Village khinger khurd

Village khinger khurd Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Village khinger khurd, Rawalpindi.

گاؤں کھنگر خورد ضلع راولپنڈی کی تحصیل راولپنڈی میں واقع ایک قدیم اور تاریخی اہمیت کا حامل گاؤں ہے۔ یہ گاؤں راولپنڈی شہر سے تقریباً چونتیس کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف، چک بیلی خان روڈ پر آباد ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ یونین کونسل جھٹہ ہتھیال کا حصہ

23/10/2025

ایس پی اسلام آباد عدیل اکبر کو کس نے مارا!!

قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں،
پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں!!!

یہ سطریں، آج اسلام آباد میں اپنی جان لینے والے ایس پی عدیل اکبر نے اپنے سوشل میڈیا پر اپریل میں لکھی تھیں. .

خزاں کی اُس رات ، سرِبالاخیال کا ہما پھڑپھڑایا ،
زبان نے لفظ کا ذائقہ چکھنا چاہا تو دانتوں نے اسے روک لیا،
پیٹ کو بھوک لگی ہے ، دانتوں کو کھانا چبانا ہے،
اور گونگے خیال کا ہما بھر اڑان جا بیٹھا اک شجرِبیمار پر ؛
آنکھیں موند، غرق ایک عارضی اونگھ میں،
منتظرِآمدِتمازتِ بہاراں۔

یہ اوپر والی نظم ایس ایس پی ابرار نیکوکارہ مرحوم نے اپنے آپ کو مارنے سے پہلے، خود لکھی تھی جو ایک حساس دل کی عکاسی کرتی ہے. سوال یہ ہے کہ ایک ذہین شخص جو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرجائے، بقول شخصے ڈی پی او کے طور پر ضلع کا مالک رہے، پستول بردار وردی پہنتا ہو اور شہر بھر میں اس کا ٹہکا ہو، وہ اپنی جان کیسے لے سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ڈپریشن کا مرض شاہ اور گدا کا فرق نہیں دیکھتا، بلکہ وہ شاہ کو زیادہ نشانہ بناتا ہے. ڈپریشن ایک ایسا ظالم مرض ہے کہ ایک جگہ کچھ بچوں کا غریب باپ، ان کے کپڑوں کے تقاضوں کی وجہ سے خودکشی کرلیتا ہے تو دوسری جگہ اپنی جان لینے والا بظاہر پاکستان کے طاقتور ترین طبقے سے تعلق رکھتا ہے.

انسان خودکشی کیوں کرتا ہے، ابرار نیکوکار کے اپنے آخری نوٹ میں لکھے الفاظ کچھ یوں ہیں " انسان خود کشی اس لیے کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اسکو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے جب ایک سمجھدار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اسکی موت پر رویا نہیں کرتے، بلکہ اسکے فیصلے کا احترام کرتے ہوتے ہیں". ہو سکتا ہے بعض لوگوں کو ان الفاظ میں کچھ رومانیت دکھائی دے، تاہم بہت سے لکھنے پڑھنے والوں نے خودکشی کرتے وقت اس سے ملتے جلتے نوٹ چھوڑے ہیں. تاہم نفسیاتی تجزیے کے اعتبار سے یہ نوٹ بیزاری اور اکیلے پن کی کیفیت کی عکاسی ہے جو کہ ڈپریشن کی بڑی وجوہات میں سے ہیں.

گزشتہ پندرہ برس میں جہانزیب کاکڑ، ابرار نیکوکار، عدیل اکبر، نبیحہ چوہدری، شہزاد وحید، اشعر حمید، سہیل احمد ٹیپو، بلال پاشا، اور کئی افسران، ڈپریشن کے ہاتھوں اپنی جان سے گزر چکے ہیں. یاد رہے کہ خودکشی کرنے والے افسران کی غالب تعداد کا تعلق پاکستان پولیس سروس سے ہے جو اس جاب کے نفسیاتی چیلنجز کی طرف اشارہ کرتا ہے.

