Voice of Rawalakot

Voice of Rawalakot Spread the knowledge of Guidance
Islamic video that are helpful to all people

10/07/2025

" خود دار عورت… لاوارث میت "

پیر کامل ناول میں پڑھا تھا کہ سالار سکندر کئی دن کی بے ہوشی کے بعد جب ہوش میں آیا تو اس نے محسوس کیا کہ کسی کو بھی اُس کی بے ہوشی کا علم نہیں ہوا کسی نے اُس
کی کمی محسوس نہیں کی۔ تب اُسے احساس ہوتا ہے کہ ہماری ذات سے صرف ہمیں ہی فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔

اور آج حمیرا اصغر اور اس سے پہلے آپا عائشہ کی اموات کا سُن کر سالار سکندر کا یہی فقرہ دماغ میں گردش کرتا ہے۔۔۔۔۔
سناٹے سے گونجتا کمرہ، بند دروازے کے پیچھے مہینوں سے خاموش پڑی لاش، اور آس پاس نہ کوئی آنکھ اشک بار، نہ کوئی ماتم، نہ کوئی دعا۔ بس دیواریں تھیں، جو چیخ چیخ کر اس عورت کی تنہائی کی گواہ تھیں، جو کبھی اپنی خود مختاری پر نازاں تھی، جس نے رشتوں کے ریشمی بندھنوں کو آزادی کی زنجیر سمجھ کر توڑ دیا، جو فیمینزم کے افیون سے مدہوش ہو کر اپنے خاندان، بھائی، باپ، اور سب سے بڑھ کر اپنے رب سے بھی روٹھ گئی تھی۔

اداکارہ حمیرا اصغر"* ایک خوبصورت چہرہ، ایک آزاد عورت، ایک مشہور نام"* لیکن کیا واقعی وہ کامیاب تھی؟
پولیس اہلکار جب اس کے بھائی کو فون کرتا ہے تو جواب ملتا ہے:
*"اس کے والد سے بات کریں"*
اور جب والد کو فون کیا جاتا ہے تو ایک باپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ۔۔۔۔۔
ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہم تو بہت پہلے اس سے ناطہ توڑ چکے ہیں ، لاش ہے تو جیسے چاہو دفناؤ۔۔۔۔۔۔
فون بند ہو جاتا ہے، مگر سوال کھلا رہ جاتا ہے کہ وہ کونسی زندگی تھی جو باپ کے دل کو اتنا سخت کر گئی؟ وہ کونسا راستہ تھا جو بھائی کی غیرت کو خاموش کرا گیا؟ ؟؟؟
وہ کون سی سوچ تھی جس نے ایک جیتے جاگتے وجود کو مہینوں لاش بنا کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا؟

یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ فیمینزم کی وہ بھیانک تصویر ہے، جو اشتہارات میں خوشنما، تقاریر میں متاثرکن، اور سوشل میڈیا پر انقلابی لگتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی، تنہا اور اندھیرے سے لبریز ہوتی ہے۔
فیمینزم کا آغاز عورت کے حقوق سے ہوا، مگر انجام اس کی تنہائی پر ہو رہا ہے۔
فیمینزم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نکال کر صرف *"خود رو"* بنا دیا اور یہی *"خود"* آخرکار اُسے اکیلا کر گیا۔

خاندان کا ادارہ، جسے صدیوں کی تہذیب نے پروان چڑھایا، جس میں قربانیاں، محبتیں، ناراضگیاں، مان، اور رشتہ داریوں کی حرارت موجود تھی، اسے آج کی عورت نے "زنجیر" سمجھ کر کاٹ دیا۔ اور جب وقت کی تیز دھوپ نے جلایا، تو کوئی سایہ دار درخت ساتھ نہ تھا۔فیسبک کی
دوستیاں، انسٹاگرام کے فالورز، ٹوئٹر کی آزادی کے نعرے, سب خاموش تھے۔
باپ کا دروازہ بند تھا، بھائی کا دل پتھر ہو چکا تھا، اور ماں شاید برسوں پہلے رو رو کر مر چکی تھی۔

