10/07/2025
" خود دار عورت… لاوارث میت "
پیر کامل ناول میں پڑھا تھا کہ سالار سکندر کئی دن کی بے ہوشی کے بعد جب ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کہ کسی کو بھی اُس کی بے ہوشی کا علم نہیں ہوا کسی نے اُس
کی کمی محسوس نہیں کی۔ تب اُسے احساس ہوتا ہے کہ ہماری ذات سے صرف ہمیں ہی فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔
اور آج حمیرا اصغر اور اس سے پہلے آپا عائشہ کی اموات کا سُن کر سالار سکندر کا یہی فقرہ دماغ میں گردش کرتا ہے۔۔۔۔۔
سناٹے سے گونجتا کمرہ، بند دروازے کے پیچھے مہینوں سے خاموش پڑی لاش، اور آس پاس نہ کوئی آنکھ اشک بار، نہ کوئی ماتم، نہ کوئی دعا۔ بس دیواریں تھیں، جو چیخ چیخ کر اس عورت کی تنہائی کی گواہ تھیں، جو کبھی اپنی خود مختاری پر نازاں تھی، جس نے رشتوں کے ریشمی بندھنوں کو آزادی کی زنجیر سمجھ کر توڑ دیا، جو فیمینزم کے افیون سے مدہوش ہو کر اپنے خاندان، بھائی، باپ، اور سب سے بڑھ کر اپنے رب سے بھی روٹھ گئی تھی۔
اداکارہ حمیرا اصغر"* ایک خوبصورت چہرہ، ایک آزاد عورت، ایک مشہور نام"* لیکن کیا واقعی وہ کامیاب تھی؟
پولیس اہلکار جب اس کے بھائی کو فون کرتا ہے تو جواب ملتا ہے:
*"اس کے والد سے بات کریں"*
اور جب والد کو فون کیا جاتا ہے تو ایک باپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ۔۔۔۔۔
ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہم تو بہت پہلے اس سے ناطہ توڑ چکے ہیں ، لاش ہے تو جیسے چاہو دفناؤ۔۔۔۔۔۔
فون بند ہو جاتا ہے، مگر سوال کھلا رہ جاتا ہے کہ وہ کونسی زندگی تھی جو باپ کے دل کو اتنا سخت کر گئی؟ وہ کونسا راستہ تھا جو بھائی کی غیرت کو خاموش کرا گیا؟ ؟؟؟
وہ کون سی سوچ تھی جس نے ایک جیتے جاگتے وجود کو مہینوں لاش بنا کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا؟
یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ فیمینزم کی وہ بھیانک تصویر ہے، جو اشتہارات میں خوشنما، تقاریر میں متاثرکن، اور سوشل میڈیا پر انقلابی لگتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی، تنہا اور اندھیرے سے لبریز ہوتی ہے۔
فیمینزم کا آغاز عورت کے حقوق سے ہوا، مگر انجام اس کی تنہائی پر ہو رہا ہے۔
فیمینزم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نکال کر صرف *"خود رو"* بنا دیا اور یہی *"خود"* آخرکار اُسے اکیلا کر گیا۔
خاندان کا ادارہ، جسے صدیوں کی تہذیب نے پروان چڑھایا، جس میں قربانیاں، محبتیں، ناراضگیاں، مان، اور رشتہ داریوں کی حرارت موجود تھی، اسے آج کی عورت نے "زنجیر" سمجھ کر کاٹ دیا۔ اور جب وقت کی تیز دھوپ نے جلایا، تو کوئی سایہ دار درخت ساتھ نہ تھا۔فیسبک کی
دوستیاں، انسٹاگرام کے فالورز، ٹوئٹر کی آزادی کے نعرے, سب خاموش تھے۔
باپ کا دروازہ بند تھا، بھائی کا دل پتھر ہو چکا تھا، اور ماں شاید برسوں پہلے رو رو کر مر چکی تھی۔
عجیب معاشرہ ہے یہ بھی، جہاں اگر بیٹی نافرمان ہو تو باپ ظالم کہلاتا ہے، اور اگر باپ لاتعلق ہو جائے تو بیٹی کی خودمختاری کا جشن منایا جاتا ہے۔