آج سے چند برس پہلے جب میرے بیچ میٹ اور دوست سہیل ٹیپو، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے خودکشی کی تو میں نے کالموں کی سیریز لکھی تھی، "سہیل ٹیپو کو کس نے مارا "؟ وجوہات میں تو بہت کچھ نظر آتا ہے. نیکوکارہ کے حوالے سے گھریلو مناقشے کا ذکر کیا گیا ہے. ٹیپو مرحوم بھی کچھ ملی جلی کیفیت میں تھا. پچھلے دس برس میں مجھے آٹھ سے دس سینئر سول سرونٹس یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی جان اپنے ہاتھوں لی. اللہ کریم ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے.

ڈپریشن کے حوالے سے ہمیں بطور سوسائٹی بہت سیکھنے کی ضرورت ہے. وجوہات ان گنت ہوسکتی ہیں، ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے، حادثاتی بھی اور ماحولیاتی بھی. ٹیپو اور نیکوکارہ دونوں کے حوالے سے ایسے بہت سے جملے سننے کو ملے کہ 'وہ تو بہت بہادر تھا' اور 'اتنے بڑے عہدے پر بندے کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے'. چالیس ایکڑ کی کوٹھی میں رہنے والا کتنا اکیلا ہوسکتا ہے اور یہ تاج کہاں اور کس طرح چبھتا ہے، یہ پہننے والا ہی جان سکتا ہے. بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک سول سرونٹ کس طرح تنی ہوئی تار پر چلتا ہے اور جب وہ گرتا ہے تو اپنے ساتھ خاندان کو بھی لے ڈوبتا ہے.

ہمارے ہاں ایک عمومی روایت ڈپریشن کو روحانیت کے ساتھ غلط ملط کرنے کی ہے. یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کینسر، یا شوگر یا دل کی بیماری کو روحانیت کے ساتھ مکس کرلیں کہ فلاں بندہ گنہگار ہے اس لیے اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے. ڈیپرہشن ایک پیچیدہ بیماری ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس کا نفسیاتی اور اعصابی علاج بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے.

ابھی تو کسی ڈپٹی کمشنر، کسی ایس پی، کسی کلکٹر کی خود کو مارنے کی خبر پھر بھی لوگوں کو متوجہ کرلیتی ہے، تاہم وطن عزیز میں عام انسانی جان ارزاں ہے، یہ نظام کلرکوں، کانسٹیبلوں وغیرہ کو تو ویسے کسی شمار قطار میں نہیں رکھتا. ورنہ سرکاری نظام کے ہاتھوں سالانہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں میں ہے.

گزشتہ برسوں میں تجویز کیا تھا کہ سول سروس کے لئے ایک ہیلپ لائن سیٹ اپ کی جائے جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ڈپریشن کے مرض کی تشخیص اور علاج ہوسکے. پولیس میں یہ ضرورت کہیں زیادہ ہے. عام طور پر پاکستان میں ڈپریشن کو 'زنانہ' مرض سمجھا جاتا ہے جو سورماؤں کو لاحق نہیں ہوسکتا. تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی آبادی کے ہر چار میں سے ایک فرد کو کلینکل ڈپریشن کے علاج کی ضرورت ہے.

نفسیات کے شعبے میں بیس سال گزارنے کی وجہ سے، اس حوالے سے ایک کیمپین چلانی چاہی، تاکہ سول سروس میں ڈپریشن کے حوالے سے حجابات اٹھ سکیں اور ہر سال دو سال بعد قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جاسکے اور علاج موت سے پہلے مل سکے. سول سروس ہی نہیں، خودکشی سے بچاؤ کی ہاٹ لائن تک عوام تک ایسی سہولت کی رسائی ہونی چاہیے. آئی جی پنجاب اور اسلام آباد سے اس حوالے سے بات بھی ہوئی، زبردست تجویز ہے، کہ کر سراہا بھی گیا مگر کوئی عملی اقدامات نہیں لیے گئے کہ ہر شارک صفت بڑا عہدے دار اپنے گبند ذات کے حصار میں ہے اور ایسی ہی خودکشیوں کی وجوہات میں سے ایک ہے. سول سروس سے تعلق رکھنے والے احباب سے اس سلسلے میں مشورے اور توجہ کی درخواست ہے کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، یہ کام سول سرونٹس کو خود کرنا ہے، سیاست دانوں کو نہیں،، ڈپریشن ایک مرض ہے جو کسی کو بھی ہوسکتا ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے. .

