PPT- Prime Pulse TV

PPT- Prime Pulse TV Prime Pulse TV launched for more purpose

1. Islamic Organization
2. News Updates
3. Education Industry

17/11/2024
عنوان: معدہ پر اتنا ظلم: ایک شام کا قصہشام کا وقت تھا، سورج آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا اور شہر کی فضا میں سردی کی ہلکی لہر ...
28/10/2024

عنوان: معدہ پر اتنا ظلم: ایک شام کا قصہ

شام کا وقت تھا، سورج آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا اور شہر کی فضا میں سردی کی ہلکی لہر محسوس ہونے لگی تھی۔ میں اور میرا دوست، جو ہمیشہ نئے کھانوں کا شوقین رہا ہے، ہماری گپ شپ کے دوران پرانے دنوں کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ اچانک، وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، "کل میں نے ایک کارنامہ سر انجام دیا، میرا معدہ میرا دشمن بن گیا تھا!"

میں نے مسکرا کر پوچھا، "اچھا! تو پھر کیا کارنامہ سر انجام دیا تم نے؟"
اس نے اپنا سر پیچھے کرکے قہقہہ لگایا اور بولا، "سنو، کل شام میں نے شوارما، برگر، گاجر کا حلوہ، ہلدی والا دودھ، اور سموسے سب ایک ہی وقت میں کھا لیے۔ اور آج صبح سے معدے میں طوفان برپا ہے۔"

یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا، "معدے پر اتنا ظلم؟ بھائی، یہ کیسے کر لیا تم نے؟"
اس نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "بھوک ایسی لگی تھی کہ جو نظر آیا، کھاتا چلا گیا۔ پہلے تو شوارما کا مزہ لیا، پھر برگر کا آرڈر دیا، جب دونوں چیزیں ختم ہوئیں تو میری نظر سامنے پڑے گاجر کے حلوے پر پڑی۔ سوچا، یہ بھی مزے کا لگ رہا ہے، تھوڑا سا کھا لیتا ہوں۔"

"اور پھر؟" میں نے دلچسپی سے پوچھا۔

وہ بولا، "پھر کیا؟ اس کے بعد سامنے ہلدی والا دودھ تھا، امی کہتی ہیں کہ صحت کے لیے اچھا ہے، تو میں نے سوچا چلو، یہ بھی پی لیتے ہیں۔ لیکن جب تک دودھ ختم ہوا، سموسے دیکھ کر دل پھر سے للچا گیا۔ اور تم جانتے ہو، سموسے کی خوشبو ہو اور انسان کا دل نہ پگھلے؟ تو دو سموسے بھی کھا لیے۔"

مجھے یہ سن کر بہت ہنسی آئی، لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا، "پھر کیا ہوا؟"

میرا دوست، جس کے چہرے پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ درد کے آثار بھی نمایاں تھے، بولا، "پھر کیا ہونا تھا؟ رات کو جب سویا، تو پیٹ میں ایسا لگا جیسے کسی نے ڈھول بجا رکھا ہو۔ درد اتنا شدید تھا کہ نیند بھی اڑ گئی۔ ایک وقت پر تو لگا کہ شاید اب ہسپتال جانا پڑے گا۔ لیکن سوچا، پہلے گھریلو ٹوٹکے آزما لیتے ہیں۔"

میں نے دلچسپی سے پوچھا، "گھریلو ٹوٹکے؟ وہ کیا تھے؟"

اس نے بتایا، "سب سے پہلے تو میں نے زیرہ اور اجوائن کا قہوہ بنایا۔ امی نے ہمیشہ بتایا ہے کہ یہ معدے کے لیے بہترین ہے۔ لیکن وہ قہوہ اتنا کڑوا تھا کہ ایک گھونٹ لیتے ہی میرا منہ بگڑ گیا۔ مگر معدہ میں جو طوفان مچ رہا تھا، اس کے آگے یہ کڑواہٹ کچھ بھی نہیں تھی۔ کسی طرح میں نے پورا کپ ختم کیا۔"

"کیا اس سے کچھ فرق پڑا؟" میں نے ہمدردی سے پوچھا۔

اس نے جواب دیا، "ہاں، تھوڑا بہت آرام تو ملا، لیکن ابھی بھی درد میں کمی نہیں آئی تھی۔ پھر میں نے انٹرنیٹ پر تلاش کیا کہ معدے کے درد کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ وہاں لکھا تھا کہ ہلدی والا دودھ تو آرام دیتا ہے، لیکن ساتھ زیادہ چربی والا کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ میں نے سوچا، شوارما، برگر، گاجر کا حلوہ، سموسے، سب کچھ تو میں نے کھا لیا تھا۔ اب پچھتاوا ہو رہا تھا کہ یہ سب نہ کھاتا۔"