عجیب معاشرہ ہے یہ بھی، جہاں اگر بیٹی نافرمان ہو تو باپ ظالم کہلاتا ہے، اور اگر باپ لاتعلق ہو جائے تو بیٹی کی خودمختاری کا جشن منایا جاتا ہے۔
عورت جب گھر سے نکلے، تو "طاقتور" کہلاتی ہےاور جب طلاق لے، تو "باہمت" بن جاتی ہے جب رشتے توڑے تو "بغاوت" نہیں بلکہ "خود شعوری" قرار پاتی ہے۔اور جب مر
جائے، تنہا، بوسیدہ لاش کی صورت تو سارا معاشرہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
کاش حمیرا اصغر نے جانا ہوتا کہ فیمینزم، ماں کی گود جیسا تحفظ نہیں دے سکتا۔
کاش وہ سمجھ پاتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی ایک گونج ہوتی ہے، اور بھائی کی غیرت، عزت کی چادر ہوتی ہے۔کاش وہ جان پاتی کہ مرد دشمنی کا نام عورت دوستی نہیں، بلکہ یہ فکری گمراہی ہے جو عورت کو اس کے رب، اس کے دین، اور اس کی فطرت سے کاٹ دیتی ہے۔

عورت مضبوط ضرور ہو، خودمختار بھی ہو، لیکن وہ اپنے اصل سے جُڑی رہے وہ ماں کا پیار باپ کی شفقت بھائی کی غیرت، اور شوہر کی رفاقت کو بوجھ نہ سمجھے۔ورنہ
فیمینزم کی راہ میں جو منزل ہے، وہ تنہائی، بے رُخی، اور بے گور و کفن لاش ہے۔

حمیرا اصغر چلی گئ لیکن فیمنیزم کی دھند میں گم اور
کتنی بیٹیاں ایسی ہی گم ہو رہی ہیں بس ہمیں تب ہوش آتا

جب تعفن زدہ لاش دیواروں سے سوال کرنے لگتی ہے۔۔۔آزادی چاہیے تھی نا؟ لے لو… مگر اب میرے پاس کوئی نہیں
۔
۔میری طرف سے بیٹیوں اور بہنوں! کےلیےایک بار پھر یہی گزارش ہے کہ صاف ستھری زندگی گزارو۔ اس دنیا میں اقدار کے ساتھ جینے والی لاکھوں کروڑوں بہنیں بیٹیاں ہیں جو کام بھی کرتی ہیں، جابز بھی کرتی ہیں، فیملیز بھی چلاتی ہیں اور اللہ پاک کے ساتھ زندہ تعلق میں بھی رہتی ہیں۔ یہ دنیا 4 دنوں کا کھیل ہے، اس کی لش پش میں دونوں جہانوں کا کیرئیر مت برباد کرو
۔

اس حوالے سے تازہ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

ایس ایس پی ساؤتھ مہزور علی نے مزید بتایا کہ شوبز انڈسٹری سے بھی ابھی تک کسی نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا. اداکارہ حمیرا اصغر 2024 سے مالک مکان کو کرایہ ادا نہیں کر رہی تھی جس پر مالک مکان نے ان پر کیس کر رکھا تھا. پولیس کو متوفیہ کے دوسیل فونز ملے
ہیں جن سے ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.
فلیٹ سے کھانے پینے کی جو اشیاء ملی ہیں ان پر ایکسپائری ڈیٹس ستمبر 2024 کی ہیں۔اور ان کے فلیٹ کی بجلی منقطع ہوئے بھی کئی ماہ گزر چکےہیں۔اور سوشل میڈیا پر آخری پیغامات بھی ستمبر 2024 کے ہی ہیں۔
ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ لاش کئی ماہ پرانی ہے۔لیکن اس بارے میں اصل حقائق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی معلوم ہونگے۔

اور آخر میں میرا حمیرا کے وارثان کے حوالے یہ رائے ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے معاملات اللہﷻ کے سپرد یوتے ہیں۔اور اس لیے کسی کی بھی کوئی غلطی کوتاہی ہو تو معاف کردینی چاہیۓ۔اور وارثان کو چاہیۓ تھا کہ وہ لاش کو وصول کرتے اور خود کفن دفن کرتے۔اور متوفیہ کے ایصال ثواب کےلیے دعا کرتے۔۔۔۔۔
اللہﷻ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں بھی عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین

تحریر۔۔۔اعجاز احمد سیال

سردار شازیب شبیر کون ہے؟شازیب شبیر گلف ایمپائر پرائیویٹ لمیٹڈ کے وائس چیئرمین ہیں،آل آزاد کشمیر پٹرولیم کے صدر سدھن ایجو...
08/07/2025