عدیل اکبر اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعائیں!

عارف انیس

23/10/2025

ڈیورنڈ لائن 8 اگست 1919 میں باضابطہ بین الاقوامی سرحد بن گئی ہے
(شبیر درانی)

ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان باؤنڈری لائن ہے۔
اس باؤنڈری لائن کی لمبائی 2611 کلو میٹرز ہے۔
اس باؤنڈری لائن کو 12 نومبر 1893 کو ایک معاہدے کے تحت کھینچا گیا۔

مورخہ 12 نومبر 1893 کو افغانستان کے بادشاہ امیر عبد الرحمٰن اور برطانوی نمائندے مورٹیمر ڈیونڈ کے درمیان معاہدہ طے پایا ۔اُسی معاہدہ کے مطابق باؤنڈری لائن قائم کی گئی۔
اور باؤنڈی لائن کا نام بھی اُس وقت کے برطانوی نمائندے ڈیورنڈ مورٹیمر کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا

دراصل 1893 میں جو ڈیورنڈ لائن کھچی تھی وہ 100 برس کے لیے نہیں تھی بلکہ امیر عبد الرحمٰن اور سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے جس سمجھوتے پر دستخط کیے اس کی معیاد دستخط کنندہ بادشاہ کی زندگی تک تسلیم کی گئی تھی۔اس سمجھوتے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ افغانستان اپنی ضرورت کا اسلحہ ہندوستان کے راستے درآمد کر سکتا ہے اور برطانوی ہند افغان بادشاہ کو سالانہ اٹھارہ لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دے گا

چنانچہ امیر عبد الرحمٰن کی وفات کے ساتھ جیسے ہی معاہدہ ختم ہوا برطانوی ہند نے نئے انتظامات وضع ہونے تک سالانہ گرانٹ اور راہداری کی سہولت بھی معطل کر دی۔

برٹش سیکرٹری فار انڈیا سر لوئی ڈین نئے امیر حبیب اللہ خان کی دعوت پر بات چیت کے لیے کابل پہنچے۔21 مارچ 1905 کو ڈین حبیب اللہ معاہدے پر دستخط ہوئے اور امداد و راہداری کی سہولت بحال ہو گئی۔اس معاہدے کے مسودے میں امیر حبیب اللہ کی جانب سے عہد کیا گیا کہ ان کے والد نے برطانوی ہند کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا تھا وہ بھی اس پر مکمل عمل درآمد کرتے رہیں گے اور کبھی رو گردانی نہیں کریں گے۔

افغان جنگ کے بعد آٹھ اگست 1919 کو راولپنڈی میں افغان وزیرِ داخلہ علی احمد خان نے برطانوی ہند کے ساتھ جس امن سمجھوتے پر دستخط کیے اس کے نتیجے میں برطانیہ نے اگرچہ راہداری اور سالانہ امداد کی سہولت واپس لے لی مگر افغانستان کی آزادی و خود مختاری کو پہلی بار تسلیم کر لیا۔اس معاہدے کی شق نمبر پانچ میں لکھا گیا 'افغان حکومت ہندوستان اور افغانستان کی وہی سرحد تسلیم کرتی ہے جو مرحوم امیر حبیب اللہ خان نے تسلیم کی تھی۔'

یوں پہلی بار 1919 کے سمجھوتے کے تحت ڈیورنڈ لائن معاہدے کی معیاد بادشاہ کی زندگی تک برقرار رہنے کی پابندی سے آزاد ہو کر باضابطہ بین الاقوامی سرحد بن گئی۔

