Taurus Gaming

Taurus Gaming Online Gaming and streaming

فریڈرک نطشے اٹھارویں صدی کا جرمن فلاسفر گزرا ہے. نطشے کو عینیت پسند فلسفیوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے. انسانی جذبات و خ...
03/11/2020

فریڈرک نطشے اٹھارویں صدی کا جرمن فلاسفر گزرا ہے. نطشے کو عینیت پسند فلسفیوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے. انسانی جذبات و خیالات،اخلاقیات،وجودیت،بُرائ و اچھائ کا تقابل، عورت و مرد کی مخاصمت، سائنسی انسان، مذہبیت اور معاشرتی اقدار جیسے دقیق مسائل کے متعلق نطشے کا
فلسفہ پڑھنےکے قابل ہےاور بہت کچھ سیکھنےمیں معاون بھی

علامہ اقبال کا نطشےکےمتعلق کہناہےکہ 'نطشے ایسا کافر ہے جس کا دِل مومن ہے' . لکھنے والوں نےلکھاہےکہ اقبال کا مرد مومن کا فلسفہ نطشے کے فوق البشر سے مطابقت رکھتا ہے.

اگر آپ انسانی خیالات اور جذبات کو فلسفہ کی نظر سے دیکھنے میں دلچسپی رکھتےہیں تو نطشے کو ضرور پڑھیئے. مندرجہ ذیل کتاب نطشے کی تصنیف کا اُردو ترجمہ ہےجو بہت حد تک آسان اور واضح ہے. قارین کو پڑھنےمیں زیادہ دِقت نہیں ہوگی.
ذیل میں نطشے کےکُچھ اقوال ہیں

1. ایک سمندر میں پیاسے مرجانا انتہائ خوفناک ہے.کیا آپ نے سچ میں اس قدر زیادہ نمک ڈالنا ہےکہ یہ آپ کی پیاس کو بھی بجھا نہ سکے.

2.شہوت پرستی عام طور پےمحبت کی نشوونما کو اس قدر تیز کردیتی ہےکہ جڑیں کمزور رہ جاتی ہیں.

3.انسان کو اپنی نیکیوں کی سزا مِلتی ہے

4. افراد میں پاگل پن کا ش*ذ و نادر ہی وجود ہوتا ہے لیکن گروہوں ، اقوام، اور زمانوں
میں یہ ایک اصول کے مانند پایا جاتا ہے