سردار شازیب شبیر کون ہے؟
شازیب شبیر گلف ایمپائر پرائیویٹ لمیٹڈ کے وائس چیئرمین ہیں،آل آزاد کشمیر پٹرولیم کے صدر
سدھن ایجوکیشن کانفرنس کے صدر ھیں
جناب محترم سردار شازیب شبیر صاحب کے کشمیر میں گلف ایمپائر پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے مختلف پروجیکٹ ھیں جس میں کشمیر کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے مثلا ھجیرہ ٫پلندری ،باغ ،دھیر کوٹ ،بنجوسہ , دوتھان ،حسین کوٹ مظفرآباد ،بیھٹک بلوچ وغیرہ کے ورکر کام۔ کئی سالوں سے سر انجام دے رہے ہیں۔۔
پراجیکٹس کے نام
ھل ٹاپ ھوٹل اینڈ ریسٹورنٹ
جہاں دور جدید کی تمام تر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں
ھر قسم کا دیسی کھانا دیستاب ھے

گلف پیلس ھوٹل کھائیگلہ
یہ آزاد کشمیر کے سب سے خوبصورت ھوٹل میں شامل ہے
اور 50 خوبصورت کمروں پر مشتمل ہے۔۔
گلف مارکی راولاکوٹ
آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا اور خوبصورت شادی ھال جہاں ھزاروں کی تعداد میں مہمانوں کی گنجائش ہے
اسکے علاؤہ خوبصورت پارک اور وسیع پارکنگ کی سہولت موجود ہے
گلف ایمپائر کا سب سے اھم فیصلہ جو کہ سردار شازیب شبیر صاحب نے کشمیر کے لوگوں کے لیے درد محسوس کرتے ہوئے اور اپنے لوگوں کو روز گار کے مزید موقع فراہم کرنے کے لیے 6 سال قبل گلف میڈیسن کے نام سے میڈیسن ڈسٹریبیوشن کا اغاز کیا جس سے کشمیر کے لوگوں کو بے شمار سہولیات میسر آئ۔۔۔
میڈیسن پورے آزاد کشمیر میں سپلائی کی جاتی ہیں یقینا سردار شازیب شبیر صاحب کا اپنے لوگوں کے لیے کیا گیا فیصلہ قابل ستائش ھے
سردار شازیب شبیر صاحب ایک نہایت ہی عاجز پسند انسان ھیں اللہ تعالیٰ نے صاحب کو بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے ضلع پونچھ کے اندر فلاح و بہبود کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں چاہے وہ مستحق طالب علموں کے تعلیمی اخراجات ہوں یا کسی غریب کے میڈیکل کے اخراجات ہوں، کسی مستحق فرد کی بیٹی کے جہیز وغیرہ میں مدد کرنی ہو شازیب صاحب پیش پیش رہتے ہیں۔۔۔
گلف ایمپائر پرائیویٹ لمیٹڈ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان میں تمام علاقوں سے لوگ کام کرتے ہیں مگر ورکر سے لے کر کے مینجمنٹ تک گلف فیملی کا کوئی ایک فرد کام نہیں کرتا ھے تاکہ ضرورت مند افراد کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کیا جا سکے
گلف ایمپائر پرائیویٹ لمیٹڈ کے تمام پروجیکٹ میں ورکر کو اچھی سیلری اچھی رہائش و کھانے پینے کا بدوبست کیا جاتا ہے تمام ورکر کئی سالوں سے کام کرتے ہیں مگر کسی ورکر کو بھی کام چھوڑنے کا خیال کھبی من نہیں آیا کیونکہ سردار شازیب شبیر صاحب تمام ورکر کا بھائیوں کی طرح بہت خیال رکھتے ہیں کسی بھی ورکر کو ایمرجنسی میں جب لون چاہیے ھو ملتا ہے
اللہ تعالیٰ بوس سردار شازیب شبیر صاحب کو سلامت رکھے۔۔۔
نوٹ:سردار شازیب شبیر کے ورکر کی جانب سے شازیب شبیر کی زندگی کے بارے میں لکھی گئ کہانی ہے، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک ورکر اپنے بوس کے لئیے اتنے اچھے خیالات رکھتا ہے۔۔۔

تراڑ کھل نیریاں سے تعلق رکھنے والا نوجوان خودکشی کرنا چاہتا تھا۔ٹوریسٹ پولیس آزاد پتن  نے نوجوان کی حرکات سکنات اور چہرے...
03/07/2025

تراڑ کھل نیریاں سے تعلق رکھنے والا نوجوان خودکشی کرنا چاہتا تھا۔
ٹوریسٹ پولیس آزاد پتن نے نوجوان کی حرکات سکنات اور چہرے پر چھائے پریشانی کو بروقت بھانپ لیا، جیسے ہی نوجوان نے خودکشی کی کوشش کی نوجوان کو جلدی سے پکڑ لیا اور ایک قیمتی انسانی جان بچا لی۔