بائیس نومبر انیس سو اکیس کو کابل میں برطانوی ہند کے نمائندے سر ہنری ڈبس اور افغان حکومت کے نمائندے محمود ترزئی نے برطانیہ اور افغانسان کے مابین دوستانہ کاروباری تعلقات کے معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے نے انیس سو انیس کے معاہدے کی جگہ لی۔نئے معاہدے کے آرٹیکل دو میں جملہ ہے 'فریقین ہندوستان اور افغانستان کے درمیان وہی سرحد تسلیم کرتے ہیں جو انیس سو انیس کے معاہدے کی شق نمبر آٹھ میں تسلیم کی گئی تھی۔'

1921 کے معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ توثیق کے تین برس بعد کوئی بھی فریق معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔مگر نہ برطانوی ہند اور نہ ہی امیر امان اللہ خان کی حکومت نے اس سے دستبرداری اختیار کی۔امیر امان اللہ خان کے جانشین شاہ نادر خان نے چھ جولائی انیس سو تیس کو برطانوی حکومت کے خط کے جواب میں جو سفارتی خط بھیجا اس کے دوسرے پیرے میں لکھا،

'آپ کی تحریری یاد دہانی کے جواب میں ہم فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ سابق معاہدات نہ صرف توثیق شدہ ہیں بلکہ انہیں مکمل نافذ تصور کیا جائے ۔'

انیسویں صدی میں افغانستان اور مملکتِ روس کے مابین جو سرحدی حد بندی ہوئی اسے افغانستان کی مرضی معلوم کیے بغیر برطانیہ اور روس نے آپس میں طے کر کے نافذ کر دیا

۔جبکہ افغانستان اور ایران کی سرحدی حد بندی کے عمل سے بھی افغانستان کو باہر رکھا گیا اور یہ حد بندی برطانیہ اور ایران کے مابین سمجھوتے کے زریعے نافذ کر دی گئی۔

ڈیورنڈ لائن واحد سرحدی لکیر ہے جسے افغان بادشاہ کی مرضی سے طے کیا گیا اور یکے بعد دیگرے تین بادشاہوں نے 37 برس کے عرصے میں اس بابت پانچ معاہدوں کو تسلیم کیا۔

افغانستان نے آج تک سابق روسی ریاستوں سے ملنے والی اپنی شمالی سرحدی حد بندی اور ایران سے متصل مغربی سرحد کو چیلنج نہیں کیا مگر ڈیورنڈ لائن کو ہر بار چیلنج کیا۔اگر پاکستان برطانوی ہند کی جانشین ریاست نہیں تو پھر افغانسان کی شمالی سرحد کے بارے میں کیا کہا جائے جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سوویت یونین کی جانشین وسطی ایشیائی ریاستوں سے لگتی ہے۔

اگر واقعی افغانستان سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ تاریخی زیادتی ہوئی ہے تو کیا کوئی بھی افغان حکومت کبھی شمالاً، شرقاً اور غرباً سرحدی ناانصافیوں کو عالمی عدالتِ انصاف میں چیلنج کرنا پسند کرے گی ؟

