NiCe Ghazals

NiCe Ghazals Urdu poetry ghazal ashar kita naat all available that's new and popular. Urdu shairii. Urdu sad poet

10/01/2025

‏حکیم ناصر کی مشہور غزل

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

10/01/2025

‏نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
مثال موج نسیم بہار پھرتے ہیں

ترے دیار سے ذروں نے روشنی پائی
ترے دیار میں ہم سوگوار پھرتے ہیں

یہ حادثہ بھی عجب ہے کہ تیرے دیوانے
لگائے دل سے غم روزگار پھرتے ہیں

لئے ہوئے ہیں دو عالم کا درد سینے میں
تری گلی میں جو دیوانہ وار پھرتے ہیں

بہار آ کے چلی بھی گئی مگر جالبؔ
ابھی نگاہ میں وہ لالہ زار پھرتے ہیں

حبیب جالب

10/01/2025

‏یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کے اسرار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جسے چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ‘ ساغر ‘
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

ساغر صدیقی

10/01/2025

‏وہ ہمیں راہ میں مل جائیں ضروری تو نہیں
خودبخود فاصلے مٹ جائیں ضروری تو نہیں

چاند چہرے کہ ہیں گم وقت کے سناٹے میں
ہم مگر ان کو بھلا پائیں ضروری تو نہیں

جن سے بچھڑے تھے تو تاریک تھی دنیا ساری
ہم انہیں ڈھونڈ کے پھر لائیں ضروری تو نہیں

تشنگی حد سے سوا اور سفر جاری ہے
پر سرابوں سے بہل جائیں ضروری تو نہیں

زندگی تو نے تو سچ ہے کہ وفا ہم سے نہ کی
ہم مگر خود تجھے ٹھکرائیں ضروری تو نہیں

جوئے احساس میں لرزاں یہ گریزاں لمحات
نغمۂ درد میں ڈھل جائیں ضروری تو نہیں

یہ تو سچ ہے کہ ہے اک عمر سے بس ایک تلاش
ہم مگر اپنا پتا پائیں ضروری تو نہیں

پروفیسر زاہدہ زیدی

10/01/2025

‏وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لیے کوئی شایان التماس نہیں

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں

گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ناصرؔ کاظمی

‏ستم   سکھلائے  گا  رسمِ  وفا  ایسے  نہیں  ہوتاصنم  دکھلائیں  گے  راہِ  خدا  ایسے  نہیں  ہوتاگِنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ...
10/01/2025

‏ستم سکھلائے گا رسمِ وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا

گِنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا

جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا

رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا

فیض احمد فیض

‏تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھانہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھاوہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیںیہ کام کس ن...
10/01/2025

‏تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا

ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا

اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں
لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی
یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا

اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا

وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا
خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا

انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

نواب مرزا داغ دہلوی

‏وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہےعجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہےوہی  ستارہ  شب  غم کا  اک  ستارہ ںہےوہ اک ستارہ ج...
09/01/2025

‏وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ںہے
وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے

کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے

جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے
وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے

گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہو گا
یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے

مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے

نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے

بسمل صابری

03/01/2025

‏توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے

خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا
چمن آباد رکھ بادِ صبا جانے خدا جانے

مریضِ عشق خود کو کر دوا دل دی سمجھ دلبر
مرض جانے دوا جانے شفا جانے خدا جانے

جے مَر کے زندگی چہندیں فقیری ٹوٹکا سُن گھِن
وفا دے وچ فنا تھی ونج بقا جانے خُدا جانے

اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بیکار نئیں ویندی
دُعا شاکر توُں منگی رکھ دُعا جانے خُدا جانے

شاکر شجاع آبادی

03/01/2025

‏کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

علامہ محمد اقبالؒ
بانگِ درا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

03/01/2025

‏جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں

ترے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغ تف نالہ لے داغ دل سے
کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں
کہ آہو کو پابند رم دیکھتے ہیں

خط لخت دل یک قلم دیکھتے ہیں
مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں

مرزا غالب

03/01/2025

‏جمیل یوسف کی بہترین غزل

تیری طلب میں ایسے گرفتار ہو گئے
ہم لوگ خود بھی رونقِ بازار ہو گئے

کیا خواب تھا کہ کچھ نہیں ٹھہرا نگاہ میں
کیا عکس تھا کہ نقش بہ دیوار ہو گئے

حدِّ نظر بچھا تھا تری دید کا سماں
جو راستے تھے سہل وہ دشوار ہو گئے

ان کو بھی اپنے نام کی حرمت عزیز تھی
جو تیرا ساتھ دینے پہ تیار ہو گئے

بپھرا ہوا بدن کسی قاتل سے کم نہ تھا
ہم بھی وفورِ شوق میں تلوار ہو گئے

گو اپنے پاس ایک نظر کے سوا نہ تھا
ہم ہر بتِ حسیں کے خریدار ہو گئے

یہ شہر زلزلوں کے تھپیڑوں سے ہل گیا
کیا کیا عجب محل تھے کہ مسمار ہو گئے

خواہش کی الجھنوں پہ کوئی بس نہ چل سکا
دعوے فسونِ یار کے بے کار ہو گئے

03/01/2025

‏منیر نیازی کی غزل

دِل جل رہا تھا غم سے ، مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں، ساتھ میرے یہ ہُنر رہا