نوجوان کو پاس بٹھا کر زندگی کی اہمیت اور خودکشی ایک بزدلانہ فعل ہے اس پر سمجھایا ازاں بعد نوجوان سے اس کے ورثہ کا رابطہ نمبرلے کر ورثاء سے رابطہ کیا گیا اور ان کے درمیان ہوئے نقصان اور مسلے کو یکسو کیا۔

سوات میں سیلابی ریلے میں ڈوب کر جان بحق ہونے والے ڈسکہ کے خاندان نے پورے  اہل دل انسانوں کو غمزدہ کر دیا۔ اللہ تبارک وتع...
27/06/2025

سوات میں سیلابی ریلے میں ڈوب کر جان بحق ہونے والے ڈسکہ کے خاندان نے پورے اہل دل انسانوں کو غمزدہ کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حادثہ میں جانبحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور مرحومین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

23/06/2025

سعودی عرب میں ھائی الرٹ جاری
عرب ریاستوں میں موجود امریکی اڈے ایران کے نشانے پہ

زندگی "بھاڑ" میں جا تیرا بھروسا ہی نہیں مر گئے، خاک ہوئے شوق سے جینے والے🥺انا للّٰہ وانا الیہ راجعونملتان کا ایک اور چرا...
21/06/2025

زندگی "بھاڑ" میں جا تیرا بھروسا ہی نہیں
مر گئے، خاک ہوئے شوق سے جینے والے🥺
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
ملتان کا ایک اور چراغ بجھ گیا...
30 سالہ وقاص رضا، جو ماڈل ٹاؤن چوک میں ایک رئیل اسٹیٹ آفس چلا رہا تھا، زندگی کی کسی ایسی جنگ سے ہار گیا جس کا شور صرف اس کے دل میں تھا۔
دفتر میں کام کی فائلیں، کتابیں، اور ایک بورڈ جس پر لکھا تھا:

"WHEN YOU TAKE OWNERSHIP OF ALL YOUR FLAWS AND WEAKNESSES, YOU'VE WON."

مگر شاید وہ جنگ بہت خاموش اور بہت تنہا تھی۔
اس نے آخری پیغام فیملی گروپ میں بھیجا:

"میری ڈیڈ باڈی آفس سے آکر لے جائیں۔"
اور جب کزنز پہنچے، تو وہ سانسیں بند ہو چکی تھیں۔
کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس کرب سے گزر رہا تھا، کیا دکھ تھا، یا کون سی امید ٹوٹ چکی تھی۔ مگر یہ حقیقت ہمیں ایک بار پھر جھنجھوڑتی ہے کہ
زندگی کی چکاچوند میں بہت سے لوگ اندر سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے آس پاس کوئی چپ ہے، تھکا ہوا ہے، الگ تھلگ ہے — تو اسے صرف وقت نہیں، توجہ، محبت اور سننے والا دل چاہیے۔😭

21/06/2025

اچھا ہوا عائشہ آپا مر گئی۔۔۔۔۔ ایک بیٹا کراچی ڈیفنس ۔ دوسرا اسلام آباد کے بڑے فارم ہاؤس میں رہتا ہے
ہے ناں بڑی عجیب بات ۔۔۔۔
بھلا کسی کے مرنے پے کوئی اس طرح کہتا ہے۔۔۔۔؟

لیکن عائشہ آپا کو تو مرے ہوئے کئی برس گُزر گئے تھے

بس ہوا یہ ہے ان کی " ڈیڈ باڈی " کل ملی ہے
ایک فلیٹ میں جہاں وہ کئی برسوں سے بھوت بن کر رہ رہی تھیں
لیکن یہ حیرت کی بات نہیں کہ
ان کا ایک بیٹا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کراچی ڈیفنس خیابان بحریہ میں چار کنال کے وسیع محل نما گھر میں خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے
دوسرا بیٹا اسلام أباد میں جس کا چک شہزاد میں آٹھ کنال کافارم ہاؤس اور بحریہ میں لگژری کوٹھی
اور کراچی میں کروڑوں روپے مالیت کی پراپرٹی
اور ماں ۔۔۔۔۔۔ کا یہ حال
عائشہ آپا ۔۔۔۔ جگت عائشہ. آپا
ہمیشہ سے ایسی نہیں تھیں
یہی کوئی دس پندرہ برسوں پہلے نہ جانے اُن کے من میں کیا سمائی
سب بچوں کو کال کرکے بلایا
اپنی ساری جائیداد بچوں کے نام کردی
اس کے بعد وہ ہی ہوا
جو ہمیشہ سے ہوتا آیا
۔۔۔
ان جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔ آخر کیوں نہیں ایسوں کو عقل نہیں آتی ۔۔۔۔؟

