07/09/2025
گزشتہ دنوں سے اوچ شریف میں پیش آنیوالے واقعہ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں کہا گیا کہ نویں جماعت کی ایک طالبہ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کر کے اسے جیل بھیج دیا گیا ہے-
معلومات حاصل کرنے کے لیے آج میں خود اپنی ٹیم کے ساتھ اوچ شریف گیا- مختلف لوگوں سے ملنے کے ساتھ ساتھ جائے وقوعہ پر جا کر متاثرہ خاندان سے بھی ملاقات کی- معلوم ہوا کہ پولیس نے ایک مقامی طاقتور اور بااثر گروپ کو قیمتی کمرشل اراضی کا قبضہ دلانے کے لئے ایسا کیا ہے- متاثرہ خاندان کے مطابق اوچ شریف موٹروے انٹرچینج کے قریب محمد شفیق, محمد صدیق نامی دونوں بھائی اپنے خاندان سمیت عرصہ تقریباً 60 سال سے مقیم تھے کہ انٹرچینج بننے کے بعد اس رقبہ کی قیمت میں 100 گنا اضافہ ہوگیا- جس کے بعد مذکورہ گروپ نے مبینہ طور پر قبضہ کرکے انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی- ناکامی پر پولیس سے مدد لینے کا منصوبہ بنایا جس کے عوض ہولیس نے مذکورہ مقامی بااثر گروپ سے خوب مال کمایا لیکن محمد صدیق کی فیملی پر یکے بعد دیگرے7 جھوٹےمقدمات درج کروانے کے باوجود بھی قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے-
مذکورہ گروپ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک تھانہ تو کیا پورا پولیس سرکل بھی خرید سکتے ہیں- گزشتہ دنوں تھانہ اوچ شریف کی پولیس نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بندی کے تحت پولیس کی گاڑی کے شیشے توڑے اور دو ملازمین جو اس سے قبل مختلف حادثات میں زخمی ہوئے تھے انہیں مزاحمت کے دوران زخمی کرنے اورپولیس پرحملہ کرنے کی کال چلوا کر احمدپورشرقیہ سرکل کی پولیس بھی بلوا لی- اسوقت ان کا کوئی بھی مرد گھر پر نہیں تھا- پولیس کی بھاری نفری دیکھ کرخواتین خوف کے مارے چھپ گئیں- جبکہ پولیس نے ان کے گھروں میں انتہاء درجے کی توڑپھوڑ کی، دوخواتین کو کماد کے کھیت سے اور دو غیر شادی شدہ بچیوں کو مکان کی چھت سے بالوں سے پکڑ کر گھیٹستے ہوئے لائے اور چاروں خواتین کو بغیر لیڈیز پولیس لاکر تھانہ میں بندکر دیا- متاثرہ خواتین سے ملاقات کرنیوالی ان کی رشتہ دار خواتین نے اپنے ویڈیو بیان میں پولیس پرالزام لگایا کہ تھانہ اوچ شریف کے ایس ایچ او اور دیگر پولیس ملازمین نے گرفتار خواتین اور بچیوں کو بد ترین تشدد کانشانہ بنایا اور انہیں مجبورکیا کہ وہ رقبہ کا قبضہ خالی کردیں تو انہیں چھوڑ دیاجائیگا-
بعد ازاں پولیس پارٹی پر حملہ دہشت گردی اور اقدام قتل کی سنگین دفعات لگا کر انہیں جیل بھجوا دیا- انہوں نے بتایا کہ گرفتار ہونے والی دونوں بے گناہ خواتین کی ننھی بچیاں گھر میں بلک رہی ہیں- قابل ذکر بات یہ ہے کہ گرفتار ہونیوالی ایک بچی نویں کلاس کی طالبہ اقراء شفیق جسے پولیس نے نہ صرف بالوں سے پکڑ کرگھسیٹا اور تھانے لیجا کر بند کیا بلکہ اس کیخلاف دہشت گردی اوراقدام قتل کامقدمہ درج کرکے جیل بھی بھجوادیا- اقراء شفیق تقریبا 22 یوم سے جیل میں بند ہے اور20 اگست کواس کا نویں جماعت کا رزلٹ بھی تھا جس میں اس نے اچھے نمبر حاصل کئے ہیں- قابل افسوس بات یہ ہے کہ کیا 13/14 سالہ طالبہ نے پولیس پر اتنا خطرناک حملہ کردیا تھا کہ پولیس کو اسے دہشت گرد بنا کرجیل بھیجنا پڑا؟
آئی جی پولیس پنجاب، آر پی او بھاولپور، ڈی پی او بھاولپور اور متعلقہ ایس ایچ او سجاد سندھو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذراسوچیں کہ اگر اقراء شفیق کی بجائے ان کی اپنی بیٹی دہشت گردی کے جھوٹے مقدمہ میں جیل میں بند ہوتی تو ان کے دل پر کیا گزرتی ؟
بہرحال پولیس کاموقف یہ ہے کہ ملزم پارٹی نے پولیس پرحملہ کیا اور ملازمین کوتشدد کا نشانہ بنایا اس لئے دہشت گردی کامقدمہ درج کیا گیا- چلو پولیس کی بات مان بھی لیتے ہیں کہ انہوں نے پولیس پرحملہ کیا ہوگا اور پولیس کو قانونی کارروائی کرنا پڑی لیکن ان معصوم بچیوں کا کیا قصور ہے جن پردہشت گردی کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیجا گیا ہے؟ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں حد سے زیادہ ظلم تو پھر نفرت و بغاوت کو جنم دیتا ہے اور اسی لیے پولیس کیخلاف نفرت پیدا ہوتی ہے-
آئی جی پنجاب, آر پی او بہاولپور اور ڈی پی او بہاولپور کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدارانہ انکوائری کروا کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کریں-
(نصراللہ خان ناصر کی وال سے منقول)