شائد یہی ایک قانونی راستہ ہے روز روز کی بک جھک سے نجات پانے کا اگر کوئی بھی افغان حکومت مطمئن ہونا چاہے تو۔۔۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ افغان حکمران امیر عبد الرحمٰن اور ہندوستان کی انگریز حکومت نے باقاعدہ معاہدے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کیا تھا' انگریز حکومت نے افغانستان کے حکمرانوں کو بطور وظیفہ دی جانے والی رقم 12 لاکھ سالانہ سے بڑھا کر 18 لاکھ سالانہ کردی تھی جو آج کے حساب سے کئی ارب روپے بن جائے گی۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں نے جنگ میں شکست کھانے کے باوجود اپنے وظیفہ کی رقم میں چھ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ کرایا اور ڈیورنڈ لائن کی منظوری دے دی تھی ' اگر افغان حکمران شکست کھانے کے بعد ہندوستان کی انگریز حکومت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کر دیتے اور اعلان کرتے کہ وہ افغانستان کے علاقے پر انگریزی سرکار کا زبردستی قبضہ تسلیم نہیں کرتے تو آج افغانستان اور اس کے حامی پاکستانی پختونوں کا کیس مضبوط ہوسکتا تھا لیکن یہاں تو امیر صاحب نے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کیے اور اس معاہدے کو افغان لویا جرگہ سے منظور کرا کے اسے قانونی شکل بھی دے دی۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1893سے لے کر 1947تک کسی بھی افغان حکمران نے ڈیورنڈ لائن کی مخالفت نہیں کی اور اسے سرحد تسلیم کرتے رہے' قیام پاکستان کے فوراً بعد افغانستان کے حکمرانوں اور اشرافیہ کو اچانک اس طرف کے پختونوں سے ہمدردی پیدا ہوئی اور انھوں نے ڈیورنڈ لائن نہ ماننے کا راگ الاپنا شروع کردیا

مختصراً یہ کہ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ سو سال کے لیے تھا اور نومبر 1993 میں اس کو سو سال پورے ہو گئے اس لیے کچھ لوگ اب اس معاہدے کو غیر موثر قرار دیتے ہیں،
تو واضح رہے کہ انگریزوں کا افغان حکومت سے واٹر شیڈ نامی ایک معاہدہ ہوا تھا جو پانی کی تقسیم کے حوالے سے تھا۔ اس کے کچھ سال بعد ڈیورنڈ لائن کا قدم اٹھایا گیا جو پاکستان بننے کے بعد بھی برقرار رہا لیکن یہ کہنا کہ معاہدہ سو سال کے لیے تھا درست نہیں کیونکہ اس معاہدے کی نقل موجود ہے اور اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ڈیور نڈلائن کی قانونی و بین الاقوامی حیثیت وہی ہے جو انٹرنیشنل بارڈر کی ہوتی ہے

( شبیر درانی)

10/10/2025

2 سال یہ جماعت خاموش رہی اور جیسے ہی امن معاہدہ ہوا یہ لوگ فلسطین کے حق پر سڑکوں پر آگئے۔ ا

09/10/2025
05/10/2025

"کشمیری بھائیو، اپنے پاؤں پر کلہاڑی مت مارو۔"