کس کس کا نام لوں ۔۔۔۔؟
عائشہ آپا کی اولاد ۔۔۔۔ چند مہینوں میں ہی اُکتا گئی عائشہ آپا ایک دن طلعت حسین صاحب کے آگے پھٹ پڑیں زار و قطار روتے ہوئے. کہنے لگیں کہ دن میں کئی کئی بار سارے بچوں کو فون کرتی ہوں
لیکن وہ کال اٹینڈ ہی نہیں کرتے
کبھی کبھار اٹھا بھی لیتے ۔۔۔ تو کہتے ۔۔۔ دو منٹ ٹھہریں ابھی کال کڑتا ہوں
اور وہ دو منٹ پہلے گھنٹوں پھر دنوں پھر ہفتوں مہینوں پر محیط ہوجاتے
عائشہ آپا ۔۔۔۔ فون ہاتھ میں پکڑے انتظار کرتی رہ جاتیں
کبھی کبھی تو ساری رات انتظار کرتے گزر جاتی
لیکن کسی ایک. کا بھی فون نہیں أثا
ابھی کوئی پندرہ برس پہلے ہی کی تو بات ہے
جب عائشہ آپا نے بے حد شوق سے پراڈو TZ گاڑی لی
شوق سے خود چلاتی ہوئیں طلعت حسین کے گھر آئیں
کیک اور مٹھائی لانا نہ بھولیں
پھر وہ ہوتیں اور کراچی کی سڑکیں
اپنے غریب حلقہ احباب اور رشتے داروں کو کبھی نہیں بھولیں
چند برس پہلے ۔۔۔۔۔ جب تک انہوں نے اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم نہیں کی تھی
ڈائری پر ترتیب سے دنوں کی تقسیم یعنی باقاعدہ شیڈول بنا رکھا تھا
روزانہ کسی نہ کسی غریب اور نادار کے گھر جانا
ان کے لئے راشن
اور نقدی
بچوں کے سکولوں کی فیسیں
نہ جانے کتنے نادار خاندانوں کے تو باقاعدہ وظیفے لگے ہویےتھے
پھر ایک دن ۔۔۔۔۔ سب کچھ بدل گیا
اپنی جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی
پھر ۔۔۔
اس کے بعد
اس لئے ہی کہہ رہا ہوں کہ اچھا ہوا سانس کی ڈوری ٹوٹی تو انہیں یقیناً سکون مِل گیا ہوگا
کیونکہ وہ جس طرح ساری ساری رات اپنے فلیٹ کے باہر
بے چینی سے ٹہلتی رہتیں بُڑبڑاتی رہتیں ۔۔۔ تھک کے چُور ہو جاتیں تو نیچے بیٹھ جاتیں ۔۔۔ پھر ان سے اُٹھا نہیں جاتا تھا
اب تو وہ اچانک چیخیں مار کر رونے لگ جاتیں
جب انہیں اپنی اس حالت کا خود احساس ہوتا ایک دم سے چُپ کر جاتیں پڑوسی پیچارے ان کے قریب آتے تو یہ انہیں زور سے ڈانٹنا شروع ہو جاتیں

لیکن گزشہ کافی دنوں. سے وہ اس احساس سے بھی عاری ہوتی جا رہی تھیں
کچھ ہفتوں سے انہوں نے رات کو بھی فلیٹ سے باہر آنا چھوڑ دیا کبھی کبھار چند منٹوں کے لئے دکھائی دیتیں پھر پاؤں فریکچر کروا بیٹھیں ۔۔۔۔۔ پھر خاموشی
اس بار جب خاموشی. خاصی طویل ہو گئی
اور پھر جب فلیٹ سے عجیب سی بدبو بھی آنے. لگی ۔۔۔۔۔۔ !
عائشہ آپا کو تنہائی نے مار دیا ۔

سبق سیکھنا چاہیے جب تک آپ کے ہاتھ پاؤں ٹھیک کام کر رہے ہیں جائیداد بچوں کے نام نہ کیجئے چاہے وہ کتنے ہی ترلے کریں جس دن جائیداد نام کی سمجھیں آپ نے ہاتھ پاؤں کٹوا لئے اب سوکھی عزت بھی نہیں ملنی وقت تو چھوڑ ہی دیں۔
منقول
Highlight ⊕ Highlight tagg Highlight ⊕ -Fans Voice of Germany - Mahwash Khan Highlight tagg

15/06/2025

ڈاکٹرز کا اجتماعی استعفیٰ اور ایمرجنسی سروسز سے انکار، کیا یہ جرم ہے؟ راولاکوٹ کیس اسٹڈی