پھر اس نے مزید بتایا، "پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ورزش کر لیتا ہوں، شاید کچھ فرق پڑ جائے۔ تو میں رات کے ایک بجے، گھر کے صحن میں، پیٹ کو ہاتھوں سے پکڑے، چلنے لگا۔ سوچا شاید تھوڑی چہل قدمی سے معدے میں موجود کھانا ہضم ہو جائے۔ مگر جس تیزی سے میں نے کھانا کھایا تھا، وہی تیزی شاید معدے میں ہضم ہونے میں نہیں تھی۔"

میں نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا، "یعنی معدہ کہہ رہا تھا، 'بھائی، یہ کیا کیا تم نے؟'"

وہ ہنستے ہوئے بولا، "بالکل! وہ قہوہ، وہ ورزش، سب بے کار لگ رہے تھے۔ پھر رات کے تین بجے، میں نے پھر سے قہوہ بنایا اور سوچا، شاید اس بار زیادہ پینا فائدہ دے۔ لیکن اس بار بھی وہی حال۔ میری نیند تو اڑ چکی تھی، درد کی شدت سے پیشانی پر پسینہ آ رہا تھا۔"

میں نے سنجیدگی سے پوچھا، "پھر آخر میں آرام کیسے آیا؟"

وہ بولا، "آرام تو اگلی صبح ہی آیا جب میں نے آخر کار ڈاکٹر کو فون کیا۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں تجویز کیں، اور ساتھ ہی مجھے نصیحت کی کہ رات کو اتنا بھاری کھانا مت کھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کھانا آہستہ آہستہ اور وقت پر کھاؤ۔ میں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔"

میں نے اس کی کہانی سنی اور اسے کہا، "یہ تو واقعی ایک سبق آموز قصہ ہے۔"
وہ مسکرا کر بولا، "ہاں، یہ کہانی میرے معدے اور میری بھوک کے درمیان ایک جنگ کی طرح تھی، جس میں آخر کار معدے نے جیت حاصل کر لی۔"

یہ سن کر ہم دونوں ہنسنے لگے، اور میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بھلے یہ کہانی ہنسی کا باعث بنی، لیکن یہ واقعی ایک یادگار واقعہ تھا۔ دوست کی بھوک نے اسے ایسی مشکل میں ڈال دیا کہ جس کا حل اس نے گھر کے ٹوٹکوں اور ورزش میں تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن آخر کار اسے ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پڑا۔

یوں، وہ شام ہماری گپ شپ کا حصہ بن گئی اور معدہ پر ظلم کرنے کا یہ قصہ ہمیشہ کے لیے یادوں کا حصہ بن گیا۔

دوستی اور سفر کے تجربات انسان کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں، اور جب یہ دونوں ایک ساتھ ملتے ہیں تو ان کا اثر دوچند ...
27/10/2024

دوستی اور سفر کے تجربات انسان کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں، اور جب یہ دونوں ایک ساتھ ملتے ہیں تو ان کا اثر دوچند ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں، مجھے ایک بہت ہی پرانے دوست، محمد وقاص اقبال خان، کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا، جو کہ میرے انٹرمیڈیٹ کے دنوں کا دوست تھا۔ یہ ملاقات میری زندگی کی ایک یادگار لمحہ بن گئی، جس نے مجھے اپنی دوستی کی اہمیت کا دوبارہ احساس دلایا۔

وقاص کے ساتھ میری دوستی کی شروعات 2013 میں ہوئی، جب ہم دونوں نے ایک ہی ہاسٹل میں رہنا شروع کیا۔ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب تھے، اور ہماری دوستی نے ہمیں مختلف تجربات کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ہاسٹل کے دنوں میں ہم نے ایک ساتھ پڑھائی کی، کھیل کھیلے، اور اپنی زندگی کے بہت سے لمحات کا اشتراک کیا۔ وقت کے ساتھ، یہ دوستی ایک مضبوط رشتے میں تبدیل ہو گئی، جہاں ہم ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے تھے۔ لیکن زندگی کے سفر میں ہمیں مختلف راستوں پر چلنا پڑا، اور ہم ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔

کچھ سالوں بعد، میں نے سوچا کہ مجھے وقاص سے ملنا چاہیے۔ میں نے سرگودھا سے کالا باغ جانے کا فیصلہ کیا، جو تقریباً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ قدرت نے کس طرح اپنی خوبصورتی سے زمین کو سجایا ہے۔ سرگودھا کے بعد جیسے ہی میں نے کالا باغ کا راستہ اختیار کیا، میرے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ قدرت کے حسین مناظر، کھلے آسمان، سرسبز پہاڑ اور نیلے پانی کے جھیلیں، سب نے میری روح کو تازگی بخشی۔

اس سفر نے مجھے یہ بھی محسوس کروایا کہ ہم کس قدر مصروف ہو چکے ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں ہم اپنے قیمتی رشتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میرے دل میں یہ احساس جاگا کہ ہمیں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، چاہے زندگی کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو۔ یہ سفر میرے لیے ایک نیا سبق سکھانے والا تھا، کہ دوستی کی اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

جب میں بالآخر وقاص کے پاس پہنچا، تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ ملاقات میرے دل کے لیے کتنی خوشی کا باعث بنی۔ وقاص نے مجھے خوش آمدید کہا، اور جیسے ہی ہم ملے، میرے دل میں ایک عجیب سکون محسوس ہوا۔ وہی دوستی، وہی مسکراہٹیں، اور وہی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ہم نے ایک دوسرے کی زندگی کے بارے میں باتیں کیں، اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ بھی اپنی زندگی میں کامیاب ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کیا، اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کی خوشی محسوس کی۔

وقاص کی محبت اور مہمان نوازی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کی پیشکش کی، اور یہ اس کی محبت کا ایک خاص انداز تھا۔ اس کی دعوت میرے دل کو چھو گئی۔ اس کی محبت اور دوستی نے مجھے ایسا محسوس کروایا کہ میں ایک بار پھر ہاسٹل کے دنوں میں واپس آ گیا ہوں۔ ہم نے ایک ساتھ کھایا پیا اور مختلف موضوعات پر گپ شپ کی۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔ ہم نے اپنی زندگی کی چیلنجز کے بارے میں بات کی، اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہم دونوں نے اپنی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے اپنی مصروفیات کی یاد آتی رہی۔ مجھے واپس جانے کی تیاری کرنی تھی، اور یہ احساس میرے دل کو بھاری کر رہا تھا۔ وقاص کی محبت نے مجھے رکنے کی خواہش دلائی، لیکن میں جانتا تھا کہ مجھے واپس جانا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے درمیان محبت اور تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

اس ملاقات نے مجھے یہ سکھایا کہ دوستی کی اہمیت کو کبھی بھی کم نہیں کرنا چاہیے۔ دوست ایک دوسرے کے لیے طاقت کا ذریعہ ہوتے ہیں، جو زندگی کے مشکل لمحوں میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ ہماری دوستی نے مجھے سکھایا کہ زندگی کی دوڑ میں ہمیں اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، کیونکہ یہی لمحات ہماری زندگی کی خوشیوں کا سبب بنتے ہیں۔

سفر کے دوران میں نے جو مناظر دیکھے، وہ میری روح کو تازگی بخشتے رہے۔ یہ ایک یادگار سفر تھا، جس نے مجھے یاد دلایا کہ زندگی کے سفر میں صرف مقصد نہیں، بلکہ رشتے بھی اہم ہیں۔ ہم جتنا بھی آگے بڑھیں، اپنی جڑوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ دوستی اور محبت کے رشتے ہمیشہ ہمیں مضبوطی دیتے ہیں اور زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔

میں نے اپنے دوست کی محبت اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ملاقات میرے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا، جہاں میں نے اپنی دوستی کی اہمیت کو نئے سرے سے جانا۔ اس سفر نے مجھے یہ سکھایا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت دوستی ہے، جو ہمیں خوشی، سکون اور محبت دیتی ہے۔

آج کے دور میں، جہاں ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہے، دوستی کا یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے رشتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمیں وقت نکال کر اپنے دوستوں کے ساتھ گزارنا چاہیے، کیونکہ یہی لمحات ہمیں حقیقی خوشی دیتے ہیں۔ دوستی کا یہ سفر میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جلد ہی اپنے دوست وقاص سے دوبارہ ملنے کی کوشش کروں گا۔

یہ تجربات نہ صرف میرے لیے یادگار ہیں، بلکہ یہ زندگی کی سچائیاں بھی ہیں، جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ دوستی کی قدر کس طرح کی جانی چاہیے۔ دوست ہی ہیں جو ہماری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرتے ہیں، اور ان کی محبت ہمیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت دیتی ہے۔