04/08/2020

. “۲۰ سال بعد” __ __ “After Twenty Years” (کہانیوں کاغیرمتوقع اختتام O Henry کی وجۃ شہرت بنا)
تصنیف: او ہنری O Henry
اردو تلخیص: ماجد اقبال چودھری
(ولیم ہنری پورٹر(William Sydney Porter) جو اپنے قلمی نام او ہنری(O Henry)کے نا م سے مشہور ہوئے ۔امریکن شارٹ سٹوری رائٹر تھے11ستمبر 1862 کو امریکہ کی ریاست شما لی کیرولینا میں پیدا ہوئےاور 5 جون 1910 کو نیویارک میں وفات پائی۔ان کی کہانیوں کا ڈرامائی اختتام خاص طور پر وجۃ شہرت بنا۔)
. کہانی کا آغاز ایک پولیس والے سے ہوتا ہے جو رات کے وقت نیو یارک کی گلیوُں میں گشت پر تھا بارش کے ساتھ یخ ہوا چل رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سڑکوں پر کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ اپنے ڈنڈے کو اس طرح گھما رہا تھا جیسے سرکس میں کا م کرنے والا آدمی ہو وہ پہت ہی چوکس ہو کر پُر سکون گلیوں اور راستوں کو دیکھ رہا تھااس کی چال دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا علاقے میں پُرسکون ماحول اسی نے قائم کر رکھاہے۔ یہاں تجارتی مراکز قائم تھے بنیادی طور پر یہ ایک کاروباری علاقہ تھا دوکانیں سر شام ہی بند ہو جایا کرتی تھیں بس کچھ سگرٹ شاپ ایسی دوکانیں ہی کُھلی رہتیں۔چلتے چلتے وہ ایک بلاک کے پاس پہنچا،یہاں پہنچ کر اس نے اپنی رفتار آہستہ کرلی۔ہارڈوئیر کی ایک دوکان پر اس کی نظر پڑی جہاں ایک آدمی جُھکا ہوا کھڑا تھاہونٹوں میں سگرٹ تھی (سگار جیسی )جو سُلگی ہوئی نہیں تھی ۔اپنے پاس آتا دیکھ کر اس آدمی نے گھبراہٹ میں پولیس والے سے از خودبات کرنا شروع کر دی۔ اس نے کہا کہ سب خیر ہے میں تو یہاں بس اپنے دوست کے انتظار میں کھڑا ہوں ، میلوں دور سے ۲۰ سال بعد ملنے آیا ہوں اپنے دوست سے ۔ ۲۰ سال قبل یہاں ہماری مولاقات طے ہوئی تھی۔اس نے کہامیں سمجھتا ہوں کہ آپ کو یہ سن کر بڑا تعجب ہورہا ہوگابہت عرصہ قبل یہاں ایک ریسٹورانٹ ہوا کرتا تھا ؟پولیس والا بولا ہاں! پانچ سال پہلے اس رسٹوران کو توڑ کر گرا دیا گیا ہے۔ تبھی اس آدمی نے ماچس سے اپنے سگار کو جلایا،تھوڑی روشنی ہوئی تو پولیس والے کو اس آدمی کا چہرہ دکھائی دیا، باقی چیزیں بھی نظرآئیں ،اس کی سکارب پن(Scarab Pin) پر ہیرا جڑا تھا عجیب ڈھنگ سے۔سگار سُلگانے کے بعد گفتگو جاری رکھتے ہوئے اس آدمی نے کہا ٹھیک ۲۰ سال پہلےاسی رسٹوران میں اپنے دوست جمی ویلز Jimmy Wellsکے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا تھااور وہ میرا بہت ہی اچھا جگری دوست تھا ہم نیو یارک شہر میں دو بھائیوں کی طرح پل کر جوان ہوئے تھےمجھ سے دو سال ہی بڑا تھا وہ ۲۰ سال اور میں ۱۸ سال کا تھامجھے دولت کمانے کے لئے مغربwest کی طرف جانا تھا جبکہ اسے نیویارک سے باہر کچھ نہیں دِکھتا تھااس کا خیال تھا کہ جو کچھ بھی ہے ادھر ہی ہے یوں ہم دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں وہ یہیں رک گیا اور میں نیو یارک سے باہر چلا گیا پیسہ کمانے کے لئے۔جدا ہونے سے پہلے ہم دونوں نےعہد کیاتھا کہ ٹھیک ۲۰ سال بعد اسی شہر اور اسی ریسٹورانٹ میں اسی وقت دوبارہ ملیں گے۔ چاہے حالات کیسے بھی ہوں کتنی ہی دور سے آنا پڑے ہم یہیں پہ آکر ملیں گے امید ہے اس نے بھی کافی پیسہ بنا لیا ہو گایعنی اپنی قسمت بنا کر مجھ سے ملنے آئےگا۔ پولیس والا بولتا ہے ہونہہ“دِلچسپ” بڑی دلچسپ کہانی ہے آپ کی،طویل عرصے سے تم اپنے دوست سے نہیں ملے؟اس دوران تم نےکبھی رابطہ کرنے کی کوشش کی؟کچھ عرصہ تو ہماری خط و کتابت رہی تاہم دو سال بعد ہمارے ایڈریس تبدیل ہونے سے رابطہ منقطع ہو گیا میں وہاں مغربwest میں اپنے کا م میں مصروف رہا،لیکن میرا یقین ہے اگر جمیJimmy زندہ ہواتو آج ضرور مجھ سے ملنے آئے گا۔ وہ اپنے وعدے کا پکا ہےمیں ہزاروں میل دور سے یہاں آیا ہوں اسے بھی ضرور انا ہوگایہ کہنے کے بعد اس نے ایک بہت ہی خو بصورت سی گھڑی نکالی جس کے ڈھکن پر چھوٹےچھوٹے ہیرے جڑے تھےوہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولاٹھیک دس منٹ بعد دس بجے ۲۰ سال قبل ہم رسٹورانٹ سے جدا ہوئے تھے۔ پولیس والا اس سے کہتا ہے “ایسا لگتا ہے نیو یارک سے باہر جاکر تو نے کافی مال بنا لیاوہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولتا ہے”جی بالکل” لیکن مجھے امید ہے میرے دوست جمی نے بھی اس سے آدھا تو بنا ہی لیا ہوگا،جمی بہت محنتی آدمی ہے اتنا تو اس نے کر ہی لیا ہو گا جہا ں تک میرا تعلق ہے مجھے تو بہت ہوشیار اور کائیاں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔سر! میں آپ کو بتاؤں نیویارک کے لوگوں کی زندگی کا کمزور پہلو یہ ہے کہ وہ ایک کام کے پیچھے پڑتے ہیں تو اسی میں لگے رہتے ہیں لیکن جہاں میں گیا تھا وہاں زندگی انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہےشائد اسی لئے میں نے اتنا پیسہ کمالیا۔اتنی گفت و شنید کے بعد پولیس والے نے پھر سے اپنا ڈنڈا گھمایا اور بولا ،اچھا دوست میں تو چلتا ہو ں اپنے گشت پر ،امید کرتا ہوں تمہارا دوست وقت پر آجائے گالیکن اگر وہ وقت پر نہ پہنچا تو پھر تم چلے جاؤ گے یہا ں سے؟ سر اُسے بھولنا تو نہیں چاہئے پر میں پھر بھی آدھا گھنٹہ مزید انتظار کروں گا ہو سکتا ہے کسی کام میں پھنس گیا ہو؟ پولیس والا شب خیر (good night ) بول کے پہلے کی طرح ڈنڈا گھماتے ہوئے وہاں سے چلا جاتا ہے۔اس ہارڈوئیر کی دوکان کے پاس سے لوگ آ جا رہے تھے جیبوں میں ہاتھ ڈالے سردی سے بچتے ہوئےاور وہ بندہ سگرٹ پیتے ہوئےاپنے بچپن و جوانی کے دوست کا انتظار کر رہا تھاتقریباً۲۰ منٹ کے بعد سامنے والی گلی سےاورکوٹ پہنے ہوئے ایک لمبا سا آدمی جلدی سےنمودار ہواپاس آکر وہ اس کا نام پوچھتا ہے؟”بوب”Bob جواب میں یہ نام پوچھتا ہے”جمی ویلز”Jimmy Wells دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیایہ کہتا ہے میں بوبBob ہی ہوں مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤ گے بہت دیر سے یہا ں کھڑا تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے سالوں بعدتمہیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی بس کمی ہے تو اس ریسٹورانٹ کی، وہ ہوتا تواس میں بیٹھ کے مل کر کھانا کھاتے جیسے ۲۰ سا پہلے کھایا تھا جمی نے اس سے پوچھا” دوست !کیسے رہے تمہارے ۲۰ سال نیو یارک سے باہر ؟جو مانگا تھا قسمت سے وہ سب کُچھ مل گیا ،تم بتاؤ؟یار کافی بدل گئے ہو پہلے سے دو تین انچ لمبے ہوگئے ہو؟ٹھیک تو ہو نیو یارک میں؟جمی بات کاٹتے ہوئے بولتا ہے”چل یار کہیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے چلنے لگے بوب اپنی مالی کا میاں گنوانا جارہا تھا راستے میں برقی قُمقموں سے مزین میڈیکل سٹور کے سامنے روشنی میں دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا،بوب اچانک رُکا ،اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیااور بولا”مجھے لگ رہا ہےتم جمی نہیں ہو”۲۰ سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے لیکن انسانی ناک کی شکل تبدیل نہیں ہوتی بتاؤ کون ہو تُم؟وہ آدمی بولا”مسٹر بوب! تم ۱۰ منٹ سے زیرِ حراست ہو، شکاگو! جہاں سے آپ آئے ہو وہاں سے ایک ٹیل گرام آیا تھا کہ شائد تم نیو یارک شہر میں گھوم رہے ہو۔اب تم دھیرے دھیرے چل رہے ہو یہ سمجھداری کی بات ہے ۔وہ آدمی بوب سے کہتا ہے پولیس اسٹیشن چلتے ہیں لیکن اس سے پہلے یہ خط آپ کے لئے ۔میرے لئے؟ بوب نے سوالیہ لہجے میں کہا۔ہاں !آپ کے دوست جمی کی طرف سے، بوب نے خط کھولا اورکپکپاتے ہاتھوں سے اس خط کو پڑھنا شروع کیا،خط میں لکھا تھا” بوب! میرے دوست! میں بر وقت تجھ سے ملنے پہنچ گیا تھا بلکہ وقت سے کچھ پہلے،لیکن جیسے ہی سگرٹ سُلگانے کے لئے تو نے ماچس جلائی،ماچس کی اس روشنی میں مُجھے تیرا چہرہ نظر آگیاتم کو سارے شکاگو میں ڈھونڈا جا رہا ہےمیں تمہیں خودگرفتار نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ تم میرے ۲۰ سال پرانے دوست تھےاس لئے وہاں سے نکلتے ہی میں نے ایک سادے کپڑوں میں ملبوس پولیس آفیسر کو تلاش کیااور تمہیں حراست میں لینے کے لئے بھیجا۔
فقط تمہارادوست
جِمی

