپو) – میکسیکو (عیسائی)

6. رافائیل کارو – میکسیکو (عیسائی)

پھر بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلام دنیا میں دہشت گردی اور تشدد کا سبب ہے، اور ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم اس پر یقین کریں؟

مسلمانوں نے پہلی عالمی جنگ شروع نہیں کی، بلکہ یہ مغربی سیکولر عیسائیوں کی پیدا کردہ تھی

مسلمانوں نے دوسری عالمی جنگ بھی شروع نہیں کی، وہ بھی مغرب ہی نے بھڑکائی

آسٹریلیا کے بیس ملین مقامی باشندوں کا قتل مسلمانوں نے نہیں کیا، بلکہ وہ لوگ تھے جو "محبت کے دین" کے پیروکار تھے۔

جاپان کے دو شہروں (ہیروشیما اور ناگاساکی) پر ایٹمی بم گرانے والے بھی مسلمان نہیں تھے

جنوبی امریکا میں ایک کروڑ سے زائد ریڈ انڈینز کے قاتل بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ "امن کا پیغام" لے کر آئے ہوئے عیسائی مبلغ تھے۔

شمالی امریکا میں پانچ کروڑ ریڈ انڈینز کا قتل بھی مسلمانوں نے نہیں کیا

افریقہ سے 18 کروڑ افراد کو غلام بنا کر لے جانے والے بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ وہی تھے جو آزادی اور لبرل ازم کے نعرے لگاتے ہیں

مسلمان دہشت گرد نہیں
بلکہ دہشت گردی کی تعریف ہی مغرب کی طرف سے امتیازی اور جانبدار ہے۔

اگر کوئی غیر مسلم حملہ کرے تو وہ ایک "انفرادی جرم" کہلاتا ہے
لیکن اگر کوئی مسلمان کسی حملے میں ملوث ہو، تو اُسے فوراً دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے
چاہے وہ اپنے دین اور امت کے دفاع میں ہی کیوں نہ ہو

ایف بی آئی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق
1980 سے 2005 کے درمیان امریکا میں ہونے والے حملوں میں
صرف 6 فیصد حملے مسلمانوں سے منسوب تھے
جبکہ یہودیوں سے 7 فیصد
لیکن ان پر میڈیا نے کبھی توجہ نہیں دی

لہٰذا ہمیں دوہرے معیارات چھوڑنے ہوں گے
تبھی ہم اسلام کی اخلاقی بلندی اور عدل کو دنیا کے سامنے درست انداز میں پیش کر سکیں گے

اس پیغام کو خود تک محدود نہ رکھیں
اس سچائی کو دوسروں تک بھی پہنچائیں،
کیونکہ میڈیا کی طاقت دولت اور مفاد پرستی نے
اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی

اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ
ہماری ہی قوم کے کچھ منافق اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں

یہ دراصل اسلام کے خلاف ایک جنگ ہے
اور ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کریں
جتنے ممکن ہوں اور جتنے وسائل ہمارے پاس ہوں

اور آخر میں فخر سے کہیں

میں مسلمان ہوں اپنے دین پر فخر ہے اور اپنی امت اور اس کی جدوجہد پر مجھے ناز ہے

اور اللہ کے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا نہ بھولیں۔
Mian Younas Lehnga House

تاریخ اس طرح چرائی گئی، عام طور پر پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ 1880 میں "تھامس کیمبل" گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملانے والا ن...
23/08/2025

تاریخ اس طرح چرائی گئی، عام طور پر پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ 1880 میں "تھامس کیمبل" گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملانے والا نکلا ایجاد کیا. حلانکہ اس سے 700 سال پہلے یہ عالم اسلام کے بڑے شہروں جیسے بغداد، دمشق اور قاہرہ وغیرہ میں عام تھا، عباسی خلافت میں یہ عام شہریوں کے گھروں میں موجود تھا.
چنانچہ امام شمس الدین الذہبی کی کتاب تاریخ اسلام کے جلد 36 صفحہ 327 بغداد کے گھروں میں اس کا ذکر ہے، اسی طرح کتاب "المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم جلد 1 صفحہ 16, 17 میں شہر کے حماموں اس نلکے کا ذکر ہے.
مورخ الزبیدی نے 1188 م میں لکھی گئی اپنی کتاب" تاج العروس" شہروں کی مساجد میں گرم اور ٹھنڈے پانی کے ان نلکوں کا ذکر کیا ہے، یاد رہے کہ اس وقت یورپ میں نہانے کو گناہ سمجھا جاتا تھا.
خلافت کے خاتمے کے بعد ترتیب دیئے گئے تعلیمی نصاب میں ہر اچھی چیز کو حتی کہ نلکا جیسی چیز کو بھی مغرب سے منسوب کیا گیا بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ جب مساجد میں نلکے لگے مولویوں نے کہا کہ اس کے پانی سے وضو نہیں ہوتا.