دوستی کا یہ سفر میرے دل میں ہمیشہ ایک خاص جگہ رکھے گا۔ میں اس بات کی دعا کرتا ہوں کہ میری اور وقاص کی دوستی ہمیشہ قائم رہے اور ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ زندگی کی اس دوڑ میں، دوستی کی یہ قیمتی خزانہ ہمیشہ ہمیں خوشیوں سے بھرتا رہے گا۔

*ہمت اور شکر گزاری* آج کا دن بھی عام دنوں کی طرح تھا۔ میں کندیاں سے پپلاں کے لیے روانہ ہوا تو ایک چھوٹی سی وین میں بیٹھا...
27/10/2024

*ہمت اور شکر گزاری*

آج کا دن بھی عام دنوں کی طرح تھا۔ میں کندیاں سے پپلاں کے لیے روانہ ہوا تو ایک چھوٹی سی وین میں بیٹھا۔ اتفاقاً میرے قریب دو عورتیں بیٹھی بات کر رہی تھیں۔ ان کی گفتگو بہت دلچسپ تھی۔ ان میں سے ایک عورت دوسرے سے اپنی زندگی کی کہانی بیان کر رہی تھی۔

"میرا بیٹا کلاس نہم میں فیل ہو گیا تھا،" وہ عورت گویا ہوئی۔ "میں نے اور اس کے والد نے بہت کوشش کی کہ وہ پڑھائی کی طرف توجہ دے، لیکن کچھ دن بعد اس نے ہار مان لی۔ اس کے دل میں پڑھائی کا شوق ہی ختم ہو گیا تھا۔"

یہ بات سن کر دوسری عورت نے سوال کیا، "پھر تم نے کیا کیا؟ کیا دوبارہ پڑھائی کی طرف لے جانے کی کوشش نہیں کی؟"

"جی ہاں، ہم نے کوشش کی، مگر وہ نہیں مانا۔" اس عورت نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی، پھر گویا ہوئی، "آخرکار میں نے فیصلہ کیا کہ اسے اس کی مرضی کے راستے پر چلنے دیا جائے۔ اُس نے ڈرائنگ کورس کرنے کی خواہش ظاہر کی، اور ہم نے اس کی بات مان لی۔"

دوسری عورت کچھ حیران ہو کر بولی، "ڈرائنگ کورس؟ کیا اُس میں بھی کچھ بن پایا؟"

پہلی عورت کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔ "ہاں، بالکل! اب تو وہ اچھا خاصا سیٹل ہے۔ اُس نے ہار نہیں مانی، اپنے ہنر پر یقین کیا اور اپنی محنت سے ایک اچھی زندگی بنا لی۔ آج وہ ایک کامیاب آرٹسٹ ہے اور میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنے کام میں خوش ہے۔"

یہ سن کر میرا ذہن سوچ میں ڈوب گیا۔ کیسے کچھ لوگ مشکلات میں بھی اپنی راہ نکال لیتے ہیں، اور کیسے کچھ اپنے دل کی سنتے ہیں، اپنی راہ خود تراشتے ہیں۔ زندگی میں ناکامی اکثر ہمارے حوصلے کو توڑ دیتی ہے، مگر اصل کامیابی تو اسی میں ہے کہ ہم ہار نہ مانیں، اپنی محنت جاری رکھیں، اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں۔
ناکامیوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ کئی بار ناکامیاں ہمیں کامیاب ہونے کے نئے راستے دکھاتی ہیں۔ جب ہمارا کوئی خواب ٹوٹتا ہے، تو شاید اللہ ہمیں اس سے بھی بہتر راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہو۔ اس بچے نے بھی اپنی ناکامی کو قبول کیا، مگر اُس نے یہ محسوس کیا کہ اس کا ہنر کسی اور میدان میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اس کی محنت اور ہمت کا ہی نتیجہ تھا کہ آج وہ ایک کامیاب انسان ہے۔

زندگی میں ہار ماننے کی بجائے، ہمیں اپنی توانائیاں کسی اور طرف مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی محنت کو کامیابی کے راستے پر لگا دیتے ہیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں، تو ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ شکرگزاری ہمیں اپنے راستے میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خاص صلاحیت سے نوازا ہے، اور اگر ہم اس کا شکر ادا کریں، تو وہ ہمیں مزید نوازتا ہے۔

اے دوست ہمت کر، تجھ میں خود کو بدلنے کی طاقت ہے
رستے پہ چل، گر تو سچ میں منزل کی چاہت ہے

دیکھ غم کو یوں کہ جیسے یہ بھی کوئی پیغام ہو
جو پلٹے تیرے خواب، مگر وقت کا یہ بھی انعام ہو