تحریر، خواجہ کاشف میر

راولاکوٹ میں ضلعی عدالت کے حکم پر دو لیڈی ڈاکٹرز اور ایک نرس کی گرفتاری کے بعد سرکاری ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن نے نہ صرف سی ایم ایچ کے تمام ڈاکٹرز سے اجتماعی استعفے لے لیے بلکہ ایمرجنسی سروسز سمیت ہسپتال میں کام بند کر دیا، جو نہ صرف اخلاقی المیہ ہے بلکہ آئینی، قانونی اور فوجداری جرم بھی۔ آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974 کے تحت شہریوں کو زندگی، صحت اور بنیادی سہولیات کا حق حاصل ہے۔ آئین کا آرٹیکل 4 اور 9 اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ریاست اور اس کے تمام ادارے بشمول ڈاکٹرز عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے پابند ہیں لہٰذا سرکاری ملازمین کی طرف سے ایمرجنسی سروسز معطل کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان کے Essential Services (Maintenance) Act 1958 کے تحت تمام لازمی سروسز، بشمول سرکاری ڈاکٹرز اور طبی عملہ، کسی بھی صورت میں سروسز بند نہیں کر سکتے۔ اس قانون کے تحت ایسی ہڑتال یا استعفیٰ دینے پر نہ صرف سروس سے برطرفی ممکن ہے بلکہ متعلقہ افراد کو قید (3 ماہ تک) اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح پاکستان پینل کوڈ (PPC) 1860 کی دفعات 188، 269 اور 270 کے مطابق اگر کوئی فرد عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرے یا ایسا اقدام کرے جس سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو، تو وہ قابل سزا جرم ہے، جس پر کم از کم 6 ماہ قید اور جرمانہ یا 3 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کا اطلاق ان تمام ڈاکٹرز اور سٹاف پر ہوتا ہے جنہوں نے ایمرجنسی ڈیوٹی چھوڑ کر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔

سپریم کورٹ پاکستان اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے مطابق ریاستی ملازمین کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن سروسز کی معطلی، خاص طور پر ہسپتالوں میں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، اور اس پر فوری تادیبی اور فوجداری کارروائی ہونی چاہیے۔ آزادکشمیر ہائی کورٹ نے بھی ماضی میں ایسے اقدامات کو خلاف آئین قرار دیا ہے۔

بین الاقوامی قوانین جیسے WHO Code of Practice اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر (آرٹیکل 25) بھی واضح طور پر کہتے ہیں کہ طبی عملہ کسی بھی حالت میں مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کا مجاز نہیں، چاہے وہ احتجاج ہی کیوں نہ ہو۔

لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب عدالت نے ایک حکم دیا اس پر عمل درآمد اور بالا عدالتوں میں چیلنج کرنے کے بجائے ڈاکٹرز نے ریاست، آئین، قانون، اور انسانی حقوق کو چیلنج کرتے ہوئے ایمرجنسی سروسز بند کر دیں تو کیا ریاست اور عدلیہ کو اب خاموش تماشائی بنے رہنا چاہیے؟

11/06/2025

آ ج سچ سامنے آ ہی گیا میں بار بار سوچتا راہا آخر
عمر حیات کو جب ثنا یوسف جانتی نہیں تھی تو بیڈ روم کا کیسے پتا اور چترال سے تھی اور اسلام آباد میں اپنا گھر ہے
تو بہت سارے سوال تھے جو آج حل ہو گئے
تو آ پ لوگ بھی سنے سچ کیا ہے
عمر حیات اکیلا قصور وار نہیں پہلے ٹیک ٹوک ۔پہر اسناپ چیٹ