23/08/2025

دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد 1947 میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سیاسی، فوجی اور نظریاتی سرد جنگ کا آغاز ہوا
یعنی سرد جنگ کا آغاز تقریباً 1947 سے مانا جاتا ہے۔
کیوبا ویتنام سے کوریائی جنگ چین جاپان ٹینشن شام عراق جنگوں
سمیت اس میں کئی موڑ آئے
سویت یونین اور امریکہ کسی کو واضح کامیابی نہیں ملی وسائل کی بھرمار کی وجہ سے
دونوں اپنی اپنی جگہ مظبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے
اہم موڑ سویت یونین کا افغانستان پر حملہ اور جزوی قبضہ اور شمالی اتحاد، پاکستان میں سرخوں اور انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی آغاز سے سویت یونین کے زوال کا آغاز ہوا،
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ تھنک ٹینکس نے اپنی حکمت عملی سے سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں امریکی اتحاد کی مدد کی ظاہر ہے اس میں ملکی مفاد صف اول تھا
سویت یونین، اور انڈیا کے استقبال کے لیے پاکستان میں سرخے لبڑل سرخ جھنڈے لیے تیار بیٹھے تھے،
یہ ایک لمبی کہانی ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا سکتا بھی ہے،
مختصر یہ کہ اس وقت بھی پاکستان ہی تھا جس کی جنگی حکمت عملی اور پالیسیوں سے سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے کیا جو امریکہ 40 سال میں نہ کرسکا،
پاکستان نے اس دور کا فائیدہ اٹھا کر ملکی دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کیا
اس کے بعد امریکہ بہادر کی باری آئی 9/11 ہوگیا
امریکی تاریخ میں جس ہزیمت آمیز شکست کا زکر ملتا ہے اس میں پہلے نمبر پر 20 سالہ افغانستان کی جنگ ہے۔
جس میں صرف امریکہ ہی نہیں یوربی اتحادی ناٹو کے
ناقابل شکست طاقتور ہونے کے بھرم خاک میں ملے اور آخر کار حقیقت میں راتوں رات بھاگنا پڑا۔
امریکی تھنک ٹینکس پالیسی میکرز
سرجوڑ کر بیٹھے کہ ہمارے ساتھ اصل گیم کیا ہوئی
تو تو ان کو سمجھ آیا
جب وہ افغانستان عراق شام میں پہاڑوں ریگستانوں میں خاک چھان کر لہو لہو ہو کر ڈالر پانی کی طرح بہا رہے تھے
تو چین خاموشی سے دنیا کی اقتصادی اور فوجی طاقت بن
کر امریکہ یورب کے اندر سرایت کر چکا ہے
اور پاکستان چین کے ساتھ مل کر اگلی جنگوں کی تیاری کر رہا ہے
دنیا کو امریکی سامراجی قوتوں سے آزاد کرنے کے لیے سی پیک
( سی پیک (CPEC) کا مطلب ہے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور۔
یہ ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت چین کے شہر کاشغر (سنکیانگ) کو پاکستان کی گوادر کراچی بندرگاہ سے سڑکوں، ریل، توانائی اور صنعتی منصوبوں کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے۔ اس کی مالیت ابتدائی طور پر تقریباً 62 ارب ڈالر رکھی گئی تھی۔