01/07/2020

‏غریب کو روٹی دیتا ہوں تو ولی کہلاتا ہوں ، اور جب سوال کرتا ہوں کہ غریب کو روٹی کیوں نہیں مِلتی تو کیمونسٹ کہلاتا ہوں.

ایڈلر کامیرہ

'Mother's pet ideas, she always voicing it that in the long run one gets used to anything'The Stranger is a master piece...
29/06/2020

'Mother's pet ideas, she always voicing it that in the long run one gets used to anything'

The Stranger is a master piece by Albert Camus. A story we all can relate to, must read.

24/06/2020

‏تمہیں ناپ تول کر دیا گیا وقت

‏تمہیں ناپ تول کر دیا گیا وقت اتنا مختصر ہے کہ جب تم صرف ایک لمحہ ضائع کرتے ہو، تو اپنی پوری زندگی ہی ضائع کر بیٹھتے ہو۔ یہ زندگی بہت طویل نہیں ہوتی، بس اتنی ہی جتنا وہ وقت جو تم ضائع کر دیتے ہو۔

‏فرانز کافکا

سرزمینِ سندھ کے صوفی شاہ عنایت خطہِ برصغیر کے پہلے سوشلسٹ راہنما تھے. ٹھٹھہ کے قریب اُنہوں نے 'جھوک فقیر' کی بستی آباد ک...
07/06/2020

سرزمینِ سندھ کے صوفی شاہ عنایت خطہِ برصغیر کے پہلے سوشلسٹ راہنما تھے. ٹھٹھہ کے قریب اُنہوں نے 'جھوک فقیر' کی بستی آباد کی. صوفی صاحب نے اپنے مُریدین اور معتقدین کے درمیان مثالی سوشلسٹ معاشرہ قائم کر کے دِکھایا. ذاتی ملکیت کا خاتمہ، ذرائع پیداوار میں اشتراکیت قائم کی اور طبقاتی تفریق کو ختم کیا.
انہی اقدامات کیوجہ سے آس پاس کے غریب ہاری جو زمینداروں کے مظالم سے تنگ تھےجھوک فقیر میں آ کے بسنے لگےاور بستی قصبےکی شکل اختیار کرگئ. یہ بات اُن زمینداروں کے لیئے قابلِ قبول نا تھی جن کی زمینداری ہی غریب ہاریوں کے استحصال پےکھڑی تھی. چُنانچہ زمینداروں نے صوبیدار اعظم خان سے شکایت لگائ اور اعظم خان جو پہلے ہی صوفی صاحب سے پُرخاش رکھتا تھا، وجہ یہ تھی کہ اعظم خان ایکدفعہ ملاقات کی غرض سے جھوک فقیر گیا تو دربانوں نے دروازے پے روک لیا کہ حضرت کے وظائف و اذکار کا وقت ہے.
جب کُچھ دیر کیبعد اندر جانے کی اجازت ملی تو اعظم خان نے صوفی صاحب سے کہا کہ ' درویش کی چوکھٹ پے دربان ، عجب معاملہ ہے'. صوفی صاحب نے جوابدِیا 'اسی لیئے ہیں کہ دُنیا کا کُتا اندر نا آنے پائے '
زمینداروں کی شکایت صوبیدار کے لیئےجواز بن گئ اور اُس نے دہلی کے تخت نشین مُغل بادشاہ فرخ سیر کو خط لکھا کہ صوفی شاہ عنایت نے ریاست کیخلاف اعلان بغاوت کردیا ہے. فر خ سیر جو پہلے ہی نالائق ،ظالم اور عیاش کے طور پے جانا جاتا تھا نے بغیر تحقیق و تفشیش کے جھوک فقیر کو نیست ونابود کرنیکا حکم نامہ جاری کردیا.
صوبیدار نے آس پاس کے زمینداروں سے رسد و کمک مانگی جو اُنھوں نے بڑھ چڑھ کے فراہم کی کیونکہ یہ ساری سازش رچی ہی انہوں نے تھی. ایک محتاط اندازے کیمطابق پچاس سے ساٹھ ہزار کے دستے نے جھوک فقیر کا محاصرہ کیا جو چالیس سے پچاس دن جاری رہا. فقیروں و درویشوں کے پاس نا بندوقیں تھیں نا توپیں پِھر بھی جوانمردی سے لڑے. پندرہ سے بیس ہزار فقیر شہید ہوئے اور صوفی صاحب کو گرفتار کر کے صوبیدار کے سامنے لایا گیا تو صوبیدار نے کہا جان بخشی چاہتے ہو تو معافی نامےپے انگوٹھا لگا دو اور علاقہ چھوڑ دو ورنہ قتل ہونیکے لیئے تیار ہوجا. صوفی شاہ عنایت نے دونوں شرائط سے انکار کردیا اور شہید ہونیکو ترجیح دی
یوں برصغیر کی پہلی سوشلسٹ تحریک اور معاشرے کا ظلم کے نظام کے ہاتھوں خاتمہ ہوا.