اور پہر واٹس ایپ پے باتیں پھر ملنے بلا کر ٹالتے رہنا کئ بار بلا کے ملنےکا بول کے پھر ثنا یوسف عمر حیات کو بولتی رہی ابھی نہیں
اچھا آیک گھنٹہ رک جاؤ ۔
آدھا گھنٹہ رک جاؤ پھر انتظار کر واکے منا کر دینا
آخر چھ ماہ سے یہی سب چلتا رہا
اسکے باد ثنا یوسف کی برتھ ڈے کا دن یانی 29مئ کو پھر
عمر حیات تحفے تحائف لے کر اسلام آباد پہنچ جاتا ہے پھر بار بار کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر ثنا یوسف آخر
2جون کو ملنے کا ٹائم سیٹ کر لیتی ہیں
آگے بتانے سے پہلے یہ واضع کر دوں کے ثنا یوسف اسلام آباد میں جس مکان میں رہتی تھی وہ گھر رینٹ کا ہے
اور وہ اوپر والے پورشن میں رہائش پذیر تھی
جب کے نیچے کوئی اور فیملی رہتی تھی
تو آگے چلتے ہیں پھر 2 جون کو عمر حیات فیصل آباد سے
فرچنر رینٹ پر بک کروا کے اسلام آباد پہنچا
ظاہر ہے آپس میں بات چیت تھی اس لیے یہاں تک بات
بڑہی اس کے بعد کیونکہ ثنا یوسف سو رہی تھی تو فون
ریسو نہیں کر سکی اس کے بعد جب ثنا 12 بجے دن کے اٹھ کے
اپنا فون چیک کرتی ہیں تو دیکھتی ہیں عمر حیات کی اتنی
کالس میسج پھر سنا یوسف کال کرتی ہے اور بات ہوتی ہے
عمر حیات کہتا ہے آج تو ملنا تھا نا ہمیں
ثنا کہتی ہے ہاں ملنا تھا چلو کچھ دیر میں بتاتی ہوں
جو محلے کے لوگ بول رہے تھے کے وہ لڑکا ثنا کے گھر کے باہر ریکی کررہا تھا تو ان کو جواب مل گیا ہو گا کہ کیوں کر رہا تھا
کیونکہ وہ ثنا یوسف سے رابطے میں تھا
اس لیے انتظار میں تھا
جیسا کہ عمر حیات کے محلے والوں ے بھی بتایا کہ وہ ایسا لڑکا نہیں تھا اچھا تھا
خیر آگے چلتے ہیں اس کے بعد ثنا یوسف نے عمر حیات سے کہا کے ابھی میں نہیں مل سکتی آ ج مشکل ہے یا کچھ اور کہا خیر پھر ثنا کے والد اور بھائی گھر میں موجود نہیں تھے
ایک پھوپھو تھی موجود اور والدہ کس کام سے مارکیٹ گئ ہوئی تھی ۔ظاہر ہے نیچے بھی لوگ رینٹ پر ہیں تو ان کو کسی کی فیملی ممبر میں کون باہر گیا کون آ یا کوئی لینا دینا نہیں
اس لیے دروازے کا لوک کھلا ہوا تھا
یا پھر ثنا عمر کے ساتھ کال پر تھی بتا رہی ہو
گی امی باہر گئ ہیں
کیونکہ عمر ڈایرکٹ اوپر چلا بھی گیا وہ بھی روم تک اتنی رسائی دی گئی ہو گئی
خیر یہاں آ کر کچھ باتیں گھر والوں نے نہیں بتائی
پھوپھو کچھ اور ہی بیان دے رہی ہیں کہ پانی لینے گئی
تو گولی چلا دی
یہاں کچھ haid ہے باتیں جو صرف گھر میں لگے سی سی ٹی کیمرے اور گھر میں موجود اینی شاہد کو۔معلوم ہو اور پولیس کو چاہیے کے یہ بھی پتا کریں کہ آ خر عمر حیات نے
گولی کیوں چلائی آخر کیا بات ہوئی تھی اور یہ اسلحہ اس کے پاس کہاں سے آ یا
کس نے دیا اور کیا ثنا کی چیٹ میں اس بات کا کوئی ذکر ہے یا نہیں
یہ سب معلوم کرنا چاہیے
اور سب سے ضروری بات آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا ثنا یوسف کی فیملی رات کو ہی میت لے کے اپنے آبائی گاؤں چترال چلے گئے
کیونکہ وہ لوگ بھی مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے
اور رینٹ پر تھے تو آپ لوگ جانتے ہیں جس کا گھر ہوتا ہے وہ نہیں چاہتے کے کوئی مسئلے مسائل ہوں
ا چھا تو اب آ جاتے ہیں عمر حیات نے غصے میں آ کر
ایک معصوم اور کم عمر لڑکی کی جان لے لی
مگر اسے کیا ملا وہ تو دنیا سے چلی گئی اور یہ حادثہ ایک داغ
ایک یاد بن کے رہ جائے گا
عمر حیات تمہیں کیا ملا عمر قید کی سزا اس کے بعد
پھا نسی کی سزا سنائی دی جائے گی
کیا ملا
یہ ایک نصیحت ہے ان لڑکیوں کے لئے جو کم عمر میں اس طرح کے موقع دیتی ہیں اور ان لڑکوں کے لئے اگر ایک بار لڑکی نے منا کر دیا توچھوڑ دیں آگے بڑھ جائیں
آپ لوگ میری اس بات سے اتفاق کرینگے کے اولاد کا دکھ
سب سے زیادہ ماں باپ کو ہوتا ہے
وہ ماں جس نے جنم دیا ہوتا ہے نہیں آ تا صبر
اپنی ماں کو دوست بناؤ ہر بات بتایا کریں
ڈارو مت کیونکہ وہ ماں ہے ہر دنیا کی اونچ نیچ سے واقف ہوتی ہیں
اور میں سمجھتا ہوں کسی کام کی وجہ سے تو ۔فیس بوک ہو یا انسٹاگرام ۔ٹیک ٹوک استعمال اگر سہھی کرینگے تو
نقصان نہیں ہوگا
ورنا ناچ گانے کے لیے آ گئے آپ لوگ خود سمجھ دار ہیں
اگر میری کسی بھی بات سے دل دکھا ہو تو مافی چاہتا ہوں😥
Online Quran Tutor ❣️♥️🌹