04/10/2025

کشمیر ایکشن کمیٹی کے “ عزائم “

آزاد کشمیر میں مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلے یہ مستقل حل نہیں ہوگا۔ مار دھاڑ سے مطالبات منوانے والوں کو ایک بار راستہ دے دیا جائے تو پھر یہ سلسلہ پھیلتا ہی جاتا ہے، جیسا آزاد کشمیر میں ہوا — ہنگامے ہوئے، سستا آٹا، سستی بجلی سمیت کئی مطالبات مانے گئے۔ اب پھر ایسا احتجاج شروع ہوگیا جو سیکورٹی خطرہ ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے علاقوں کو اپنے وسائل کے مطابق ہی مراعات دے سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کا ڈومیسائل رکھنے والوں کے لیے پورا پاکستان کھلا ہے، جبکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں کے لیے وہاں پابندیاں ہیں۔حالیہ احتجاج سے پہلے ایسے اشارے مل رہے تھے کہ بڑا تصادم ہوگا، زیادہ سے زیادہ لاشیں گرائی جائیں گی۔ صورتحال سے نمٹنے میں وفاقی حکومت اب تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی تو ناکام بھی نہیں رہی ، کچھ مظاہرین کے ساتھ تین پولیس والے بھی جان سے گئے ، بہت بڑی خونریزی ٹل گئی ۔ بھارتی میڈیا اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جس طرح جلتی پر تیل ڈال رہا ہے وہ منظم منصوبے کا حصہ ہے۔ پاکستان سے جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد بھارت انگاروں پر لوٹ رہا ہے، پراکسی وار تیز کر دی، سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے — را گلف سے ان لوگوں کی فنڈنگ کررھی ھے اس کے ساتھ اسرائیل بھی ہے۔ آزاد کشمیر اور ایل او سی میں فوجی قافلوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آجائے تو فائدہ بھارت اور اسرائیل ہی اٹھائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاک افواج کسی بھی مہم جوئی کا فوری اور منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں، لیکن اپنی سرحدوں کے اندر “عوامی احتجاج” جیسی حرکتیں فورسز کے لیے بھی وقتی ہی سہی مگر مسائل ضرور پیدا کرتی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس تحریک میں جے کے ایل ایف، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، آزاد کشمیر میں مقیم غیر کشمیری، افغانی اور جنرل مشرف کا ٹولہ متحرک ہے — پی ٹی آئی تو ہے ہی۔ ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ مہاجرین کی سیٹیں ختم کی جائیں۔ آزاد کشمیر میں کتنے کشمیری ہیں اور کتنے مختلف ادوار میں باہر سے لا کر بسائے گئے؟ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آنے والے اصل کشمیری تو ملک کے دوسرے حصوں میں ہیں۔ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے سے پورے ملک کے عوام تنگ ہیں، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگائے جائیں، پرچم اتارے جائیں، سیکورٹی کو خطرے میں ڈالا جائے، یا پاکستانی فوج کو علاقے سے نکالنے جیسے واہیات مطالبات کیے جائیں؟ زلزلے سمیت قدرتی آفات اور جنگوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے بغیر آزاد کشمیر کچھ بھی نہیں۔ریاست، ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات ضرور کرے، لیکن یہ بات پتھر پر لکیر جیسی ہے کہ مسئلے کا اصل حل قانون کے سخت، موثر اور بلا امتیاز نفاذ سے ہی نکلے گا۔ آج کچھ مطالبات مان لیے جائیں تو کل نئے سر اٹھا لیں گے — ملک کے باقی عوام کا کیا قصور ہے؟ایکشن کمیٹی کا رویہ ایسا ہے جیسے کوئی “لاڈلا” کسی سپر سٹور میں گھس کر شاپنگ کر لے؛ دس ہزار کا بل آنے پر جیب سے پستول نکال کر کہے میں تو پانچ ہزار دوں گا۔ دکاندار کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ڈر کر کہے: ٹھیک ہے۔ “لاڈلا” کہے: اب تو ڈھائی ہزار دوں گا۔ دکاندار کہے: منظور ہے۔ “لاڈلا” بپھر کر کہے: اب تو صرف ایک ہزار دوں گا۔ دکاندار جان بچانے کے لیے بولے: تم یہ سب مفت ہی لے جاؤ۔ “لاڈلا” اکڑ کر کہے: اب تو سودا بھی ڈبل لے لوں گا۔۔

03/10/2025

راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں پاکستان سے پوری مذاکراتی ٹیم کشمیر پنچ گئی
اور اعلان کیا ہے کہ کوشش ہے تمام مطالبات مانے جایں
پہلے ہی تین روپے یونٹ بجلی آدھی قیمت پر آٹا دے رہے ہیں۔اور اس سبسڈی میں ہم پاکستانیوں کا پیسہ استمال ہو رہا ہے۔اب یہ سلسہ آگے بڑھتا ہی چلا جاے گا ہر دو ماہ بعد یہ سلسلہ نئے مطالبات کہ ساتھ آپ کہ سامنے آے گا۔اور ساتھ میں نعرے بھی لگیں گئے کہ
"بھاڑ میں جاے پاکستان "
ایسی کیا مجبوری ہے پاکستان کو زیر انتظام علاقے کو جو آپ کو اپنا سمجھتے بھی نہیں وہ سہولیات دینے پر مجبور ہیں۔ جو آپ کہ اپنے لوگوں کو میسیر نہیں ہیں۔
جو 75 سالوں میں آپ کو ماننے سے انکاری ہیں انہیں مکمل اپنے حال پر چھوڑ دیں کہ آپ اپنے علاقے اپنے وسائل کہ مطابق شوق سے چلا لوں۔
مکمل خودمختاری دے دیں کیا ضرورت زبردستی کہ رشتے پالنے کی
ان کی وجہ سے بھارت سے کئی جنگیں کر چکے ہیں۔لاکھوں فوج اس بارڈر پر رکھی ہوئی اس پر اربوں روپیہ پاکستانی عوام کا خرچ ہو رہا ہے ۔