03/06/2020

‏'میں بچے سے سیدھا بوڑھا ہوگیا ،میں نے جوانی دیکھی ہی نہیں ' فرانز کافکا.

‏آج 3 جون کافکا کا یومِ وفات ہے.

بہت عرصے بعد اس قدر عمدہ اور شاندار ناول پڑھنے کو مِلا ہے. کہانی کا تسلسل اور روانی انتہائ بہترین ہے.گناہ،ثواب،سزا،جزا، ...
27/05/2020

بہت عرصے بعد اس قدر عمدہ اور شاندار ناول پڑھنے کو مِلا ہے. کہانی کا تسلسل اور روانی انتہائ بہترین ہے.
گناہ،ثواب،سزا،جزا، نفی بالذات، خود سے فرار،خود کی طرف واپسی ، زندگی کا دائرہ ،محبت،نفرت ،ابدی سکون ،تلاش اور خود گُم ہونا ،اِن تمام عناصر کو مصنف نے ایک ہی کہانی میں اتنی خوبصورتی سے پرویا ہے کہ ذرا بھی بیگانگی یا بوریت محسوس نہیں ہوتی.
ضرور پڑھیئے.

چِلی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ Isabel Allende  بہترین کہانی کاروں میں سےہیں. یہ چِلی کے مرحوم صدر سلواڈور کی بیٹی ہیں. ما...
25/05/2020

چِلی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ Isabel Allende بہترین کہانی کاروں میں سےہیں. یہ چِلی کے مرحوم صدر سلواڈور کی بیٹی ہیں. مانا جاتا ہےکہ سلواڈور کی موت میں امریکی جاسوسی تنظیم سی.آئ.اے کا ہاتھ تھا. ازابیل کا یہ ناول (The Japanese Lover)پڑھنے کےلیئےبہترین کہانی ہے.
ناول کی کہانی محبت، دوستی،انسانی جذبات ،معاشرتی رویوں امریکہ جاپان کی جنگ اور جاپان سےہجرت کرکے امریکہ میں آباد ہوجانیوالے خاندانوں کی زندگیوں کے گِرد گھومتی ہے.
کہانی کےمرکزی کردار دو خواتین ارینا اور آلما ہیں ،جن کو بہت مضبوط اور متاثرکُن انداز میں بیان کیا گیا ہے. یہ خواتین اپنی زندگیوں کے حالات واقعات سے جس دیدہ دلیری سے نبردآزما ہوتی دکھائ دیتی ہیں وہ متاثر کُن ہے.
اسمیں سیاسی واقعات اور اُن کے نتیجے میں متاثر ہونیوالی زندگیوں کی بہترین عکاسی بھی نظر آتی ہے. کِرداروں کی ذاتی اور معاشرتی سوچ و حالات اتنی تفصیل سے لکھے گئے ہیں کہ جیتے جاگتے لوگ محسوس ہوتے ہیں.
میری رائےہے کہ اسے ضرور پڑھیئے. شکریہ.

تُرکش مصنف اورحان پاموک کا نوبل انعام یافتہ ناول 'سُرخ میرا نام'  (My name is Red ). یہ ناول  خلافتِ عثمانیہ کے عہدِ زوا...
23/05/2020

تُرکش مصنف اورحان پاموک کا نوبل انعام یافتہ ناول 'سُرخ میرا نام' (My name is Red ). یہ ناول خلافتِ عثمانیہ کے عہدِ زوال کےتناظر میں لکھا گیا ہے. مسلمانوں کے فن مصوری و خطاطی کی پوری تاریخ اور بہزاد جیسے عظیم مصوروں اور عظیم تخلیقات کا احوال بھی مِلتا ہے.
ایک ایسے پُراسرار قاتل کا کِردار بھی ہے جِس کی کھوج اور تلاش قاری کو تجسس میں ڈالے رکھتی ہے.
المختصر تاریخ ،رومان ،تجسس ،فلسفہ اس ناول میں ادب کا ہر پہلو موجود ہے.

