03/07/2025
جج نے عورت سے پوچھا تم نے اپنے شوہر کا سر دو حصوں میں کیوں کاٹ دیا؟
عورت نے کہا
جناب جج صاحب میں کالج کی سب سے ذہین طالبہ تھی اور وہ میرا ٹیچر تھا
اس نے مجھ سے محبت کا دعویٰ کیا
میری آنکھوں میں خواب بھرے اور وعدے کیے کہ
میں تمہیں تحقیق کرنے دوں گا
تمہیں آگے بڑھاؤں گا
ہر چھوٹی بڑی بات میں تمہارا ساتھ دوں گا
میں نے دل سے کہا واقعی اللہ بہت مہربان ہے
مگر شادی کے بعد نہ مجھے میری تحقیق یاد رہی نہ خواب
سارا دن احمد محمود ابراہیم فاطمہ کو سنبھالتی رہتی
ایمان کو دودھ پلاتی تھی
محمود کا پیمپر بدلتی تھی
احمد کا ہوم ورک کراتی تھی
فاطمہ کو حساب سمجھاتی تھی
بچوں کو چپس بنا کر دیتی تھی
رات کے کھانے کے لیے سینڈوچ بناتی تھی
پورا گھر صاف کرتی تھی
کچرا اٹھاتی تھی
سوکھا کپڑا سمیٹتی تھی
گندے کپڑے دھونے ڈالتی تھی
فریج صاف کرتی تھی
پیا ز کاٹتی تھی
گوشت کو مصالحے لگا کر رکھتی تھی
بچوں کے اسکول بیگ تیار کرتی تھی
مہمانوں کے لیے سویٹ ڈِش بناتی تھی
واش روم دھوتی تھی
پردے نکال کر دوبارہ لگاتی تھی
قمیصیں استری کرتی تھی
سوپر اسٹور کو کال کرتی تھی
ڈرائی کلین کے لیے کال کرتی تھی
فاطمہ کی شکایت پر اسکول فون کرتی تھی
اور پھر وہ مرحوم صوفے پر بیٹھا خارش کرتے ہوئے انگلیاں چٹخاتا ہوا مجھ سے کہتا ہے
نادیا یہ تو بتاؤ تم سارا دن کرتی کیا ہو؟
مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب ہاتھ میں چھری لیے
جو میں نے پیاز کاٹنے کے لیے اٹھائی تھی
اس کے سر پر مار کر دماغ نکالنے کی کوشش کر رہی ہوں
کہ دیکھوں آخر اس کے دماغ میں چل کیا رہا تھا
عدالت میں ایک سناٹا چھا گیا
جج صاحب چپ بیٹھے تھے
اصل میں وہ سماعت سے پہلے ہی اپنی بیوی سے فون پر یہی پوچھ چکے تھے
یار تم دن بھر کرتی کیا ہو؟
آج تک جج صاحب اپنی ماں کے گھر سے واپس نہیں گئے جہاں بیوی کے ساتھ رہتے تھے 🥵✌🏻