دنیا میں یہ منصوبہ زیادہ تر اسی نام سے یعنی CPEC (China-Pakistan Economic Corridor) کے طور پر مشہور ہے اور اسے چین کے عالمی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا سب سے اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔)
امریکہ بہادر
یوربی اتحاد نے پاکستان کو مزا چھکانے کے لیے سی پیک برباد کرنے کےلیے
کئی سالوں کی محنت سے تیار کردہ میزائل فتنہ نیازی لانچ کر دیا
جس میں پاکستان کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا
سی پیک عملاً ختم ہوا
پورا ملک واپس دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ایک نسل فتنے اور اسکو لانچ کرنے والوں کی سائیکو کی بھینٹ چڑھ کر گمراہ ہوگئی،
یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ثابت ہوئی جس کے آفٹر شاکس کئی عرصے تک بھگتنے پڑیں گے،،
واپس آتے اصل نیوز پر
کہ امریکہ نے پاک بھارت جنگ کے بعد جنگی حکمت عملی تبدیل کرنے پر کام شروع کر دیا ہے
تو بات یہ ہے کہ پاکستان آج سے نہیں جس دن سے بنا ہے اپنی حکمت عملیوں سے دنیا کے لیے مشعل راہ ہے
ہاں یہ ضرور ہے وسائل کی کمی اور ہر وقت اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کے ساتھ حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے اقتصادی طور مضبوط نہ ہو سکا اور اندرونی سازشوں دہش گردی کا شکار ہے
لیکن جنگی حکمت عملی میں آج بھی پاکستان کا کوئی ثانی نہیں
اس وقت بھی آنے والے وقتوں کی تیاری وقت سے پہلے ہو رہی ہے۔
ہم ہوں نہ ہوں
دنیا دیکھے گی سویت یونین کے بعد اگر کوئی دوسرا ملک ٹکڑے ہوا تو وہ بھی پاکستان کے ہاتھوں ہوگا
اور ضرور ہوگا
یہ اس ملک کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے
وہ کہتے ہیں ناں تقدیر بدلنے کا کچھ اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں بھی ہوتا ہے تو
ان کے ہاتھ میں ابھی تک اس مستقبل سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ باگ دوڑ ہے
جیسے آج کل چین کے ساتھ بات چیت کے آغاز سے ثابت بھی کررہے ہیں،
'باقی 'ہونے کو کوئی نہیں روک سکتاi

 الوداع میرے جگر گوشے۔😭۔یہ وہی بچہ ہے جس کی ساری فیملی ماں باپ بڑی بہنیں بھائی گھر مال مویشی سب کچھ سیلاب کی بے رحم موجو...
19/08/2025


الوداع میرے جگر گوشے۔😭۔
یہ وہی بچہ ہے جس کی ساری فیملی ماں باپ بڑی بہنیں بھائی گھر مال مویشی سب کچھ سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہوچکے ہیں۔۔ یہ اتفاقاً اسی وقت اوپر کسی رشتہ دار کے گھر گیا تھا جب میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا منظر دیکھا تھا تو سسکیوں میں کہنے لگا کہ آخری بار صرف اپنی ماں کو ڈوبتے دیکھا جو اس بے بسی اور آخری سانسوں کے وقت بھی مجھے کوئی اشارہ کرتی رہی جو میں سمجھا کہ یہ یا تو مجھے الوداع کہتی رہی اور یا پانی سے دور رہنے کا کہا۔۔
😭😭

 قیام پاکستان کے کچھ ماہ بعد لاہور کی  ایک مسجد کے باہر ایک بابا جی اکثر نظر آتے ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا لوگ ترس کھا کر...
19/08/2025


قیام پاکستان کے کچھ ماہ بعد لاہور کی ایک مسجد کے باہر ایک بابا جی اکثر نظر آتے ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا لوگ ترس کھا کر کوئی کھانے کی چیز رکھ جاتے کمزور سے کبھی کوئی لقمہ لے لیا وگرنہ اکثر کھانا خراب ہو جاتا

زیادہ تر گم سم بیٹھے رہتے کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتے پھر دن میں ایک دو دفعہ چیخ مارتے اور زور زور سے رونے لگتے .

ایک دن ان کے پاس ایک بزرگ بیٹھے تھے میں نے پوچھا آپ کون بولے یہ میرے رشتہ دار ہیں ..میرے دل میں تجسس پیدا ہوا پوچھا بزرگو یہ دن میں ایک دو دفعہ اونچی آواز سے بلقیس بولتے ہیں اور زور سے چیح مار کر رونے لگتے ہیں رشتہ دار کی آواز بھرا گئی بولے پتر یہ بہت بڑے بیوپاری تھے پاکستان ہجرت کے وقت یہ ہندو اکثریتی علاقے میں تھے ہندو گروہ کی شکل میں آتے جو گھر مسلمانوں کے ہوتے مردوں بوڑھی خواتین کو مار دیا جاتا اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر ساتھ لے جاتے