شکر کر خدا کا، جو کچھ ہے اس کا فضل ہے
خواب ٹوٹتے ہیں، مگر صبر کر تو یہ بھی جزبہ عمل ہے

*"زمانے کا سفر: رفتار کی تیز دنیا اور سادگی کی کھوئی ہوئی خوشی"*آج میں معمول کے مطابق اپنے موٹر سائیکل پر شہر کے راستوں ...
25/10/2024

*"زمانے کا سفر: رفتار کی تیز دنیا اور سادگی کی کھوئی ہوئی خوشی"*

آج میں معمول کے مطابق اپنے موٹر سائیکل پر شہر کے راستوں سے گزر رہا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی اور سڑکوں پر ہلکی ہلکی چہل پہل ہو رہی تھی۔ اچانک ایک نوجوان سائیکل سوار میرے برابر آ کر رک گیا۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور وہ اطمینان سے پُر تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ ہلایا اور میں نے جواباً سر ہلا دیا۔

یہ منظر دیکھ کر میں لمحہ بھر کے لیے رک گیا۔ یاد آیا کہ کبھی میں خود بھی سائیکل پر سفر کیا کرتا تھا، تب زندگی سادہ تھی اور خواہشات محدود۔ وقت کی رفتار سے ہم دونوں آگے بڑھ رہے تھے، لیکن راستے اور سفر بدل چکے تھے۔ میں موٹر سائیکل پر تھا، تیز رفتار اور مشینی، جب کہ وہ پرانی دنیا کی یاد دلاتا سائیکل سوار، جیسے وہ زمانہ آج بھی اسی رفتار سے چل رہا ہو۔

مجھے وہ دن یاد آئے جب میں خود بھی سائیکل چلاتا تھا، راستے طویل لگتے تھے لیکن دل میں عزم ہوتا تھا۔ آج موٹر سائیکل پر رفتار تیز ہے، لیکن شاید زندگی کا وہ سکون کھو دیا ہے جو اس سائیکل سوار کے چہرے پر نظر آ رہا تھا۔

زمانہ واقعی بدل گیا تھا۔ سائیکل سے موٹر سائیکل تک کا سفر صرف ایک ترقی کی علامت نہیں تھا، بلکہ زندگی کی بدلتی رفتار کا بھی عکاس تھا۔ کبھی ہم دھیرے دھیرے چلتے، راستے دیکھتے، قدرت کی خوبصورتی کو محسوس کرتے تھے۔ آج ہم نے اپنی رفتار کو بڑھا لیا ہے، لیکن یہ سفر کسی مقابلے میں تبدیل ہو چکا ہے، جس میں منزلیں قریب تو آ رہی ہیں مگر اندر کی خوشی کہیں دور جا چکی ہے۔

میں اس سائیکل سوار کو دیکھتا رہا، جیسے وہ میری زندگی کے کسی پرانے باب کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ وہ اتنی آہستگی سے آگے بڑھ رہا تھا جیسے وقت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان کی جھلک تھی، جبکہ میں موٹر سائیکل کی تیز رفتاری میں لپٹا ہوا تھا، جیسے میں خود بھی وقت کے ساتھ دوڑ لگا رہا ہوں، کچھ کھونے کے خوف میں۔

مجھے احساس ہوا کہ ہم نے آسانیاں حاصل کر لی ہیں، لیکن ان کے ساتھ بے چینی بھی آئی ہے۔ ترقی نے ہمیں بہتر ذرائع فراہم کیے، لیکن سادگی اور اطمینان کا وہ رشتہ جو پرانی چیزوں سے جڑا ہوا تھا، شاید کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ زندگی کا یہ سفر صرف جسمانی فاصلے طے کرنے کا نہیں، بلکہ روحانی سکون کو بھی تلاش کرنے کا تھا۔ لیکن آج کی تیز رفتار دنیا میں ہم شاید وہ سکون کھو چکے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ زمانے کی تبدیلیاں ناگزیر ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ اپنے دل اور ذہن کی دنیا کو بھی بہتر کر رہے ہیں؟ یا پھر اس رفتار میں ہم اپنی اندرونی خوشیوں اور سکون کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں؟ شاید اس سائیکل سوار کی طرح ہمیں کبھی کبھی اپنی رفتار کم کرنی چاہیے، تاکہ ہم خود کو اور زندگی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
By :
Muhammad Abu Bakar Attari

Invite to all of you
12/09/2024

Invite to all of you

💖ایک بیوی والے بیچارے💝 ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن او...
09/07/2024

