05/10/2023
"ایک خوبصورت حکایت"
جاپانیوں کی مچھلی سے وابستگی واضح ہے اور وہ انکے کھانوں کا ایک اہم جز سمجھی جاتی ہے۔ لیکن کچھ دہائیوں سے مچھلیوں نے ساحلوں کے قریب آنا چھوڑ دیا۔ اس مشکل کے حل کیلیے جاپانیوں نے گہرے سمندر میں شکار کرنا شروع کر دیا۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ کشتیوں کا حجم بڑھتا گیا تو شکار ساحل سے مزید دور ہوتا چلا گیا۔
اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مچھلیاں بازار میں دیر سے پہنچنے لگیں۔ گویا تازہ مچھلیوں کا حصول نا ممکن ہو گیا۔
اس مشکل کے حل کیلیے انہوں نے کشتیوں میں بڑے بڑے فریزر رکھنا شروع کر دیے اور شکار کے فورا بعد مچھلیوں کو فریز کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ تازہ رہیں۔ لیکن ان فریزرز کی وجہ سے کشتیوں کا حجم مزید بڑا کرنا پڑا، جسکی وجہ سے وہ ساحل سے مزید دور ہوتی گئیں۔ اور یوں انکا سمندر میں ٹھہرنے کا وقت بھی بڑھتا گیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مچھلیاں تازہ نہیں ہیں بلکہ فریز ہوتی ہیں۔ لہذا لوگوں نے مچھلیاں لینی کم کر دیں اور یوں مچھلی کی قیمت گرتی گئی۔ اور اسکی وجہ سے شکاریوں کا حوصلہ بھی ٹوٹتا گیا۔
اب اس مشکل کا کیا حل ہو؟ ۔۔۔۔
جاپانی لوگ مسائل کے ساتھ جینا سیکھنے کے بجائے ہمیشہ حل تلاش کرنے پر فوکس رکھتے ہیں۔ سو انہوں نے یہ کیا کہ کشتیوں میں بڑے بڑے پانی سے بھرے حوض بنا لیے اور شکار کے بعد مچھلیوں کو زندہ ہی ان میں جمع کر لیتے تاکہ زمین تک پہنچنے تک وہ زندہ اور تازہ رہیں۔
بلا شبہ یہ ایک اچھا خیال تھا۔ لیکن اسکے بعد کیا ہوا؟
انہیں احساس ہوا کہ مچھلیاں جب ساحل پر پہنچتی ہیں تو وہ سست ہو چکی ہوتی ہیں۔ کیونکہ حوض میں ڈھیر ساری مچھلیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے وہاں تیرنے کی جگہ نہیں بچتی۔ لہذا وہ اس طرح متحرک نہیں رہتیں جیسے سمندر میں رہتی ہیں۔ اور نتیجتا انکا ذائقہ تازہ مچھلی کے مقابلے کم ہو جاتا ہے۔
کیسے عجیب ہیں یہ لوگ۔ ہر بات میں مسئلے کھڑے کرتے ہیں! آخر کیسے شکاری ان لوگوں کو راضی رکھتے؟
لیکن چونکہ جاپانیوں کے پاس ہمیشہ حل ہوتا ہے تو انہوں نے یہ کیا کہ شکار کے بعد اس حوض میں ایک شارک کا بچہ چھوڑ دیا کرتے۔ مچھلیاں اس سے بچنے کیلیے ادھر ادھر بھاگتیں اور یوں مسلسل حرکت میں رہتیں۔
اس عمل سے اگرچہ شارک کچھ مچھلیوں کو کھا جاتی تھی لیکن بہرحال انکا تناسب بہت کم ہوتا تھا جس سے شکاریوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔
سبق یہ ملا کہ جو چیلنج مچھلیوں کو درپیش تھا وہ انہیں مسلسل اور تیزی سے حرکت کرتے رہنے پر مجبور رکھتا تھا تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ اور یہی تو شکاری چاہتے تھے۔ کہ مچھلیاں ساحل پر پہنچیں تو وہ تازہ اور زندگی سے بھرپور ہوں۔
جو تھکن اور سستی مچھلیوں پر حوض میں طاری ہوتی تھی وہی اکثر ہم انسانوں پر بھی طاری ہوتی ہے جب ہم چیلنجز سے منہ چھپا کر اپنے کمفرٹ زون میں قید ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ پر تعیش اور آسان زندگی میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی جس میں کسی قسم کا کوئی چیلنج نہ ہو۔
سو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خداداد صلاحیتوں اور اپنے آپ کو حاصل چانسز سے فائدہ اٹھائیں تاکہ وہ زندگی نہ گزاریں جو سست اور کاہل لوگ گزارتے ہیں۔
ذمہ داریوں سے اسلیے نہ بھاگیں کہ وہ آپ سے بڑی ہیں۔ بلکہ اپنے پیچھے بھی ایک شارک کا بچہ لگا لیں اور پھر دیکھیں آپ زندگی میں کہاں تک پہنچتے ہیں۔
مشکل حالات ہی انسان کو با ہمت بناتے ہیں!
بقول شاعر
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد۔
(عربی سے ترجمہ شدہ مع بعض اضافات)
-خولہ خالد
تحریر: Khola Khalid-Author