ایک دن ایسا ہی حملہ ہوا ان کے گھر کے ساتھ ایک کنواں تھا ایک ہی لاڈلی اکلوتی بیٹی بلقیس تھی سترہ اٹھارہ سال کی اسے کنویں کے کنارے کھڑا کیا اس ڈر سے کہ بلوائی اس کی عزت حراب نہ کریں اسے دھکا دے دیا ...گرتے ہوے بیٹی نے ایک چیح ماری تھی جب بابا جی کو اپنی لاڈلی کی وہ چیح یاد آتی ہے تو خود چیخ مار کر رونے لگتے ہیں .اس دکھ میں ذہنی توازن بھی خراب ہوگیا

جب میں نے تحریر پڑھی تو میرے آنسو کتاب کو بھگو گئے .سوچنے لگا کہ یہی بابا جی جیسے لوگ پاکستان کے اصل وارث ہیں کتنا دلیر اور غیرت مند تھا وہ باپ جس نے اکلوتی بیٹی پاکستان اور عزت پر قربان کر دی اور کیسی دلیر وہ بیٹی بھی تھی جس نے کوئی مزاحمت نہ کی اور جان کی بازی لگا دی

یہ ہے جی ہماری یوم آزادی کیا اس آزادی کو ہماری نوجوان نسل کو موٹر سائکل کے سائلنسر نکال کر وہیل اٹھا کر منانا چاہیے یا ایسے شہیدوں کے لیے دعا کرنی چاہیے .

بچے چکنی مٹی کی طرح ہیں اکثریت کو اپنی مرضی کی کوئی بھی شکل دی جا سکتی ہے جب میں یہ تاریح کلاس میں بتا رہا تھا تو کچھ بچوں کے آنسو ڈیسک پر گرتے دیکھے مطلب یوم آزادی سے مراد یہ نہیں کہ ہم سکول میں ایک تقریب کر دیں مٹھائی بانٹ دیں بچوں کو ایسا شعور دیں کہ وہ پاکستان کی اصل تاریح کو جان پائیں..تبھی سائلنسر اور پہیہ اٹھانے کا رویہ دعا میں بدلے گا۔“
_____________________

18/08/2025

 وہ 82 سال زندہ رہا لیکن اس نے کبھی کسی عورت کو نہیں دیکھا۔ ایک بار بھی نہیں۔ بچپن میں بھی نہیں وہ 1856 کے آس پاس پیدا ہ...
18/08/2025


وہ 82 سال زندہ رہا لیکن اس نے کبھی کسی عورت کو نہیں دیکھا۔ ایک بار بھی نہیں۔ بچپن میں بھی نہیں وہ 1856 کے آس پاس پیدا ہوا۔۔۔۔۔

اس کا نام، Mihailo Tolotos تھا جس نے اپنی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنی ماں کو کھو دیا۔ شروع سے ہی یتیم تھا، اسے یونان میں ایک ویران خانقاہی کمیونٹی ماؤنٹ ایتھوس کے راہبوں نے اپنے پاس لے لیا۔

ماؤنٹ ایتھوس کا ایک سخت قاعدہ تھا اور اب بھی ہے:

خواتین کو اجازت نہیں ہے۔
مادہ جانور بھی نہیں۔

یہ پابندی 1060 عیسوی سے نافذ ہے، جس کا مقصد خانقاہی زندگی کی پاکیزگی کو برقرار رکھنا تھا۔ Mihailo کے لیے، اس کا مطلب کچھ اور بھی گہرا تھا: اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ اس نے خانقاہ کو کبھی نہیں چھوڑا۔ اس نے کبھی گاڑی، ٹرین یا فلم نہیں دیکھی۔ وہ ایک ایسی دنیا میں پلا بڑھا جو صدیوں سے نہیں بدلی تھی۔ 82 سال تک، وہ بھکشوؤں، موم بتی کی روشنی، اور قدیم پتھر کی دیواروں کے درمیان رہتا تھا جب کہ بیرونی دنیا نے جنگیں، انقلابات، بجلی، ٹیلی فون اور ریڈیو دیکھے —

جب Mihailo انتقال 1938 میں ہوا تو راہبوں نے ایک خصوصی جنازہ ادا کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ میہائیلو ٹولوٹوس ریکارڈ شدہ تاریخ میں واحد مرد تھا جو کبھی بھی عورت کو دیکھے بغیر جیتا اور مرتا تھا۔ یہ کوئی سزا نہیں تھی۔ یہ جلاوطنی نہیں تھی۔ یہ صرف اس کی پوری دنیا تھی۔ روایت، خاموشی، اور مطلق علیحدگی سے بنی زندگی۔