💖ایک بیوی والے بیچارے💝
ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن اور جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی مایوسی بڑھ جاتی ہے، محنت کم ہو جاتی ہے، ہنسی اڑ جاتی ہے اور وہ شکوے اور شکایات کا گڑھ بن جاتا ہے یعنی ہر وقت شکوے شکایات ہی کرتا نظر آئے گا۔💖
قاضی ابو مسعود کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو، اس کے لیے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں [کہ ہر وقت غصے کی حالت میں ہو گا اور غصے میں فیصلہ جائز نہیں]💖۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور وفکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔💝

ابن میسار کہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی کہ جس کی بیوی ایک ہو۔💝
عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ مرد تو وہ ہیں کہ جن کی بیویاں ہوں۔ اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں۔ ابن یونس سے کہا گیا کہ
🎚یہود و نصاری نے تعدد ازواج یعنی ایک زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑ دیا
۔ انہوں نے جواب دیا، اس لیے کہ اللہ عزوجل ۔۔۔۔ ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے🧡۔

ابو معروف کرخی سے سوال ہوا کہ آپ کی ان کے بارے کیا رائے ہیں جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں بلکہ مجنون ہیں۔ یہ ابوبکر وعمر اور عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کے زہد کو نہیں پہنچ سکے 💝
۔ ابن فیاض سے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں🧡
۔ والی کرک ابن اسحاق نے پورے شہر میں مال تقسیم کیا لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ اللہ عزوجل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے [کہ وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں]۔💖

ابن عطاء اللہ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہ کی سنت کو۔💝 حصری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا تو دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو، تین تین اور چار چار سے شادیاں کرو۔ اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔🍉
تقی الدین مزنی سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلایا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو اگلے چاند سے پہلے تین ہزار شادیاں ہوئیں اور شہر میں کوئی کنواری، مطلقہ اور بیوہ نہ رھی ۔۔۔۔۔۔ سب کہ دو سبحان اللّٰہ ۔۔۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جو حضرت عمر فاروق کے نام سے مشہور ہیں، اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ آپ کی ولادت سن...
07/07/2024

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جو حضرت عمر فاروق کے نام سے مشہور ہیں، اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ آپ کی ولادت سنہ 584 عیسوی میں مکہ میں ہوئی۔ حضرت عمر کا تعلق قریش کے قبیلے بنی عدی سے تھا۔

حضرت عمر فاروق کی ابتدائی زندگی سختی اور محنت سے بھرپور تھی۔ آپ نے جوانی میں جنگی فنون، گھڑسواری، اور عربی شاعری میں مہارت حاصل کی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت عمر، اسلام اور مسلمانوں کے سخت مخالف تھے۔

حضرت عمر نے 26 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے قبل مسلمان خفیہ طور پر عبادات کرتے تھے، لیکن آپ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنی شروع کی۔ آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ اور قوت ملی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت 634 عیسوی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد شروع ہوئی۔ آپ کے دورِ خلافت کو اسلامی تاریخ میں ایک عظیم اور کامیاب دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔

حضرت عمر کے دور میں اسلامی ریاست کی حدود میں وسیع اضافہ ہوا۔ آپ کے دور میں ایران، عراق، شام، مصر، اور فلسطین فتح ہوئے۔ آپ نے مختلف علاقوں میں اسلامی قانون نافذ کیا اور عدل و انصاف کے نظام کو مضبوط کیا۔

حضرت عمر فاروق نے انتظامی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا، جن میں سب سے اہم دیوان کا قیام، مالیات اور فوجی امور کے لیے دیوان کا قیام، نظامِ شوریٰ، اہم معاملات میں مشورہ لینے کے لیے شوریٰ کا نظام متعارف کروانا اور بیت المال، عوامی فلاح و بہبود کے لیے بیت المال کا قیام شامل ہیں۔

حضرت عمر فاروق عدل و انصاف کی مثال کے طور پر مشہور ہیں۔ آپ نے کہا کہ "اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔" آپ کا دورِ خلافت عدل و انصاف اور عوامی فلاح و بہبود کی روشن مثال ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 644 عیسوی میں شہید ہوئے۔ آپ کو نماز کے دوران ابو لؤلؤ فیروز نامی مجوسی غلام نے خنجر سے وار کیا۔ آپ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کے کارنامے اور اصلاحات اسلامی معاشرت اور حکومت کے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔ آپ کا دورِ خلافت اسلامی حکومت کی عظیم مثالوں میں شمار ہوتا ہے اور آپ کی شخصیت آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔

