28/08/2025
***Adhoori Chadar***
گاؤں کے ایک کچے مکان میں خدیجہ بی بی رہتی تھی۔ شوہر کے وفات پا جانے کے بعد وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ رہ گئی۔ غربت اتنی تھی کہ اکثر راتیں فاقے میں گزرتیں۔ لیکن ماں تھی، بھوک کو چھپا لیتی، بچوں کے سامنے کبھی آنکھ کے آنسو نہ آنے دیتی۔
وہ دن بھر کھیتوں میں مزدوری کرتی، شام کو محلے کی عورتوں کے کپڑے دھوتی۔ کبھی سردی کی شدت میں کپکپاتے ہاتھ، مگر زبان پر ہمیشہ یہی جملہ ہوتا:
"یا اللہ! میرے بچوں کو کبھی میرے جیسے دکھ نہ دینا۔"
سال گزرتے گئے۔ بچوں نے پڑھ لکھ کر کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بیٹا ڈاکٹر، دوسرا انجینئر اور تیسرے نے کاروبار سنبھال لیا۔ ماں کا دل خوشی سے بھر گیا کہ اس کی محنت رنگ لے آئی۔
لیکن جب بیٹوں کی شادیاں ہوئیں تو گھر کا نقشہ بدلنے لگا۔ بہوئیں کہتیں،
"یہ پرانا مکان ہمارے معیار کے مطابق نہیں۔"
بیٹے بھی ماں کو سمجھاتے:
"اماں! ہم سب کے الگ الگ گھر ہیں۔ آپ کسی ایک کے پاس رہ لیں۔"
یوں خدیجہ بی بی ایک گھر سے دوسرے گھر "مہمان" بننے لگی۔ کبھی بہو کے منہ پر طنز سننا پڑتا، کبھی کمرے کے کونے میں جگہ ملتی۔ لیکن وہ خاموش رہتی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زبان کھولی تو بیٹوں کے درمیان نااتفاقی ہوگی۔
ایک دن خدیجہ بی بی بہت بیمار پڑ گئی۔ کسی بہو نے دل سے خدمت نہ کی۔ تینوں بیٹے اپنی نوکری اور کاروبار میں مصروف رہے۔ جب بیماری بڑھ گئی تو گاؤں کے ہسپتال میں لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے کہا:
"اگر کچھ دن پہلے علاج کرا لیتے تو بچت ہو جاتی۔ اب دیر ہو چکی ہے۔"
خدیجہ بی بی نے کمزور آواز میں کہا:
"بیٹو! فکر نہ کرو، ماں تو قربانی دینے کے لیے ہی آتی ہے۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ تم خوش رہو۔ اللہ کرے تمہارے نصیب سلامت رہیں۔"
یہ کہہ کر اُس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ بیٹوں کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ روتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ گاؤں کے بزرگ نے کہا:
"یاد رکھو، ماں کی زندگی میں جتنا چاہو خدمت کر لو، مرنے کے بعد آنسو بھی اُس کے قدموں کا حق ادا نہیں کر سکتے۔"
**********************************************