کیا آپ نے کبھی Mihailo Tolotos کے بارے میں سنا ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح کی زندگی آج ہو سکتی ہے — یا ہونا چاہیے؟

ہمیں یہ بھی غلط پڑھایا گیا کہ "انصاف ہونا چاہیے"۔حالانکہ قرآن میں انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہ ایک غیر قرآنی اور غیر اس...
18/08/2025


ہمیں یہ بھی غلط پڑھایا گیا کہ "انصاف ہونا چاہیے"۔
حالانکہ قرآن میں انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔
یہ ایک غیر قرآنی اور غیر اسلامی اصطلاح ہے۔
اسلام ہمیں انصاف کا نہیں، عدل کا حکم دیتا ہے۔
"انصاف" دراصل ایک مہذب شکل میں ظلم ہے —
یا یوں کہیے کہ یہ ظلم کی مہذب شکل ہے،
جو صدیوں سے ہمیں نظامِ عدل کے نام پر پڑھائی، سکھائی اور نافذ کی گئی ہے۔
1️⃣ تین لوگ ہیں: ایک طاقتور، ایک درمیانہ، اور ایک کمزور۔
آپ تینوں کو 10، 10 اینٹیں اٹھانے کو کہیں — یہ "انصاف" ہوگا، کیونکہ برابر دیا گیا۔
لیکن طاقتور کو 15، درمیانے کو 10، اور کمزور کو 5 اینٹیں دی جائیں —
تو یہ عدل ہے۔ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری ملی۔
2️⃣ تین طلبہ ہیں: ایک اندھا، ایک ذہین، اور ایک جسمانی معذور۔
اگر آپ تینوں کو ایک جیسے سوالات والا پرچہ دیں — تو یہ "انصاف" ہے۔
لیکن دراصل یہ ظلم ہے، کیونکہ سب کی صلاحیتیں برابر نہیں۔
عدل یہ ہے کہ ہر طالب علم کا پرچہ اس کی استعداد کے مطابق ہو۔
3️⃣ تین افراد آپ کے پاس آتے ہیں: ایک بچہ، ایک بیمار، اور ایک صحت مند بالغ۔
آپ کے پاس تین روٹیاں، تین دودھ کے پیک، اور تین جوس ہیں۔
اگر آپ تینوں کو ایک ایک چیز دیں تو "انصاف" تو ہو جائے گا — مگر نتیجہ ظلم ہوگا۔
عدل یہ ہے کہ بچہ دودھ لے، مریض جوس لے، اور صحت مند روٹی لے —
جسے جو ضرورت ہو، وہی دیا جائے۔
4️⃣ پاکستان میں ایک رکشے والے کو 2000 روپے کا جرمانہ کیا جائے
اور مرسیڈیز والے کو بھی اتنا ہی —
تو یہ "انصاف" تو ہے، لیکن درحقیقت یہ بھی ظلم ہے۔
رکشے والا راشن کاٹ کر جرمانہ بھرے گا
اور مرسیڈیز والا جیب سے نوٹ نکال کر —
یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہاں عدل ہوتا تو جرمانہ آمدنی کے مطابق ہوتا۔
5️⃣ فن لینڈ میں واقعی ایسا ہوتا ہے —
جرمانے آمدنی کے حساب سے دیے جاتے ہیں۔
ایک امیر آدمی اگر تیز رفتاری کرے، تو لاکھوں روپے جرمانہ ہوتا ہے
اور ایک مزدور وہی قانون توڑے تو چند یورو کا چالان۔
یہی عدل ہے — سب پر قانون ایک ہو، مگر جزا و سزا ان کی حیثیت کے مطابق ہو۔
ہم سب کو ایک جیسا پرچہ دیتے ہیں، ایک جیسا قانون، ایک جیسا جرمانہ —
اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ یہ معاشرہ ظالم کیوں بن گیا۔
یاد رکھیے: برابری ضروری نہیں، ضرورت کے مطابق دینا ضروری ہے۔
اور یہی عدل ہے۔
📖
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
> "إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ"
"بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔"
(سورہ النحل، آیت 90)

Mian Younas Lehnga House

06/08/2025



06/08/2025

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔
میں نے آج تک اس سے اچّھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔
اسلۓ آپ سے گزارش کہ آپ اسے پورا سکون و اطمینان کے ساتھ پڑھۓ۔

Address

Bara Market Rawalpindi
Rawalpindi
46000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakeeza bridel posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakeeza bridel:

Share