*فرامین مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم*

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث بیان فرمائیں جو ان کی عظمت اور مقام کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں چند اہم احادیث پیش کی جا رہی ہیں:

1. **سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:**
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔'"
(ترمذی)

2. **سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:**
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'بے شک شیطان عمر بن خطاب کو دیکھ کر راستہ بدل دیتا ہے۔'"
(بخاری، مسلم)

3. **سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:**
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرو۔'"
(ترمذی)

4. **سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:**
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'میرے صحابہ میں سب سے زیادہ حق کی بات کرنے والا عمر ہے۔'"
(ترمذی)

5. **سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:**
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'میری امت میں عمر کی مثال موسیٰ کی امت میں بنی اسرائیل کے نبیوں جیسی ہے۔'"
(مسند احمد)

یہ احادیث حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت اور فضیلت کو بیان کرتی ہیں اور ان کی ایمان و تقویٰ کی گواہی دیتی ہیں۔
Muhammad Abu Bakar



*گاؤں یا دیہات کو "چک" کیوں کہا جاتا ہے؟*ہم میں سے اکثر لوگ دیہاتوں سے شہروں میں آ کر بس گئے ہیں۔ لوگ بہتر روزگار تعلیم ...
07/07/2024

*گاؤں یا دیہات کو "چک" کیوں کہا جاتا ہے؟*

ہم میں سے اکثر لوگ دیہاتوں سے شہروں میں آ کر بس گئے ہیں۔ لوگ بہتر روزگار تعلیم اور بہتر سہولیات کے حصول کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد دیہات میں بستی ہے۔

عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 60 فیصد لوگ دیہات میں آباد ہیں اور پاکستان میں 60 سے 70 فیصد لوگوں کا روزگار بھی زراعت سے وابستہ ہے۔

لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ گاؤں یا دیہات کو چَک کیوں کہا جاتا ہے؟

دیہات کو اردو میں گاؤں کہا جاتا ہے اور انگلش میں ولیج۔ لیکن جب ہم کسی سے اس کے گاؤں کے ایڈریس یا پتہ پوچھتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے چَک نمبر فلاں فلاں۔

لہذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چَک کیا ہے اور چَک نمبر کیا ہے؟ جبکہ دیہات کے پتے کو گاؤں کے نمبر سے بھی لکھا جا سکتا تھا۔ پھر لفظ چَک کا استعمال کیوں کیا گیا۔

اس بات کا جواب فلسفے کے مشہور استاد اور کئی کتابوں کے مصنف سید علی عباس جلالپوری کچھ یوں دیتے ہیں کہ جب کنواں کھودا جاتا ہے تو اس میں ایک گول لکڑی کا چک لگا دیا جاتا ہے اور اس چک کے گرد ااینٹیں چن دیں جاتی ہیں۔

اسی طرح برطانوی راج کے دوران دور دراز کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہریں کھودی گئیں۔ جس سے دور دراز کی علاقے سیراب ہوئے اور ان نہروں کے گرد لوگ بسنے لگے۔

تو بستی بسانے سے پہلے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک کنواں کھودا جاتا تھا، اس کنوے پر لکڑی کا ایک گول چک لگا دیا جاتا تھا۔ پھر اس کنویں کے گرد آباد ہونے والی بستی کو چک کہا جانے لگا۔

رفتہ رفتہ ان چک کے نمبر لگا دیے گئے۔ یوں ایک گاؤں یا ایک دیہات کو چک کہا اور لکھا جانے لگا۔

لکڑی کا چک کنوئیں میں رکھ کر اس کے ارد گرد نہیں بلکہ اس کے اوپر اینٹوں کی چنائی کی جاتی ہے پھر اس چک کے نیچے سے مٹی نکال کر کنواں مزید گہرا کرتے جاتے ہیں.
انگریز دور میں جب نہری نظام قائم کیا گیا تو مزید رقبہ زیر کاشت لانے کے لئے خصوصاً مشرقی پنجاب کے کاشتکاروں کو ان نہری علاقوں میں زمینیں الاٹ کی گئیں، ان علاقوں میں بسائے گئے گاؤں کو چک کہا جاتا تھا اور جس نہر سے یہ چک سیراب ہوتے تھے اسی نہر یا شاخ کا نام بھی نمبر کے ساتھ لکھتے ہیں جیسے چک نمبر 66 گ ب( گوگیرہ برانچ ) یا چک نمبر 77 ر ب ( رکھ برانچ ) یہی نمبر اور نام اب ان چکوک کی پہچان ہیں.،




