
27/05/2025
یقین، صبر اور اللہ پر بھروسے کی یہ کہانی دل کو چھو لینے والی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص کی دکان مکمل طور پر جل گئی۔ صرف دیواریں بچی تھیں، باقی سب کچھ راکھ ہو چکا تھا۔ جب آگ بجھائی گئی تو لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے تاکہ اسے تسلی دیں، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ شخص مسکرا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
لوگوں نے حیرت سے پوچھا، "ابو عبداللہ، تم مسکرا کیوں رہے ہو؟ تمہاری دکان جل چکی ہے، کیا تم اپنا ہوش کھو بیٹھے ہو؟"
اس نے سکون سے جواب دیا، "میں کیوں پریشان ہوں، جب مجھے یقین ہے کہ اگر میں اللہ کی تقدیر پر راضی رہوں گا، تو وہ مجھے اس سے بہتر عطا کرے گا۔ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔"
دو ہفتے بعد، لوگ اس وقت حیرت میں ڈوب گئے جب انہوں نے ایک نئی، بڑی دکان دیکھی جو ہر قسم کے سامان سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے اندر جا کر دیکھا تو ابو عبداللہ نماز پڑھ رہے تھے۔
پوچھا گیا، "یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ ابھی دو ہفتے پہلے تو تم خالی ہاتھ تھے!"
ابو عبداللہ مسکرائے اور کہا، "میں نے کہا تھا نا کہ اللہ مجھے ضرور عطا کرے گا۔ جمعہ کی صبح میرے پاس بچوں کے کھانے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ بیوی نے کہا وہ اپنی بہن سے قرض لانے جا رہی ہے۔ وہ گئی اور ایک لمحے بعد کچھ پیسے لے کر واپس آ گئی۔ میں ان پیسوں سے مچھلی بازار گیا۔"
وہاں ایک مچھیرے نے ایک چھوٹی سی مچھلی ہاتھ میں لی ہوئی تھی اور لوگوں سے التجا کر رہا تھا کہ اسے 200 دینار میں خرید لیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کے علاج کا بندوبست کر سکے۔ ابو عبداللہ کو رحم آیا اور انہوں نے 200 دینار میں وہ مچھلی خرید لی اور اللہ کی رضا کی نیت سے صدقہ سمجھ کر گھر لے آئے۔
بیوی نے مچھلی تیار کی، اور جب پیٹ چاک کیا گیا تو اس میں نو خوبصورت پتھر نکلے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ عام پتھر نہیں بلکہ قیمتی موتی تھے۔ صرف تین موتی بیچ کر وہ اتنا کما چکے تھے کہ نئی دکان کھول سکیں۔
اگلے دن وہ مچھیرے کو تلاش کرنے بازار گئے تاکہ اس کا حصہ بھی دے سکیں، مگر وہ کہیں نہیں ملا۔ کسی نے اسے پہچانا بھی نہیں۔ تب ابو عبداللہ کو احساس ہوا کہ وہ شخص دراصل اللہ کی طرف سے ایک ذریعہ تھا۔
جب آپ کا بھروسہ اللہ پر سچا ہو تو وہ ایسے ذرائع سے عطا کرتا ہے جن کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہمیشہ اللہ سے اچھی امید رکھیں، وہ آپ کو وہاں سے نوازے گا جہاں سے آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