05/06/2025
03/06/2025

ثنا یوسف کیس: چشم کشا حقائق سامنے آ گئے

اطلاعات کے مطابق، ثنا یوسف کو گولی لگنے کے بعد تقریباً پچیس منٹ تک وہ فرش پر تڑپتی رہی، لیکن اُس کی ماں کی دل دہلا دینے والی فریادوں کے باوجود کوئی ہمسایہ مدد کو نہ آیا۔ بالآخر ایک پڑوسی، جو ڈرائیونگ سے ناواقف تھا، نے ہمت کر کے ثنا کی گاڑی خود چلائی اور بڑی مشکل سے اُسے قریبی اسپتال لے گیا۔

واقعہ کے تقریباً ایک گھنٹے بعد پولیس کے اہلکار موٹر سائیکل پر جائے وقوعہ پر پہنچے۔ یہ تمام تفصیلات اُس پڑوسی کے بیان سے سامنے آئیں، جس نے زخمی ثنا کو اسپتال پہنچایا۔

01/06/2025

ایک 55 سالہ شخص ڈِپریشن کا شکار تھا،*
*اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی، بیوی نے کہا کہ میرا خاوِند شدید ڈِپریشن میں ہے براہ کرم مدد کریں*

*ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی، اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور اُس کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا*
*صاحب بولے! میں بہت پریشان ہوں، دراصل میں پریشانیوں سے مغلُوب ہوں، ملازمت کا دباؤ، بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں گولِیاں،میں بہت اُداس اور پریشان ہوں.*
*یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔*
*پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا کہ آپ نے دسویں جماعت کس اِسکول میں پڑھی؟ اُس شخص نے اسے اِسکول کا نام بتایا،ڈاکٹر نے کہا! آپ کو اس اِسکول میں جانا ہے پہر اپنے اسکول سے آپ کو اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے اور اپنے ساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ھے، ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں*

*وہ شخص اپنے اسکول گیا، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہا، اور اسے کاپی کروایا،اس میں 120 نام تھے،اس نے ایک مہینے میں دن رات کوشش کی لیکن وہ بمشکل 75 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہا*

*حیرت !!!*
*ان میں سے 20 مر چُکے تھے, 7 رنڈوے اور 13 طلاق یافتہ تھے, 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے,5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے سکا, 6 اتنے امیر نکلے کہ اُسے یقین ہی نہیں آیا, کچھ کینسر میں مُبتلا تھے، کچھ فالِج, ذِیابیطس،دمہ یا دل کے مریض تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں/ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں, کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے, ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا, ایک ماہ کے اندر دسویں جماعت کا رجسٹر اذِیّت بیان کر رہا تھا*

*ڈاکٹر نے پوچھا! "اب بتاؤ تمہارا ڈِپریشن کیسا ہے"؟*

*وہ شخص سمجھ گیا کہ اسے کوئی مُوزِی بیماری نہیں، وہ بھوکا نہیں، اس کا دماغ دُرُست ہے، اسے عدالت،پولیس،وکلاء کا کوئی مسئلہ نہیں، اس کی بیوی اور بچّے بہت اچھے اور صحت مند ہیں، وہ خود بھی صحت مند ہے*
*اس شخص کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دُکھ ہیں، اور وہ بہت سے اذِیّت ناک دُکھوں سے محفُوظ ہے*

*دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑیں، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے لیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنا مُوازنہ نہ کریں*

*اور پھر بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ڈِپریشن میں ہیں تو آپ کو بھی اپنے اِسکول جانا چاہیے، دسویں جماعت کا رجسٹر لائیں اور تصدیق کریں ......*

Address

Rawlakot

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Voice of Rawalakot posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share