21/09/2025

📢 دعوت نامہ 📢

اہلِ علاقہ راولپنڈی رنگ روڈ کے وہ زمین مالکان جو گزشتہ کئی سالوں سے نہ صرف اپنی زمینوں سے محروم ہیں بلکہ حکومت کے اعلان کردہ معاوضے سے بھی تاحال محروم ہیں، اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں۔

اس مقصد کے لیے "متاثرین رنگ روڈ کمیٹی" قائم کی گئی ہے، جو عوامی آواز کو بلند کرنے کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کر رہی ہے۔

🗓️ تاریخ: 24 ستمبر (بروز بدھ)
⏰ وقت: صبح 10:00 بجے
📍 مقام: کمشنر آفس، کچہری کے سامنے، راولپنڈی

اس احتجاجی مظاہرے کی بھرپور کوریج کے لیے مختلف میڈیا چینلز اور اخبارات کے نمائندے بھی موجود ہوں گے۔

تمام متاثرین سے درخواست ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو کر اپنے حقوق کی آواز بلند کریں۔

✊ آئیں اور اپنے حق کے لیے متحد ہو جائیں!
زیر اہتمام: متاثرین رنگ روڈ کمیٹی

📞 رابطہ: راجہ اعجاز – 0339944-0313

20/09/2025

کھنگر قوم: مختصر تعارف
​کھنگر بنیادی طور پر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھوہار میں پائی جانے والی ایک قوم ہے جو کہ راجپوتوں کی ایک ذیلی قوم ہے۔ ان کی اکثریت ضلع راولپنڈی کی تحصیل گجر خان، ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ، اور ضلع چکوال کی تحصیل چکوال میں ہے۔
​اصل اور تاریخ
​کھنگر قبیلہ خود کو بھٹی راجپوت قبیلے سے جوڑتا ہے۔ روایات کے مطابق، ان کا تعلق رائے صندل خان بھٹی اور ان کے پوتے رائے عبداللہ خان بھٹی (جو کہ پنجاب میں دلا بھٹی کے نام سے مشہور ہیں) سے ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ پوٹھوہار میں سب سے پہلے آنے والے کھنگر، سنگھار خان تھے، جنہوں نے مغل بادشاہوں کی فوج میں خدمات انجام دیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کھنگر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لاہور کے قریب پنڈی بھٹیاں سے ہجرت کر کے گجر خان کے علاقے میں آکر آباد ہوئے۔
​مقامات اور شناخت
​کھنگر قوم کے لوگ زیادہ تر گجر خان، سوہاوہ اور چکوال کے علاقوں میں آباد ہیں۔ ان علاقوں میں کھنگر کلاں اور کھنگر خورد جیسے کئی گاؤں بھی شامل ہیں۔
​جہلم اور چکوال میں اس قبیلے کے بہت سے لوگ خود کو بھٹی اور راجا کہلواتے ہیں، جبکہ گجر خان اور راولپنڈی کے علاقے میں کچھ لوگ راجپوت اور کچھ جاٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
​ثقافت اور روایات
​کھنگر قبیلے کی ثقافت پوٹھوہار کی وسیع ثقافت کا حصہ ہے۔ ان کی تاریخ پنجاب، سندھ اور افغانستان میں بھی ملتی ہے اور زیادہ تر کھنگر مسلمان ہیں۔

Address

Rawalpindi

Telephone

+923005014363

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Village khinger khurd posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Village khinger khurd:

Share