18/09/2024
میں نے بے ایک بُزرگ سے پوچھا : "حضورِ پاکﷺ خدا کے محبوب ہیں ، انکی وجہ سے کائنات تخلیق کی گئی۔۔ دنیا کی ساری خوشیاں اُنکی وِلادت کے صدقے وجود میں آئیں ، پھر باقی عبادتوں کی طرح میلادِ رسولﷺ کو عین فرض کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر ہر سال ربّیع اُلاول کے آتے ہی یہ بحث کیوں شروع ہو جاتی ہے کہ آقاۓ دو جہاںﷺ کے آنے کی خوشی منانی چاہیئے یا نہیں ؟ "
باباجی میرا تذّبذب بھانپ چُکے تھے ۔ اس سوال کے بعد وہ ایک لمحے کو
مُسکرائے اور گویا ہوۓ
" پُتّر ، محبت ایک private چیز کا نام ہے. محبت کا آدھا حُسن اُسے پوشیدہ رکھنے میں ہے. خدا سے بڑا سخی تو کوئی نہیں ہے ناں۔۔ اس لیے اپنا
محبوب بھی، اُسکے جلوے بھی ، اُسکی رحمت بھی اور اُسکی مُسکان بھی ساری
کائنات سے بانٹ لی۔۔ مگر پُتّر ، خدا بھی تو پھر خدا ہے ناں ، ادھر بھی اُس
نے ایک راز رکھ دیا، اُمّتی سب کو بنادیا مگر عاشق کسی کسی کو۔۔
ہر عاشق کی ایک نشانی ہے کہ وہ ہر رُکاوٹ اور فریب سے گُزر کر محبوب تک
پہنچ ہی جاتا ہے ۔۔ اسی لیے خدا نے حج کو فرض کیا، کعبے کے گِرد طواف کو
فرض کر دیا، لیکن مدینے جانے کو فرض قرار نہیں دیا۔۔ اسکی وجہ صرف یہ
ہے کہ عبادت میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔
ایک فرض عبادت آپکو مجبوراً کرنی ہی پڑتی ہے چاہے آپکا دل کرے یا نہ
کرے ، اس لیے حج عمرے کے فرائض مکہ تک ختم ۔۔۔ اب مد ینہ صرف وہی
جاۓ گا جس کا دل کرے گا، کوئی مجبوری نہیں ۔۔
پُتّر خدا نے سمجھا دیا کہ اُمّتی کا تعلق مکہ سے ہے ، عاشق کا تعلق مدینہ سے
ہے۔۔ عبادت کا تعلق مکہ سے ہے ، عشق کا تعلق مدینہ سے ۔
اب اگر مدینہ کی حاضری بھی حج کارکن قرار دے دی جاتی تو با امر مجبوری،
مدینہ ہر کسی کو ہی جانا پڑتا۔۔
اب خدا نے اپنی محبت اور محبوب کے پروٹوکول کا خیال بھی تو کرنا ہے نا۔۔"
میں انکی یہ بات سُن کر نہ جانے کیوں خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
باباجی پھر فرمانے لگے" پتر بالکل اسی طرح خدا نے ہر اس عبادت کو فرض قرار دیا جسکا تعلق بس خدا سے ہے ، اب اگر نماز پڑھنی ہے تو پڑھنی ہے ، پھر چاہے محبت سے پڑھیں یا مجبوری سے ۔۔ اسی طرح روزہ ہے ، اسی طرح زکٰوۃ۔۔ آپکو ہر حال میں یہ عبادتیں ادا کرنی ہیں ، آپکا دل چاہے یانہ چاہے۔۔ اب درود و سلام کو افضل ترین اور مقبول عبادت کا درجہ دیا- وہ واحد عمل جو خدا بھی کرتا ہے ، مگر اسکو فرض نہیں کیا۔۔ کیوں ؟ تاکہ کوئی
محبوری سے نہ پڑھے ، بلکہ جو بھی پڑھے محبت سے پڑھے۔۔ پُتّر ، محبت ساری عبادتوں کا مرشد ہے۔۔اسی لیے مِیلادِ رسولﷺ کو فرض قرار نہیں دیا۔۔ تاکہ کوئی مجبوری سے یہ مُقدس خوشی نہ منائے ، جو
بھی مناۓ ، جُھوم کر مناۓ۔۔
اب سوچیں اگر یہ فرض عبادت ہوتی تو کتنے لوگ ماتھے پہ بَل چڑھا کر جیب سے پیسہ لگاتے ؟ پُتّر ، خدا کی بارگاہ میں سب کُچھ گوارہ ہے، لیکن اُسکے محبوب ﷺ کے نام پر دل کی تنگی اور ماتھے کی تیوری کسی صورت قبول نہیں۔۔ابلیس کے سِوا کون ہے جو اس وِلادت پر خوش
نہ ہوا ہو ؟ خدانے ولادت کے سال ہر ماں کو نرینہ اولاد ایسے ہی تو عطا نہیں
فرمادی ناں ؟شام تک کے محلات روشن کرنا خدا کی حیثیت کے مطابق تھا۔۔
اپنی گلی محلوں میں چراغاں کرنا ہماری حیثیت کے مطابق ہے۔۔
مگر خوشی ایک ہے۔۔
جس طرح حضور ﷺ کے وضو کا استعمال شُدہ پانی زمین پر گِرنے نہ دینا فرض نہیں، مگر صحابۂِ کرام نے وضو کے استعمال شدہ پانی
سے لیکر داڑھی اور سرِ مبارک کے بالوں تک کو بھی کبھی زمین پر نہیں گِرنے دیا، یہ فرائض نہیں یہ محبت ہے۔۔
پتر ! محبت کا اصول سمجھ لیں ، خد انہیں چاہتا کہ کوئی مجبوری کے
باعث اسکے محبوب کا نام لے ، اُنکے آنے کی خوشی مناۓ۔
یہ راز کی باتیں ہیں ۔۔
خدا ہر کسی کو درِ رسول ﷺ تک پُہنچنے کی توفیق عطا فرماۓ۔۔🌹❤