22/07/2025
سوا ت میں مدرسے کے ایک معصوم طالب علم کا قتل : صرف کلاس میں نہ جانے کی پاداش میں اُسے پٹ پٹا کر مار ڈالا گیا۔
تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں:
پانچ گھنٹے تک لوہے کی زنجیروں، کوڑوں اور ڈنڈوں سے تشدد۔ جب ایک "قاری" تھک جاتا، دوسرا اُس کی باری سنبھال لیتا۔ دیگر بچوں کو مجبور کیا گیا کہ شکار کو تھامے رکھیں تاکہ وہ بچ نہ سکے۔ بچہ پانی مانگتا رہا... یہاں تک کہ دم توڑ دیا۔
یہ نظم و ضبط نہیں، یہ اجتماعی تشدد کا قتل ہے۔
خاندان کے احتجاج پر اُس کے بھائی کا غصہ فطری ہے:
"یا تو ان قاریوں کے گھر جلا دوں، یا جیسے اِنہوں نے میرے بھائی کو مارا، ویسے ہی مار ڈالوں۔"
مگر یہاں ایک بدنما سوال پھنسا ہوا ہے:
"اگر بچے کی حفاظت کا اتنا ہی خیال تھا، تو اِس وحشی، جنسی بیمار، تشدد پسند جاہلوں کے حوالے کیوں کیا گیا؟"
کچھ لوگ سکولوں کا تمثیل دیں گے — تو سن لیں:
فرق یہ ہے کہ سکولوں میں تشدد سکینڈل ہے، جبکہ مدارس میں یہ روزانہ کھلا زخم ہے:
جنسی بے راہ روی ,جسمانی اذیتیں ,بچوں کی خودکشیاں ,اموات
یہ صرف رپورٹ ہونے والے واقعات ہیں۔ کتنے دب جاتے ہیں؟ کتنے بچے خوف کے مارے ہمیشہ خاموش رہتے ہیں؟
یہ سڑا ہوا نظام تعلیم نہیں، اندھی اطاعت سکھاتا ہے۔
یہاں استاد نہیں، جلاد ملتے ہیں۔ یہاں بچے کی آواز گناہ اور سوال جرم بن جاتا ہے۔
لہٰذا، خدا کے لیے، اپنے بچوں کو ان انسانی سلاخ خانوں سے دور رکھیں۔
یہ "دینی تعلیم" نہیں — یہ جہالت کی پرورش، ذہنی غلامی اور جدید بربریت ہے۔ اس نظام میں اصلاح کی گنجائش نہیں — اس کا صفایا ضروری ہے۔