ضرور پڑھیئے.

12/05/2020

جوش ملیح آبادی للھتےہیں کہ بارق لکھنوی میرے والد صاحب کے پاس بِلاناغہ آیا کرتے تھے اور گھنٹوں نشست رہتی تھی. ایک دِن میرے باپ نےکہا کہ میر صاحب آپ ایک عرصے سےمیرے پاس آتےہیں لیکن آج تک میرے ساتھ کھانا تناول نہیں کِیا اسکی کیا وجہ ہے؟ بارق کہنےلگےکہ خان صاحب اس بات کو جانےدیجیئے مگر میرے باپ نےاپنےسر کی قسم دےکےپوچھا تو بارق نےکہا کہ خان صاحب اصولی بات یہ ہے کہ اگر میں دس بار آپکے پاس کھانا کھاؤں تو میرا فرض بنتا ہے کہ ایکدفعہ آپکو بھی کھانے کی دعوت دوں مگر میری مُفلسی کا یہ عالم ہے کھانا تو درکنار میں آپکو چائے تک نہیں پِلا سکتا ،پِھر کس مُنہ سے آپ کے پاس کھانا کھاؤں ؟

اسے کہتے ہیں عزتِ نفس. کیا کمال لوگ تھے.

06/05/2020

جوش ملیح آبادی اپنی سوانحِ حیات "یادوں کی بارات "میں لکھتےہیں کہ اُنکے والد بڑےزمیندار صاحبِ جاگیر اور رئیس آدمی تھے. اور ساتھ ہی انتہائ خدا سے ڈرنے والے تھے. اُنھوں نے بہت تعداد میں غرباء اور مستحقین کے وظائف مقرر کر رکھے تھے جو وہ باقاعدگی سے ان افراد میں تقسیم کرتے تھے.

جوش لِکھتےہیں کہ جب میرے والد وظائف بانٹ رہے ہوتے تھے تو میں بھی پاس جا کھڑا ہوتا. وظیفہ لینے والوں میں ایک ایسے صاحب تھے جو جب آتے تو میرے والد نظریں جُھکا لیتے اور تب تک اوپر نہ دیکھتے جب تک وہ شخص وظیفے کی رقم وصول کر کے چلا نا جاتا.
جوش لکھتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا شاید میرے والد اس آدمی سے ڈرتےہیں جو اُسکی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرپاتے. ایک دن ہمت کر کے والد سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے کہ آپ اس شخص کے چہرے کیطرف نہیں دیکھتے. والد نے جواب دیا

"یہ جو شخص وظیفہ لینے آتا ہے کسی وقت میں خود رئیس تھا لیکن اب نہیںں رہا. میں اسے نظر اُٹھا کے اسی لیئے نہیں دیکھتا کہ یہ امداد لیتے وقت شرمندہ محسوس نہ کرے کیونکہ شُرفاء کا یہی چلن رہا ہے کہ جب کسی کی امداد کرتے ہیں تو اُسے شرمندہ نہیں کرتے"

04/05/2020

"جوان بوڑھا ہوجاتاہے، کمزور طاقتور بن جاتا ہے اور ممکن ہے کہ نشئ بھی ٹھیک ہوجائے لیکن بیوقوف ہمیشہ بیوقوف ہی رہتا ہے". اریستوفان

04/05/2020

‏قدیم پتھر کے وقت کے انسان نے اپنے خوابوں کو دوسری دُنیا تصور کیا. روح،موت،بھوت پریت تک تخیل بھی خوابوں کی بدولت پہنچا.

20/04/2020

‏نطشے نے کہا تھا ۔

‏ان لوگوں سے خبردار رھنا چاھیے جن میں انتقام کی بے لگام خواہش پائی جاتی ھو۔ جمہوریت فرد سے انتقام نہیں لیتی ۔ جمہوریت اجتماعی فراست کی مدد سے قوم کی رائے کے ابلاغ و اظہار کا نام ھے

Address

Sargodha

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taurus Gaming posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share