01/07/2024

*جہاز کے متعلق بنیادی انفارمیشن*

# # # تاریخ اور ارتقاء:
- **ابتدائی دن**: پہلا کامیاب موٹرائزڈ پرواز 1903 میں رائٹ برادرز نے کی۔
- **ارتقاء**: ابتدائی جہاز بہت سادہ تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تکنیکی ترقی ہوئی، جیسے کہ جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران جنگی جہازوں کی ترقی۔

# # # اقسام:
- **مسافر جہاز** (Commercial Airliners): جیسے بوئنگ 747 اور ایئر بس A380، جو سینکڑوں مسافروں کو لے جانے کے لئے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
- **کارگو جہاز** (Cargo Planes): جیسے بوئنگ 747-8F، جو بڑی مقدار میں سامان لے جانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
- **نجی جہاز** (Private Jets): چھوٹے اور عیش و عشرت والے جہاز جو افراد یا چھوٹے گروپوں کے لئے ہوتے ہیں۔
- **فوجی جہاز** (Military Aircraft): جیسے فائٹر جیٹ اور بمبار، جو جنگی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

# # # اہم اصطلاحات:
- **ایویونکس** (Avionics): جہاز کے الیکٹرانک سسٹم، جن میں نیویگیشن، کمیونیکیشن، اور فلائٹ کنٹرول شامل ہیں۔
- **ایروفوائل** (Airfoil): پر یا دیگر ساختہ سطح جو ہوا کے ساتھ تعامل کے ذریعے لفٹ پیدا کرتی ہے۔
- **تھرسٹ** (Thrust): انجن کی پیدا کردہ فورس جو جہاز کو آگے بڑھاتی ہے۔
- **ڈریگ** (Drag): ہوا کی رگڑ جو جہاز کی رفتار کو کم کرتی ہے۔
- **لفٹ** (Lift): وہ فورس جو جہاز کو اوپر اٹھاتی ہے، جو پرزے کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

# # # حفاظت اور ضوابط:
- **ایوی ایشن حکام**: جیسے FAA (Federal Aviation Administration) اور EASA (European Union Aviation Safety Agency)، جو پرواز کی حفاظت کے قوانین بناتے اور ان پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔
- **سیفٹی فیچرز**: جیسے ایمرجنسی ایگزٹ، آکسیجن ماسک، اور لائف ویسٹ، جو ہنگامی صورتحال میں مسافروں کی حفاظت کے لئے ہوتے ہیں۔

# # # جدید ٹیکنالوجی:
- **خودکار پرواز** (Autopilot): سسٹم جو جہاز کو خود بخود نیویگیٹ اور کنٹرول کرتا ہے۔
- **گلاس کاک پٹ** (Glass Cockpit): جدید انٹرایکٹو ڈسپلے اور ڈیجیٹل انٹرفیس جو پائلٹ کو اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔
- **ریموٹلی پائلٹڈ ایرکرافٹ** (RPAS): جیسے ڈرون، جو بغیر پائلٹ کے زمین سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔.…......….............................
جہاز (Airplane) ایک وہیکل ہے جو ہوا میں پرواز کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیات اور اجزاء میں شامل ہیں:

1. **باڈی** (Fuselage): جہاز کا مرکزی حصہ جس میں مسافر اور کارگو رکھا جاتا ہے۔
2. **پرزے** (Wings): ہوا کو اوپر کی طرف دھکیلنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں تاکہ جہاز اوپر اٹھ سکے۔
3. **انجن** (Engine): جہاز کو آگے بڑھانے کے لئے طاقت فراہم کرتا ہے۔ انجن عام طور پر جیٹ یا پروپیلر ہو سکتے ہیں۔
4. **پائلٹ** (Pilot): وہ شخص جو جہاز کو کنٹرول کرتا ہے اور اڑاتا ہے۔
5. **کنٹرول سسٹم** (Control System): اس میں ہدایات اور کنٹرول شامل ہیں جو جہاز کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں، جیسے کہ ایلیویٹر، روڈر، اور ایلییرون۔
6. **لینڈنگ گیئر** (Landing Gear): اس کا استعمال جہاز کو زمین پر اترنے اور زمین سے اڑنے میں مدد دیتا ہے۔

جہاز کا بنیادی مقصد لوگوں اور سامان کو ایک جگہ سے دوسری
جگہ تیزی سے اور محفوظ طریقے سے منتقل کرنا ہے۔


Address

Sargodha
40100

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when PPT- Prime Pulse TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to PPT- Prime Pulse TV:

Share

Category