عورت جب گھر سے نکلے، تو "طاقتور" کہلاتی ہےاور جب طلاق لے، تو "باہمت" بن جاتی ہے جب رشتے توڑے تو "بغاوت" نہیں بلکہ "خود شعوری" قرار پاتی ہے۔اور جب مر
جائے، تنہا، بوسیدہ لاش کی صورت تو سارا معاشرہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
کاش حمیرا اصغر نے جانا ہوتا کہ فیمینزم، ماں کی گود جیسا تحفظ نہیں دے سکتا۔
کاش وہ سمجھ پاتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی ایک گونج ہوتی ہے، اور بھائی کی غیرت، عزت کی چادر ہوتی ہے۔کاش وہ جان پاتی کہ مرد دشمنی کا نام عورت دوستی نہیں، بلکہ یہ فکری گمراہی ہے جو عورت کو اس کے رب، اس کے دین، اور اس کی فطرت سے کاٹ دیتی ہے۔
عورت مضبوط ضرور ہو، خودمختار بھی ہو، لیکن وہ اپنے اصل سے جُڑی رہے وہ ماں کا پیار باپ کی شفقت بھائی کی غیرت، اور شوہر کی رفاقت کو بوجھ نہ سمجھے۔ورنہ
فیمینزم کی راہ میں جو منزل ہے، وہ تنہائی، بے رُخی، اور بے گور و کفن لاش ہے۔
حمیرا اصغر چلی گئ لیکن فیمنیزم کی دھند میں گم اور
کتنی بیٹیاں ایسی ہی گم ہو رہی ہیں بس ہمیں تب ہوش آتا
جب تعفن زدہ لاش دیواروں سے سوال کرنے لگتی ہے۔۔۔آزادی چاہیے تھی نا؟ لے لو… مگر اب میرے پاس کوئی نہیں
۔
۔میری طرف سے بیٹیوں اور بہنوں! کےلیےایک بار پھر یہی گزارش ہے کہ صاف ستھری زندگی گزارو۔ اس دنیا میں اقدار کے ساتھ جینے والی لاکھوں کروڑوں بہنیں بیٹیاں ہیں جو کام بھی کرتی ہیں، جابز بھی کرتی ہیں، فیملیز بھی چلاتی ہیں اور اللہ پاک کے ساتھ زندہ تعلق میں بھی رہتی ہیں۔ یہ دنیا 4 دنوں کا کھیل ہے، اس کی لش پش میں دونوں جہانوں کا کیرئیر مت برباد کرو
۔
اس حوالے سے تازہ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
ایس ایس پی ساؤتھ مہزور علی نے مزید بتایا کہ شوبز انڈسٹری سے بھی ابھی تک کسی نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا. اداکارہ حمیرا اصغر 2024 سے مالک مکان کو کرایہ ادا نہیں کر رہی تھی جس پر مالک مکان نے ان پر کیس کر رکھا تھا. پولیس کو متوفیہ کے دوسیل فونز ملے
ہیں جن سے ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.
فلیٹ سے کھانے پینے کی جو اشیاء ملی ہیں ان پر ایکسپائری ڈیٹس ستمبر 2024 کی ہیں۔اور ان کے فلیٹ کی بجلی منقطع ہوئے بھی کئی ماہ گزر چکےہیں۔اور سوشل میڈیا پر آخری پیغامات بھی ستمبر 2024 کے ہی ہیں۔
ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ لاش کئی ماہ پرانی ہے۔لیکن اس بارے میں اصل حقائق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی معلوم ہونگے۔
اور آخر میں میرا حمیرا کے وارثان کے حوالے یہ رائے ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے معاملات اللہﷻ کے سپرد یوتے ہیں۔اور اس لیے کسی کی بھی کوئی غلطی کوتاہی ہو تو معاف کردینی چاہیۓ۔اور وارثان کو چاہیۓ تھا کہ وہ لاش کو وصول کرتے اور خود کفن دفن کرتے۔اور متوفیہ کے ایصال ثواب کےلیے دعا کرتے۔۔۔۔۔
اللہﷻ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں بھی عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
تحریر۔۔۔اعجاز احمد سیال