28/10/2024
عنوان: معدہ پر اتنا ظلم: ایک شام کا قصہ
شام کا وقت تھا، سورج آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا اور شہر کی فضا میں سردی کی ہلکی لہر محسوس ہونے لگی تھی۔ میں اور میرا دوست، جو ہمیشہ نئے کھانوں کا شوقین رہا ہے، ہماری گپ شپ کے دوران پرانے دنوں کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ اچانک، وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، "کل میں نے ایک کارنامہ سر انجام دیا، میرا معدہ میرا دشمن بن گیا تھا!"
میں نے مسکرا کر پوچھا، "اچھا! تو پھر کیا کارنامہ سر انجام دیا تم نے؟"
اس نے اپنا سر پیچھے کرکے قہقہہ لگایا اور بولا، "سنو، کل شام میں نے شوارما، برگر، گاجر کا حلوہ، ہلدی والا دودھ، اور سموسے سب ایک ہی وقت میں کھا لیے۔ اور آج صبح سے معدے میں طوفان برپا ہے۔"
یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا، "معدے پر اتنا ظلم؟ بھائی، یہ کیسے کر لیا تم نے؟"
اس نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "بھوک ایسی لگی تھی کہ جو نظر آیا، کھاتا چلا گیا۔ پہلے تو شوارما کا مزہ لیا، پھر برگر کا آرڈر دیا، جب دونوں چیزیں ختم ہوئیں تو میری نظر سامنے پڑے گاجر کے حلوے پر پڑی۔ سوچا، یہ بھی مزے کا لگ رہا ہے، تھوڑا سا کھا لیتا ہوں۔"
"اور پھر؟" میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
وہ بولا، "پھر کیا؟ اس کے بعد سامنے ہلدی والا دودھ تھا، امی کہتی ہیں کہ صحت کے لیے اچھا ہے، تو میں نے سوچا چلو، یہ بھی پی لیتے ہیں۔ لیکن جب تک دودھ ختم ہوا، سموسے دیکھ کر دل پھر سے للچا گیا۔ اور تم جانتے ہو، سموسے کی خوشبو ہو اور انسان کا دل نہ پگھلے؟ تو دو سموسے بھی کھا لیے۔"
مجھے یہ سن کر بہت ہنسی آئی، لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا، "پھر کیا ہوا؟"
میرا دوست، جس کے چہرے پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ درد کے آثار بھی نمایاں تھے، بولا، "پھر کیا ہونا تھا؟ رات کو جب سویا، تو پیٹ میں ایسا لگا جیسے کسی نے ڈھول بجا رکھا ہو۔ درد اتنا شدید تھا کہ نیند بھی اڑ گئی۔ ایک وقت پر تو لگا کہ شاید اب ہسپتال جانا پڑے گا۔ لیکن سوچا، پہلے گھریلو ٹوٹکے آزما لیتے ہیں۔"
میں نے دلچسپی سے پوچھا، "گھریلو ٹوٹکے؟ وہ کیا تھے؟"
اس نے بتایا، "سب سے پہلے تو میں نے زیرہ اور اجوائن کا قہوہ بنایا۔ امی نے ہمیشہ بتایا ہے کہ یہ معدے کے لیے بہترین ہے۔ لیکن وہ قہوہ اتنا کڑوا تھا کہ ایک گھونٹ لیتے ہی میرا منہ بگڑ گیا۔ مگر معدہ میں جو طوفان مچ رہا تھا، اس کے آگے یہ کڑواہٹ کچھ بھی نہیں تھی۔ کسی طرح میں نے پورا کپ ختم کیا۔"
"کیا اس سے کچھ فرق پڑا؟" میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
اس نے جواب دیا، "ہاں، تھوڑا بہت آرام تو ملا، لیکن ابھی بھی درد میں کمی نہیں آئی تھی۔ پھر میں نے انٹرنیٹ پر تلاش کیا کہ معدے کے درد کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ وہاں لکھا تھا کہ ہلدی والا دودھ تو آرام دیتا ہے، لیکن ساتھ زیادہ چربی والا کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ میں نے سوچا، شوارما، برگر، گاجر کا حلوہ، سموسے، سب کچھ تو میں نے کھا لیا تھا۔ اب پچھتاوا ہو رہا تھا کہ یہ سب نہ کھاتا۔"
پھر اس نے مزید بتایا، "پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ورزش کر لیتا ہوں، شاید کچھ فرق پڑ جائے۔ تو میں رات کے ایک بجے، گھر کے صحن میں، پیٹ کو ہاتھوں سے پکڑے، چلنے لگا۔ سوچا شاید تھوڑی چہل قدمی سے معدے میں موجود کھانا ہضم ہو جائے۔ مگر جس تیزی سے میں نے کھانا کھایا تھا، وہی تیزی شاید معدے میں ہضم ہونے میں نہیں تھی۔"
میں نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا، "یعنی معدہ کہہ رہا تھا، 'بھائی، یہ کیا کیا تم نے؟'"
وہ ہنستے ہوئے بولا، "بالکل! وہ قہوہ، وہ ورزش، سب بے کار لگ رہے تھے۔ پھر رات کے تین بجے، میں نے پھر سے قہوہ بنایا اور سوچا، شاید اس بار زیادہ پینا فائدہ دے۔ لیکن اس بار بھی وہی حال۔ میری نیند تو اڑ چکی تھی، درد کی شدت سے پیشانی پر پسینہ آ رہا تھا۔"
میں نے سنجیدگی سے پوچھا، "پھر آخر میں آرام کیسے آیا؟"
وہ بولا، "آرام تو اگلی صبح ہی آیا جب میں نے آخر کار ڈاکٹر کو فون کیا۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں تجویز کیں، اور ساتھ ہی مجھے نصیحت کی کہ رات کو اتنا بھاری کھانا مت کھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کھانا آہستہ آہستہ اور وقت پر کھاؤ۔ میں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔"
میں نے اس کی کہانی سنی اور اسے کہا، "یہ تو واقعی ایک سبق آموز قصہ ہے۔"
وہ مسکرا کر بولا، "ہاں، یہ کہانی میرے معدے اور میری بھوک کے درمیان ایک جنگ کی طرح تھی، جس میں آخر کار معدے نے جیت حاصل کر لی۔"
یہ سن کر ہم دونوں ہنسنے لگے، اور میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بھلے یہ کہانی ہنسی کا باعث بنی، لیکن یہ واقعی ایک یادگار واقعہ تھا۔ دوست کی بھوک نے اسے ایسی مشکل میں ڈال دیا کہ جس کا حل اس نے گھر کے ٹوٹکوں اور ورزش میں تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن آخر کار اسے ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پڑا۔
یوں، وہ شام ہماری گپ شپ کا حصہ بن گئی اور معدہ پر ظلم کرنے کا یہ قصہ ہمیشہ کے لیے یادوں کا حصہ بن گیا۔