صُبحِ سفر کی رات تھی ، تارے تھے ، اور ہَوا
سایہ سا ایک دیر تلک ــــــــ بام پر رہا

میری صدا ہَوا میں بہت دُور تک گئی
پر مَیں بُلا رہا تھا جِسے ، بے خبر رہا

گُزری ہے کیا مَزے سے خیالوں میں زندگی
دُوری کا یہ طلسم ــــــــ بڑا کار گر رہا

خَوف آسماں کے ساتھ تھا سَر پر جُھکا ہُوا
کوئی ہے بھی یا نہِیں ہے یہی دِل کو ڈر رہا

اُس آخری نظر میں عجب دَرد تھا مُنیرؔ
جانے کا اُس کے رَنج مُجھے عُمر بھر رہا

مُنیرؔ نیازی

03/01/2025

‏واصف علی واصفؒ کا خوبصورت کلام

مَیں نعرہِ مستانہ، مَیں شوخیِ رندانہ
مَیں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

مَیں طائرِ لا ہوتی مَیں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو اِس حال میں پہچانا

مَیں سوزِ محبت ہوں مَیں ایک قیامت ہوں
مَیں اشکِ ندامت ہوں مَیں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صِحرا ہوں کس چشم کا دریا ہوں
خود طور کا جلوہ ہوں ہے شکل کلیمانہ

مَیں شمعِ فروزاں ہوں مَیں آتشِ لرزاں ہوں
مَیں سوزشِ ہجراں ہوں مَیں منزلِ پروانہ

مَیں حسنِ مجسّم ہوں مَیں گیسوۓ برہم ہوں
مَیں پھول ہوں شبن م ہوں مَیں جلوہِ جانانہ

مَیں واصفِ بسمل ہوں مَیں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹوٹا ہوا دِل ہوں مَیں شہر میں ویرانہ

19/11/2024

‏احمد فراز کی خوبصورت غزل
بزبان شاعر ❤️

تیرے ہوتے ہُوئے مَحفِل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سُورَج کو دکھاتے ہیں چراغ

اَپنی مَحرُومی کے اَحساس سے شَرمِندہ ہیں
خود نہیں رَکھتے تَو اوروں کے بُجھاتے ہیں چراغ

کَیا خَبر اُن کو کہ دامَن بھی بَھڑَک اُٹھتے ہیں
جو زمانے کی ہَواؤں سے بچاتے ہیں چراغ

بستیاں دُور ہُوئی جاتی ہیں رَفتَہ رَفتَہ
دم بہ دم آنکھوں سے چھپتے چلے جاتے ہیں چراغ

گو سِیہ بَخت ہیں ہَم لَوگ پہ رَوشن ہے ضَمِیر
خود اندھیرے میں ہیں دُنیا کو دِکھاتے ہیں چراغ

بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرۂ اَرض پہ بُجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

ایسے بے دَرد ہُوئے ہَم بھی کہ اَب گُلشن پر
بَرق گِرتی ہے تَو زِنداں میں جلاتے ہیں چراغ

اَیسی تارِیکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تَو رات ہے ہَم دِن کو جلاتے ہیں چراغ۔۔

وہی پرانا طریقہ ہی آزمایا گیادیے بجھا کے نیا بادشاہ بنایا گیاجسے عوام نے چاہا وہ دیس کا مجرمجو مسترد ہوا وہ تخت پر بٹھای...
25/02/2024

وہی پرانا طریقہ ہی آزمایا گیا
دیے بجھا کے نیا بادشاہ بنایا گیا
جسے عوام نے چاہا وہ دیس کا مجرم
جو مسترد ہوا وہ تخت پر بٹھایا گیا
ہمارے شہر میں کچھ لوگ بول پڑتے تھے
کسی کو مارا گیا ہے، کوئی اٹھایا گیا

23/02/2024

‏ظلم یزیدیت ہے، ظالم کی بیعت سے انکار حسینیت ہے۔ ظلم پر خاموشی کُوفیت ہے۔ محمدﷺ کے پیارے نواسے نے رہتی دنیا تک آنے والی کربلاؤں کے لیے انسانوں کے کردار طے کردیے تھے۔

Address

Sahiwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when NiCe Ghazals posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to NiCe Ghazals:

Share

Category